رشک
آتا ہے پشاور صدر کی ایک اندرونی گلی میں اُس کتاب فروش پر .
میرا گزر ہفتے میں ایک بار اس گلی سے ہوتا تھا . مجھے اس گلی سے گزرتے ہوئے دو چیزوں کی عادت سی ہوگئی تھی .
جب بھی اس گلی سے گزر ہوتا تو اس ننے منے افغانی بچے کے ہاتھوں کا بنا ہوا آلو پڑاٹھہ ضرور کھا لیتا .
اور اس سے آگے گزرتے ہوئے اس کتاب فروش سے کوئی کتاب ضرور خریدتا .
میرا آلو پڑاٹھہ کھانے کی وجہ صرف یہی تھی کہ وہ بچہ بڑا محنتی تھا اور گھر والوں کا پیٹ لوگوں کا پیٹ بھر کر پالتا تھا .
مجھے درس نظامی کی کتابوں سے ہٹ کر مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا . پھر بھی اس بوڑھے کتاب فروش سے اس لئے کتاب خریدتا تھا کہ جب بھی میں نےاسے دیکھا , کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا . اس شخص کی کتب بینی نے مجھے اپنا دیوانہ بنالیا تھا .
عجیب شخص تھا وہ, کمال کا شوق و حافظہ رکھتا تھا, اِک مٹھاس سی تھی اس کی باتوں می جب وہ بولتا قاری بیٹا کیا حال ہے ? کونسی کتاب چاہئے ?
ہیمشہ کی طرح انہیں میرا ایک ہی جواب ہوتا
چچا جی وہ والی کتاب کیسی ہے اور وہ والی . پھر کہتا قاری بیٹا اس سے اچھی کتاب تمہیں نہ دوں ? .فورا سے کہہ دیتا جی چچا" جی "
تو وہ کتاب فروش چچا کہتے مجھے پتا ہے تم نے لینی وہی کتاب ہے جس کا انتخاب میں نے ہی کرنا ہوتا ہے .
پھر ایک کتاب کا انتخاب فرمالیتے
اور کہتے چلو اگلی جمعرات کو جب آؤگے نا تو اس سے بھی اچھی کتاب تہمارے لئے رکھوں گا .
آج ایک عزیز کے وال پر جب اُس کتاب فروش کی تصویر دیکھی تو بہت یاد آیا .
بس دل سے دعا نکلتی ہے رب کریم انہیں سلامت رکھے .سکھی رکھے.
. امین .
No comments:
Post a Comment