الاحزاب سے
گروہ اور جماعتیں مراد ہیں۔ مشرکین مکہ نے تمام عرب کے قبائل کو اسلام کے خلاف
آمادۂ جنگ کرکے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرلیا تھا۔ حضور علیہ السلام نے مسلمانوں
کے مشورہ سے اپنے دفاع کے لئے خندق کھود لی تھی اس لئے اسے غزوہ احزاب یا غزوۂ
خندق کہا جاتا ہے۔ اس سورت میں مدنی سورتوں کی طرح قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس
واقعہ کا بھی تذکرہ ہے۔ اس لئے اسے ’’الاحزاب‘‘ کے نام سے
موسوم کیا گیاہے۔ سورت کی ابتداء میں ’’تقویٰ‘‘ کے حکم کے ساتھ کافروں اور منافقوں کی عدم اطاعت
اور وحی الٰہی کے اتباع اور توکل کی تلقین ہے۔ اس کے بعد بتایا کہ کسی کے سینہ میں
اللہ نے دو دل نہیں رکھے۔ ظہار یعنی اپنی بیویوں کی کمر کو اپنی مائوں کی کمر کے
مشابہ قرار دینے کی مذمت کرتے ہوئے ’’منہ بولے‘‘ رشتوں کے
احکام بیان کئے ہیں کہ کسی کو بیٹا، بیٹی، بہن یا ماں کہہ دینے سے یہ رشتے ثابت
نہیں ہوجاتے۔ لہٰذا متنبی کو اس کے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور اپنے بھائی
یا اتحادی قرار دیا جائے۔ ایمان والوں پر نبی کا حق سب سے زیادہ ہے اور نبی کی
زوجات مطہرات ’’امہات المؤمنین‘‘ ہیں۔ پھر غزوہ
احزاب میں پورے عرب کے کفر کا اجتماع اور ہر طرف سے یلغار کے مقابلہ میں اللہ کی
مدد و نصرت کا تذکرہ ہے کہ اللہ نے تیز ہوا چلا کر نصرت فرمائی اور مشرکین کے قدم
اکھاڑ دیئے۔ منافقین اور یہودیوں کی مذمت ہے، جنہوں نے اس موقع پر اسلام اور
مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ پھر غزوہ بنی قریظہ میں
یہود کے مقابلہ میں اللہ کی نصرت اور ان کی جائیدادوں اور زمینوں پر مسلمانوں کے
قبضہ کو یاد دلاکر ہر چیز پر اللہ کی قدرت و غلبہ کی تمہید بنائی گئی ہے اور آخر
میں ’’آیت تخییر‘‘ ہے، جس میں
ازواج مطہرات کے سالانہ نفقہ میں اضافہ کے مطالبہ پر انہیں مطالبہ سے دستبردار
ہوکر حرم نبوی میں رہنے یا علیحدگی اختیار کرلینے کا حکم دیا گیا، جس پر تمام
امہات المؤمنین نے حرم نبوی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے مالی
مطالبہ سے دستبرداری کا اظہار کردیا، جس پرا للہ نے ان مخلص خواتین کے لئے اجر
عظیم کا وعدہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وَمَن
يَقْنُتْ
ازواج مطہرات
کے اعمال صالحہ پر دُہرے اجر اور رزق کریم کی نوید سنائی گئی ہے۔ امہات المؤمنین
اور ان کے توسط سے تمام دنیا کی خواتین مؤمنات کو پیغام دیا گیا ہے کہ کسی نامحرم
سے گفتگو کی ضرورت پیش آجائے تو کُھر درے پن کا مظاہرہ کریں۔ نرم گفتاری کا
معاملہ نہ کریں ورنہ اخلاقی پستی کے مریض اپنے ناپاک خیالات کو پورا کرنے کی امید
قائم کرسکتے ہیں۔ گھروں میں ٹھہری رہا کرو۔ سابقہ جاہلیت کے طور طریقوں کے مطابق
بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی
اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ نبی کے اہل بیت سے ناپاکی دور فرما کر انہیں پاکیزہ کرنا
چاہتے ہیں۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں اہل بیت کا مصداق
اوّلی ازواج مطہرات ہیں۔ پھر ازواج مطہرات کے خصوصی اعزاز کا تذکرہ ہے کہ تمہارے
گھروں میں کتاب و حکمت کا نزول ہوتا ہے تمہیں اس کا اعادہ اور تکرار کرتے رہنا
چاہئے۔ اس کے بعد صفات محمودہ میں مردو زن کی مساوات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
اسلام، ایمان، اطاعت شعاری، سچائی، صبر، عجزو انکساری، صدقہ و خیرات کی ادائیگی،
روزہ کا اہتمام، عفت و پاکدامنی اور اللہ کے ذکر میں رطبِ لسان رہنے والے تمام
مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہوا ہے۔ پھر
کسی بھی مؤمن مرد و عورت کے ایمان کے تقاضے کو بیان کیا ہے کہ اللہ اور اس کے
رسول کا فیصلہ سامنے آجانے کے بعد اسے رد کرنے کے حوالہ سے کوئی اختیار باقی نہیں
رہ جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنّٰی حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد ان کی
مطلقہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح کرکے یہ مسئلہ واضح کردیا کہ متبنّٰی کی بیوی
’’بہو‘ نہیں بن سکتی۔ پھر آپ کے خاتم النبیین ہونے اور
مسلمان مردوں میں سے کسی کے باپ نہ ہونے کا واضح اعلان ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو
تسبیح و تحمید اور ذکر کی کثرت کرنے کی تلقین ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
کچھ امتیازی خوبیوں کا تذکرہ کہ آپ مشاہد، بشیر و نذیر، داعی الی اللہ اور سراج
منیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ پھر رخصتی سے پہلے طلاق پانے والی عورت کے متعلق بتایا
کہ اس کی کوئی عدت نہیں ہوتی اور اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو جوڑا کپڑوں کا دے
کر اسے فارغ کردیاجائے۔ پھر نبی کے لئے عام مؤمنین کے مقابلہ میں زیادہ بیویاں
رکھنے کا جواز اور ’’باری‘‘ مقرر کرنے کے حکم کے ساتھ ہی مزید شادیاں کرنے پر
پابندی کا اعلان کیا گیا۔ نبی کے گھرمیں بے مقصد بیٹھ کر آپ کے لئے پریشانی پیدا
کرنے سے بچنے کی تلقین، پردے کے بارے میں دو ٹوک اعلان کہ اگر کوئی ضرورت پیش آہی
جائے تو نامحرم سے گفتگو پردہ کے پیچھے رہ کر کی جائے۔ نبی کے انتقال کے بعد کسی
کو ازواج مطہرات سے کسی بھی حالت میں نکاح کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ اور
اس کے فرشتوں کی طرف سے نبی پر صلاۃ و سلام کی خوشخبری سنا کر اہل ایمان کو بھی
آپ پر صلاۃ و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور
اہل ایمان کی ایزا رسانی کا باعث بننے والے ملعون اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق
ہیں۔ پھر اسلامی معاشرہ کی خواتین کو پردہ کرنے کے لئے ’’گھونگھٹ‘‘ نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قیامت کے بارے میں اللہ کے
علاوہ کوئی نہیںجانتا۔ کافر جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے کسی کے گناہوں کا
بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا ہر ایک کو اپنے جرائم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ حضرت
موسیٰ علیہ السلام کو ناجائز الزام سے بری قرار دے کر اللہ کی نگاہ میں ان کے معزز
و محترم ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پھر اہل ایمان کو تقویٰ اور پختہ بات کرتے ہوئے
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے پر مغفرت اور عظیم کامیابی کی خوشخبری سنائی
ہے۔ اسلام کی عظیم الشان امانت جسے زمین و آسمان اور پہاڑ اٹھانے سے قاصر رہے اس
انسان کے حصہ میں آنے کی خبر دے کر بتایا ہے کہ اس سے منافق و مؤمن اور مشرک و
موحد کا فرق واضح ہوگا اور ہر ایک کو اپنے کئے کا بدلہ مل سکے گا۔ اللہ بڑے غفور
رحیم ہیں۔
Thnku for making our work easy....🙃
ReplyDelete