ہم بھی فارغ تم بھی فارغ آؤ کریں کچھ باتیں بھی
دل میں آگ لگا
دیتی ہیں ساون کی برساتیں بھی
لوگ ہمارے، بچھڑے
سارے یاد ہمیں جب آتے ہیں
رمِ جھِم رم جھِم
برساتی ہیں بھیگی بھیگی راتیں بھی
پار افق کے جس
بستی میں لوگ ہمارے رہتے ہیں
کیا ان کو بھی
یاد آتی ہیں اکثر وہ ملاقاتیں بھی
جگنو، چاندنی اور
ستارے، بچپن کے وہ خواب ہمارے
خوشبو بن کر چھا
جاتی ہیں بھولی بسری باتیں بھی
ایک دور تھا جب
یہ باتیں غیر مہذب لگتی تھیں
رائج ہیں اب کلچر
بن کر وہ ساری خرافاتیں بھی
تم آپس میں جھگڑا
کر کے اپنا آپ گنوا مت دینا
دیکھو تاک میں
بیٹھی ہیں نا دشمن کی وہ گھاتیں بھی
دائیں ہاتھ سے
ایسے دینا، بائیں ہاتھ کو خبر نہ پہنچے
ورنہ دل کا خون
کریں گی اپنوں کی خیراتیں بھی
دین کی جو خدمت
کرتے ہیں، ان کی خدمت عین عبادت
خود داری میں کہہ
نہیں پاتے کرتے ہیں ملاقاتیں بھی
نیکی اور شرافت
ہی تو سب سے اچھی قدریں ہیں
کون انھیں یہ
سمجھائے جو پوچھ رہے ہیں ذاتیں بھی
تم سے مل کر میرے
دل کو ایک سکون سا ملتا ہے
رنگِ حناؔ میں دل
کش باتیں اچھی ہیں سوغاتیں بھی
٭٭٭
No comments:
Post a Comment