سورۃ
الشعراء
سورت کے آخر
میں شعراء اور ان کی ذہنیت کا تذکرہ ہے، اس لئے پوری سورت کو شعراء کے نام سے
معنون کردیا گیا ہے۔ یہ مکی سورت ہے اور اس میں دوسو ستائیس آیتیں اور گیارہ رکوع
ہیں۔ اس سورت کا مرکزی مضمون اثبات رسالت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے واقعات اور
ان کے منکرین کے انجام سے اس مضمون کو تقویت دی گئی ہے۔ سورت کی ابتداء میں قرآن
کریم کے برحق اور واضح کتاب ہونے کا اعلان اور حضور علیہ السلام کی انسانیت کی
ہدایت کے لئے شدت حرص کابیان ہے۔ اللہ اگر چاہیں تو ان کی مطلوبہ نشانیاں دکھا کر
ان کی گردنیں جھکا سکتے ہیں مگر اسلام کے لئے کسی پر زبردستی اور جبر نہیں کیا
جاتا۔ ان جھٹلانے اور استہزاء و تمسخر کرنے والوں کے ساتھ سابقہ قوموں والا معاملہ
کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ انہیں پہلی قوموں کے حالات میں غور کرکے اس
سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے۔ پھر قرآن کریم نے اکثریت(Majority) اور
اقلیت (Minority)کے نظریہ کا بطلان واضح کرنے کے لئے آٹھ مرتبہ اسی بات کو دہرایا
اور ہر نبی کے تذکرہ کے آخر میں کہا ہے کہ اچھے اور پاکباز کبھی بھی اکثریت میں
نہیں رہے اور معرکۂ حق و باطل میںنصرت خداوندی حق کے ساتھ ہوا کرتی ہے، اگرچہ وہ
اقلیت میں ہو اور باطل کو تباہ کردیا جاتا ہے اگرچہ وہ اکثریت میںہو۔ اس حقیقت کو
قصۂ موسیٰ و فرعون میں آشکارا کیا، پھر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کے
ساتھ ان کی باطل شکن اور ایمان افروز گفتگو میں واضح کیا اور بتایا کہ انسانی
طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے محسن کو فراموش نہ کرے۔ اللہ نے انسان کو عدم سے
وجود بخشا اس کی موت و حیات، بیماری و صحت اور کھانا پینا سب اس کی عنایات کا مظہر
ہے۔ قیامت کے دن مال و اولاد کسی کام نہیں آسکیں گے۔ وہاں تو ’’قلب سلیم‘‘ کے حامل متقی انسان ہی نجات پاسکیں گے۔ ابلیس اور
اس کا پورا لشکر قیامت کے دن اپنی ناکامیوں اور نامرادیوں پر نوحہ کناں ہوگا انہیں
وہاں پر کوئی سفارشی اور حمایتی میسر نہیں آئے گا۔ پھر نوح علیہ السلام اور ان کی
قوم کے درمیان توحید و شرک کا معرکہ اور اس میں اہل ایمان کی اقلیت کی کشتی میں
نجات اور اہل کفر و شرک کی اکثریت کی پانی کے سیلاب میں غرقابی اس نظریہ کو واضح
کردیتی ہے کہ تعداد کی کثرت کامیابی کی ضامن نہیں بلکہ اعمال کی صورت و حسن حقیقی
کامیابی کی ضامن ہے۔ پھو قوم عاد، ان کی طاقت و قوت، صنعت و حرفت میں ان کی ترقی
کے باوجود اپنے نبی ہود علیہ السلام کی دعوت کا انکار اور تکذیب ان کی تباہی کا
باعث بنا اور دنیوی وسائل ان کے کسی کام نہ آسکے اور ہود علیہ السلام ان کے
ساتھیوں کی وسائل سے محرومی عذاب خداوندی سے نجات کے راستہ میں رکاوٹ نہ بن سکی۔
پھر قوم ثمود
اور ان کے فرستادہ نبی صالح علیہ السلام کے درمیان معرکہ حق و باطل۔ باغات اور
کھیتوں کی سرسبزی و شادابی، سنگتراشی کی ٹیکنیک میں ان کی مہارت اور ان کی بستی
میں امن و امان کی مثالی حالت بھی نبی کے مقابلہ میں انہیں عذاب الٰہی سے نہ
بچاسکی اور مفسدین کی اکثریت کو تباہی سے دوچار کرکے مومنین کی اقلیت کو اللہ نے
بچالیا۔ پھر لوط علیہ السلام اور ان کی فحاشی و عیاشی میں ڈوبی ہوئی قوم کے درمیان
شرافت و شیطنت کے معرکہ میں لوط علیہ السلام کی کامیابی اور ان کے مخالفین کی
عبرتناک ہلاکت نے شریف اقلیت کو شریر اکثریت پر غلبہ کی نوید سنادی ہے۔پھر شعیب
علیہ السلام کا مقابلہ ایک مستحکم معیشت و تجارت کی حامل قوم کے ساتھ۔ جس میں ایک
طرف ناپ تول میں کمی، جھوٹ اور فساد کی گرم بازاری اور دوسری طرف امانت و دیانت
اور صدق و صلاح کے ساتھ وسائل سے محروم اقلیت کی کامیابی و کامرانی اہل حق کے لئے
نصرت خداوندی اور اہل باطل کے لئے آسمانی پکڑ کا واضح اعلان ہے۔
پھر قرآن
کریم کے ’’کلام رب العالمین‘‘ ہونے کا
واشگاف اعلان، امانت دار فرشتے جبریل کے ذریعہ اس کا نزول، واضح عربی زبان میں اس
کی ترکیب و تنسیق اور پہلی کتابوںمیں اس کے کلام برحق ہونے کی بشارتوں کے باوجود
مشرکین مکہ کی طرف سے اس کا انکار ان کے تعصب اور مجرمانہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔
ایک لمبے زمانہ تک بھی اگر یہ لوگ دنیا کی عارضی نعمتوں میں سرشار رہیں تب بھی یہ
عذاب خداوندی سے کسی طرح نہیں بچ سکیں گے۔ اصلاح کے عمل کا آغاز اپنے گھر اور
خاندان سے کیا جائے۔ اللہ پر توکل اور اس کے سامنے ’’جبین نیاز‘‘ جھکا کر رکھنا کامیابی کی دلیل ہے۔قادر الکلام دانشوروں
اور شعراء نے اسلامی نظام کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں نہایت شرمناک مکروہ
کردار اد اکیا تھا۔ قرآن کریم ان کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شعراء کی پیروی
کرنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں کیونکہ شاعر ہر وادی میں سرگرداں اور ہر کھیت میں
منہ مارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ البتہ ان میں ایمان و اعمال صالحہ اور اللہ کے ذکر سے
سرشار لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے شاعرانہ کلام سے مظلومین کے ساتھ معاون اور ان کا حق
دلانے میں مددگار ہوتے ہیں اور آخر میں ظالموں کو ان کے عبرتناک انجام پر متنبہ
فرما کر سورت کو ختم کردیا گیا۔
No comments:
Post a Comment