Saturday 9 December 2017

Hum falasteen sy is liye Muhabbat karte Hain


Image may contain: sky
ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے
یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔

حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔

حضرت سلیمان علیہ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔

چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا "اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ" یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں "وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی" رکھ دیا گیا تھا۔

حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔

اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔

ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔

قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔

اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔

فلسطین ہی ارض محشر ہے۔

اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔

اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔

فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔

حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔

سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔

وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر 
کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔

اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔

بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔

مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو "التین" انجیر سے، بلاد فلسطین کو "الزیتون" زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔

اور قران پاک کی یہ آیت مبارک (ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون) سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔

فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے 
والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔

Tuesday 28 November 2017

Eid Milad-un-Nabi by Mufti Mohammad Taqi Usmani sab

جشن میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم ایک لمحہٴ فکریہ
مفتی محمد تقی عثمانی
12/ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کارواج کچھ عرصہ سے مسلسل چلا آرہا ہے، چوں کہ عہد صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور قرون اولیٰ میں اس ”عید“ کا کوئی پتا نشان نہیں ملتا۔ اس لیے اکابر علمائے حق ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ دن منانے کی رسم ہم میں عیسائیوں اور ہندوؤں سے آئی ہے، تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی، لہٰذا اس رسم کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، مسلمانوں کااصل کام یہ ہے کہ وہ ان رسمی مظاہروں کے بجائے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں اور ایک دن میں عید میلاد مناکر فارغ ہوجانے کے بجائے اپنی پوری زندگی کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر کریں۔
یہ علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث کا موقف تھا اور بریلوی مکتب فکر کے حضرات اس سے اختلاف کرتے تھے، لیکن اب چند سال سے جو صورت حال سامنے آرہی ہے، اس میں یہ مسئلہ صرف دیوبندی مکتب فکر کا نہیں رہا، بلکہ ہر اس مسلمان کا مسئلہ بن گیا ہے جو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و محبت اور حرمت و تقدیس کا کوئی احساس اپنے دل میں رکھتا ہو، اب صرف علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث ہی کو نہیں، بلکہ علمائے بریلی کو بھی اس پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ جشن عیدمیلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے نام پر یہ قوم دینی تباہی کے کس گڑھے کی طرف جارہی ہے؟ کیوں کہ جن حضرات نے ابتدا میں محفل میلاد وغیرہ کو مستحسن قرار دیا تھا، ان کے چشم تصور میں بھی غالباً وہ باتیں نہیں ہوں گی جو آج ”جشن میلادالنبی صلی الله علیہ وسلم“ کا جزوِ لازم بنتی جارہی ہیں۔
شروع میں محفل میلاد کا تصور ایک ایسی مجلس کی حد تک محدود تھا جس میں سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جاتا ہو، لیکن انسان کا نفس اس قدر شریر واقع ہوا ہے کہ جو کام وحی کی راہ نمائی کے بغیر شروع کیا جاتا ہے، وہ ابتدا میں خواہ کتنا مقدس نظر آتا ہو، لیکن رفتہ رفتہ اس میں نفسانی لذت کے مواقع تلاش کرلیتا ہے اور اس کا حلیہ بگاڑ کر چھوڑتا ہے، چناں چہ اب الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے مقدس نام پر جو کچھ ہونے لگا ہے، اسے سن کر پیشانی عرق عرق ہوجاتی ہے۔
ہر سال ”عید میلاد النبی“ کے نام سے صرف کراچی میں ظلم وجہالت کے ایسے ایسے شرم ناک مظاہرے کیے جاتے ہیں کہ ان کے انجام کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے، مختلف محلوں کو رنگین روشنیوں سے دلہن بنایا جاتا ہے اور شہر کے تقریباً تمام ہوٹلوں میں عید میلاد اس طرح منائی جاتی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر لگاکر بلند آواز سے شب و روز ریکارڈنگ کاطوفان برپا رہتا ہے۔ بہت سے سینما ”عیدمیلاد کی خوشی میں“ سینکڑوں بلب لگا کر ان اخلاق سوز اور برہنہ تصویروں کو اور نمایاں کردیتے ہیں جو اپنی ہر ہر ادا سے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی نافرمانی کی برملا دعوت دیتی ہیں اور انہی مقامات پر انسانیت کی تصویروں کے سائے میں شاید تبرک کے خیال سے خانہ کعبہ اور روضہ اقدس کی تصویریں بھی چسپاں کردی جاتی ہیں، ایک محلہ میں قدم قدم پر روضہ اطہر اور مسجد نبوی کی شبیہیں بناکر کھڑی کی جاتی ہیں، جنہیں کچھ بے فکرے نوجوان ایک تفریح گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کچھ بے پردہ عورتیں انہیں چھو چھوکر ”خیر و برکت“ حاصل کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جب پورے محلہ کو روشنیوں میں نہلاکر، جگہ جگہ محرابیں کھڑی کرکے اور قدم قدم پر فلمی ریکارڈ بجاکر ایک میلے کا سماں پیدا کردیا جائے تو پھر عورتیں اور بچے ایسے میلے کو دیکھنے کے لیے کیوں نہ پہنچیں جس میں میلے کا لطف بھی ہے اور (معاذ الله) تعظیم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ثواب بھی؟! چناں چہ راتوں کو دیر تک یہاں تفریح باز مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایسا مخلوط اجتماع رہتا ہے جس میں بے پردگی، غنڈہ گردی اور بے حیائی کو کھلی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔
راقم الحروف ایک روز اس محلے سے گزرتے ہوئے یہ دل دوز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور اس آیت قرآنی کے تصور سے روح کانپ رہی تھی، جس کا ترجمہ یہ ہے:
” اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنارکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے اور اس قرآن کے ذریعے ان کو نصیحت کرو، تاکہ کوئی شخص اپنے کیے میں اس طرح گرفتار نہ ہوجائے کہ الله کے سوا اس کا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا نہ ہو اور اگر وہ دنیا بھر کا معاوضہ دے ڈالے تب بھی نہ لیا جائے، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے کیے میں گرفتارہوئے، ان کے لیے کھولتا ہوا پانی پینے کے لیے ہوگا اور کفر کے سبب دردناک سزا ہوگی۔“
الله تعالیٰ ہر مسلمان کو اس آیت کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس محلے سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے خاتم النبین صلی الله علیہ وسلم کا لایا ہوا دین پکار پکار کر یہ فریاد کررہا ہے کہ ”محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کے نام لیواؤ! تم گم راہی اور بے حسی کے کس اندھے غار میں جاگرے ہو؟ کیا سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ یہی ہے کہ انہی کی محبت و عظمت کے نام پر ان کی ایک ایک تعلیم کو جھٹلاؤ؟ ان کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرو؟ اور ان کی یاد منانے کے بہانے جاہلیت کی ان تمام رسموں کو زندہ کرکے چھوڑو جنہیں اپنے قدموں تلے روندنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تھے؟ خدا کے لیے سوچو کہ جس ذات کو سازورباب اور چنگ و بربط کے توڑنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے ”جشن ولادت“ میں ساز ورباب سے کھیل کر تم کس غضب الٰہی کو دعوت دے رہے ہو؟ جس ذات نے عورت کے سر پر عفت و عصمت کا تاج رکھا تھا اور جس نے اس کے گلے میں عزت و آبرو کے ہارڈالے تھے، اس کی محبت و تقدیس کے نام پر تم عورت کو بے پردگی اور بے حیائی کے کس میلے میں کھینچ لائے ہو؟ جس ذات نے نام و نمود، ریا و نمائش، اسراف و تبذیر سے منع کیا تھا، یہ نمائشیں منعقد کرکے تم کس کی خوش نودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟ اگر دین کی کوئی صحیح خدمت تم سے نہیں ہوسکتی، اگر تم اپنی عام زندگی میں الله کی نافرمانیوں کو ترک نہیں کرسکتے، اگرمحمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات تمہارے عیش پرست مزاج کوبار معلوم ہوتی ہیں، توتمہاری زندگی کے بہت سے شعبے اس عیش پرستی کے لیے کافی ہیں، خدا کے لیے الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے نام پر ہوا و ہوس کا یہ بازار لگاکر اس نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا مذاق تو نہ اڑاؤ، اس کے تقدس اور پاکیزگی کے آگے فرشتوں کی گردنیں بھی خم ہوجاتی ہیں، اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھو کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرنے کے بعد تم کس چیز کی خوشی میں اپنے درودیوار پر چراغاں کررہے ہو؟ کیا تمہیں اس بات کی خوشی ہے کہ تم نے اپنی عملی زندگی میں اس دین برحق کی کوئی قدر صحیح سالم نہیں دیکھی؟“ لیکن عیش و نشاط کی گونجتی ہوئی محفلوں میں کون تھا جو دین مظلوم کی اس فریاد کو سن سکتا؟
جن لوگوں کا مقصد ہی اس قسم کے ہنگاموں سے عیش و نشاط کا سامان پیدا کرنا ہے، ان کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، لیکن جو لوگ واقعتاً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم و محبت ہی کے خیال سے اس قسم کے جشن مناتے ہیں، وہ بھی یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ اسلام اور اکابر اسلام کو دوسرے مذاہب اور ان کے پیشواؤں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے جہاں ہمیں ان کی تعظیم اور ان کے تذکرے کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے، وہاں ہمیں اس کا طریقہ بھی بتایا ہے، یہ وہ دین حق ہے جو ہمیں دوسرے مذاہب کی طرح رسمی مظاہروں میں الجھانے کے بجائے زندگی کے اصلی مقصد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس کے لیے یہ اکابر اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ورنہ اگر اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ان رسمی مظاہروں کی طرح جانا جاتا تو آج ہم اس بات پر فخر محسوس نہ کرسکتے کہ ہمارا دین بفضلہ تعالیٰ اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اسے لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی مذہب کے پیروکار محض ظاہری رسموں اور نمائشوں میں الجھ جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس مذہب کی اصل تعلیمات مٹتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر بے جان رسوم کا ایک ایسا ملغوبہ باقی رہ جاتا ہے جس کا مقصد انسانی نفسانی خواہشات کی حکم رانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جو مادہ پرستی کی بدترین شکل ہے، ان تمام تقریبات کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کے ذریعہ وہ خاص شخصیت یا وہ خاص واقعہ ذہن میں تازہ ہو جس کی یاد میں وہ تقریب منعقد کی جارہی ہے اور پھر اس سے اپنی زندگی میں سبق حاصل کیا جائے، لیکن انسان کا نفس بڑا شریر واقع ہوا ہے، اس نے ان تہواروں کی اصل روح کو تو بھلا کر،نابود کردیا اور صرف وہ چیزیں لے کر بیٹھ گیا جس سے لذت اندوزی اور عیش پرستی کی راہ کھلتی تھی۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہوسکے گی۔
عیسائی قومیں ہر سال 25دسمبر کو کرسمس کا جشن مناتی ہیں، یہ جشن دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جشن ولادت ہے اور اس کی ابتدا اسی مقدس انداز سے ہوئی تھی کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات کو لوگوں میں عام کیا جائے گا، چناں چہ ابتدا میں اس کی تمام تقریبات کلیسا میں انجام پاتی تھیں اور ان میں کچھ مذہبی رسوم ادا کی جایا کرتی تھیں، رفتہ رفتہ اس جشن کا سلسلہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا؟ اس کی مختصر داستان، جشن وتقریبات کی ایک ماہر مصنفہ ہیرزلٹائن ہے، اس سے سنیے، وہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ ”کرسمس“ میں لکھتی ہیں:
”کئی صدیوں تک کرسمس خالصتاً ایک کلیسا کا تہوار تھا، جسے کچھ مذہبی رسوم ادا کرکے منایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مذہب بت پرستوں کے ممالک میں پہنچا تو اس میں ”سرمانی نقطہ انقلاب“ کی بہت سی تقریبات شامل ہوگئیں اور اس کا سبب گریگوری اعظم (اول) کی آزاد خیالی اور اس کے ساتھ مبلغین عیسائیت کا تعاون تھا، اس طرح کرسمس ایک ایسا تہوار بن گیا جو بیک وقت مذہبی بھی تھا اور لادینی بھی، اس میں تقدس کا پہلو بھی تھا اور لطف اندوزی کا سامان بھی۔“
اب کرسمس کس طرح منایا جانے لگا؟ اس کو بیان کرتے ہوئے میری ہیرزلٹائن لکھتی ہیں:
”رومی لوگ اپنی عبادت گاہوں اور اپنے گھروں کو سبز جھاڑیوں اور پھولوں سے سجاتے تھے، ڈرائڈس (پرانے زمانے کے پادری) بڑے تزک و احتشام سے امربیلیں جمع کرتے اور اسے اپنے گھروں میں لٹکاتے، سیکسن قوم کے لوگ سدابہار پودے استعمال کرتے۔“
انہوں نے آگے بتایا ہے کہ:
”کس طرح شجر کرسمس( Chirstmas Tree) کا رواج چلا، چراغاں اور آتش بازی کے مشغلے اختیار کیے گئے، قربانی کی عبادت کی جگہ شاہ بلوط کے درخت نے لے لی، مذہبی نغموں کی جگہ عام خوشی کے نغمے گائے گئے اور : ”موسیقی کرسمس کا ایک عظیم جزو بن گئی۔“
مقالہ نگار آگے رقم طراز ہے:
”اگرچہ کرسمس میں زیادہ زور مذہبی پہلو پر دیا گیا تھا، لیکن عوامی جوش و خروش نے نشاط انگیزی کو اس کے ساتھ شامل کرکے چھوڑا۔“
اور پھر… ”گانا بجانا، کھیل کود، رقص، ناٹک بازی اور پریوں کے ڈرامے تقریبات کا حصہ ہوگئے۔“ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ص، 642۔اے ج 5، مطبوعہ1950ء مقالہ “کرسمس“)
ایک طرف کرسمس کے ارتقاء کی یہ مختصر تاریخ ذہن میں رکھیے اور دوسری طرف اس طرز عمل پر غور کیجیے، جو چند سالوں سے ہم نے جشن عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے، کیا اس سے یہ حقیقت بے نقاب نہیں ہوتی کہ:
ایں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
اسلام اس عالم الغیب کا مقرر کیا ہو ادین ہے جو اس کائنات کے ذرہ ذرہ سے باخبر ہے اور جس کے علم محیط کے آگے ماضی، حال اور مستقبل کی سرحدیں بے معنی ہیں، وہ انسانی نفس کی ان فریب کاریوں سے پوری طرح واقف ہے جو تقدس کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو گم راہ کرتی ہیں، اس لیے اس نے خاص خاص واقعات کی یادگار قائم کرنے کے لیے ان تمام طریقوں سے پرہیز کا حکم دیا ہے، جو ان کی اصل روح کو فنا کرکے انہیں عیش و عشرت کی چند ظاہری رسوم کے لیے بہانہ بناسکتے ہوں، چناں چہ صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کے دور میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ انہوں نے سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت جیسے عظیم الشان واقعہ کا کوئی دن منایا ہو، اس کے برخلاف ان کی تمام تر توجہات آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیغام کو پھیلانے کی طرف مرکوز رہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے پر بھی ہم مسلمان بیٹھے ہیں اور اگر اسلام پر عمل کرنا چاہیں تو یہ دین ٹھیک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان تک پہنچایا تھا۔
لہٰذا اگر ہم اپنے اسلاف کے اس طرز عمل کو چھوڑ کر غیر مسلم اقوام کے دن منانے کے طریقے کو اپنائیں گے تو مطلب یہ ہوگاکہ ہم دین کے نام پر کھیل تماشوں کے اسی راستے پر جارہے ہیں جس سے اسلام نے بڑی احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہمیں بچایا تھا، آپ کو معلوم ہے کہ اسلام نے غیر مسلم اقوام کی مشابہت سے پرہیز کرنے کی جابجا انتہائی تدبیر کے ساتھ تلقین فرمائی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ عاشورہ محرم کا روزہ، جو ہر ا عتبار سے ایک نیکی ہی نیکی تھی، اس میں یہودیوں کی مشابہت سے بچانے کے لیے یہ حکم دیا گیا کہ صرف دس تاریخ کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ نو یا گیارہ تاریخ کا روزہ بھی رکھا جائے، تاکہ مسلمانوں کا روزہ عاشورہٴ یہود سے ممتاز ہوجائے۔
غور فرمائیے کہ جس دین حنیف نے اس باریک بینی کے ساتھ غیر مسلم اقوام کی تقلید، بلکہ مشابہت سے بچانے کی کوشش کی ہے، اس کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا یوم پیدائش منانے کے لیے ان کی نقالی شروع کردی جائے جنہوں نے اپنے دین کو بگاڑ بگاڑ کر کھیل تماشوں میں تبدیل کردیا ہے؟
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ہم اپنے ملک کے تمام علماء، دینی راہ نما، مذہبی جماعتوں اور با اثر مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں، ہماری یہ اپیل صرف اہل حدیث اور دیوبندی مکتب فکر کے حضرات کی حد تک محدود نہیں، بلکہ ہم بریلوی مکتب فکر کے حضرات سے بھی یہی گزارش کرنا چاہتے ہیں ”عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کے نام پر جو الم ناک حرکتیں اب شروع ہوگئی ہیں، وہ یقینا ان کو بھی گوارا نہیں ہوں گی۔

Sunday 26 November 2017

آن لائن قرآن مجید پڑھنا/پڑھانا

آن لائن قرآن مجید پڑھنا/پڑھانا

قرآن ٹیوشن آن لائن اکیڈمی 5سال سے مصروف عمل ہے
مسلمان والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کواچھا مسلمان بنانے کے لئے قرآن کی تلاوت، تجوید کے قوانین، تفسیر، اور حدیث پاک کے مستند اسلامی علوم سے آراستہ کریں۔ غیر مسلم ریاستوں میں اس طرح کے مذہبی علم کا اچھا ذریعہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ لہذا، آن لائن قرآن مجید پڑھنا/پڑھانا اس کے لئے سب سے زیادہ آسان طریقہ بن گیا ہے۔ قرآن ٹیوشن آن لائن اکیڈمی اسلامی قواعد کے مطابق زندگی بسر کرنے کے آپ کے بچوں، بالغوں اور نئے مسلمانوں کے لئے بہتر تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اب کسی بھی ملک میں کسی بھی عمر کے طالب علم اپنے شیڈول اور ٹائم ٹیبل میں قرآن پڑھنا سیکھ سکتے ہیں۔ والدین اب اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کو قرآن مجید سیکھتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
· ہمارے ایک دوست  نے مسلمان بھائیوں کی روز مرہ زندگی میں قرآن کی تلاوت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کو ایک باقاعدہ عادت بنانے کے لئے اورمسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور درس و تدریس کے لیے ، قابل فخر بہترین حافظ قرآن اساتذہ کی خدمات حاصل کی ہیں۔
· صرف یہی نہیں صحیح طریقے سے قرآن مجید مہارت کے ساتھ طالب علموں کو سکھانے کےساتھ ساتھ، درست تلاوت مناسب تلفظ اور آداب کے ساتھ ، بلکہ اس کے حقیقی معنی کو سمجھانےکے لئے، حفظ قرآن، حدیث، نماز، دعائیں اور کلمے یاد کروانے اور طالب علموں کی استعداد بڑھانے کے اہل ہیں۔
· آپ اپنا گھر چھوڑے بغیر صرف کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر ایسا کر سکتے ہیں۔
· ٹیوٹر اور طالب علم ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں اور کلاس کے دوران ایک ہی کمپیوٹرسکرین پرسبق دیکھ سکتے ہیں.
:رابطہ

Wednesday 22 November 2017

Ishq Aur Chain A Beautiful Urdu poetry

 تیرے ھاتھ بناؤں پینسل سے  
پھر ھاتھ پہ تیرے ھاتھ رکھوں  

کچھ اُلٹا سیدھا فرض کروں
کچھ اُلٹا سیدھا ھو جائے

میں "آہ" لکھوں تُو "ھائے" کرے
بےچین لکھوں بےچین ھو تُو  

پھر میں بے چین کا "ب" کاٹوں تو  
تجھے چین ذرا سا ھو جائے

ابھی "ع" لکھوں تُو سوچے مجھے  
پھر "ش" لکھوں تیری نیند اُڑے

جب "ق" لکھوں تجھے کچھ کچھ ھو   
میں "عشق" لکھوں تجھے ھو جائے  

چل آ اک ایسی نظم لکھوں
جو لفظ لکھوں وہ ھو جائے

Thursday 16 November 2017

hum bhi farigh tum bhi farigh Awo k kuch bat karain, by sultana parveen

ہم بھی فارغ تم بھی فارغ آؤ کریں کچھ باتیں بھی
دل میں آگ لگا دیتی ہیں ساون کی برساتیں بھی

لوگ ہمارے، بچھڑے سارے یاد ہمیں جب آتے ہیں
رمِ جھِم رم جھِم برساتی ہیں بھیگی بھیگی راتیں بھی

پار افق کے جس بستی میں لوگ ہمارے رہتے ہیں
کیا ان کو بھی یاد آتی ہیں اکثر وہ ملاقاتیں بھی

جگنو، چاندنی اور ستارے، بچپن کے وہ خواب ہمارے
خوشبو بن کر چھا جاتی ہیں بھولی بسری باتیں بھی

ایک دور تھا جب یہ باتیں غیر مہذب لگتی تھیں
رائج ہیں اب کلچر بن کر وہ ساری خرافاتیں بھی

تم آپس میں جھگڑا کر کے اپنا آپ گنوا مت دینا
دیکھو تاک میں بیٹھی ہیں نا دشمن کی وہ گھاتیں بھی

دائیں ہاتھ سے ایسے دینا، بائیں ہاتھ کو خبر نہ پہنچے
ورنہ دل کا خون کریں گی اپنوں کی خیراتیں بھی

دین کی جو خدمت کرتے ہیں، ان کی خدمت عین عبادت
خود داری میں کہہ نہیں پاتے کرتے ہیں ملاقاتیں بھی

نیکی اور شرافت ہی تو سب سے اچھی قدریں ہیں
کون انھیں یہ سمجھائے جو پوچھ رہے ہیں ذاتیں بھی

تم سے مل کر میرے دل کو ایک سکون سا ملتا ہے
رنگِ حناؔ میں دل کش باتیں اچھی ہیں سوغاتیں بھی


٭٭٭

Sunday 13 August 2017

Us Ki Demand Thi K Darhi Shiv karo

"اسکی یہ ڈیمانڈ ہے کہ تم داڑھی شیو کر لو تو پھر ہی وہ شادی کرے گی"، عمر کہ امی اسکے قریب آ بیٹھی تھیں۔
عمر کو یہ خبر سن کر دھچکا سا لگا۔ ساتھ ہی دل پر تکلیف کا ایک بھاری بوجھ آن گرا،

"کیا؟؟؟
یہ سعدیہ نے کہا۔۔؟؟"، اسے جیسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ شادی کو صرف ایک ہفتہ رہ جانے پر منگیتر کی طرف سے ایسی بات سننا۔۔ اور وہ بھی اس حال میں کہ اب دل میں جگہ بن چکی ہو، محبت سی محسوس ہونے لگی ہو۔۔ تکلیف کا عالم ناقابلِ بیاں تھا۔

"ہاں بیٹا، مجھے بھی یقین نہیں آ رہا تھا، اس لیے خود اس سے ہی پوچھ کر آ رہی ہوں۔
میری مانو تو اسکی مان لو۔ کیا ہے اس میں۔ ایک داڑھی ہی کی تو بات ہے۔ آجکل تو لوگ دو ٹکے کی جاب کے لیے بھی داڑھی چھوڑ دیتے ہیں، تو تمہارا تو پوری زندگی کا سوال ہے بیٹا۔ اتنی اچھی لڑکی ہے، پڑھی لکھی، خوبصورت ، جوان، اچھا خاصا خاندان ہے، خود وہ ڈاکٹر ہے، اور کیا چاہیے۔۔ اب ضد نہ کرنا بیٹا"، سارہ صاحبہ بیٹے کو سمجھانے لگیں۔

پہلے منگیتر، اب ماں۔۔ اور کس کس کا مقابلہ کرنا پڑنا تھا۔ عمر کا صدمے سے حلق گھُٹنے لگا تھا۔
"امی جان۔۔ جب اس نے مجھے پہلے قبول کیا تھا تو اس داڑھی کے ساتھ ہی کیا تھا۔ آج اگر ڈاکٹر بن کر اسکی سوچیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں"، دل غم سے چُور چُور تھا۔

* * * * *

"ایک طرف دل ہے، اور دوسری طرف ایمان۔۔
ایک جانب دنیا قدموں میں ہے، اور دوسری جانب اللہ۔۔
ایک رستہ دل پسند زندگی کی طرف جاتا ہے، اور ایک ہجر کی تنہائیوں کی طرف۔۔"، عمر سُنسان پارک میں بیٹھا خود سے مخاطب تھا۔ آج بہت بڑا امتحان لے لیا تھا اس سے اس کے رب نے۔ آج پتا چلنا تھا جو دین دین کے نعرے لگانے والا عمر تھا وہ واقعی دل سے ایمان لایا تھا یا رب سے محبت کے سارے دعوے کھوکھلے تھے۔

عمر کے زہین سے پرانی، خوبصورت یادیں گزرنے لگیں۔
وہ جب پہلی مرتبہ سعدیہ کے گھر گئے تھے۔ جب رشتے کے لیے ہاں ہوئی تھی۔ دوستوں کا شادی کی خبر پر چھیڑ چھاڑ، ہنسی مزاق۔۔۔
عمر کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔

"ایک داڑھی کی بات نہیں ہے۔۔
میری پوری آخرت کی بات ہے۔۔"، پلکوں پر کچھ قطرے نمودار ہوئے۔

"اللہ اکبر، اللہ اکبر۔۔"، قریبی مسجد سے اذان گونجنے لگی۔

"اللہ اکبر۔۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔۔
اف !! بےشک اللہ سب سے بڑا ہے، سب سے پہلے بھی ہے، اور سب خواہشات سے اوپر بھی ہے۔۔"،عمر دل ہی دل میں بےاختیار کہہ اٹھا۔

"آج مجھے بھی ایک بدر لڑنی ہے۔۔ ایک اُحد پر قربان ہونا ہے۔۔۔ پر میری دفعہ میدان میرا دل بنا ہے۔۔
ہر خواہش قربان ہے تُجھ پر میرے اللہ۔۔ اس دل پر آج میں خود چھُری چلا دوں گا۔۔"، دُکھ سے آواز رند گئی

* تم کیا جانو کہ ادائے ابراہیمی کیا ہے
رب کی رضا کی خاطر خود کا دل دُکھا دینا *

* * * * * * *

(ایک سال بعد۔۔)

"آئیں نا پہلے کھانا کھا لیں پلیز۔۔"، آمنہ محبت سے اپنے شوہر سے گویا تھی۔

"ابھی ایک گھنٹے تک کچھ نہیں کر سکتا آمنہ، آج واقعی بہت کام ہے"، عمر نے لیپ ٹاپ تھوڑا اور قریب کرتے ہوا جواب دیا۔

"۔۔میں نے بھی ابھی تک کچھ نہیں کھایا کہ آپ کے ساتھ ہی کھاؤں گی۔۔"، آمنہ نے کچھ دیر خاموشی سے پاس بیٹھنے کے بعد دھیمی سی آواز میں کہا۔

"کیا۔۔؟ ارے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔؟؟"، عمر نے سب کام چھوڑ کر اپنا رُخ پوری طرح اپنی بیوی کی جانب پھیر لیا۔

"۔۔اور اب بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔"، آمنہ نے سوال نظر انداز کرتے ہوئے دُکھی سا منہ بنایا۔

"ہاہاہا۔۔ "، عمر اپنی ہنسی نہ روک سکا۔

"حیرت ہے میڈم کو تو ایک منٹ بھوک برداشت نہیں ہوا کرتی، آج تین گھنٹے کیسے گزار لیے؟؟"

آمنہ بھی مسکرا دی۔ "لگاؤں پھر کھانا؟"

"جی جناب، ملکۂِ عالہ بھوکی ہوں اور ہم خیال نہ کریں، ایسا ممکن ہے بھلا؟"، عمر شرارتاً اس سے گویا تھا۔ لیپ ٹاپ اب بند کر چکا تھا اور چارجر اتار کر واپس رکھ رہا تھا۔

آمنہ شرماتی آنکھوں سے ہنستے ہوئے کچن کی جانب چل دی۔

سعدیہ کے ٹھکرا دینے کے معاملے کو ایک سال بِیت چکا تھا۔ عمر نے اپنی منگیتر اور سُنت کی داڑھی میں سے سنت کو چُنا تھا۔ اس فیصلے پر وہ دنیادار لوگوں کی نظر میں بےوقوف ترین ٹھہرا تھا، اپنوں، حتٰی کے والدین تک کے طعنے اور گالیاں سنی تھیں ، اور خاندان والوں کی باتیں الگ۔۔

*خاندان والے کتنی باتیں بنائیں گے۔۔ داڑھی جب تک ہے کوئی اچھا رشتہ نہیں ملے گا۔۔ تم نے تو ذلیل کر دیا ہے بوڑھے ماں باپ کو اپنی ضد کی خاطر۔۔* وغیرہ وغیرہ جیسی باتیں پورا ایک سال اکیلا ہی سنتا رہا۔ جس کا جو دل میں آیا کہتا رہا۔ لیکن عمر کا فیصلہ ایک دن کے لیے بھی نہ بدلا۔ ہاں تکلیف تو بہت ہوتی تھی ایسے رویوں سے لیکن اللہ کا قرآن اور ذکر ایسی چیزیں تھیں جو اسکی ہمت بنی رہیں۔ سچ ہے نماز اور ذکر نہ ہو تو انسان تو پاگل ہی ہو جائے۔
اللہ نے ایسے صبر پر استقامت بھی پھر کمال کی عطا کر دی تھی۔ حقیقی بات ہے کہ وہ رب اپنی خاطر اُٹھے انسان کو کبھی مرنے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑ دیتا۔ لیکن اس لیول پر آنے کے لیے پہلا قدم خود اُٹھانا پڑتا ہے۔ ثبوت دینا پڑتا ہے کہ واقعی آپ کے لیے اللہ ہی سب سے زیادہ قیمتی ہے۔۔ اس کے بعد ڈرپوک سے ڈرپوک تریں انسان کا دل بھی پہاڑ کی طرح مضبوط ہو جاتا ہے۔ اسے وہ مضبوطی عطا کر دی جاتی ہے جو اس کے قدموں کو رب کے رستے پر جما دے ، اسطرح کہ پھر دنیا کی کتنی بھی سخت ہوائیں چلیں اسے گرا نہیں سکتیں، اس رستے سے ہٹا نہیں سکتیں۔۔
لیکن اس راہ پر صرف دکھ ، تکلیف اور محرومیاں ہی نہیں ملتیں بلکہ انسان وقتاً فوقتاً انعام سے بھی نوازا جاتا ہے۔۔ جیسے آج عمر کو نوازا گیا تھا۔ عرصے کے گھُپ اندھیروں اور طوفانوں کے بعد اسکی کشتی کو بھی کنارے لگا دیا گیا تھا۔ اسے آمنہ جیسی ایمان والی، محبت کرنے والی، شرم و حیا والی ایک پردہ دار، خوبصورت بیوی عطا کر دی گئی تھی۔ سعدیہ کو اللہ کے لیے کھو دینے پر اس کو دنیا میں ہی جنت سی دے دی گئی تھی۔ عمر کو کبھی کبھی لگتا تھا جیسے اللہ نے اسکی ساری فِیلِنگز کو سمیٹ کر ایک انسان کا رُوپ دے دیا ہو، آمنہ کے نام سے۔ جیسے وہ حقیقتاً کوئی انسان نہیں تھی بلکہ عمر کی ضرورتوں کا جوابی عکس، اسکی آنکھوں کی ٹھنڈک، اسکی روح کا سکون۔۔
جبکہ دوسری جانب، سعدیہ، اسے ٹھُکرا دینے پر آج بھی کنواری بیٹھی تھی۔
وہ شاید بھول گئی تھی کہ جسے ایک داڑھی سمجھ کر ٹھُکرا رہی تھی، وہ محض ایک داڑھی نہیں تھی، بلکہ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ اصل میں توہین اس نے عمر کی نہیں کی تھی بلکہ اللہ اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کی تھی۔ اور یہ کوئی چھوٹا جُرم نہیں تھا۔ سعدیہ کی طرح آج کتنے ہی نام نہاد مسلمان داڑھی، پردہ، ٹخنوں سے اوپر پائنچے اور دین کی دوسری کئی باتوں کے لیے کتنے آرام سے نفرت آمیز رویے کا اظہار کرتے رہتے ہیں، ان پر عمل کرنے والوں کا مزاق اُڑاتے رہتے ہیں۔۔ یہ سوچے بِنا کہ ان کا یہ سب کرنا انکو تباہی کے کس کس گڑھے میں پھینکتا جا رہا ہے، انھیں تباہ و برباد کرتا جا رہا ہے۔۔ زندگی سے سکون ایسے ہی نہیں چھِن گیا ایسے لوگوں کے !!

نبی کے صحابہ کے رستے پہ چل کے
دلوں کا سکوں ہم نے حاصل کیا ہے
لگا ہے نشہ جب سے جنت کا ہم کو

اُچاٹ اپنا جی اس جہاں سے ہوا ہے۔۔

حوا کی بیٹی تماشہ نہیں Hawa ki Beti Tamasha Nahi Hai A Beautiful Urdu Complete Novel

 __حوا کی بیٹی تماشہ نہیں__
( مکمل ناول )
حوا کی بیٹی خود کھلونا نہ بنے تو___
آدم کے بیٹے کی مجال ہے جو اس سے کھیلے___
قارئین کرام آج میں آپکے سامنے ایک اور سچی کہانی گوش گزار کررہی ہوں اس کہانی کو پیش کرنے کا مقصد ان حقائق سے پردہ اٹھاناہے جس سے ہمارا معاشرہ ان دنوں دوچار ہے اور جب یہ واقعہ پیش آیا تو میں سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ لوگ بیٹی کی پیدائش پر کیوں آنسو بہاتے ہیں حالانکہ بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں،
جو بیٹوں کی نسبت والدین کا زیادہ خیال رکھتیں اور ان کے دکھ درد کو سمجتی ہیں مگر پھرآگہی کے در وا مجھ پہ یوں ہوئے کہ وہ کیوں بیٹی کی پیدائش پہ اتنے دکھی اور اداس ہوجاتے ہیں انہیں بیٹیاں بری نہیں لگتی وہ ان کے نصیب سے ڈر جاتے ہیں کیونکہ بیٹی کے نصیب کو تو بادشاہ بھی خزانے دے کر نہ بدل سکا۔۔۔،
بیٹیاں کسےاچھی نہیں لگتی والدین اپنی بیٹیوں کو سب کچھ اپنی بساط سے بڑھ کر دے سکتے ہیں۔
اگر نہیں دے سکتے تو انکو اچھا نصیب نہیں دے سکتے موجودہ زمانے میں ہمارے معاشرے میں جو سسٹم رائج ہوچکا ہے اس کی رو سےاچھی بھلی لڑکیاں اچھے رشتوں کی آس میں گھروں میں بیٹی بوڑھی ہورہی ہیں۔۔۔،
کیوں کہ لڑکے والوں کی ترجیحات کچھ زیادہ ہی حد سے تجاوز کرچکی ہیں رشتے نیک سیرتی اور اچھے اخلاق کی بناپر نہیں لالچ اور خودغرضی کی بنیاد پر قائم کیے جارہے ہیں،
معاشرے کے ان بدصورت رویوں کی تلافی کیونکر ہوممکن۔۔
۔کہ ہم خود ہیں گونگے بہرے تماشائی ۔ ۔ ۔
میں کڑھتی ہوں یہ سب دیکھ کر۔
میرا دل خون کے آنسو ہے پیتاکہ جب میں بے بس و مجبور والدین کو سمجھوتے کا زہر پیتے دیکھتی ہوں کہ کسی طرح انکی بیٹی اپنے گھر کی ہوجائے،
میں لرز کر رہ جاتی ہوں تب جب مجبور لوگ اپنی بیٹی کا گھر بسانے کی خاطربے حس اور مطلبی لوگوں کے جائزوناجائز مطالبے مانتے ہیں۔۔۔،
زمین کے ان ناخداوں کو خبر نہیں شاید کہ ان کی پکڑ کتنی سخت ہوگی جب قادر مطلق ان جیسے لوگوں پہ اپنی گرفت کرےگا۔۔۔،
میری دعا ہے کہ اللہ پاک اگر کسی کو بیٹی دے تو اسکا نصیب بہت بہت اچھا کرے آمین کیونکہ بیٹی چاہے غریب کی ہو چاہے امیر کی بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے۔۔۔،
اور میں سلام پیش کرتی ہوں اس جرآت مند بیٹی کو جس نے لالچی لوگوں کے لالچ کے آگے سر خم تسلیم کرنے کی بجائے ان خودغرض لوگوں کو ایسا آئینہ دیکھایا کہ انکی آنے والی نسلیں تک اس میں اپنے آباواجداد کے مکروہ چہروں کا عکس دیکھیں گے۔۔۔،
مجھے تو اس لڑکی کا فیصلہ پسند آیا کیا آپکو پسند آیا ؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس لڑکی کا فیصلہ صیح تھا یا پھر غلط یہ آپ لوگ بتائیں گا۔۔۔،؟
کیونکہ ظلم کرنے والا اور ظلم سہنے والا دونوں ظالم کہلاتے ہیں۔۔۔۔،
یہ کہانی ملک پور گاؤں کی شمسہ کی کہانی ہے یہ کہانی صرف شمسہ ہی کی نہیں بلکہ ہر اس لڑکی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے جسے ایسے ہی حالات کاسامنا کرنا پڑتاہے مگر وہ اپنے والدین کی بےبسی اور مجبوریاں دیکھتے ہوئے جبر کا طوق اپنے گلے میں پہن لیتی ہیں مگر شمسہ نے ایسا نہیں کیاوہ باطل کے سامنے جھکنے والوں میں سے نہیں بنی بلکہ حق کی خاطر ڈٹ گئی۔۔۔۔،
____
لوآپو تم یہاں بیٹھی ہو؟
میں تمہیں کہاں کہاں نہ دیکھ آئی۔۔۔
کنول نے ایک ہاتھ کمر پہ ٹکا کر اور دوسرا ہاتھ نچاکر شمسہ کو بے یقینی سے تکا۔۔۔
کیوں سب خیریت ہے؟
شمسہ نے حیرانی سے دیکھا۔۔۔
جی آپو سب خیریت ہے اور اماں آپکی خیریت مطلوب چاہتی ہیں کنول غیر سنجیدگی سے بولی۔۔۔
اوہو کیا کہنا چاہ رہی ہو صاف لفظوں میں کہو؟
وہ چڑ ہی گئی۔۔۔
لو جی آپو صاف لفظوں میں یہ کہ ادھر گھر میں آپ کی شادی کے چرچے ہورہے ہیں اور ادھر آپ مزے سے پینگ پہ بیٹھی جھولے جھول رہی ہو کنول نے بات کے آخر میں دانت نکالے۔۔۔۔
تو کیا کروں اس صدمے سے جھولے لینا چھوڑ دوں؟
وہ تیز تیز پینگ جھولتی ہوئی لاپرواہی سے بولی۔۔۔
نہیں میں نے ایسا تو نہیں کہا آپو رانی ۔ ۔
میں تو یہ کہنے آئی تھی کہ چل کر اماں کی خدمت میں حاضری لگالو بہت دیر سے یاد فرمارہی ہیں وہ شرارتی لہجے میں بولی۔۔۔،
اف ایک تو جب بھی میں پینگ یر بیٹھتی ہوں اماں کو زمانے بھر کے کام یاد آجاتے ہیں کبھی آٹا گوندھنا ہوتا تو شمسہ یاد آجاتی تو کبھی کپڑے دھونے ہوں تو شمسہ کی ڈونڈھیا مچ جاتی ہے،
کبھی سلائی کبھی کڑھائی ہر کام میں اماں کو میری ہی کمی محسوس ہوتی ہے اماں کو میری یاد تو ستاتی ہے پر انہی کاموں کے لیے وہ فرفر بول کر آخر میں منہ پھلاکر کنول کو دیکھنے لگی۔۔۔۔،
اور بی اے تو میں نے جھک مارنے کے لئے کیاتھا اس ڈگری کا فائدہ تو کوئی حاصل ہونا نہیں اچار ہی ڈالونگی شاید اسکا وہ پینگ کی رفتار آہستہ کرتی ہوئی پاوں سےروک کر اچھل کر اتری۔۔۔۔"
توبہ ہے آپوشروع ہی ہوجاتی ہوتم تو۔
اماں نے کام کے لیے نہیں بلایا کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔مجھے تو اماں نے یہی کہا تھا کنول نے دونوں گالوں پہ ہاتھ مار کر اسکی برق رفتاری سے چلتی زبان ملاحظہ کی اور نروٹھے پن سے بولی۔۔۔
اچھا نا چلو وہ کمر کے گردبندھے ڈوپٹے کی گرہ کھول کر سلیقے سے اوڑھ کر بولی۔۔۔"
جی اماں آگئی میں بولو اب وہ ایسی کیا ضروری بات تھی جو اپنا قاصد ہنگامی حالت میں میرے پیچھے روانہ کردیا تھا،
اس نے اپنے دھیان بیٹھی ماں کو پیچھے سے جالیا اور کمر پہ لاڈ سے بازو باندھے۔۔"
آے ہائے شمسہ ہٹ پیچھے اتنی مشکل سے سوئی میں دھاگہ ڈالا تھا نکل گیا پھر شمسہ کی ماں اسکی حرکت پہ جھنجھلا گئی۔۔۔
اماں عینک لگا کر بھی آپ سے سوئی میں دھاگہ نہیں ڈلتا لاو دو مجھے میں اور کنول کس مرض کی دوا ہیں وہ ماں کی عینک اتار کر ایک طرف رکھنے کے بعد اس کے ہاتھ سے سوئی دھاگہ لیکر شرارت سے بولی۔۔۔"
مخول کرتی ہے ماں کے ساتھ پڑھ لکھ کے بڑی باتیں بنانا آگئی ہیں ماں کو طعنے مارے گی وہ خفگی سے دیکھ کر بولی،
اماں ناراض نہ ہوا کرو آپ تو میری بیوٹی کوئین ہو وہ ماں کو آنکھ مارتے ہوئے بولی۔۔"
دیدوں کا پانی مرگیا ہے کیا ؟
شرم نہیں آتی ایسے لوفرانہ انداز میں ماں کو آنکھ مارتے ہوئے شمسہ کی اس حرکت پر اس کی ماں چراغ پا ہوکر بولی۔۔۔،
اوہ میری پیاری اماں ماں کو ہی آنکھ ماری ہے نا؟
گلہ تو تب بنتا جب کسی غیر کو دیکھ کر آنکھ مارتی وہ غیر سنجیدگی سے ہنسی دباکر بولی۔۔۔"
اور یہ لو ڈل گیا دھاگہ پکڑو اب اسے ۔
اس نے جھٹ پٹ سوئی میں دھاگہ پرو کر ماں کو تھمایا
اسے چھوڑ اور ادھر آ میری بات سن شمسہ کی ماں نے اسکی بے فضول بات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سوئی سلائی مشین میں رکھی اور اسکا ہاتھ تھام کر پاس بٹھالیا
مذاق چھوڑ اور سنجیدگی سے میری بات سن وہ جو پچھلے ہفتے جھنڈا والا گاؤں سے لڑکے والے آئے تھے نا تجھے دیکھنے۔۔۔"
شمسہ کی ماں نے تہمید باندھی
جی اماں وہ مودب ہوئی
تیرے ابا بتارہے تھے تو انہیں بہت پسند آئی ہے کل وہ باقاعدہ رسم کرنے آرہے ہیں شمسہ کی ماں نے مسکراتے ہوئے دیکھا۔۔۔"
لڑکا اچھا ہے لوگ بھی بھلے مانس ہی لگے ہیں اور سب سے بڑھ کر انہوں نے جہیز کے نام پر کچھ بھی نہیں مانگا مجھے اور تیرے ابا کو تو کوئی اعتراض نہیں،
تو بتا تجھے کوئی اعتراض ہے اسکی ماں نے بغوردیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔"
اماں مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے اسے ڈھیروں شرم آئی
تو پھر کل ہم بلالیں نا؟
اسکی ماں نے تصدیق چاہی۔۔
جی اماں جیسا آپکو مناسب لگے جو آپ دونوں کا فیصلہ ہوگا میری سر آنکھوں پر اماں وہ سرجھکا کر شرمیلی مسکراہٹ سے بولی۔۔"
اب آپ نے مجھے گھر سے نکالنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو میں کیا کرسکتی ہوں سوائے بے زبان گائے کی طرح سرہلانے کے۔
وہ ایک دم اپنی پرانی جون میں آتے ہوئے بولی
جیتی رہ میری فرمانبردار بچی اللہ تیرے نصیب اچھے کرے
ہیں ہیں یہ تو کیا بولی اسکی سعادت مندی پہ نثار ہوتی ماں کو ایک دم سے اسکے آخری الفاظ چونکاگئے۔۔"
وہ ہنس رہی تھی۔۔
دھی رانی چنگی(اچھی ) تو تو بہت ہے بس کبھی کبھی میں تیری اس گز بھر لمبی چلتی زبان سے خائف ہوجاتی ہوں اسکو قابو میں کر اب تجھے اگلے گھر جانا ہے اور سسرال کا معاملہ تجھے پتہ نازک ہوتا ہے سمجھ رہی ہے نا میری بات وہ سنجیدگی سے سمجھا رہی تھی اسے۔۔۔
اماں آپ کیوں فکر کررہی ہو؟
میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ کہاں بولنا ہے اور کہاں چپ رہناہے وہ شرارت بھرے لہجے میں بولی۔۔۔
ارے فکر کیسے نہ کروں یہی تو مسلئہ ہے تو تو وہاں بھی بول پڑتی ہے جہاں نہیں بولناہوتا شمسہ کی ماں نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا۔۔
یاد ہے نا؟
رخشندہ کے پوتے کی سالگرہ پہ تو نے کیا کیا تھا اماں نے اسے یاد دہانی کرائی،
ہاں تو اماں کچھ غلط نہیں کہا تھا وہ رخشندہ چچی اپنی بہو طوبی کو بے نقط سنارہی تھی وہ بھی ناجائز ۔سارے کام کا بوجھ بھی اس بیچاری کے سر پر لدا ہوا تھا اور ذلیل بھی اسے ہی کیاجارہا تھا اور اپنی تینوں بیٹیاں مہارانیاں بنی پیر پسارے مزے سے بیٹھی تھیں،
گلاس توڑا پوتے نے شامت بہو کی آگئی وہ تو مصروف تھی اسکا کیا قصور کہ بھری محفل میں سب نے اسے بولنا شروع کردیا۔۔۔
رخشندہ چچی کو اگر میں نہ چار سناتی تو آج طوبی سکون میں نہ ہوتی کیسے سب نادم ہوئے تھے وہ جوش بھرے لہجے میں بولتی چلی گئی۔۔۔"
اور اب سنا ہے اس دن کے بعد سے طوبی پہ تقدیر کے ساتھ ساتھ سسرال والے بھی مہربان ہوگئے وہ دبی دبی سی ہنسی ہنس کر بولی۔۔۔
تو نے تقریر ہی ایسی کی تھی کہ سب نے دانتوں تلے انگلیاں دے لی تھی اور رخشندہ کے تو ہوش ٹھکانے آگئے تب سے اماں بےساختہ ہنسی،
ہاں نا اماں حق بات کہنے میں کیسی جھجک مجھے اس وقت جو ٹھیک لگا میں نے کیا اس وقت ایک طرف طوبی اور دوسری طرف اسکا سارا سسرال تھا کوئی بھی تو اس مظلوم کے ساتھ نہیں کھڑا تھا،
بیچاری سر جھکائے سب کی سن رہی تھی بہت دکھ ہوا تھا مجھے ۔۔ ۔ ۔ خیر اب تو اس دن کے بعد سے طوبی کی زندگی آسان ہوگئی آپ نے خود دیکھا ہے نا اس نے تائید چاہی
اوفوہ تو نے مجھے کن باتوں میں لگادیا چھوڑ فضول باتیں کام کی بات کر کل مہمانوں کے لیے کیا بناناہے بتا اماں نے بات پلٹی۔۔۔
ہاں اماں سوچ لو ملکر بنالیں گے وہ بھی اثبات میں سر ہلاکر بولی۔۔۔
اگلے دن لڑکے والے منگنی کی رسم کرنے پہنچ گئے شمسہ نے ہلکے گلابی اور فیروزی امتزاج کا دیدہ زیب سوٹ پہن رکھاتھا۔۔۔"
ہلکے سے میک اپ نے اسکے روپ کو چار چاند لگادیے تھے
کنول نے اسے لاکر مہمانوں میں بیٹھا دیا۔۔۔"
شمسہ شرمائی لجائی ان کے درمیان آکر بیٹھ گئی بظاھر تو لوگ اچھے ہی لگ رہے تھے پھر لڑکے کی ماں نے شمسہ کو خوبصورت سی انگوٹھی پہنائی سب کا منہ میٹھا کرایا گیا اور ہنستے مسکراتے منگنی کی رسم اختتام پذیر ہوئی۔۔۔۔"
______
آپو خوش ہو نا؟
کنول نے اسکے دمکتے ہوئے روپ کو دیکھا
ہاں میری بہن خوش ہوں میں وہ آئنیے میں اپنے سجے سنورے روپ کو دیکھ رہی تھی مسکرا کر بولی
آپو ویسے بڑی ہی سوہنی لگ رہی تھی تو آج۔کسی کی نظر نہ لگے کنول نے پیار بھری نظروں سے دیکھا۔۔۔
اچھا ۔۔ ۔ ۔میری کنول بھی تو کچھ کم نہیں لگ رہی تھی ویسے وہ چوڑیاں اتارتے ہوئے مسکرا کر بولی
ہیں سچی۔کنول نے بے یقینی سے دیکھا
آہو مچی وہ اسی کے انداز میں بولی
اور دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑی۔۔۔۔"
کنول اری او کنول اماں کی آواز آئی
جاو کنو ل اماں بلارہی ہیں اس نے میک اپ صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اچھا آپو جاتی ہوں نا وہ تھکی تھکی سی اٹھی مگر دو منٹ بعد ہی واپس بھی آگئی آپو جی اماں نے آپکو یاد کیا ہے وہ آکے دھپ سے چارپائی پر بیٹھی اور ٹانگیں جھلانے لگی۔۔۔
مجھے ؟؟
ابھی تو باہر سے آئی ہوں ایک ہی پوز میں بیٹھ بیٹھ کر کمر اکڑ گئی تھی اس نے حیرت سے دیکھا اب کیا کام یاد آگیا اماں کو آج تو رعایت دے دیتی وہ ہنسی۔۔۔۔"
پتہ نہیں پوچھ لو جا کے میں تو سونے لگی کنول نے شانے اچکا کر لاعلمی کا اظہارِ کیا۔۔۔
اچھا میں دیکھتی ہوں اس نے سائیڈ پر پڑا ڈوپٹہ اٹھایا اور باہر نکل گئی۔۔۔"
میں صدقے جاواں اپنی سوہنی دھی دے آج میری دھی اتنی سوہنی لگ رہی کہ میں نے نظر وار کے چولہے میں ساڑی۔شمسہ کی ماں نے اسکا ماتھا چوما،
شمسہ جب سے تجھے دیکھا ہے وہ لوگ تو مانو باولے سے ہورہے ہیں جلدازجلد شادی کرنا چاہتے کہتے بس اب ہمیں رخصتی کا وقت دے دو وہ بھی ایک ماہ کے اندر اندر ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ان لوگوں کا فون آیا تھا تیرے ابا نے تو ہاں بھی کردی میں نے کہا تجھے بھی بتادوں۔۔۔۔"
اماں اتنی جلدی وہ اس اچانک افتاد پہ گھبرا گئی
اوہ کوئی جلدی نہیں اللہ کادیا سب کچھ تو ہے ہمارے پاس تیرا جہیز بھی تیار ہے تو پھر کاہے کی دیری؟
ایک مہینے کے اندر ہی باقی تیاری ہوجائے گی۔۔۔،
اور جو تونے کچھ خریدنا ہے تو فہرست بنادے لے دونگی شمسہ کی ماں تو ہتھیلی پہ سرسوں جمائے بیٹھی تھی
اماں میں کیا کہہ سکتی ہوں جب سب کچھ آپ لوگوں نے پہلے ہی سے سوچ رکھا ہے وہ دھیمے لہجے میں بولی
اچھے قدر کرنے والے لوگ ہیں اتنے ارمانوں سے بیاہ لے جارہے ہیں دیر کیا جلدی کیا شادی تو کرنی ہی کرنی ہے نا۔
تو نہ کر فکر کسی بھی قسم کی ہم ہیں نااسکی ماں نے تسلی دی۔۔۔۔"
جی اماں ٹھیک ہے شمسہ نے اثبات میں سرہلایا وہ اس بات پہ حیران بھی تھی اور پریشان بھی مگر ماں پہ ظاہر نہ ہونے دیا۔۔۔
____
اکلی کلیکلی پگ میرے ویر دی ڈوپٹہ میرے پائی دا فٹے منہ جوای دا
کنول اور اسکی سہیلی کھلکھلا کر ککلی ڈال رہی تھیں
شمسہ مایوں کے پیلے جوڑے میں سرجھکائے بیٹھی انہماک سے مہندی لگوا رہی تھی اور گاہے بگاہے انہیں بھی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
شمسہ کے ابا کتنی رونق لگی ہے نا؟
شمسہ کی ماں دمکتے چہرے کے ساتھ بولی۔۔۔
آج شمسہ کی مہندی کی رات تھی
ہاں شمسہ کی ماں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا ابھی کل کی بات تھی شمسہ اس آنگن میں کھیلتی کودتی تتلیاں پکڑتی اور میرے پیچھے پھراکرتی تھیں،
اور آج اس گھر میں اسکی آخری رات کل یہ رخصت ہو کے پیا گھر چلی جائے گی جس کی چہکار سے یہ آنگن گونجا کرتا تھا کل یہ آنگن سوناکر جائے گی وہ اداس لہجے میں بولا۔۔۔۔"
ایسے نہ بولو شمسہ کے اباآج تو ہماری دھی رانی کے ہاتھوں میں شگنوں کی مہندی لگی ہے اور یہ وقت تونصیب والوں پہ آتا ہے۔۔۔
بیٹیاں تو ہوتی ہی پرایا دھن ہیں ایک نہ ایک دن تو انہیں جانا ہی ہوتا ہے بس دعا کرو شمسہ اپنے گھر خوش رہے اداس تو وہ بھی ہورہی تھی مگر خود کو سنبھال کر خاوند کی دلجوئی کررہی تھی۔۔۔۔"
میرا تو لوں لوں اپنی دھی رانی کےلیے دعا گوہے نیک بختے وہ نمناک آنکھوں سے شمسہ کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
شمسہ کی سہیلی اسکے کان میں ہولے سے کچھ کہہ رہی تھی اور وہ شرمیلی مسکان سے جواب دے رہی تھی۔۔۔
ساڈا چڑیاں دا چنباں وے بابل اساں اڈھ جانا ساڈی لمبی اڈاری وے اساں مڑ نہیں آونا۔
اچانک ڈھولکی کی تھاپ کے ساتھ یہ گانا چھیڑ دیا گیا شمسہ نے چونک کر دیکھا اور اپنے ماں باپ کو دور کھڑے اپنی جانب نچھاور ہوتی نگاہ سے تکتا دیکھ کر اسکی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔۔۔۔
اسکے ماں باپ لپک کراسکے پاس آئے اور باپ نے کانپتا ہاتھ اس کے سر پہ رکھ دیا ماں نے بھی سینے سے لگایا کنول بھی سب چھوڑ چھاڑ آکر ساتھ لگ گئی اور سب آنکھیں نمناک ہوگئیں یہ منظر دیکھ کر ۔۔۔۔"
اگلے دن شمسہ پہ ٹوٹ کر روپ آیا لال لہنگے میں نفاست سے کیے میک اپ میں وہ پہچانی ہی نہ جارہی تھی اسکی ماں کی جب جب نگاہ پڑتی تب تب بلائیں لینے لگتی تھی اور پڑھ پڑھ کر پھونکتی تھی۔۔۔
آج اسکے گھر والوں کے لیے کڑا وقت تھا کیونکہ آج انکی لختِ جگرکی رخصتی کا دن تھا،
بارات آگئی بارات آگئی کنول اپنی سکھیوں کے ساتھ شور مچاتی ہوئی آئی۔۔۔
ماشاءاللہ بھائی جی بھی بڑے سوہنے لگ رہے ہیں کنول نے پاس آکر نظریں جھکائے بیٹھی شمسہ کےکان میں کہا
چپ جھلی نہ ہو تو اس نے گبھراکر نظریں دوڑائیں اور اطمینان کا سانس لیا کمرے میں دونوں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔۔۔"
سچی بڑی سوہنی جوڑی لگے گی کنول نے آنکھ ماری
پھر نکاح کا مرحلہ تو باخوبی طے ہوگیا مگر اچانک سے باہر سے ملی جلی آوازوں کا شور اٹھا کنول کیا ہوا ہے باہر اس نے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا جو انجانے خدشے کو محسوس کرتا ہوا تیزی سے ڈھرکنے لگا تھا۔۔۔۔"
پتہ نہیں آپو میں دیکھتی ہوں جاکر وہ بھی پرپشانی سے سن گن لینے باہر نکلی۔۔۔۔
اللہ خیر اسکے منہ سے بمشکل ادا ہوا،
دیکھو بھائی جی ہم نے آپ سے کسی قسم کا کوئی مطالبہ کیا ؟نہیں نا۔بس اک نکی سی خواہش کا اظہار ہی کیا ہے ناتو اس میں کیا برائی ہے اور آپ خود سوچو آپ کی بیٹی کے کام آئے گی نا دولہے امداد کا باپ مونچھوں کو تاو دیتا ہوا مکاری سے بولا۔۔۔
آپ لوگوں نے پہلے تو ایسی کوئی بات نہ کی تھی یہی کہتے رہے کہ ہمیں بہو کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے اب عین رخصتی کے وقت ایسا مطالبہ ٹھیک ہے کوئی مسلہ نہیں آپ ابھی رخصتی تو کرایں گڈی میں بعد میں لے کر پہنچا دونگا شمسہ کے باپ نے دل ہی دل میں پیچ وتاپ کھاتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں بھائی جی۔ ۔ ۔یہ تو ممکن نہیں گڈی چاہیے تو ابھی نہیں تو ہم لڑکی کو رخصت کراکے نہیں لے جائیں گے شمسہ کے سسر نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی وہ کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہ تھا شاید۔۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ویر جی؟
میری بیٹی کا قصور کیا ہے جو آپ لوگ اس معصوم کے ساتھ ایسا کررہے ہو،
شمسہ کی ماں نے تڑپ کر آگے بڑھی اور بولی
بہن جی کیا کریں ہم بھی مجبور ہیں لڑکا نہیں مانتاہم نے تو جہیز کے نام پہ اک شے نہیں مانگی بس آپکے جوائی کی یہ چھوٹی سی فرمائش ہے آخر یہ اب آپکا ہی تو بیٹا ہے نا۔دولہے کی بھاری بھرکم جسامت کی ماں مسکین سی شکل بناکر بولی جیسے کوئی معمولی بات ہوگئی ہو۔۔۔
پتر تو ہی کجھ بول شمسہ کی ماں نے آس بھری نگاہ داماد پر ڈالی پر وہ نگاہیں چراکر منہ پھیر کر بیٹھ گیاشمسہ کی ماں اپنا سا منہ لیکر رہ گئی۔۔۔"
شادی میں آئے مہمان اس اچانک صورتحال کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے تھے کچھ نے تو لڑکی والوں کی حمایت میں بولنا شروع کردیا تو کچھ حاسد مخالفت میں بھی پیش پیش تھے کچھ نے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی
غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔
میری عزت کا سوال ہے جی کچھ خدا کاخوف کرو میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں شمسہ کا باپ منت سماجت پہ اتر آیا
ہاں بھائی صاحب گڈی لےکر بیھج دیں گے آپ خیری صلا رخصتی تو کروایئں۔۔۔
شمسہ کی ماں نے بھی عاجزی سے کہا
نہ جی اب تو بات پورے پنڈال میں پھیل گئی ہے میرا شریکہ برادری ہے سب دیکھ اور سن رہے ہیں مجھے اپنا مذاق نہیں اڑواناآخر کو میری بھی عزت کا معاملہ ہے شمسہ کا سسر کمر پہ ہاتھ باندھ کر سرد لہجے میں ہٹ دھرمی سے بولا۔۔۔"
شمسہ کی ماں مہمانوں کی سیوا کرو کوئی کمی نہ رہے خاطر داری میں میں آتا ہوں،
شمسہ کے باپ نے لرزتی آواز سے کہا۔۔۔
اچھا پتر میں ھنی(ابھی)لے کے آیا اس کے باپ نے فٹ سے اٹھ کر سیف سے پیسے نکالے اور باہر نکل گیا
بھائی جی کہاں گئے آئے نہیں ابھی تک دولہے کی ماں اپنے تھل تھل کرتے وجود کےساتھ تیزی سے شمسہ کی ماں کی طرف آئی۔۔۔،
جی آتے ہی ہونگے گڈی لینے گئے ہیں ایتھے کول ہی قیمتی گڈیاں دی ورکشاپ اے۔
شمسہ کی ماں نمناک آنکھوں سے اس بےحس عورت کی طرف دیکھ کر بولی جو مزے سے بوتل کے سپ بھر رہی تھی اور جو ابھی ابھی شمسہ کی ماں نے مزید منگواکر سرو کرائی تھی۔۔۔"
اے لو پتر پھڑو گڈی دی چابی تے ہن رخصتی کرالو شمسہ کے باپ نے بغیر کسی تاثر کے چابی دولہے کو تھمائی
گاڑی کی چابی دیکھ کر دولہے کے گھر والوں کے بگڑے تیور ہی بدل گئے اور ساتھ ہی ان سب کی باچھیں چر کر کانوں سے جالگیں۔۔۔
شادی والے گھر میں جو سوگواری سی چھاگئی تھی وہ اب خوشی کی لہر میں تبدیل ہو گی تھی،
ہاں ہاں کیوں نہیں کھتے اے میری دھی رانی شمسہ لیاو اوس نوں فٹافٹ ۔
شمسہ کی چربی زدہ بھدی ساس شہد آگیں لہجے میں مکاری سمو کر بولی،
دولہا بھی ذیر لب مسکرا رہا تھا اور دولہے کے باپ کی تنی ہوئی گرد میں اور اکڑ پیدا ہوگئی تھی اپنی فتح پہ۔
شمسہ کو دولہے کے پہلو میں لاکر بیٹھایا گیا دودھ پلائی کی رسم ہوئی اور پھر شمسہ کو آنسوؤں اور سسکیوں کے درمیان دعاؤں کے حصار میں کلام پاک کے سایے تلے گاڑی میں بیٹھا کر رخصت کردیا گیا۔۔۔"
بارات ملک پور سے روانہ ہو کر جھنڈا والا گاؤں کی طرف چل پڑی دولہے کی ماں وقتاً فوقتاً دلہن سے لاڈ پیار کا عظیم الشان مظاہرہ کر رہی تھی شمسہ بےتاثر نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔۔
جب بارات لڑکے کے گھر کے باہر پہنچی تو لوگوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہونے لگا سب لوگ وفورِ اشتیاق سے نئی نویلی دولہن اور نیو برانڈڈ کار کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
شمسہ کی ساس باہر نکلی اسکے سسسر نے مغرور سی نگاہ اطراف میں ڈالی اور گاڑی کا دروازہ بند کیا لوگ انکی قسمت پہ رشک کرہے تھے اور وہ خود خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے کہ۔ ۔ ۔ ۔
اچانک سے سارا منظر ہی بدل گیا۔۔۔۔
دھی رانی آ بسم اللہ گاڈی وچوں پیر بار لا شمسہ کی ساس نے ہاتھ بڑھایا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی،
اے دلہن کیا ہوا اتر بھی جاؤ اس کی ساس بگڑ کر بولی
مگر وہ کچھ نہ بولی نہ ہی جسم کو کوئی جنبش دی
اماں ہٹو میں اتارتا ہوں امداد نے اپنی طرف سے ہیرو بنتے ہوئے کہا اور شمسہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر پیار سے پکارا
مگر اس نے سننا تو دور کی بات اپنے مجازی خدا کی طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا وہ جزبز ہوکر رہ گیا۔۔۔
کیا بات ہوگئی بٹیا رانی گاڑی سے کیوں نہیں اتررہی دولہے کا تایا گلا کھنکارکر بولا اور دو قدم آگے بڑھا
دھی رانی اتر بھی جاوسب تمہارے سواگت کے لیے کھڑے ہیں دولہے کے تایا نے شفقت سے شمسہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔،
انکل جی کیسے اتر جاؤں میرے پاؤں میں تو جوتے ہی نہیں ہیں شمسہ نے لہنگا سرکا کر اپنے جوتوں سے بےنیاز مہندی سے سجے پاؤں سامنے کیے۔۔۔
ہیں ؟؟؟
شمسہ کی ساس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔
چلو کوئی گل نہیں جاو پتر کوئی اندر سے جا کے جوتی لا کے دو پھر وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر بولی۔۔۔
نہ جی کوئی اور جوتا کیوں ؟
میں تو سونے کی جوتی پہن کر ہی اب گاڑی سے اترونگی مجھے سونے کا جوتا لاکر دو شمسہ نے ایک دم سر اٹھاکر ماں بیٹے کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھا،
وہ شاید اس حملے کے لیے تیار نہ تھے بےذبان گائے بنی دولہن کے منہ سے غیر متوقع فرمائش سن کر گڑبڑا کررہ گئے آس پاس سے دبے دبے قہقہہوں کی آوازیں ابھریں۔
کیوں ہمارا تماشہ بنارہی ہے چل اتر اندر چل کر بات کرتے ہیں اسکی ساس بگڑے تیوروں سے بولی۔۔۔۔"
ننگے پاؤں تو نہیں اترونگی اور نہ ہی کوئی عام جوتا پہنوں گی تماشہ نہیں بنوانا تو ابھی اور اسی وقت سونے کا جوتا لاکر دو وہ ہٹ دھرمی سے بولی اور ٹھس بیٹھی رہی
پتر چل نا اندر ۔ ۔۔ ابھی جوتا کہاں سے ملے گا بعد میں بنوادیں گے اسکا سسر موقعے کی نذاکت دیکھ کر حالات سنبھالنے آگے بڑھا۔۔۔
نہ جی سسر جی جوتا چاہیے تو ابھی اور اسی وقت اور وہ بھی سونے کا وہ ڈھٹائی سے بولی،
ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ شمسہ کو گاڑی سے باہر نکال پھینکیں جس نے پورے گاؤں میں انکا مذاق بنوادیا تھا،
لوگ تمسخر سے دیکھ کر ہنس رہے تھے اور انکو خوب سبکی محسوس ہورہی تھی۔۔۔
اور پھر شمسہ کو منانے کے لیے انہوں نے ہر پینترا آزما ڈالا مگر سنی ان سنی کرکے آرام سے بیٹھی رہی بات پھیلتی پھیلتی گاؤں کے چوہدری تک پہنچ گئی وہ بھی وہیں چلا آیا۔۔۔"
پرا پرا ہٹو چوہدری صاحب آگئے رستہ دو چوہدری کے کامی نے آواز دی لوگوں نے پیچھے ہٹ کر راستہ دیا اور آگے آیا
کیا ہوا دھی رانی مجھے بتا چوہدری رب نواز نے نرم لہجہے میں کہہ کر شمسہ کے سر پر ہاتھ رکھا،
شمسہ نے اپنے لہنگے کے نیچے چھپائی ہوئی سینڈل نکال کر پہنی اور گاڑی سے باھر آکر کھڑی ہوگئی،
چوہدری صاحب آپ پنڈ کے وڈے ہو نا؟
تو میں آپ کے سامنے ساری بات رکھتی ہوں باقی پنڈ والے بھی سن لیں وہ بے خوفی سے اپنے حلیے کی پرواہ کیے بغیر سب پر نگاہ دوڑا کر آخر میں چوہدری صاحب کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
یہ جو آپکے پنڈ کے عزت دار لوگ ہیں نا۔جو مجھے بڑے چاؤ اور ارمانوں سے بیاہ کر لائے ہیں یہ اصل میں مجھے نہیں اس عالیشان گاڑی کو بیاہ کر لائے ہیں شمسہ نے اپنے ساس سسر اور شوہر کی طرف نفرت سے دیکھتے ہوئے اشارہ کیا
یہ لڑکی خام خواہ بات کابتنگڑ بنارہی ہے چوہدری صاحب ایسا کچھ نہیں دولہا منمنایا۔۔۔۔
اک منٹ چپ مینوں بچی دی گل سنن دو چوہدری رب نواز نے گھرکا،
ہاں پتربول تو وہ اب شمسہ کی جانب متوجہ ہوا
چوہدری صاحب انہیں اپنی بے عزتی کا تو بہت احساس ہے اور جو میرے گھر والوں کے ساتھ کیا گیا وہ ٹھیک تھا،
خام خواہ تماشہ کررہی ہے اسکی ساس پھولاہوا منہ مزید پھلاکر بولی۔۔۔
جو میرے گھر پر کیا گیا وہ تماشہ نہیں تھا اس نے ساس پہ آنکھیں نکالی،
ارے تم جیسے لالچی اور خود غرض لوگ صرف اپنے مفاد کو عزیز رکھتے ہیں کسی کی عزت و خوداری کی تم لوگوں کو کیا پرواہ کس طرح عین رخصتی کے وقت میرے والدین کو امتحان میں ڈالا گیا اگر انکی اتنی حثیت نہ ہوتی تو آج میری رخصتی بھی متوقع نہ ہوتی چوہدری صاحب وہ دلگرفتہ سی بولی۔۔۔"
ان جیسے لوگوں نے بیٹی والوں کا جینا محال کررکھا ہےلالچ اور حرص کی پٹی ان لوگوں نے اپنی آنکھوں پہ باندھ رکھی ہے تبھی تو انہیں کسی کی تکلیف دکھائی نہیں دیتی نہ ہی بیٹی کے باپ کی بےبسی نہ ہی اسکی ماں کے آنسو وہ تنفر سے دیکھتے ہوئے بولی،
میرے باپ کی عزت کا اونچا شملہ انہوں نے اپنے پیروں تلے روندھنے کی کوشش کی تھی مگر میں نے انکی کوشش ناکام بنادی چوہدری صاحب وہ کرب سے بولی۔۔۔
بیٹیوں والوں نے بیٹیاں پیدا کرکے کوئی گناہ نہیں کیا ہوتا کہ جس کی پاداش میں آدم کے بیٹے ان کے لیے خود ساختہ سزائیں تجویز کرتے پھریں حوا کی بیٹی تماشہ نہیں اسے اپنا حق لینا آتا ہے عورت کو عورت ذات ہونے کی سزا دینا بند کردو خدارا۔۔۔
جیتے جاگتے وجود کو زندہ درگور کرنے کے درپے سماج کے ٹھیکیداروں عورت کو کمزور سمجھنا تمہاری سب سے بڑی غلطی ہے سب دم بخود کھڑے تھے صرف اسی کی آواز گونج رہی تھی،
چوہدری صاحب ان لوگوں کی عزت عزت ہوئی اور میرے بے قصور والدین کی کوئی عزت نہیں کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ کچھ لوگ عزت کے اتنے بھوکے ہوتے ہیں کہ وہ دوسرے کی عزت بھی کھاجاتے ہیں،
چوہدری صاحب ہم نے تو کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اک گڈی کی فرمائش ہی کی تھی جی کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کیا تھا اس کی ساس ڈھٹائی سے بولی۔۔۔
جی اگر انکا مطالبہ جائز ہے تو میرا مطالبہ بھی جائز ہے وہ جتاتی نظروں سے دولہے کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔
اے ذیادہ چبڑ چبڑ نہ کرنہیں تو یہی کھڑے کھڑے طلاق دےدونگا دولہا اپنے مصنوعی لبادے سے باہر آکر بولا
ہاں ہاں میرے بیٹے کو کوئی کمی تھوڑی ہے اسکی ساس اپنا بڑاسا سر ہلاتے ہوئے طنز سےبولی۔۔۔
ارے لالچی انسان تو مجھے کیا طلاق دے گا میں تو خود تیرے ساتھ ایک پل رہنے کی روادار نہیں ہوں وہ حقارت سے بولی،
چوہدری صاحب انکی اصلیت آپ کے سامنے خود ہی آگئی ہےاب آپ خود بتائیں کہ میں نے غلط کیا یا درست وہ مسکرا کر اعتماد سے بولی۔۔۔۔"
ہاں دھی رانی تو بالکل ٹھیک ہے ان بےغیرتوں کو کوئی دید لحاظ نہیں ہے کسی کی بیٹی کی زندگی کو مذاق سمجھا ہوا ہے غضب خدا کا شادی کے نام پر ایسے اوچھے ہتکھنڈے استعمال کرتے ہیں کہ دل کانپ جاتا ہے رب دا قہر نازل ہو ان پہ چوہدری صاحب بھی طیش میں آگئے،
چل دھی رانی تو میرے ساتھ چل اک منٹ وی ہور نہیں رکنا ایتھے انہوں نے حتمی انداز میں کہا۔۔۔
چوہدری صاحب اے تسی چنگا نہیں کررہے دولہے کے باپ نے دبا دبا سا احتجاج کیا،
تے تسی چنگا کیتا اس معصوم بچی دے گھر والیاں نال؟
آج اک مطالبہ کیتا کل نوں لائناں لگ جان گیئاں چوہدری رب نواز نے غضبناک نظروں سے دیکھا۔۔۔
سب کو سانپ سونگھ گیا،
چل دھی بیٹھ گڈی وچ بختو چل گڈی چلا باحفاظت چھڈ کے آیے بچی نوں چوہدری نے اپنے ڈرائیور کو آواز دی
دم بخود معجمے میں حرکت پیدا ہوئی اور سارا گاؤں جیسے تالیوں سے گونج اٹھا۔۔۔
سب لوگ شمسہ کی جرات پہ سلامی دینے لگے،
شمسہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئی اور سب لوگ اب لڑکے والوں پہ لعنتیں ڈال رہے تھے وہ شرمسار سے اندر چلے گئے
یہ لوگ اسی قابل ہیں ایسا ہی ہونا چاہئے تھا انکے ساتھ سب شمسہ کی دلیری پہ مسرور تھے۔۔۔
شمسہ؟
کی ہویاتو اچانک ادھر کسطرح اسکے ماں باپ اچانک سامنے پاکر حیران اور پریشان ہوگئے۔۔۔
کچھ نہیں اماں ابا ان لالچی لوگوں کو انکی اوقات دکھا کر آئی ہوں اور ان کے منہ پہ ایسا طمانچہ مار کر آئی ہوں کہ پورے پنڈ نے آواز سنی ہے گبھراو نہ اس نے کھلکھلا تے ہوئے کہا۔۔۔
کیا کہہ رہی تو انہوں نے ناسمجھی سے دیکھا،
ابا یہ چوہدری صاحب مجھے چھوڑنے آئے ہیں انکا شکریہ ادا کرو میں تب تک ان بھاری بھرکم کپڑوں سے نجات حاصل کرلوں۔۔۔"
وہ پرسکون لہجے میں کہتی ہوئی اندر کی طرف چلدی
جی چوہدری صاحب تشریف رکھو ایتھے کنول اندر سے بڑا سا صوفہ سیٹ لے آئی شمسہ کے باپ نے احترام سے کہا چوہدری صاحب صوفے پہ بیٹھ گئے۔۔۔"
شکریہ بہت بہت آپکا چوہدری جی کیا سیوا کریں آپکی ؟
نہ نہ کسی تکلف کی ضرورت نہیں رات ہو رہی اے اساں واپس وی جانا اے بس آپکی دھی کو خیریت سے چھوڑنے آئے تھے اپنی دھی کا خیال رکھنا اس نے بہت بڑا فیصلہ لیاہے مگر درست لیاہے ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے تو ان کمینے لوگوں کی حرکت پہ ابھی تک طیش آرہا ہے نامراد نہ ہوں تو۔ ۔
یہ کہ کر چوہدری رب نواز نے ساری تفصیل بتادی۔۔۔
چوہدری جی میری بیٹی حق بات کہنے سے کبھی نہیں ڈری مجھے فخر ہے اپنی دھی پہ ساری بات سن کر اسکا باپ لرزتی آواز میں بولا،
______
کون اے دروازے پر دروازہ آج ٹوٹ ہی نہ جاوے امداد کی ماں نے دروازہ ذور ذور سے کٹھکائے جانے پر اپنا تھل تھل کرتے وجود کے ساتھ بمشکل اٹھی اور دروازہ کھولا۔۔۔
تو؟؟
وہ شمسہ کی غیر متوقع آمد پر چونکی۔۔۔
ہاں میں شمسہ دلیری سے مسکرائی،
اب کیا لینے آئی ہے یہاں دفع ہوجا ۔۔ ۔
ہم نے اپنے بیٹے کی بات کہیں اور پکی کردی ہے وہ بدتمیزی سے من بگاڑ کر بولی۔۔۔
کچھ لینے نہیں کچھ دینے آئی ہوں کہاں ہے آپکا لاڈلا ؟
وہ بےنیازی سے پرس کھولتے ہوئے بولی اتنے میں امداد بھی دروازے پر آگیا۔۔۔
کیا ہے اماں کون ہے دروازے پر اس نے ماں کو پیچھے ہٹایااور سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ کر جم کر رہ گیا۔۔۔
شمسہ نے ہینڈ بیگ سے ایک لفافہ نکالا اور امداد کے منہ پہ دے مارا۔۔۔
یہ لو خبیث لوگوں خلع کے کاغذ اور سائن کرکے بھیج دینا مجھے ۔ ۔ ۔
سمجھ آئی شمسہ نے نفرت بھری نگاہ آخری بار دونوں پہ ڈالی اور اپنی اسی گاڑی میں بیٹھ کر انکی بد نظروں سے اوجھل ہوگئی۔۔۔۔"
یہ سچی کہانی ہے اس میں لڑکی کا نام اور گاوں کے نام آرضی ہیں
آپ کو کیسا لگا یہ ناول اپنی قیمتی رائے ضرور دیں شکریہ (ختم شد)
_________

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)