Friday 31 March 2017

Sahih Bukhari Shareef Main Elam ka Bayan " with Urdu English translation

  بخاری شریف  علم کا بیان
جس شخص سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ کسی بات میں مشغول ہو تو (پہلے اپنی) بات کو پورا کر لے پھر سائل کو جواب دے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ح  قَالَ و حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَائَهُ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ مَتَی السَّاعَةُ فَمَضَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ سَمِعَ مَا قَالَ فَکَرِهَ مَا قَالَ وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ لَمْ يَسْمَعْ حَتَّی إِذَا قَضَی حَدِيثَهُ قَالَ أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنْ السَّاعَةِ قَالَ هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِذَا ضُيِّعَتْ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ قَالَ کَيْفَ إِضَاعَتُهَا قَالَ إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَی غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ
محمد بن سنان، فلیح، ح، ابراہیم بن منذر، محمد بن فلیح، فلیح، ہلال بن علی، عطاء بن یسار، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلس میں لوگوں سے (کچھ) بیان کر رہے تھے کہ اسی حالت میں ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ قیامت کب ہوگی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نے کچھ جواب نہ دیا اور اپنی بات) بیان کرتے رہے، اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ نے اس کا کہنا سن (تو) لیا، مگر (چونکہ) اس کی بات آپ کو بری معلوم ہوئی، اس سبب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب نہیں دیا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ (یہ بات نہیں ہے) بلکہ آپ نے سنا ہی نہیں، یہاں تک کہ جب آپ اپنی بات ختم کر چکے تو فرمایا کہ کہاں ہے (میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد یہ لفظ تھے) قیامت کا پوچھنے والا؟ سائل نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوں، آپ نے فرمایا جس وقت امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا، اس نے پوچھا کہ امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہوگا؟ آپ نے فرمایا جب کام نا اہل (لوگوں) کے سپرد کیا جائے، تو تو قیامت کا انتظار کرنا۔

Narrated Abu Huraira: While the Prophet was saying something in a gathering, a Bedouin came and asked him, "When would the Hour (Doomsday) take place?" Allah's Apostle continued his talk, so some people said that Allah's Apostle had heard the question, but did not like what that Bedouin had asked. Some of them said that Alllah's Apostle had not heard it. When the Prophet finished his speech, he said, "Where is the questioner, who enquired about the Hour (Doomsday)?" The Bedouin said, "I am here, O Allah's Apostle." Then the Prophet said, "When honesty is lost, then wait for the Hour (Doomsday)." The Bedouin said, "How will that be lost?" The Prophet said, "When the power or authority comes in the hands of unfit persons, then wait for the Hour (Doomsday.)"



Sahih Muslim Shareef Main Menses ka Bayan " with Urdu English translation

  مسلم شریف  حیض کا بیان
ازار کے اوپر سے حائضہ عورت کے ساتھ مباشرت کے بیان میں
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ح و حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ إِحْدَانَا إِذَا کَانَتْ حَائِضًا أَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَأْتَزِرَ فِي فَوْرِ حَيْضَتِهَا ثُمَّ يُبَاشِرُهَا قَالَتْ وَأَيُّکُمْ يَمْلِکُ إِرْبَهُ کَمَا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْلِکُ إِرْبَهُ
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، شیبانی، علی بن حجر سعدی، علی بن مسہر، ابو اسحاق ، عبدالرحمن بن اسود، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہم میں سے جب کسی کو حیض آتا تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازار باندھنے کا حکم کرتے جب اس کا خون حیض جوش مار رہا ہوتا پھر اس کے ساتھ رات گزارتے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تم میں سے کون ہے جو اپنی خواہش پر ایسا ضبط کر سکے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی خواہش پر کنڑول حاصل تھا۔


'A'isha reported: When anyone amongst us was menstruating the Messenger of Allah (may peace be upon him) asked her to tie waist-wrapper during the time when the menstrual blood profusely flowed and then embraced her; and she ('A'isha) observed: And who amongst you can have control over his desires as the Messenger of Allah (may peace be upon him) had over his desires.

جگن ناتھ آزاد کامختصر تعارف حالات زندگی Jagan Nath AzadA Famous Urdu Poetess




جگن ناتھ آزاد

 (1918–2004)

جگن ناتھ آزاد 5 دسمبر، 1918ء کو عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان میں ہے۔ان کے والد تلوک چند محروم اردو کے شاعر تھے۔ آزاد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد کے ہاتھوں ہوئی۔
جگن ناتھ آزاد نے 1933ء میں میانوالی سے میٹرک کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ 1935ء میں انہوں نے ڈی․اے․بی کالج راولپنڈی سے انٹرمیڈیٹ کیا اور 1937ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی․اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جگن ناتھ آزاد نے لاہور کا رخ کیا۔ انہوں نے لاہور میں 1942ء میں فارسی آنرز کیا اور پھر 1944ء میں جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی میں ایم․اے․ کیا تھا۔ یہاں انہیں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال، ڈاکٹر سید عبد ﷲ، صوفی غلام مصطفی تبسم، پروفیسر علیم الدین سالک اور سید عابد علی عابد جیسےاساتذہ سے ملنے اور فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا۔

جگن ناتھ آزاد کی ایک شادی 11 دسمبر، 1940ء کو ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ کا نام شکنتلا تھا۔ اس بیاہ سے پرمیلا اور مُکتا نام کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ شکنتلا 1946ء میں بیمار ہو گئیں اور ہر ممکن علاج کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکیں۔ اسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔ آزاد نے ’’شکنتلا‘‘، ’’ایک آرزو‘‘ اور ’’استفسار‘‘ نامی نظمیں اپنی رفیقہ حیات کی یاد میں لکھیں۔

کچھ گوشوں سے یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے جگن ناتھ آزاد کا لکھا یہ قومی ترانہ نشر کیا گیا ؂
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
اے سر زمین پاک
تاہم محققین نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

تقسیم ہند کے بعد آزاد دیگر ارکانِ خانہ کے ساتھ بھارت چلے آئے اور دہلی میں بس گئے۔ انہیں اولاً ’’ملاپ‘‘ میں نائب مدیر کی ملازمت ملی تھی۔ پھر ’’ایمپلائمنٹ نیوز’’ میں روزگار پایا اسی سے منسلک ’’پبلی کیشنز ڈویژن’’ میں اردو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بنے۔ یہاں ان کی ملاقاتیں جوش ملیح آبادی سے ہوئییں جو رسالہ ’’آجکل‘‘ (اردو) کے مدیر تھے۔ جوش ملیح آبادی کے علاوہ عرش ملسیانی، بلونت سنگھ اور پنڈت ہری چند اختر جگن ناتھ آزاد کے ہم منصب رہے۔ ان کی مصاحبت سے آزاد نے بہت کچھ جانا تھا۔

جولائی 1948ء میں آزاد کی دوسری شادی وملا نامی خاتون سے ہوئی۔ اس بیاہ سے تین بچے مولود ہوئے۔ سب سے بڑا بیٹا آدرش، چھوٹا بیٹا چندر کانت اور سب سے چھوٹی بیٹی پونم تھی۔

جگن ناتھ آزاد کا پہلا شعری مجموعہ ’’طبل و علم‘‘ 1948ء میں چھپا۔ 1949ء میں دوسرا مجموعۂ کلام ’’بیکراں‘‘ چھپا۔

1968ء میں آزاد نے ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن آفیسر پریس انفارمیشن بیورو کے طور پر سری نگر، کشمیر میں ملازمت اختیار کی۔ وہ ڈائرکٹر پبلک ریلشنز کے طور پر 1977ء تک کام کرتے رہے۔ 1977ء میں ہی آزاد کو پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی کی پیش کش ہوئی جسے آزاد نے منظور کیا تھا۔ 1977ء سے 1983ء تک وہ پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی اور ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرنینگ جموں یونیورسی کے عہدے پر فائز رہے۔ 1984ء سے 1989ء تک پروفیسر ایمریٹس فیلو کی حیثیت سے شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی میں رہے اور پھر 1989ء سے اپنی زندگی کے اخیر تک وہیں رہے۔


جگن ناتھ آزاد 24 جولائی، 2004ء کوانتقال کر گئے تھے۔  

شان الحق حقی کامختصر تعارف حالات زندگی Sean ul Haque AFamous Urdu Poetess ,


شان الحق حقی

 (1917–2005)

شان الحق حقی اردو زبان کے ممتاز ماہر لسانیات، محقق، نقاد، مترجم اور مدیر تھے۔
شان الحق حقی 15 دسمبر 1917ء کو ہندوستان کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور سینٹ اسٹیفنر کالج (دہلی یونیورسٹی) سے ایم اے (انگریزی ادب) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے۔

آپ مختلف علمی رسائل و جرائد کے مدیر رہے، نیز قومی محکمۂ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی سے منسلک رہے۔ اردو لغت بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لئے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ آپ کثیراللسان محقق تھے اور اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ جدیدآکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری آپ ہی کی مرتب کردہ ہے۔

تارِ پیراہن (منظومات)، نکتۂ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، ارتھ شاستر (ترجمہ) اور انجان راہی آپ کی اہم کاوش ہیں۔


11اکتوبر2005ء کو آپ کا کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں انتقال ہوا۔

شکیل بدایونی کامختصر تعارف حالات زندگی Shakeel Badauni A Famous Urdu Poetess, poetry,



شکیل بدایونی

 (1916–1970)

اردو شاعر۔ اگست سنہ 1916کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے اس لئے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی ۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے سند حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے وہ سنہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سنہ 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے ۔ علی گڑھ میں قیام کے دروان جگر مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے۔ اور سو سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ جس میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔ فلمی گیتوں کے علاوہ شاعری کے پانچ مجموعے غمہ فردوس ، صنم و حرم ، رعنائیاں ، رنگینیاں ، شبستاں کے نام سے شائع ہوئے۔ 20 اپریل 1971 کو ممبئی میں انتقال ہوا۔ اور وہیں دفن ہوئے۔ مگر قبرستان کی انتظامیہ نے اور دوسرے بہت سی مشہور شخصیات کی طرح 2010 میں ان کی قبر کا نام و نشان تک مٹا دیا۔

جینے والے قضا سے ڈرتے ہیں
زہر پی کر دوا سے ڈرتے ہیں

دشمنوں کے ستم کا خوف نہیں

دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

اپریل فول آنکھوں میں دهول April foolاپریل فول کی شرعی حیثیت





 اپریل فول

آنکھوں میں دهول

کتنی حقیقت؟ ؟؟کتنافسانہ؟ ؟؟
------------------------------

یکم اپریل آنیوالاہے یایہ تحریرآپکےپاس پہنچنےتک جاچکاہو 
 اپریل کی پہلی تاریخ کویوروپ وامریکہ سےجاری ایک بری رسم نےتقریباتقریبا چاروں سمتوں کواپنی لپیٹ میں لےلیا ہے مزیدافسوس کی بات یہ ہےکہ یہ رسم ہمارےمسلم معاشره میں بهی درآئ ہے 

کیوں ایک اپریل کوفول کہتے ہیں؟اسی تاریخ کوہی  ہنسی مذاق کیوں جائز سمجهاجاتاہے؟اپریل فول کی تاریخی حقیقت کیاہے؟ اسلام کی کیاگائڈ لائینس ہیں؟ آئیے اسکی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں ،میں نےاپنےاس مضمون کودوحصوں میں تقسیم کیاہے،پہلےحصےمیں اپریل فول کی تاریخی حیثیت اوردوسرےمیں اپریل فول کی شرعی حیثیت پهرآخرمیں خلاصہ 


[[[ اپریل فول کی تاریخی حیثیت]]]


اگر انگریزی لغت میں جائیں تواپریل فول کامعنی ہے"اپریل کااحمق"
ویسے اپریل لاطینی زبان سےنکلاہے جسکامعنی آتاہے"پهولوں کاکهلنا،کونپلیں پھوٹنا "

 اپریل فول کی متضاد تاریخی وجوہات ملتی ہیں لیکن کسی مستند حوالےسے ان 
قصص کی تصدیق نہیں ہوپارہی ہے 
 انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کےمطابق قدیم تہذیبوں میں(جیسے رومن تہذیب) نئےسال کاآغازسنہ جولین کیلنڈرکےحساب سے یکم اپریل سےہوتاتهاجسےپوپ جورج ہشتم نے1582/میں ختم کرکےایک نیاکیلنڈرجورجین کیلنڈرکےنام سےجاری کرنےکاحکم دیاجس میں نیاسال یکم اپریل کےبجائے یکم جنوری سے شروع ہوتاہے 
 اورفرانس نےنئےسال کاجشن جنوری سےمنانابهی شروع کردیامگرغیرترقی یافتہ ذرائع ابلاغ کیوجہ سےبہت سےلوگوں کواسکاعلم نہ ہوسکایاانهوں نے جنوری سےنئےسال کےآغازکوقبول نہ کیااورحسب دستوروه یکم اپریل کوخوشی منانےلگےاورتحائف کاتبادلہ بهی کرنےلگےتوجدت پسندوں نےان قدامت پسندوں کاخوب مزاق اڑایااوربےوقوف بنایا کہ نیاسال توجنوری سےشروع ہوتاہے پهریہیں سےاپریل فول کی روایت چل پڑی -----
دوسری وجہ یہ لکهی ہےکہ اس مہینےکورومی اپنی دیوی وینس (Venuss )کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجهاکرتےتهے اورمارے خوشی میں شراب پیتے،چڑهاتے اورہفوات بکتے جهوٹ بولتے پهراپریل فول کی روایت چل پڑی 
ایک تیسری وجہ یہ لکهی ہےکہ211/مارچ سےموسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں یعنی کبھی گرمی کبھی سردی تواس تبدیلی کوبعض لوگوں نے(معاذاللہ )اس طرح تعبیرکیاکہ قدرت ہمارےساته مذاق کررہی ہے، بےوقوف بنارہی ہے،جب قدرت کومذاق پسند ہےتوچلوہم لوگ بهی ایک دوسرےسےمذاق کریں اس طرح اپریل فول کی روایت چل پڑی ---
 انسائیکلوپیڈیا لاروس نےایک وجہ اورلکهی ہےاوراسی وجہ کوصحیح قراردیاہے کہ جب یہودیوں نےجب یسوع مسیح (عیسی علیہ السلام) کوگرفتارکرلیا توان کوسب سےپہلے یہودی سرداروں کی عدالت میں پیش کیاتهاپهروہاں سےپیلاطس میں لےگئے پهروہاں سےکسی اورکےپاس،اوراس نےپهرپہلی عدالت میں ایساکرنےکامقصد مذاق اورتمسخرتها 
 لیکن یہ وجہ میرے گلےسےنہیں اتررہی ہے آج اپریل فول عیسائ بهی جم کرمناتےہیں تووہ کیسےحضرت عیسی علیہ السلام کاتمسخربرداشت کریں گے؟ یاممکن ہوانهیں بهی حقیقت کی خبرنہ ہو
 بہرحال یہ سب وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ اورہے جوعام طور سےبتائ نہیں جاتی اور سیاق وسباق کوسامنےرکهکرجب ریزلٹ اورنتیجہ نکالاجاتاہے تواپریل فول منانے کی حقیقت بالکل بےغبارہوجاتی ہےاوردشمنان اسلام کااصلی چہره بےنقاب ہوجاتاہے اوروہ ہےاندلس میں دهوکےسےمسلمانوں کومارنا، اجمال کی تفصیل  👇
قارئین کرام :مختصرااندلس کی تاریخ اپنےذہن میں تازہ کرلیں تاکہ اپریل فول کی حقیقت اظہرمن الشمس ہوجائے 
موجوده اسپین یاہسپانیہ کوہی اندلس کہاجاتاہے، اندلس "یورپ کےجنوب مغربی حصےمیں واقع ہے،اسکی سرحدیں شمال میں فرانس سےاورمغرب میں پرتگال سےملتی ہیں اوراسکےمشرق اورجنوب میں بحرمتوسط (بحرروم)بہتاہے 
 خلیفہ ولیدبن عبدالملک کادورحکومت تهاموسی بن نصیرنے خلیفہ سےاجازت ملنےکےبعدطارق بن زیادکی سرکردگی میں سات ہزارکالشکرلیکراندلس پرچڑهائ کرنےکوکہا، طارق کوخواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی انهوں نےدیکهاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ،خلفاء راشدین اوربعض دوسرےصحابہ تلواروں اورتیروں سےمسلح سمندرچلتےہوئےتشریف لائےہیں أورجب طارق بن زیادکےپاس سےگزرےتوآپ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا"طارق بڑھتے چلےجاؤ"اسکےبعدطارق نےدیکهاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اورآپ کےمقدس رفقاء آگےنکل کراندلس میں داخل ہوگئے، یہ فتح کی خوشخبری تهی بالآخرپورااندلس مسلمانوں کےقبضے میں آگیا،بڑی شان وشوکت کےساته 800/سال تک مسلمانوں نےحکومت کی، امن وامان کی فضاقائم کی، عدل وانصاف کےتقاضےپورےکئے،تہذیب وتمدن کےچراغ جلائے،اورعلم وہنرکےدریابہائے، 
 لیکن لیکن؛ وقت گزرنےکیساته مسلمانوں کی گرفت ڈھیلی پڑگئ،آپسی ناچاقیاں پیداہونےلگیں، عیش وعشرت نےگهرکرلیا،طوائف الملوکی کادورشروع ہوگیا تواللہ نےعزت وحکومت کاتاج چهین کرپهردشمنوں کودیدیا،896/ہجری میں عیسائ بادشاه فردی ننداپنی ملکہ ازبیلاکےساته ایک لشکرجرارلیکرغرناطہ پہنچ گیااورایک سال بعدمجبورہوکرشاه عبداللہ نےصلح کرلی ،صلح نامہ میں مسلمانوں کےجان ومال دین وایمان اوراسلامی شعائرکی حفاظت کی ہرممکن یقین دہانی کرائ گئ تهی 
(قارئین کرام یہاں چوکنےہوکرپڑهیں )مسلمانوں اورعیسائیوں کےدرمیان صلح کی تاریخ 8977/ہجری مطابق 3/جنوری 1492/عیسوی تهی،اس صلح میں یہ بهی طےہواتها کہ صلح کی تاریخ سے60/روزتک کےاندرمعاہده کی شرائط پرعمل درآمدہوجائے
مگروه اقتدارمیں آتےہی مسلمانوں کوچن چن کرتہہ تیغ کرنےلگے، مساجدکوکلیسامیں تبدیل کردیا،پورےملک میں عیسائ عدالتیں قائم کردیں جہاں ہزاروں مسلمانوں کوبغیرمقدمہ چلائےمحض مسلمان ہونےکےجرم میں آگ میں زندہ جلادیاگیا،اعلان عام ہوگیا کہ عیسائ ہوجاؤورنہ قتل کردیئے جاؤ گےکچه مسلمان چهپ گئے کچھ نام اوربهیس بدل کررہنےلگےمگرکسی نےاسلام نہیں چهوڑا بظاہرشہرمیں کوئ مسلمان نظرنہ آتاتهامگرعیسائیوں کویقین تهاکہ ابهی بهی مسلمان کہیں چهپےہیں توانهوں نےمنصوبہ کےتحت ایک اعلان کروایا اوریہ بظاہرمسلمانوں کےساته سب سےبڑی ہمدردی تهی کہ اب حالات ٹھیک ہوگئے ہیں لهذاجومسلمان واپس افریقہ جاناچاہیں وه خوشی خوشی چلےجایئں جہاز کاانتظام ہم کریں گے اوراپنےساته اپناقیمتی سامان بهی لےجاسکتےہیں اورجانےکی تاریخ بهی طےکردی، مسلمانوں نےاسی میں بهلائ سمجهی چنانچہ مسلمان جن میں بڑے،بوڑھے، بچے مردوعورت شامل تهے اپنےسامانوں اورقیمتی کتابوں کےذخائرکیساته متعینہ تاریخ میں جمع ہوگئے اور جہاز سےسفرکرنے لگے مگرمنصوبہ کےمطابق بیچ سمندرمیں جہاز کوغرق کردیاگیا، ڈوبنےوالے رحم وکرم کی بهیک مانگتےرہے اورکنارےکهڑےہوکروه تالیاں بجاتے رہےگلےمل مل کرجشن مناتے رہےکہ دیکھو کیسے ہم نےمسلمانوں کودهوکے اورفریب سے ختم کردیا 
کہاجاتاہےکہ ڈوبنےکی تاریخ یکم اپریل تهی  (جنوری میں معاهدہ ہوااورساٹه دن ملےتهے خالی کرنے کوجواپریل کوپورےہوتے ہیں)
قارئین کرام:::::::عقل  اسے تسلیم کرتی ہے سیاق وسباق سے انکاجهوٹ بےنقاب ہوتاہے کہ اصل اس تاریخ کویاد کرناہے اپریل فول ایک بہانہ ہے اوراگر اسےتسلیم نہ بهی کیاجائے تب بهی غیروں کےجشن میں اپنےکوشامل کرنا درست نہیں ہے، آئیے شریعت کےآئینےمیں اپریل فول کودیکهتے ہیں ---



[[[اپریل فول کی شرعی حیثیت]]]
👇

قارئین کرام :اسلام ایک آفاقی اورپاکیزه مذهب ہے، یہ پیدائش سےلیکرموت تک انسانی زندگی کےتمام پہلوؤں کی واضح اندازمیں رہنمائ کرتاہے بہت سارےپہلومیں سےایک پہلوہنسی مذاق کابهی ہے، اسلام خوش طبعی اورخوش مزاجی کوپسندکرتاہے لیکن ہنسی دل لگی کیلئے جهوٹے مذاق اورغلط بیانی کوناپسندکرتاہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے 
سچ بولنانیکی ہےاورنیکی جنت لےجاتی ہے،اورجهوٹ بولناگناه ہےاورگناه آگ (جهنم)کی طرف لےجاتاہے (مسلم 2607/)
اسی طرح جهوٹ بولنےکومنافق کی علامت قراردیاگیاہے 
جنانچہ حضرت ابوهریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ 
تین خصلتیں ایسی ہیں جومنافق ہونےکی نشانی ہیں 1/جب وہ بات کرےتوجهوٹ بولے 2/أورجب وعده کرےتواسکی خلاف ورزی کرے 3/أورجب اسکےپاس کوئ امانت رکهوائ جائے تووه خیانت کرے 
(بخاری 33/)
 اسلام کوجهوٹ سےسخت نفرت ہے حتی کہ بچوں سےبهی جهوٹ بولناجائزنہیں اورتواورمذاقا بهی اسکی اجازت نہیں 
 اپریل فول میں کیاہوتاہے جهوٹ، فراڈ، دهوکہ، غلط خبر،بسااوقات کمزور دل والے صدمہ سےدوچارہوجاتے ہیں، میاں بیوی کی اعتماد بهری زندگی اپریل فول کیوجہ سے جہنم بن جاتی ہے 
اپریل کی پہلی تاریخ کولوگ صاف صریح جهوٹ بولنانہ صرف جائزسمجهتے ہیں بلکہ دهڑلےسے کہتے ہوئے سنےجاتے ہیں "یارمذاق کیاتها آج اپریل فول ہے آج سب جائزہے "استغفراللہ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی مسلمانوں کیلئے اسوه اورنمونہ ہے،حضرت امامہ رضی اللہ عنه فرماتےہیں" آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں میں سب سےزیاده ہنس مکھ اورخوش طبع تهے"(لیکن کبھی بهی آپ نے مذاق میں بهی جهوٹ نہیں بولا کئ) واقعات آپ کےمشہورہیں جیسے وه بوڑھی عورت جس نےکہاتهامیرےلئے جنت کی دعاکریں آپ نےفرمایاکوئ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی یہ سن کروه روپڑی آپ نےفرمایا:لوگو اسےبتادو کوئ بڑهاپےکی حالت میں جنت میں نہ جائےگی، اسی طرح ایک صحابی کےاونٹ مانگنےپرفرمایا تجهےاونٹ کابچہ دونگا صحابی نےکہامیں بچہ لیکرکیاکرونگا مجهے توسواری کرنی ہے آپ نےفرمایابهائ اونٹ توکسی کابچہ ہی ہوگا؟
 دیکھئے مذاق بهی اوردرست بهی ابوداؤد شریف کی روایت کےمطابق "ہلاکت ہےاس آدمی کےلئے جودوسروں کوہنسانےکےلئے جهوٹ بولتاہے
اوریہ حدیث اپریل فول منانے والے دهیان سےپڑهیں کہ 
یہ بہت بڑی خیانت ہےکہ تم اپنےبهائ سےکوئ بات اس طرح کہوکہ وه سچاجان رہاہوحالانکہ تم جهوٹ بول رہےہو 

خلاصہ 

 اب آپ خود فیصلہ کرلیں مسلمانوں کیلئے اپریل فول منانا غیروں کی تہذیب اپنانا تاریخی وشرعی دونوں اعتبار 
سے کہاں تک درست ہے

Sahih Muslim Shareef Main Eman ka Bayan " with Urdu English translation

  مسلم شریف  ایمان کا بیان
ایمان اور اسلام اور احسان اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیر کے اثبات کے بیان میں
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ وَأَبُو کَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ قَالَ لَمَّا تَکَلَّمَ مَعْبَدٌ بِمَا تَکَلَّمَ بِهِ فِي شَأْنِ الْقَدَرِ أَنْکَرْنَا ذَلِکَ قَالَ فَحَجَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَجَّةً وَسَاقُوا الْحَدِيثَ بِمَعْنَی حَدِيثِ کَهْمَسٍ وَإِسْنَادِهِ وَفِيهِ بَعْضُ زِيَادَةٍ وَنُقْصَانُ أَحْرُفٍ
محمد بن عبید الغبری، ابوکامل الفضیل بن الحسین الجحدری و احمد بن عبدہ الضبی، حماد بن زید، مطر الوراق، عبداللہ بن بریدہ، یحیی بن یعمر کہتے ہیں کہ جب معبد نے تقدیر کا انکار کیا تو ہمیں اس مسئلہ میں تردد ہوا۔ اتفاق سے میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج کے لئے گئے امام مسلم فرماتے ہیں کہ اس کے بعد یحیی بن یعمر نے وہی حدیث کچھ لفظی فرق کے ساتھ بیان کی جو اس سے پہلے گزر چکی ہے۔


It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur that when Ma'bad discussed the problem pertaining to Divine Decree, we refuted that. He (the narrator) said: I and Humaid b. Abdur-Rahman Himyari argued. And they carried on the conversation about the purport of the hadith related by Kahmas and its chain of transmission too, and there is some variation of words.

مسلم شریف : مقدمہ مسلم کا اردو ترجمہ

  مسلم شریف مقدمہ مسلم

ثقات سے روایت کرنے کے وجوب اور جھوٹے لوگوں کی روایات کے ترک میں
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ وَصَلَّی اللَّهُ عَلَی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَعَلَی جَمِيعِ الْأَنْبِيَائِ وَالْمُرْسَلِينَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّکَ يَرْحَمُکَ اللَّهُ بِتَوْفِيقِ خَالِقِکَ ذَکَرْتَ أَنَّکَ هَمَمْتَ بِالْفَحْصِ عَنْ تَعَرُّفِ جُمْلَةِ الْأَخْبَارِ الْمَأْثُورَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُنَنِ الدِّينِ وَأَحْکَامِهِ وَمَا کَانَ مِنْهَا فِي الثَّوَابِ وَالْعِقَابِ وَالتَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ وَغَيْرِ ذَلِکَ مِنْ صُنُوفِ الْأَشْيَائِ بِالْأَسَانِيدِ الَّتِي بِهَا نُقِلَتْ وَتَدَاوَلَهَا أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا بَيْنَهُمْ فَأَرَدْتَ أَرْشَدَکَ اللَّهُ أَنْ تُوَقَّفَ عَلَی جُمْلَتِهَا مُؤَلَّفَةً مُحْصَاةً وَسَأَلْتَنِي أَنْ أُلَخِّصَهَا لَکَ فِي التَّأْلِيفِ بِلَا تَکْرَارٍ يَکْثُرُ فَإِنَّ ذَلِکَ زَعَمْتَ مِمَّا يَشْغَلُکَ عَمَّا لَهُ قَصَدْتَ مِنْ التَّفَهُّمِ فِيهَا وَالِاسْتِنْبَاطِ مِنْهَا وَلِلَّذِي سَأَلْتَ أَکْرَمَکَ اللَّهُ حِينَ رَجَعْتُ إِلَی تَدَبُّرِهِ وَمَا تَئُولُ بِهِ الْحَالُ إِنْ شَائَ اللَّهُ عَاقِبَةٌ مَحْمُودَةٌ وَمَنْفَعَةٌ مَوْجُودَةٌ وَظَنَنْتُ حِينَ سَأَلْتَنِي تَجَشُّمَ ذَلِکَ أَنْ لَوْ عُزِمَ لِي عَلَيْهِ وَقُضِيَ لِي تَمَامُهُ کَانَ أَوَّلُ مَنْ يُصِيبُهُ نَفْعُ ذَلِکَ إِيَّايَ خَاصَّةً قَبْلَ غَيْرِي مِنْ النَّاسِ لِأَسْبَابٍ کَثِيرَةٍ يَطُولُ بِذِکْرِهَا الْوَصْفُ إِلَّا أَنَّ جُمْلَةَ ذَلِکَ أَنَّ ضَبْطَ الْقَلِيلِ مِنْ هَذَا الشَّأْنِ وَإِتْقَانَهُ أَيْسَرُ عَلَی الْمَرْئِ مِنْ مُعَالَجَةِ الْکَثِيرِ مِنْهُ وَلَا سِيَّمَا عِنْدَ مَنْ لَا تَمْيِيزَ عِنْدَهُ مِنْ الْعَوَامِّ إِلَّا بِأَنْ يُوَقِّفَهُ عَلَی التَّمْيِيزِ غَيْرُهُ فَإِذَا کَانَ الْأَمْرُ فِي هَذَا کَمَا وَصَفْنَا فَالْقَصْدُ مِنْهُ إِلَی الصَّحِيحِ الْقَلِيلِ أَوْلَی بِهِمْ مِنَ ازْدِيَادِ السَّقِيمِ وَإِنَّمَا يُرْجَی بَعْضُ الْمَنْفَعَةِ فِي الِاسْتِکْثَارِ مِنْ هَذَا الشَّأْنِ وَجَمْعِ الْمُکَرَّرَاتِ مِنْهُ لِخَاصَّةٍ مِنْ النَّاسِ مِمَّنْ رُزِقَ فِيهِ بَعْضَ التَّيَقُّظِ وَالْمَعْرِفَةِ بِأَسْبَابِهِ وَعِلَلِهِ فَذَلِکَ إِنْ شَائَ اللَّهُ يَهْجُمُ بِمَا أُوتِيَ مِنْ ذَلِکَ عَلَی الْفَائِدَةِ فِي الِاسْتِکْثَارِ مِنْ جَمْعِهِ فَأَمَّا عَوَامُّ النَّاسِ الَّذِينَ هُمْ بِخِلَافِ مَعَانِي الْخَاصِّ مِنْ أَهْلِ التَّيَقُّظِ وَالْمَعْرِفَةِ فَلَا مَعْنَی لَهُمْ فِي طَلَبِ الْکَثِيرِ وَقَدْ عَجَزُوا عَنْ مَعْرِفَةِ الْقَلِيلِثُمَّ إِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ مُبْتَدِئُونَ فِي تَخْرِيجِ مَا سَأَلْتَ وَتَأْلِيفِهِ عَلَی شَرِيطَةٍ سَوْفَ أَذْکُرُهَا لَکَ وَهُوَ إِنَّا نَعْمِدُ إِلَی جُمْلَةِ مَا أُسْنِدَ مِنْ الْأَخْبَارِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَقْسِمُهَا عَلَی ثَلَاثَةِ أَقْسَامٍ وَثَلَاثِ طَبَقَاتٍ مِنْ النَّاسِ عَلَی غَيْرِ تَکْرَارٍ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَ مَوْضِعٌ لَا يُسْتَغْنَی فِيهِ عَنْ تَرْدَادِ حَدِيثٍ فِيهِ زِيَادَةُ مَعْنًی أَوْ إِسْنَادٌ يَقَعُ إِلَی جَنْبِ إِسْنَادٍ لِعِلَّةٍ تَکُونُ هُنَاکَ لِأَنَّ الْمَعْنَی الزَّائِدَ فِي الْحَدِيثِ الْمُحْتَاجَ إِلَيْهِ يَقُومُ مَقَامَ حَدِيثٍ تَامٍّ فَلَا بُدَّ مِنْ إِعَادَةِ الْحَدِيثِ الَّذِي فِيهِ مَا وَصَفْنَا مِنْ الزِّيَادَةِ أَوْ أَنْ يُفَصَّلَ ذَلِکَ الْمَعْنَی مِنْ جُمْلَةِ الْحَدِيثِ عَلَی اخْتِصَارِهِ إِذَا أَمْکَنَ وَلَکِنْ تَفْصِيلُهُ رُبَّمَا عَسُرَ مِنْ جُمْلَتِهِ فَإِعَادَتُهُ بِهَيْئَتِهِ إِذَا ضَاقَ ذَلِکَ أَسْلَمُ فَأَمَّا مَا وَجَدْنَا بُدًّا مِنْ إِعَادَتِهِ بِجُمْلَتِهِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ مِنَّا إِلَيْهِ فَلَا نَتَوَلَّی فِعْلَهُ إِنْ شَائَ اللَّهُ تَعَالَیفَأَمَّا الْقِسْمُ الْأَوَّلُ فَإِنَّا نَتَوخَّی أَنْ نُقَدِّمَ الْأَخْبَارَ الَّتِي هِيَ أَسْلَمُ مِنْ الْعُيُوبِ مِنْ غَيْرِهَا وَأَنْقَی مِنْ أَنْ يَکُونَ نَاقِلُوهَا أَهْلَ اسْتِقَامَةٍ فِي الْحَدِيثِ وَإِتْقَانٍ لِمَا نَقَلُوا لَمْ يُوجَدْ فِي رِوَايَتِهِمْ اخْتِلَافٌ شَدِيدٌ وَلَا تَخْلِيطٌ فَاحِشٌ کَمَا قَدْ عُثِرَ فِيهِ عَلَی کَثِيرٍ مِنْ الْمُحَدِّثِينَ وَبَانَ ذَلِکَ فِي حَدِيثِهِمْ فَإِذَا نَحْنُ تَقَصَّيْنَا أَخْبَارَ هَذَا الصِّنْفِ مِنْ النَّاسِ أَتْبَعْنَاهَا أَخْبَارًا يَقَعُ فِي أَسَانِيدِهَا بَعْضُ مَنْ لَيْسَ بِالْمَوْصُوفِ بِالْحِفْظِ وَالْإِتْقَانِ کَالصِّنْفِ الْمُقَدَّمِ قَبْلَهُمْ عَلَی أَنَّهُمْ وَإِنْ کَانُوا فِيمَا وَصَفْنَا دُونَهُمْ فَإِنَّ اسْمَ السَّتْرِ وَالصِّدْقِ وَتَعَاطِي الْعِلْمِ يَشْمَلُهُمْ کَعَطَائِ بْنِ السَّائِبِ وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ وَلَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ وَأَضْرَابِهِمْ مِنْ حُمَّالِ الْآثَارِ وَنُقَّالِ الْأَخْبَارِ فَهُمْ وَإِنْ کَانُوا بِمَا وَصَفْنَا مِنْ الْعِلْمِ وَالسَّتْرِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مَعْرُوفِينَ فَغَيْرُهُمْ مِنْ أَقْرَانِهِمْ مِمَّنْ عِنْدَهُمْ مَا ذَکَرْنَا مِنْ الْإِتْقَانِ وَالِاسْتِقَامَةِ فِي الرِّوَايَةِ يَفْضُلُونَهُمْ فِي الْحَالِ وَالْمَرْتَبَةِ لِأَنَّ هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ دَرَجَةٌ رَفِيعَةٌ وَخَصْلَةٌ سَنِيَّةٌ أَلَا تَرَی أَنَّکَ إِذَا وَازَنْتَ هَؤُلَائِ الثَّلَاثَةَ الَّذِينَ سَمَّيْنَاهُمْ عَطَائً وَيَزِيدَ وَلَيْثًا بِمَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ وَسُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ وَإِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ فِي إِتْقَانِ الْحَدِيثِ وَالِاسْتِقَامَةِ فِيهِ وَجَدْتَهُمْ مُبَايِنِينَ لَهُمْ لَا يُدَانُونَهُمْ لَا شَکَّ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ فِي ذَلِکَ لِلَّذِي اسْتَفَاضَ عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّةِ حِفْظِ مَنْصُورٍ وَالْأَعْمَشِ وَإِسْمَعِيلَ وَإِتْقَانِهِمْ لِحَدِيثِهِمْ وَأَنَّهُمْ لَمْ يَعْرِفُوا مِثْلَ ذَلِکَ مِنْ عَطَائٍ وَيَزِيدَ وَلَيْثٍ وَفِي مِثْلِ مَجْرَی هَؤُلَائِ إِذَا وَازَنْتَ بَيْنَ الْأَقْرَانِ کَابْنِ عَوْنٍ وَأَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ مَعَ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ وَأَشْعَثَ الْحُمْرَانِيِّ وَهُمَا صَاحِبَا الْحَسَنِ وَابْنِ سِيرِينَ کَمَا أَنَّ ابْنَ عَوْنٍ وَأَيُّوبَ صَاحِبَاهُمَا إِلَّا أَنَّ الْبَوْنَ بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ هَذَيْنِ بَعِيدٌ فِي کَمَالِ الْفَضْلِ وَصِحَّةِ النَّقْلِ وَإِنْ کَانَ عَوْفٌ وَأَشْعَثُ غَيْرَ مَدْفُوعَيْنِ عَنْ صِدْقٍ وَأَمَانَةٍ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَلَکِنَّ الْحَالَ مَا وَصَفْنَا مِنْ الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَإِنَّمَا مَثَّلْنَا هَؤُلَائِ فِي التَّسْمِيَةِ لِيَکُونَ تَمْثِيلُهُمْ سِمَةً يَصْدُرُ عَنْ فَهْمِهَا مَنْ غَبِيَ عَلَيْهِ طَرِيقُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْتِيبِ أَهْلِهِ فِيهِ فَلَا يُقَصَّرُ بِالرَّجُلِ الْعَالِي الْقَدْرِ عَنْ دَرَجَتِهِ وَلَا يُرْفَعُ مُتَّضِعُ الْقَدْرِ فِي الْعِلْمِ فَوْقَ مَنْزِلَتِهِ وَيُعْطَی کُلُّ ذِي حَقٍّ فِيهِ حَقَّهُ وَيُنَزَّلُ مَنْزِلَتَهُ وَقَدْ ذُکِرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ مَعَ مَا نَطَقَ بِهِ الْقُرْآنُ مِنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَی وَفَوْقَ کُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ فَعَلَی نَحْوِ مَا ذَکَرْنَا مِنْ الْوُجُوهِ نُؤَلِّفُ مَا سَأَلْتَ مِنْ الْأَخْبَارِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا مَا کَانَ مِنْهَا عَنْ قَوْمٍ هُمْ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ مُتَّهَمُونَ أَوْ عِنْدَ الْأَکْثَرِ مِنْهُمْ فَلَسْنَا نَتَشَاغَلُ بِتَخْرِيجِ حَدِيثِهِمْ کَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مِسْوَرٍ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِيِّ وَعَمْرِو بْنِ خَالِدٍ وَعَبْدِ الْقُدُّوسِ الشَّامِيِّ وَمُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَصْلُوبِ وَغِيَاثِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَسُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي دَاوُدَ النَّخَعِيِّ وَأَشْبَاهِهِمْ مِمَّنْ اتُّهِمَ بِوَضْعِ الْأَحَادِيثِ وَتَوْلِيدِ الْأَخْبَارِوَکَذَلِکَ مَنْ الْغَالِبُ عَلَی حَدِيثِهِ الْمُنْکَرُ أَوْ الْغَلَطُ أَمْسَکْنَا أَيْضًا عَنْ حَدِيثِهِمْ وَعَلَامَةُ الْمُنْکَرِ فِي حَدِيثِ الْمُحَدِّثِ إِذَا مَا عُرِضَتْ رِوَايَتُهُ لِلْحَدِيثِ عَلَی رِوَايَةِ غَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْحِفْظِ وَالرِّضَا خَالَفَتْ رِوَايَتُهُ رِوَايَتَهُمْ أَوْ لَمْ تَکَدْ تُوَافِقُهَا فَإِذَا کَانَ الْأَغْلَبُ مِنْ حَدِيثِهِ کَذَلِکَ کَانَ مَهْجُورَ الْحَدِيثِ غَيْرَ مَقْبُولِهِ وَلَا مُسْتَعْمَلِهِ فَمِنْ هَذَا الضَّرْبِ مِنْ الْمُحَدِّثِينَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ وَيَحْيَی بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ وَالْجَرَّاحُ بْنُ الْمِنْهَالِ أَبُو الْعَطُوفِ وَعَبَّادُ بْنُ کَثِيرٍ وَحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللّهِ بْنِ ضُمَيْرَةَ وَعُمَرُ بْنُ صُهْبَانَ وَمَنْ نَحَا نَحْوَهُمْ فِي رِوَايَةِ الْمُنْکَرِ مِنْ الْحَدِيثِ فَلَسْنَا نُعَرِّجُ عَلَی حَدِيثِهِمْ وَلَا نَتَشَاغَلُ بِهِ لِأَنَّ حُکْمَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالَّذِي نَعْرِفُ مِنْ مَذْهَبِهِمْ فِي قَبُولِ مَا يَتَفَرَّدُ بِهِ الْمُحَدِّثُ مِنْ الْحَدِيثِ أَنْ يَکُونَ قَدْ شَارَکَ الثِّقَاتِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْحِفْظِ فِي بَعْضِ مَا رَوَوْا وَأَمْعَنَ فِي ذَلِکَ عَلَی الْمُوَافَقَةِ لَهُمْ فَإِذَا وُجِدَ کَذَلِکَ ثُمَّ زَادَ بَعْدَ ذَلِکَ شَيْئًا لَيْسَ عِنْدَ أَصْحَابِهِ قُبِلَتْ زِيَادَتُهُ فَأَمَّا مَنْ تَرَاهُ يَعْمِدُ لِمِثْلِ الزُّهْرِيِّ فِي جَلَالَتِهِ وَکَثْرَةِ أَصْحَابِهِ الْحُفَّاظِ الْمُتْقِنِينَ لِحَدِيثِهِ وَحَدِيثِ غَيْرِهِ أَوْ لِمِثْلِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَحَدِيثُهُمَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مَبْسُوطٌ مُشْتَرَکٌ قَدْ نَقَلَ أَصْحَابُهُمَا عَنْهُمَا حَدِيثَهُمَا عَلَی الِاتِّفَاقِ مِنْهُمْ فِي أَکْثَرِهِ فَيَرْوِي عَنْهُمَا أَوْ عَنْ أَحَدِهِمَا الْعَدَدَ مِنْ الْحَدِيثِ مِمَّا لَا يَعْرِفُهُ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِمَا وَلَيْسَ مِمَّنْ قَدْ شَارَکَهُمْ فِي الصَّحِيحِ مِمَّا عِنْدَهُمْ فَغَيْرُ جَائِزٍ قَبُولُ حَدِيثِ هَذَا الضَّرْبِ مِنْ النَّاسِ وَاللَّهُ أَعْلَمُقَدْ شَرَحْنَا مِنْ مَذْهَبِ الْحَدِيثِ وَأَهْلِهِ بَعْضَ مَا يَتَوَجَّهُ بِهِ مَنْ أَرَادَ سَبِيلَ الْقَوْمِ وَوُفِّقَ لَهَا وَسَنَزِيدُ إِنْ شَائَ اللَّهُ تَعَالَی شَرْحًا وَإِيضَاحًا فِي مَوَاضِعَ مِنْ الْکِتَابِ عِنْدَ ذِکْرِ الْأَخْبَارِ الْمُعَلَّلَةِ إِذَا أَتَيْنَا عَلَيْهَا فِي الْأَمَاکِنِ الَّتِي يَلِيقُ بِهَا الشَّرْحُ وَالْإِيضَاحُ إِنْ شَائَ اللَّهُ تَعَالَی وَبَعْدُ يَرْحَمُکَ اللَّهُ فَلَوْلَا الَّذِي رَأَيْنَا مِنْ سُوئِ صَنِيعِ کَثِيرٍ مِمَّنْ نَصَبَ نَفْسَهُ مُحَدِّثًا فِيمَا يَلْزَمُهُمْ مِنْ طَرْحِ الْأَحَادِيثِ الضَّعِيفَةِ وَالرِّوَايَاتِ الْمُنْکَرَةِ وَتَرْکِهِمْ الِاقْتِصَارَ عَلَی الْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ الْمَشْهُورَةِ مِمَّا نَقَلَهُ الثِّقَاتُ الْمَعْرُوفُونَ بِالصِّدْقِ وَالْأَمَانَةِ بَعْدَ مَعْرِفَتِهِمْ وَإِقْرَارِهِمْ بِأَلْسِنَتِهِمْ أَنَّ کَثِيرًا مِمَّا يَقْذِفُونَ بِهِ إِلَی الْأَغْبِيَائِ مِنْ النَّاسِ هُوَ مُسْتَنْکَرٌ وَمَنْقُولٌ عَنْ قَوْمٍ غَيْرِ مَرْضِيِّينَ مِمَّنْ ذَمَّ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ أَئِمَّةُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِثْلُ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وَشُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَيَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْأَئِمَّةِ لَمَا سَهُلَ عَلَيْنَا الِانْتِصَابُ لِمَا سَأَلْتَ مِنْ التَّمْيِيزِ وَالتَّحْصِيلِ وَلَکِنْ مِنْ أَجْلِ مَا أَعْلَمْنَاکَ مِنْ نَشْرِ الْقَوْمِ الْأَخْبَارَ الْمُنْکَرَةَ بِالْأَسَانِيدِ الضِّعَافِ الْمَجْهُولَةِ وَقَذْفِهِمْ بِهَا إِلَی الْعَوَامِّ الَّذِينَ لَا يَعْرِفُونَ عُيُوبَهَا خَفَّ عَلَی قُلُوبِنَا إِجَابَتُکَ إِلَی مَا سَأَلْتَ

سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے اور اللہ تعالی خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام انبیاء اور رسولوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ بعد حمد وصلوة امام مسلم اپنے شاگرد ابو اسحاق کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں اللہ تعالی تجھ پر رحم فرمائے کہ تو نے اپنے پروردگار ہی کی توفیق سے یہ ذکر کیا تھا کہ دین کے اصول اور اس کے احکام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو احادیث مروی ہیں ان تمام احادیث کی تلاش و جستجو کی جائے اور وہ احادیث جو ثواب عذاب اور رغبت اور خوف وغیرہ کے متعلق مروی ہیں یعنی فضائل واخلاق کے متعلق حدیثیں اور ان کے سوا اور باتوں کی اسناد کے ساتھ جن کی رو سے وہ حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور جن کو علماء حدیث نے قبول کیا ہے اللہ تعالی تم کو ہدایت دے کہ تم سے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا کہ اس قسم کی تمام احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا جائے اور تم نے یہ سوال کیا تھا کہ میں ان سب حدیثوں کو اختصار کے ساتھ تمہارے لئے جمع کروں اور اس میں تکرار نہ ہو اس لئے کہ تکرار سے مقاصد یعنی احادیث میں غور وخوض کرنے اور ان سے مسائل کے نکالنے میں رکاوٹ پیدا ہوگی اللہ تعالی تمہیں عزت عطا فرمائے تم نے جس بات کا سوال کیا جب میں نے اس پر غور کیا اور اس کے انجام کو دیکھا اللہ کرے اس کا انجام اچھا ہو تو سب سے پہلے دوسروں کے علاوہ مجھے خود فائدہ ہوگا بہت سے اسباب سے پہلے دوسروں کے علاوہ مجھے خود فائدہ ہوگا بہت سے اسباب کی وجہ سے جن کا بیان کرنا طویل ہے مگر اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح سے تھوڑی سی احادیث کو یاد رکھنا مضبوطی اور صحت کے ساتھ آسان ہے خاص کر ان لوگوں کے لئے جنہیں صحیح اور غیر صحیح احادیث میں جس وقت تک دوسرے لوگ واقف نہ کرائیں تمیز ہی حاصل نہیں ہو سکتی پس جب معاملہ اس میں ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا تو ارادہ کرنا کم صحیح روایات کی طرف زیادہ ضعیف روایات سے افضل و اولی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بہت سی روایات کو اس شان سے بیان کرنا اور مکررات کو جمع کرنا خاص خاص لوگوں کے لئے نفع بخش ہے جن کو علم حدیث میں کچھ حصہ اور بیداری عطاء کی گئی ہے اور حدیث کے اسباب وعلل سے معرفت حاصل ہے پس اگر اللہ نے چاہا تو ایسا شخص جس کو علم حدیث سے کچھ علم دیا گیا ہے وہ کثرت کے ساتھ جمع شدہ احادیث سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے بہرحال عام لوگوں میں سے جو صاحب واقفیت ومعرفت ہیں کے برعکس ہیں ان کے لئے کثرت احادیث کا کوئی فائدہ نہیں اور تحقیق وہ کم احادیث کی معرفت سے عاجز آگئے ہیں ۔ پھر اگر اللہ نے چاہا تو ہم شروع ہوں گے نکالنے میں ان احادیث کے جس کا تم نے سوال کیا ہے اور تالیف اس کی ایک شرط پر عنقریب میں اس کو تمہارے لئے ذکر کروں گا اور وہ شرط یہ ہے کہ ہم ارادہ کرتے ہیں ان تمام احادیث کا جو سندا متصلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں پس ہم ان کو تقسیم کرتے ہیں تین اقسام پر اور راویوں کے تین طبقات ثقہ متوسطین ضعفاء پر بغیر تکرار کے ہاں یہ کہ ایسی جگہ میں حدیث آجائے کہ مستغنی نہ کیا جائے اس حدیث کے تکرار سے اس میں معنا زیادتی ہو یا اسناد واقع ہو دوسری اسناد کے پہلو میں کوئی علت کسی علت کی وجہ اور ضرورت کے پیش نظر تکرار ہوگا ۔ کیونکہ ایسے معنی کی زیادتی حدیث میں جس کے احتیاج ہو تو وہ مثل ایک پوری حدیث کے ہے پس ضروری ہوا اس حدیث کا اعادہ کرنا جس میں وہ زیادتی موجود ہو یا یہ کہ جدا کیا جائے وہ معنی پوری حدیث سے اختصار کے ساتھ جب ممکن ہو لیکن اس کا جدا کرنا کبھی مشکل ہوتا ہے اس پوری حدیث سے تو اس خاص ضرورت ومصلحت کے تحت ہم اس پوری حدیث کا اعادہ کردیتے ہیں لیکن اگر تکرار سے بچنے کی کوئی صورت نکل سکے تو ہم ہرگز اعادہ نہیں کریں گے ان شاء اللہ تعالی ۔ قسم اول میں ہم ان احادیث مبارکہ کو بیان کریں گے جن کی اسانید دوسری احادیث کی اسانید اور عیوب ونقائص سے محفوظ ہوں گی اور ان کے راوی زیادہ معتبر اور قوی وثقہ ہوں گے حدیث میں کیونکہ نہ تو ان کی روایت میں سخت اختلاف ہے اور نہ فاحش اختلاط جیسا کہ کثیر محدیثن کی کیفیت معلوم ہوگئی ہے اور یہ بات ان احادیث کی روایت سے پائے ثبوت تک پہنچ چکی ہے پھر ہم اس قسم کے لوگوں کی مرویات کا ذکر کرنے کے بعد ایسی احادیث لائیں گے جن کی اسانید میں وہ لوگ ہوں جو اس درجہ اتقان اور حفظ سے موصوف نہ ہوں جو اوپر ذکر ہوا لیکن تقوی پرہیزگاری اور صداقت وامانت میں ان کا مرتبہ ان سے کم نہ ہوگا کیونکہ ان کا عیب ڈھکا ہوا ہے اور ان کی روایت بھی محدیثن کے ہاں مقبول ہے جیسا کہ عطا بن سائب اور یزید بن ابی زیاد لیث بن ابی سلیم اور ان کی مثل حاملیں آثار اور نقول احادیث اگرچہ اہل علم میں مشہور اور مستور ہیں محدیثن کے پاس اتقان اور استقامت روایت میں ان سے بڑھ کر ہے حال اور مرتبہ میں اہل علم کے ہاں بلند درجہ اور عمدہ خصلت ان کو فضلت والوں میں سے کر دیتی ہے کیا تم نہیں دیکھتے جب تم ان تینوں کا جن کا ہم نے نام لیا عطا یزید اور لیث کا منصور بن معتمر اور سلیمان اعمش اور اسماعیل بن خالد سے موازنہ کرو حدیث کے اتقان اور استقامت میں تو تم ان کو بالکل ان سے جدا اور الگ پاؤگے ہرگز ان کے قریب نہ ہوں گے اس بات میں محدیثن کے ہاں بالکل شک نہیں ہے اس لئے کہ ان کے ہاں ثابت ہوگیا ہے صحت حفظ منصور اور اعمش اور اسماعیل کا اور ان کا اتقان حدیث میں نہیں پہچان حاص کر سکے ان جیسی عطاء یزید اور لیث سے اور ایسی ہی کیفیت ہے جب تو ہم عصروں کے درمیان موازنہ کرے جیسے ابن عوف اور ایوب سختیانی کا عوف بن ابی جمیلہ اور اشعث حمرانی کے ساتھ یہ دونوں مصاحب اور ساتھ تھے حسن بصری اور ابن سیرین کے جیسا کہ ابن عوف اور ایوب سختیانی ان کے ساتھی ہیں ہاں بے شک ان دونوں میں بڑا فرق ہے ابن عوف اور ایوب کا درجہ اعلی ہے کمال فضل اور صحت روایت میں اگرچہ عوف اور اشعث بھی اہل علم کے ہاں سچے اور امانت دار ہیں لیکن اصل حال درجے کے اعتبار سے ہے ۔ محدیثن کے ہاں وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہم نے اس لئے یہ مثالیں دی ہیں کہ جو لوگ محدثین کے اصول اور تنقیدی طریق کار کو نہیں جانتے وہ آسانی کے ساتھ راویوں کے مقام ومرتبہ کی پہچان حاصل کر سے تاکہ بلند مرتبہ راوی کو کم اور کم مرتبہ محدث کو اس سے زیادہ مرتبہ نہ دیا جائے اور ہر محدث کو اس کے منصب کے مطابق مقام ومرتبہ میسر آئے اور تحقیق سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت ذکر کی گئی ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہم لوگوں سے انکے مرتبہ اور منصب کے مطابق سلوک کریں اور اسکی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے وفوق کل ذی علم علیم ہو عالم سے بڑھ کر علم والا ہوتا ہے ۔ انہی طریقوں پر جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں جمع کرتے ہیں جو تم نے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثوں سے ہاں وہ لوگ جو اکثر یا تمام محدثین کے نزدیک مطعون ہیں جیسے عبداللہ بن مسور ابو جعفر مدائنی عمرو بن خالد عبدالقدوس شامی محمد بن سعید مصلوب غیاث بن ابراہیم سلیمان بن عمرو ابی داؤد نخعی اور ان جیسے دوسرے لوگ جن پر وضع حدیث کی تہمت ہے وہ ازخود احادیث بنانے میں بدنام ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی جن کی اکثر احادیث منکر ہوتی ہیں یا غلط روایات تو ایسے تمام لوگوں کی روایات کو ہم اپنی کتاب میں جمع نہیں کریں گے ۔ اصطلاح اصول حدیث میں منکر اس شخص کی حدیث کو کہتے ہیں جو ثقہ اور کامل الحفظ راویوں کی روایت کی خلاف روایت کرے یا ان احادیث کی کسی موافقت نہ ہو پس جب اس کی احادیث میں سے اکثر اسی طرح ہوں تو وہ متروک الحدیث ہوگا اور اس کی مرویات محدثین کے نزدیک قابل قبول اور قابل عمل نہیں ہوتیں اس قسم کے محدثین میں سے عبداللہ بن محرر یحیی بن ابی انیسہ جراح بن منہال ابو العطوف اور عباد بن کثیر اور حسین بن عبداللہ بن ضمیرہ اور عمر بن صہبان وغیرہ اور ان کی مثل دوسرے حضرات منکر حدیث روایت کرنے والے ہیں پس ہم ان لوگوں کی روایات نہیں لاتے اور نہ ہی ان میں مشغول ہوتے ہیں کیونکہ اہل علم کا حکم ہے اور جو ان کے مذہب سے معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ جو راوی اپنی روایت میں متفرد ہو لیکن اس کی بعض روایات کو بعض دوسرے ثقہ اور حفاظ راویوں نے بھی روایت کیا ہو اور کسی حدیث میں اس کی موافقت کی ہو جب یہ شرط پائی جائے پھر اس کے بعد وہ متفرد راوی اپنی روایت میں کچھ الفاظ کی زیادتی کرتا ہے جن کو اس کے دوسرے معاصرین نے روایت نہیں کیا تو اس کی زیادتی قبول کی جائے گی لیکن اگر تم کسی کو دیکھو کہ وہ زہری جیسے بزرگ شخص سے روایت کرنے کا قصد کرے جس کے شاگرد کثیر تعداد میں حافظ ومتقن ہیں جو اس کی اور دوسروں کی حدیثوں کو روایت کرتے ہیں یا ہشام بن عروہ سے بھی روایت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ان دونوں محدیثن کی روایات اہل علم کے ہاں بہت مشہور اور پھیلی ہوئی ہیں ان کے شاگردوں نے بھی ان کی اکثر روایات کو بالاتفاق روایت کیا ہے پس اگر کوئی محدث ان مذکورہ بالا دونوں محدثین سے یا ان میں سے کسی ایک سے ایسی روایت کا راوی ہو جس روایت کو ان کے شاگردوں میں سے کسی نے بیان نہ کیا ہے اور یہ راوی ان راویوں میں سے بھی نہیں جو صحیح روایات میں ان کے مشہور شاگردوں کا شریک رہا ہو تو اس قسم کے راوی کی حدیث کو قبول کرنا جائز نہیں اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے ۔ ہم نے روایت حدیث کے سلسلہ میں محدثین کے مذہب کو بیان کر دیا ہے تاکہ جو لوگ اصول روایت حدیث سے ناواقف ہیں ان کو بھی ابتدائی معلومات حاصل ہوجائیں جن کو توفیق دی جائے لوگوں میں سے اور ہم عنقریب اس کو شر اور وضاحت سے بیان کریں گے اگر اللہ نے چاہا اس کتاب کے کئے مقامات میں معللہ اخبار کے ذکر کے موقع پر جب وہ اپنے مقامات میں آئیں گی اور جہان شرح کرنا اور وضاحت کرنا مناسب ہوگا ۔ اے شاگرد عزیز ! ان تمام مذکورہ بالا باتوں کے بعد اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے اگر ہم برے کا برا عمل نہ دیکھتے جو وہ کر رہے ہیں یعنی وہ محدث صحیح اور مشہور روایت پر اکتفا نہیں کرتا اور وہ اپنے جی میں محدث بنا ہوا ہے ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ ضعیف اور منکر احادیث کو نقل نہ کرے اور صرف انہیں اخبار کو نقل کرے جو صحیح اور مشہور ہیں جن کو معروف ثقہ لوگوں نے سچائی اور امانت کے ساتھ اس معرفت اور اقرار کے بعد روایت کیا ہے ان کی بیان کردہ اکثر روایات جو نامعلوم افراد کی طرف منسوب ہیں منکر اور غیر مقبول ہیں اور ایسے لوگوں سے مروی ہیں جن کی مذمت آئمة الحدیث میں سے مالک بن انس شعبہ بن حجاج سفیان بن عینیہ یحیی بن سعید القطان اور عبدالرحمن بن مہدی وغیر ہم نے کی ہے جب آسان ہو گیا ہم پر تیری خواہش کا پورا کرنا صحیح احادیث کی تمیز اور تحصیل کے ساتھ لیکن اسی وجہ سے جو ہم نے بیان کی کہ لوگ منکر روایات کو ضعیف اور مجہول اسناد سے روایت کرتے ہیں اور عوام کو سناتے ہیں جن میں عیوب کی پہچان کی لیاقت نہیں تو ہمارے لوگوں پر تیرے سوال کو جواب دینا آسان ہوگیا ۔

انوکھےاشعار urdu, poetry,


انوکھےاشعار


 *🖊اردو شاعری کی تاریخ میں بہت سے ایسے اشعار ہیں کہ جن کا پہلا مصرعہ اتنا مشہور ہوا کہ ان کا دوسرا مصرعہ جاننے کی کبھی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوئی ۔ تو کیا یہ مصرعے ایسے ہی تخلیق ہوئے یا ان کا کوئی دوسرا مصرعہ بھی ہے؟؟؟؟*

 *جی جناب ان کا دوسرا مصرعہ بھی ہے ۔ ایسے اشعار کا ایک مصرعہ تو مشہور ہو جاتاہے ۔ مگر دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو جاتا ہے ۔ تو جناب لیجیے ۔میں نے یہاں ان اشعار کو لکھ دیا جن کا صرف ایک مصرعہ مشہور ہوا ۔ پڑھیے اور سر دھنیے ۔۔۔۔۔۔!!*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
*بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خط ان کا بہت خوب'عبارت بہت اچھی
*اللہ کر ےزورِقلم اور زیادہ*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نزاکت بن نہیں سکتی حسینوں کے بنانے سے
*خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ راز تو کوئی راز نہیں ،سب اہلِ گلستان جانتے ہیں
*ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
داورِ محشر میرے نامہ اعمال نہ کھول
*اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں*
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
*دل کےخوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
*خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غم و غصہ و رنج و اندوں و حرما ں
*ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مریضِ عشق پہ رحمت خدا کی
*مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آخرگِل اپنی صرفِ میکدہ ہوئی
*پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بہت جی خوش ہواحالی سے مل کر
*ابھی کچھ لوگ باقی ہیں اِس جہاں میں*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
*بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نہ گورِسکندر نہ ہی قبرِ داراں
*مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے
*کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جذبِ شوق سلامت ہے تو انشاءاللہ
*کچھے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قریب ہے یارو روزِمحشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
*جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستین کا*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پھول تو دو دن بہارِجاں فزاں کھلا گئے
*حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
*ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خوب پردہ ہے چلمن سے لگے بیٹھ ہیں
*صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا*
لڑتے بھی ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے
*عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے*

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

خدا کی قسم افسانہ : سعادت حسین منٹو Khuda Ki Qasam Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto

سعادت حسن منٹو

    11 مئی 1912کو موضع سمبرالہ ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہو ئے ۔

 سعادت حسن منٹو  ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ 1921ء میں اسے ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان کا تعلیمی کریئر حوصلہ ا‌فزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کےبعد انہوں نے 1931 میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔
        جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر ، ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا- انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں ، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955ء ان کا انتقال ہوا۔

سعادت حسن منٹو اردو کا واحد افسانہ نگار ہے جس کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے جن کے افسانہ مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے مالک ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی-


          اور میں یہاں آپ کو سعادت حسن منٹو  کی طرف سے ایک مقبول ترین افسانہ " خدا کی قسم " پوسٹ کرنے جارہا ہوں ،امید ہے کہ آپ لطف اندوز ہونگے۔











  

شہید ساز افسانہ : سعادت حسین منٹو کی مختصر اردو کہانیاں Urdu Short Stories BySaadat Hasan Manto



    11 مئی 1912کو موضع سمبرالہ ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہو ئے ۔ 

 سعادت حسن منٹو  ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ 1921ء میں اسے ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان کا تعلیمی کریئر حوصلہ ا‌فزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کےبعد انہوں نے 1931 میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔
        جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر ، ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا- انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں ، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955ء ان کا انتقال ہوا۔


سعادت حسن منٹو اردو کا واحد افسانہ نگار ہے جس کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے جن کے افسانہ مضامینن اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے مالک ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی- 
           اور میں یہاں  اب آپ کو سعادت حسن منٹو  کی طرف سے ایک مقبول ترین افسانہ "  شہید ساز  " پوسٹ کرنے جارہا ہوں ،امید ہے کہ آپ لطف اندوز ہونگے۔








Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)