سورہ
یوسف
مکی سورت ہے
جو ایک سو گیارہ آیات اور بارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ منفرد سورت ہے جس میں صرف
ایک ہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو قرآن کریم نے ’’احسن القصص‘‘ بہترین واقعہ قرار دیا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے
ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے اور اپنوں کے مظالم اور ان کے مقابلہ میں اللہ کی مدد
کا منظر دکھا کر حضور علیہ السلام کو اپنی قوم کے مظالم کے مقابلہ میں نصرت
خداوندی حاصل ہونے کی بشارت ہے۔ سورت کے شروع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان
ہے۔ پھر یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر ہے کہ انہوںنے گیارہ ستارے اور چاند اور
سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا جس کی تعبیر واضح تھی کہ ان کے گیارہ
بھائی اور والدین ان کے سامنے جھکیں گے اور ان سب کے درمیان یوسف علیہ السلام کو
امتیازی مقام حاصل ہوگا۔ اس خواب کے بعد بھائیوں نے حسد کرنا شروع کردیا اور یوسف علیہ
السلام کے قتل کا پروگرام بناکر اپنے والد کو راضی کرکے جنگل میں لے گئے۔ انہیں
کنویں میں پھینک کر کپڑوں کو کسی جانور کے خون سے آلودہ کرکے والد کو بتادیا کہ
ہم جنگل میں کھیلتے رہے اور بھائی کو بھیڑیا کھاگیا۔ یعقوب علیہ السلام ان کی سازش
کو سمجھ گئے اور یوسف علیہ السلام کے فراق میں پریشان رہنے لگے اور دن رات روتے
رہے۔ ایک تجارتی قافلہ نے کنویں سے یوسف علیہ السلام کو نکال کر مصر کے بازار میں
فروخت کردیا۔ یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کے چرچے پھیل گئے، بادشاہ نے انہیں
خرید کر اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے دیا اور اس طرح یوسف کنویں سے نکل کر شاہی محل
میں رہنے لگے۔ شاہ مصر کی بیوی حسنِ یوسف پر ریجھ گئی اور انہیں ’’دعوت گناہ‘‘ دینے لگی، یوسف نے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی۔
شوہر کو معلوم ہونے پر اس عورت نے بدکاری کا الزام لگادیا۔ اللہ نے اسی کے خاندان
کے بچے سے حضرت یوسف کی بے گناہی کی شہادت دلوا کر انہیں باعزت بری کروادیا۔ جب
مصر کی عورتوں نے بادشاہ کی بیوی پر ملامت کی تو اس نے حسن یوسف کا مظاہرہ کرنے کے
لئے عورتوں کی دعوت کرکے یوسف علیہ السلام کو سامنے بلوایا۔ تمام عورتیں حسن یوسف
کو دیکھ کر مبہوت ہوکر رہ گئیں اور پھلوں کو کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ بھی کاٹ بیٹھیں
اور ان کے حسن کی تعریف کرکے انہیں دعوت گناہ دینے لگیں۔ یوسف علیہ السلام نے گناہ
پر قید کو ترجیح دی اور بادشاہِ وقت نے اپنی عزت بچانے کی خاطر انہیں قید کردیا۔
یوسف علیہ السلام جیل میں بھی تبلیغ و تعلیم کے فریضہ سے غافل نہ رہے۔ دو قیدیوں
نے خواب دیکھا یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی۔ ایک قیدی
قتل ہوا دوسرا رہا ہوکر بادشاہ کا خادم بنا بادشاہ نے خواب دیکھا، اس خادم نے یوسف
علیہ السلام سے تعبیر پوچھی انہوںنے بتایا کہ سات موٹی تگڑی گائیوں کو دبلی پتلی
گائیوں کا کھانا اور سات خشک بالیوں کا تروتازہ بالیوں کو، مستقبل میں سات سالہ
قحط کا اشارہ ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی بیان کردیا۔ بادشاہ نے تعبیر سے
متاثر ہوکر رہائی کا فیصلہ کیا مگر یوسف علیہ السلام نبوت کے دامن کو داغدار ہونے
سے بچانے کے لئے تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر انہیں بے گناہ قرار دے کر رہائی ملی
اور شاہ مصر نے اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کردیا۔
وَمَا أُبَرِّىءُ
حکومت وقت کی
مدعیت میں درج ہونے والے مقدمہ سے برأ ت ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو خود پنداری اور
عجب میں مبتلاء کرسکتا تھا اس لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ گناہ سے
بچنے میں میرا کوئی ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ کا فضل و کرم شامل حال تھا۔ آپ کو
وزارت خزانہ کی ذمہ داری سونپ دی گئی اور یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظہر تھا کہ جیل
کی پستیوں سے اقتدار کی بلندیاں نصیب فرمادیں۔ کنعان سے آنے والے تاجروں میں
برادران یوسف بھی شامل تھے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ ان کا بھائی وزارت خزانہ کے
منصب پر فائز ہے مگر یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کو پہچان چکے تھے۔ بادشاہ کے
خواب کے مطابق حضرت یوسف نے اناج کا مناسب ذخیرہ کیا ہواتھا۔ قحط سالی شروع ہوچکی
تھی اور یہ لوگ کنعان سے اناج خریدنے کے لئے آئے تھے، حضرت یوسف نے پہچاننے کے
باوجود ان سے ان کے حالات معلوم کئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم بارہ بھائی ہیں ایک
جنگل میں ہلاک ہوگیا تھا۔ والد اس کے صدمہ سے پریشان ہے اور اس نے چھوٹے بھائی کو
اپنی تسلی اور تسکین کے لئے اپنے پاس روکا ہوا ہے اور ہم تجارت کی غرض سے آئے
ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے انہیں کافی خیرات دے کر واپس روانہ کیا اور آئندہ چھوٹے
بھائی کو بھی ساتھ لانے کا وعدہ لے لیا۔ انہوں نے واپس جاکر بادشاہ کے حسن سلوک کا
تذکرہ کیا اور سامان کھول کر دیکھا تو ان کا مال بھی پورا موجود تھا اور ان کی
ضرورت کا غلہ و سامان بھی تھا۔ انہوں نے والد صاحب کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ
چھوٹے بھائی (بنیامین) کو بھی بھیج دیں تاکہ ایک مزید آدمی کا راشن بھی مل سکے۔
والد نے کہا کہ تم پہلے یوسف کے بارے میں میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا چکے ہو مگر
گھریلو اخراجات کی مجبوری ہے اس لئے اللہ کی حفاظت میں اسے تمہارے ساتھ بھیجتا
ہوں۔ جب برادران یوسف چھوٹے بھائی کے ہمراہ دوبارہ پہنچے تو یوسف علیہ السلام نے
موقع پاکر اپنے بھائی بنیامین کو ساری صورتحال سے آگاہ کرکے اسے اپنے پاس روکنے
کا حیلہ یہ کیا کہ مصر کے قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اسے غلام بنا کر اپنے
پاس رکھ لیا جاتا تھا۔ شاہی کارندوں نے بنیامین کے سامان میں ایک پیمانہ چھپا کر
تلاشی کے دوران برآمد کرلیا۔ برادران یوسف پریشان ہوگئے ہم پہلے ہی والد کا
اعتماد کھو چکے ہیں۔ اب کیا جواب دیں گے۔ مجبوراً واپس جاکر یعقوب علیہ السلام کو
بنیامین کے سامان سے پیمانے کی برآمدگی اور مصری قانون کے مطابق اس کی گرفتاری کی
خبر دی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم بے انتہا بڑھ گیا اور یوسف کی یاد کے ساتھ
بنیامین کا غم بھی شامل ہوگیا۔ برادران یوسف نے کہا کہ یوسف کب کا مر کھپ چکا اور
اس کی یاد میں ہلکان ہورہے ہیں۔ والد نے کہا میرے بیٹو! مجھے یقین ہے کہ یوسف اور
اس کا بھائی مجھے مل کر رہیں گے۔ میں اللہ سے مایوس نہیں اللہ سے مایوس تو کافر
ہوا کرتے ہیں۔ جائو دونوں کو تلاش کرو اور گھر کے اخراجات کا انتظام بھی کرکے آئو۔
قحط سالی کی شدت میں ان کے پاس تجارت کے لئے بھی کچھ نہیں بچا تھا۔ یہ لوگ پھر مصر
پہنچ گئے اور شاہ مصر کے انتقال کے بعد یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے عہدہ پر فائز
ہوچکے تھے۔ انہوںنے جاکر اپنی بپتا سنائی اور خیرات و غلہ کے لئے درخواست گزار
ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع پر ان کی حالت زار اور والد کی پریشانی کے
پیشِ نظر صورتحال واضح کرنے کے لئے انہیں یاد دلایا کہ یوسف اور اس کے بھائی کے
ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کو تم کیسے بھول گئے ہو؟ ان کا ماتھا ٹھنکا اور وہ
حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ آپ یوسف ہی تو نہیں ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے بتادیا کہ
میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں
دوبارہ اکٹھا کردیا۔ یوسف علیہ السلام جو کہ مصر کے اقتدار اعلیٰ پر متمکن ہونے کے
ساتھ ساتھ نبوت کے منصب اعلیٰ پر بھی فائز تھے، ایمان اور تحمل کی بلندیوں پر
پہنچے ہوئے تھے۔ انہوںنے بھائیوں کی پریشانی اور جرم کے طشت از بام ہونے پر
گھبراہٹ کو بھانپ لیا اور فرمایا کہ آپ لوگوں سے کسی قسم کا انتقام نہیں لیا جائے
گا۔ میں تمام زیادتیوں اور مظالم کو معاف کرتا ہوں۔ اس حلم و بردباری نے ان پر بڑا
اثر کیا اور انہوںنے بھی اعتراف جرم کے ساتھ اپنے لئے عفو و درگزر کی درخواست پیش
کردی۔ بیٹے کے غم میں رو رو کر حضرت یعقوب اپنی بینائی سے محروم ہوچکے تھے۔ یوسف
علیہ السلام نے معجزانہ تاثیر کی حامل اپنی قمیص روانہ کردی کہ باپ کے چہرہ پر
ڈالوگے تو ان کی بنیائی واپس آجائے گی۔ جیسے ہی قاصد قمیص لے کر مصر سے روانہ ہوا
کنعان میں حضرت یعقوب نے حاضرین مجلس سے کہا کہ مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے۔ وہ لوگ
کہنے لگے کہ آپ نے پھر یوسف کی رٹ لگالی ہے۔ مگر اتنی دیر میں قاصد پہنچ چکا تھا
اور قمیص کا کرشمہ ظاہر ہوکر ان کی بینائی مل چکی تھی۔ بیٹوں کو اپنی غلطی کا شدت
سے احساس ہونے لگا، انہوںنے والد صاحب سے معافی کی درخواست کی والد صاحب نے خود
بھی معاف کردیا اور اللہ سے بھی ان کے لئے مغفرت طلب کی اور مصر کے لئے روانہ
ہوگئے۔ شہر سے باہر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا اور دربار شاہی
میں پہنچتے ہی والدین اور گیارہ بھائی یوسف کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ یوسف علیہ
السلام نے اپنے خواب کی عملی تعبیر پالی اور تشکر آمیز جذبات سے اللہ کے حضور دست
بہ دعا ہوگئے کہ اللہ تونے مجھے نبوت و حکمرانی سے سرفراز فرمایا اور میرے جان کے
دشمن بھائیوںکے دل صاف کرکے مجھے میرے ساتھ ملایا تو ہی میرا سرپرست اور ولی ہے،
مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھ اور اپنے نیکو کار بندوں میں شامل رکھ۔ اس واقعہ میں
بہت سے دروس و عبر موجود ہیں۔ باپ کی محبت سے بھائیوں کی عداوت اور اندھے کنویں سے
شاہی محل اور وہاں سے جیل اور پھر اقتدار مصر پر فائز ہوکر والدین اور بھائیوں کے
سامنے سرخروئی اس سارے منظر میں مکہ مکرمہ کے اندر حضور علیہ السلام اور اپنوں کے
مظالم کا شکار آپ کے ساتھیوں کے لئے بشارت موجود تھی کہ ایک دن مشرکین مکہ بھی
آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گے اور دس رمضان کو تاریخ نے ہمیشہ کے لئے منظر
محفوظ کرلیا کہ کعبۃ اللہ کی دہلیز پر کھڑے ہوکر حضور علیہ السلام نے یوسف علیہ
السلام والا جملہ لا تثریب علیکم الیوم (آج تم پر کوئی گرفت یا انتقامی کارروائی
نہیں ہوگی) کہہ کر اپنی قوم کو معاف کرنے کا اعلان کردیا۔ پھر قرآن کریم نے ’’جمہوریت‘‘ کی بنیاد ’’اکثریت و
اقلیت‘‘ پر ضرب کاری لگاتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں اچھے
لوگ کبھی اکثریت میں نہیں رہے جس سے یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’جمہوری‘‘ نظام سے پاکیزہ معاشرہ اور اچھی حکومت کبھی بھی
تشکیل نہیں پاسکتی۔ نبوت کا راستہ دلائل کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، نصرت
خداوندی تب آتی ہے جب اللہ کے علاوہ تمام سہاروں سے مسلمان برأت کا اظہار کردے
اور ہر طرف سے مایوس ہوکر ایک اللہ سے اپنا رشتہ استوار کرلے۔ قرآن کریم قصے
کہانیاں سنا کر جی نہیں بہلاتا بلکہ تاریخی واقعات سے کارکنوں کی تربیت کرتا ہے اور
مسلمانوں کو اس سے ہدایت و رحمت کی دولت میسر آتی ہے۔
Surha Yousaf ka khalsa best of best hy
ReplyDeleteQuran pak mey surah yusuf mey hai k jo chori kerta hai usko gulam banana hazrat yuusuf k qabeelay ka kanoon tha misar ka yeh qanoon nahi tha aur Allah pak farmatey hain k agr yusuf tum chahtay b to misar k qanoon k mutabik apney bhai ko apnay pas nahi rakh sktay thay balkay Allah ney tumharey lea tadbeer ki
ReplyDelete