Wednesday 10 January 2018

Online Quran Teaching Course_Learn How To Teach Online


قرآن ٹیوشن آن لائن اکیڈمی 5سال سے مصروف عمل ہے
مسلمان والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کواچھا مسلمان بنانے کے لئے قرآن کی تلاوت، تجوید کے قوانین، تفسیر، اور حدیث پاک کے مستند اسلامی علوم سے آراستہ کریں۔ غیر مسلم ریاستوں میں اس طرح کے مذہبی علم کا اچھا ذریعہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ لہذا، آن لائن قرآن مجید پڑھنا/پڑھانا اس کے لئے سب سے زیادہ آسان طریقہ بن گیا ہے۔ قرآن ٹیوشن آن لائن اکیڈمی اسلامی قواعد کے مطابق زندگی بسر کرنے کے آپ کے بچوں، بالغوں اور نئے مسلمانوں کے لئے بہتر تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اب کسی بھی ملک میں کسی بھی عمر کے طالب علم اپنے شیڈول اور ٹائم ٹیبل میں قرآن پڑھنا سیکھ سکتے ہیں۔ والدین اب اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کو قرآن مجید سیکھتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
· ہمارے ایک دوست  نے مسلمان بھائیوں کی روز مرہ زندگی میں قرآن کی تلاوت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کو ایک باقاعدہ عادت بنانے کے لئے اورمسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور درس و تدریس کے لیے ، قابل فخر بہترین حافظ قرآن اساتذہ کی خدمات حاصل کی ہیں۔
· صرف یہی نہیں صحیح طریقے سے قرآن مجید مہارت کے ساتھ طالب علموں کو سکھانے کےساتھ ساتھ، درست تلاوت مناسب تلفظ اور آداب کے ساتھ ، بلکہ اس کے حقیقی معنی کو سمجھانےکے لئے، حفظ قرآن، حدیث، نماز، دعائیں اور کلمے یاد کروانے اور طالب علموں کی استعداد بڑھانے کے اہل ہیں۔
· آپ اپنا گھر چھوڑے بغیر صرف کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر ایسا کر سکتے ہیں۔
· ٹیوٹر اور طالب علم ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں اور کلاس کے دوران ایک ہی کمپیوٹرسکرین پرسبق دیکھ سکتے ہیں.

:رابطہ

Saturday 9 December 2017

Hum falasteen sy is liye Muhabbat karte Hain


Image may contain: sky
ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے
یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔

حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔

حضرت سلیمان علیہ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔

چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا "اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ" یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں "وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی" رکھ دیا گیا تھا۔

حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔

اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔

ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔

قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔

اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔

فلسطین ہی ارض محشر ہے۔

اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔

اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔

فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔

حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔

سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔

وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر 
کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔

اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔

بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔

مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو "التین" انجیر سے، بلاد فلسطین کو "الزیتون" زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔

اور قران پاک کی یہ آیت مبارک (ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون) سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔

فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے 
والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔

Tuesday 28 November 2017

Eid Milad-un-Nabi by Mufti Mohammad Taqi Usmani sab

جشن میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم ایک لمحہٴ فکریہ
مفتی محمد تقی عثمانی
12/ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کارواج کچھ عرصہ سے مسلسل چلا آرہا ہے، چوں کہ عہد صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور قرون اولیٰ میں اس ”عید“ کا کوئی پتا نشان نہیں ملتا۔ اس لیے اکابر علمائے حق ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ دن منانے کی رسم ہم میں عیسائیوں اور ہندوؤں سے آئی ہے، تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی، لہٰذا اس رسم کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، مسلمانوں کااصل کام یہ ہے کہ وہ ان رسمی مظاہروں کے بجائے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں اور ایک دن میں عید میلاد مناکر فارغ ہوجانے کے بجائے اپنی پوری زندگی کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر کریں۔
یہ علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث کا موقف تھا اور بریلوی مکتب فکر کے حضرات اس سے اختلاف کرتے تھے، لیکن اب چند سال سے جو صورت حال سامنے آرہی ہے، اس میں یہ مسئلہ صرف دیوبندی مکتب فکر کا نہیں رہا، بلکہ ہر اس مسلمان کا مسئلہ بن گیا ہے جو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و محبت اور حرمت و تقدیس کا کوئی احساس اپنے دل میں رکھتا ہو، اب صرف علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث ہی کو نہیں، بلکہ علمائے بریلی کو بھی اس پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ جشن عیدمیلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے نام پر یہ قوم دینی تباہی کے کس گڑھے کی طرف جارہی ہے؟ کیوں کہ جن حضرات نے ابتدا میں محفل میلاد وغیرہ کو مستحسن قرار دیا تھا، ان کے چشم تصور میں بھی غالباً وہ باتیں نہیں ہوں گی جو آج ”جشن میلادالنبی صلی الله علیہ وسلم“ کا جزوِ لازم بنتی جارہی ہیں۔
شروع میں محفل میلاد کا تصور ایک ایسی مجلس کی حد تک محدود تھا جس میں سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جاتا ہو، لیکن انسان کا نفس اس قدر شریر واقع ہوا ہے کہ جو کام وحی کی راہ نمائی کے بغیر شروع کیا جاتا ہے، وہ ابتدا میں خواہ کتنا مقدس نظر آتا ہو، لیکن رفتہ رفتہ اس میں نفسانی لذت کے مواقع تلاش کرلیتا ہے اور اس کا حلیہ بگاڑ کر چھوڑتا ہے، چناں چہ اب الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے مقدس نام پر جو کچھ ہونے لگا ہے، اسے سن کر پیشانی عرق عرق ہوجاتی ہے۔
ہر سال ”عید میلاد النبی“ کے نام سے صرف کراچی میں ظلم وجہالت کے ایسے ایسے شرم ناک مظاہرے کیے جاتے ہیں کہ ان کے انجام کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے، مختلف محلوں کو رنگین روشنیوں سے دلہن بنایا جاتا ہے اور شہر کے تقریباً تمام ہوٹلوں میں عید میلاد اس طرح منائی جاتی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر لگاکر بلند آواز سے شب و روز ریکارڈنگ کاطوفان برپا رہتا ہے۔ بہت سے سینما ”عیدمیلاد کی خوشی میں“ سینکڑوں بلب لگا کر ان اخلاق سوز اور برہنہ تصویروں کو اور نمایاں کردیتے ہیں جو اپنی ہر ہر ادا سے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی نافرمانی کی برملا دعوت دیتی ہیں اور انہی مقامات پر انسانیت کی تصویروں کے سائے میں شاید تبرک کے خیال سے خانہ کعبہ اور روضہ اقدس کی تصویریں بھی چسپاں کردی جاتی ہیں، ایک محلہ میں قدم قدم پر روضہ اطہر اور مسجد نبوی کی شبیہیں بناکر کھڑی کی جاتی ہیں، جنہیں کچھ بے فکرے نوجوان ایک تفریح گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کچھ بے پردہ عورتیں انہیں چھو چھوکر ”خیر و برکت“ حاصل کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جب پورے محلہ کو روشنیوں میں نہلاکر، جگہ جگہ محرابیں کھڑی کرکے اور قدم قدم پر فلمی ریکارڈ بجاکر ایک میلے کا سماں پیدا کردیا جائے تو پھر عورتیں اور بچے ایسے میلے کو دیکھنے کے لیے کیوں نہ پہنچیں جس میں میلے کا لطف بھی ہے اور (معاذ الله) تعظیم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ثواب بھی؟! چناں چہ راتوں کو دیر تک یہاں تفریح باز مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایسا مخلوط اجتماع رہتا ہے جس میں بے پردگی، غنڈہ گردی اور بے حیائی کو کھلی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔
راقم الحروف ایک روز اس محلے سے گزرتے ہوئے یہ دل دوز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور اس آیت قرآنی کے تصور سے روح کانپ رہی تھی، جس کا ترجمہ یہ ہے:
” اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنارکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے اور اس قرآن کے ذریعے ان کو نصیحت کرو، تاکہ کوئی شخص اپنے کیے میں اس طرح گرفتار نہ ہوجائے کہ الله کے سوا اس کا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا نہ ہو اور اگر وہ دنیا بھر کا معاوضہ دے ڈالے تب بھی نہ لیا جائے، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے کیے میں گرفتارہوئے، ان کے لیے کھولتا ہوا پانی پینے کے لیے ہوگا اور کفر کے سبب دردناک سزا ہوگی۔“
الله تعالیٰ ہر مسلمان کو اس آیت کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس محلے سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے خاتم النبین صلی الله علیہ وسلم کا لایا ہوا دین پکار پکار کر یہ فریاد کررہا ہے کہ ”محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کے نام لیواؤ! تم گم راہی اور بے حسی کے کس اندھے غار میں جاگرے ہو؟ کیا سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ یہی ہے کہ انہی کی محبت و عظمت کے نام پر ان کی ایک ایک تعلیم کو جھٹلاؤ؟ ان کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرو؟ اور ان کی یاد منانے کے بہانے جاہلیت کی ان تمام رسموں کو زندہ کرکے چھوڑو جنہیں اپنے قدموں تلے روندنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تھے؟ خدا کے لیے سوچو کہ جس ذات کو سازورباب اور چنگ و بربط کے توڑنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے ”جشن ولادت“ میں ساز ورباب سے کھیل کر تم کس غضب الٰہی کو دعوت دے رہے ہو؟ جس ذات نے عورت کے سر پر عفت و عصمت کا تاج رکھا تھا اور جس نے اس کے گلے میں عزت و آبرو کے ہارڈالے تھے، اس کی محبت و تقدیس کے نام پر تم عورت کو بے پردگی اور بے حیائی کے کس میلے میں کھینچ لائے ہو؟ جس ذات نے نام و نمود، ریا و نمائش، اسراف و تبذیر سے منع کیا تھا، یہ نمائشیں منعقد کرکے تم کس کی خوش نودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟ اگر دین کی کوئی صحیح خدمت تم سے نہیں ہوسکتی، اگر تم اپنی عام زندگی میں الله کی نافرمانیوں کو ترک نہیں کرسکتے، اگرمحمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات تمہارے عیش پرست مزاج کوبار معلوم ہوتی ہیں، توتمہاری زندگی کے بہت سے شعبے اس عیش پرستی کے لیے کافی ہیں، خدا کے لیے الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے نام پر ہوا و ہوس کا یہ بازار لگاکر اس نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا مذاق تو نہ اڑاؤ، اس کے تقدس اور پاکیزگی کے آگے فرشتوں کی گردنیں بھی خم ہوجاتی ہیں، اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھو کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرنے کے بعد تم کس چیز کی خوشی میں اپنے درودیوار پر چراغاں کررہے ہو؟ کیا تمہیں اس بات کی خوشی ہے کہ تم نے اپنی عملی زندگی میں اس دین برحق کی کوئی قدر صحیح سالم نہیں دیکھی؟“ لیکن عیش و نشاط کی گونجتی ہوئی محفلوں میں کون تھا جو دین مظلوم کی اس فریاد کو سن سکتا؟
جن لوگوں کا مقصد ہی اس قسم کے ہنگاموں سے عیش و نشاط کا سامان پیدا کرنا ہے، ان کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، لیکن جو لوگ واقعتاً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم و محبت ہی کے خیال سے اس قسم کے جشن مناتے ہیں، وہ بھی یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ اسلام اور اکابر اسلام کو دوسرے مذاہب اور ان کے پیشواؤں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے جہاں ہمیں ان کی تعظیم اور ان کے تذکرے کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے، وہاں ہمیں اس کا طریقہ بھی بتایا ہے، یہ وہ دین حق ہے جو ہمیں دوسرے مذاہب کی طرح رسمی مظاہروں میں الجھانے کے بجائے زندگی کے اصلی مقصد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس کے لیے یہ اکابر اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ورنہ اگر اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ان رسمی مظاہروں کی طرح جانا جاتا تو آج ہم اس بات پر فخر محسوس نہ کرسکتے کہ ہمارا دین بفضلہ تعالیٰ اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اسے لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی مذہب کے پیروکار محض ظاہری رسموں اور نمائشوں میں الجھ جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس مذہب کی اصل تعلیمات مٹتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر بے جان رسوم کا ایک ایسا ملغوبہ باقی رہ جاتا ہے جس کا مقصد انسانی نفسانی خواہشات کی حکم رانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جو مادہ پرستی کی بدترین شکل ہے، ان تمام تقریبات کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کے ذریعہ وہ خاص شخصیت یا وہ خاص واقعہ ذہن میں تازہ ہو جس کی یاد میں وہ تقریب منعقد کی جارہی ہے اور پھر اس سے اپنی زندگی میں سبق حاصل کیا جائے، لیکن انسان کا نفس بڑا شریر واقع ہوا ہے، اس نے ان تہواروں کی اصل روح کو تو بھلا کر،نابود کردیا اور صرف وہ چیزیں لے کر بیٹھ گیا جس سے لذت اندوزی اور عیش پرستی کی راہ کھلتی تھی۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہوسکے گی۔
عیسائی قومیں ہر سال 25دسمبر کو کرسمس کا جشن مناتی ہیں، یہ جشن دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جشن ولادت ہے اور اس کی ابتدا اسی مقدس انداز سے ہوئی تھی کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات کو لوگوں میں عام کیا جائے گا، چناں چہ ابتدا میں اس کی تمام تقریبات کلیسا میں انجام پاتی تھیں اور ان میں کچھ مذہبی رسوم ادا کی جایا کرتی تھیں، رفتہ رفتہ اس جشن کا سلسلہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا؟ اس کی مختصر داستان، جشن وتقریبات کی ایک ماہر مصنفہ ہیرزلٹائن ہے، اس سے سنیے، وہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ ”کرسمس“ میں لکھتی ہیں:
”کئی صدیوں تک کرسمس خالصتاً ایک کلیسا کا تہوار تھا، جسے کچھ مذہبی رسوم ادا کرکے منایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مذہب بت پرستوں کے ممالک میں پہنچا تو اس میں ”سرمانی نقطہ انقلاب“ کی بہت سی تقریبات شامل ہوگئیں اور اس کا سبب گریگوری اعظم (اول) کی آزاد خیالی اور اس کے ساتھ مبلغین عیسائیت کا تعاون تھا، اس طرح کرسمس ایک ایسا تہوار بن گیا جو بیک وقت مذہبی بھی تھا اور لادینی بھی، اس میں تقدس کا پہلو بھی تھا اور لطف اندوزی کا سامان بھی۔“
اب کرسمس کس طرح منایا جانے لگا؟ اس کو بیان کرتے ہوئے میری ہیرزلٹائن لکھتی ہیں:
”رومی لوگ اپنی عبادت گاہوں اور اپنے گھروں کو سبز جھاڑیوں اور پھولوں سے سجاتے تھے، ڈرائڈس (پرانے زمانے کے پادری) بڑے تزک و احتشام سے امربیلیں جمع کرتے اور اسے اپنے گھروں میں لٹکاتے، سیکسن قوم کے لوگ سدابہار پودے استعمال کرتے۔“
انہوں نے آگے بتایا ہے کہ:
”کس طرح شجر کرسمس( Chirstmas Tree) کا رواج چلا، چراغاں اور آتش بازی کے مشغلے اختیار کیے گئے، قربانی کی عبادت کی جگہ شاہ بلوط کے درخت نے لے لی، مذہبی نغموں کی جگہ عام خوشی کے نغمے گائے گئے اور : ”موسیقی کرسمس کا ایک عظیم جزو بن گئی۔“
مقالہ نگار آگے رقم طراز ہے:
”اگرچہ کرسمس میں زیادہ زور مذہبی پہلو پر دیا گیا تھا، لیکن عوامی جوش و خروش نے نشاط انگیزی کو اس کے ساتھ شامل کرکے چھوڑا۔“
اور پھر… ”گانا بجانا، کھیل کود، رقص، ناٹک بازی اور پریوں کے ڈرامے تقریبات کا حصہ ہوگئے۔“ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ص، 642۔اے ج 5، مطبوعہ1950ء مقالہ “کرسمس“)
ایک طرف کرسمس کے ارتقاء کی یہ مختصر تاریخ ذہن میں رکھیے اور دوسری طرف اس طرز عمل پر غور کیجیے، جو چند سالوں سے ہم نے جشن عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے، کیا اس سے یہ حقیقت بے نقاب نہیں ہوتی کہ:
ایں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
اسلام اس عالم الغیب کا مقرر کیا ہو ادین ہے جو اس کائنات کے ذرہ ذرہ سے باخبر ہے اور جس کے علم محیط کے آگے ماضی، حال اور مستقبل کی سرحدیں بے معنی ہیں، وہ انسانی نفس کی ان فریب کاریوں سے پوری طرح واقف ہے جو تقدس کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو گم راہ کرتی ہیں، اس لیے اس نے خاص خاص واقعات کی یادگار قائم کرنے کے لیے ان تمام طریقوں سے پرہیز کا حکم دیا ہے، جو ان کی اصل روح کو فنا کرکے انہیں عیش و عشرت کی چند ظاہری رسوم کے لیے بہانہ بناسکتے ہوں، چناں چہ صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کے دور میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ انہوں نے سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت جیسے عظیم الشان واقعہ کا کوئی دن منایا ہو، اس کے برخلاف ان کی تمام تر توجہات آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیغام کو پھیلانے کی طرف مرکوز رہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے پر بھی ہم مسلمان بیٹھے ہیں اور اگر اسلام پر عمل کرنا چاہیں تو یہ دین ٹھیک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان تک پہنچایا تھا۔
لہٰذا اگر ہم اپنے اسلاف کے اس طرز عمل کو چھوڑ کر غیر مسلم اقوام کے دن منانے کے طریقے کو اپنائیں گے تو مطلب یہ ہوگاکہ ہم دین کے نام پر کھیل تماشوں کے اسی راستے پر جارہے ہیں جس سے اسلام نے بڑی احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہمیں بچایا تھا، آپ کو معلوم ہے کہ اسلام نے غیر مسلم اقوام کی مشابہت سے پرہیز کرنے کی جابجا انتہائی تدبیر کے ساتھ تلقین فرمائی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ عاشورہ محرم کا روزہ، جو ہر ا عتبار سے ایک نیکی ہی نیکی تھی، اس میں یہودیوں کی مشابہت سے بچانے کے لیے یہ حکم دیا گیا کہ صرف دس تاریخ کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ نو یا گیارہ تاریخ کا روزہ بھی رکھا جائے، تاکہ مسلمانوں کا روزہ عاشورہٴ یہود سے ممتاز ہوجائے۔
غور فرمائیے کہ جس دین حنیف نے اس باریک بینی کے ساتھ غیر مسلم اقوام کی تقلید، بلکہ مشابہت سے بچانے کی کوشش کی ہے، اس کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا یوم پیدائش منانے کے لیے ان کی نقالی شروع کردی جائے جنہوں نے اپنے دین کو بگاڑ بگاڑ کر کھیل تماشوں میں تبدیل کردیا ہے؟
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ہم اپنے ملک کے تمام علماء، دینی راہ نما، مذہبی جماعتوں اور با اثر مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں، ہماری یہ اپیل صرف اہل حدیث اور دیوبندی مکتب فکر کے حضرات کی حد تک محدود نہیں، بلکہ ہم بریلوی مکتب فکر کے حضرات سے بھی یہی گزارش کرنا چاہتے ہیں ”عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کے نام پر جو الم ناک حرکتیں اب شروع ہوگئی ہیں، وہ یقینا ان کو بھی گوارا نہیں ہوں گی۔

Sunday 26 November 2017

آن لائن قرآن مجید پڑھنا/پڑھانا

آن لائن قرآن مجید پڑھنا/پڑھانا

قرآن ٹیوشن آن لائن اکیڈمی 5سال سے مصروف عمل ہے
مسلمان والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کواچھا مسلمان بنانے کے لئے قرآن کی تلاوت، تجوید کے قوانین، تفسیر، اور حدیث پاک کے مستند اسلامی علوم سے آراستہ کریں۔ غیر مسلم ریاستوں میں اس طرح کے مذہبی علم کا اچھا ذریعہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ لہذا، آن لائن قرآن مجید پڑھنا/پڑھانا اس کے لئے سب سے زیادہ آسان طریقہ بن گیا ہے۔ قرآن ٹیوشن آن لائن اکیڈمی اسلامی قواعد کے مطابق زندگی بسر کرنے کے آپ کے بچوں، بالغوں اور نئے مسلمانوں کے لئے بہتر تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اب کسی بھی ملک میں کسی بھی عمر کے طالب علم اپنے شیڈول اور ٹائم ٹیبل میں قرآن پڑھنا سیکھ سکتے ہیں۔ والدین اب اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کو قرآن مجید سیکھتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
· ہمارے ایک دوست  نے مسلمان بھائیوں کی روز مرہ زندگی میں قرآن کی تلاوت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کو ایک باقاعدہ عادت بنانے کے لئے اورمسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور درس و تدریس کے لیے ، قابل فخر بہترین حافظ قرآن اساتذہ کی خدمات حاصل کی ہیں۔
· صرف یہی نہیں صحیح طریقے سے قرآن مجید مہارت کے ساتھ طالب علموں کو سکھانے کےساتھ ساتھ، درست تلاوت مناسب تلفظ اور آداب کے ساتھ ، بلکہ اس کے حقیقی معنی کو سمجھانےکے لئے، حفظ قرآن، حدیث، نماز، دعائیں اور کلمے یاد کروانے اور طالب علموں کی استعداد بڑھانے کے اہل ہیں۔
· آپ اپنا گھر چھوڑے بغیر صرف کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر ایسا کر سکتے ہیں۔
· ٹیوٹر اور طالب علم ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں اور کلاس کے دوران ایک ہی کمپیوٹرسکرین پرسبق دیکھ سکتے ہیں.
:رابطہ

Wednesday 22 November 2017

Ishq Aur Chain A Beautiful Urdu poetry

 تیرے ھاتھ بناؤں پینسل سے  
پھر ھاتھ پہ تیرے ھاتھ رکھوں  

کچھ اُلٹا سیدھا فرض کروں
کچھ اُلٹا سیدھا ھو جائے

میں "آہ" لکھوں تُو "ھائے" کرے
بےچین لکھوں بےچین ھو تُو  

پھر میں بے چین کا "ب" کاٹوں تو  
تجھے چین ذرا سا ھو جائے

ابھی "ع" لکھوں تُو سوچے مجھے  
پھر "ش" لکھوں تیری نیند اُڑے

جب "ق" لکھوں تجھے کچھ کچھ ھو   
میں "عشق" لکھوں تجھے ھو جائے  

چل آ اک ایسی نظم لکھوں
جو لفظ لکھوں وہ ھو جائے

Thursday 16 November 2017

hum bhi farigh tum bhi farigh Awo k kuch bat karain, by sultana parveen

ہم بھی فارغ تم بھی فارغ آؤ کریں کچھ باتیں بھی
دل میں آگ لگا دیتی ہیں ساون کی برساتیں بھی

لوگ ہمارے، بچھڑے سارے یاد ہمیں جب آتے ہیں
رمِ جھِم رم جھِم برساتی ہیں بھیگی بھیگی راتیں بھی

پار افق کے جس بستی میں لوگ ہمارے رہتے ہیں
کیا ان کو بھی یاد آتی ہیں اکثر وہ ملاقاتیں بھی

جگنو، چاندنی اور ستارے، بچپن کے وہ خواب ہمارے
خوشبو بن کر چھا جاتی ہیں بھولی بسری باتیں بھی

ایک دور تھا جب یہ باتیں غیر مہذب لگتی تھیں
رائج ہیں اب کلچر بن کر وہ ساری خرافاتیں بھی

تم آپس میں جھگڑا کر کے اپنا آپ گنوا مت دینا
دیکھو تاک میں بیٹھی ہیں نا دشمن کی وہ گھاتیں بھی

دائیں ہاتھ سے ایسے دینا، بائیں ہاتھ کو خبر نہ پہنچے
ورنہ دل کا خون کریں گی اپنوں کی خیراتیں بھی

دین کی جو خدمت کرتے ہیں، ان کی خدمت عین عبادت
خود داری میں کہہ نہیں پاتے کرتے ہیں ملاقاتیں بھی

نیکی اور شرافت ہی تو سب سے اچھی قدریں ہیں
کون انھیں یہ سمجھائے جو پوچھ رہے ہیں ذاتیں بھی

تم سے مل کر میرے دل کو ایک سکون سا ملتا ہے
رنگِ حناؔ میں دل کش باتیں اچھی ہیں سوغاتیں بھی


٭٭٭

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)