?Mazhab Kis Qadar Azadi Deta hai
مذہب
کس قدر آزادی دیتا ہے؟
انسان جس بھی مذہب یا معاشرے میں زندگی
گزارتا ہے اس میں کسی کے ہاتھ یا پاؤں باندھے تو نہیں جاتے کہ ہاتھ پاؤں باندھ کر
ایک طرف ڈال دیا جاتا ہو بلکہ وہ فرد معاشرے میں آزادانہ طور پر اُٹھ بیٹھ سکتا
ہے۔ کھا پی سکتا ہے۔ اتنی آزادی صرف اسلام ہی نہیں بلکہ تمام مذہب تمام تہذیبیں دیتی
ہیں جب اتنی آزادی ہر معاشرہ اورہر تہذیب دیتی ہے تو محاذآرائی و جستجو آج کل کس
بات کی ہو رہی ہے ۔ جگہ جگہ یہی نعرہ مقصود ومطلوب ہے کہ فلاں کی آزادی کا تحفظ کیا
جائے۔واضح رہے کہ مذہب یا معاشرے آزادی دیتے
ہیں بطور صلاحیت کے نہ کہ بطور حق یعنی آزادی کو پرکھا جائے گا کسی اور چیزپرمذہب یا
معاشرتی اقدار پراگر اس کے مطابق ہو تو ٹھیک وگرنہ آزادی نہیں دی جائے گی۔
دراصل مذہب خیر بھی متعین کرے گا شر بھی
متعین کرے گا کہ فلاں چیز میں خیر ہے بھلائی ہے اس کو اختیار کرواور فلاں چیز شر
ہے برائی ہے اس کو اختیار ہرگز نہ کرنا۔ شراورخیر کی تعیین کے بعد بندے کو آزادی
ہوتی ہے کہ شر کو اختیار کرتا ہے یا خیر کو مثلاً سچ بولنا خیر ہے نیکی ہے اب بندے
کو اختیار ہے بندہ آزاد ہے سچ بول کر رب کو راضی کرے یا جھوٹ بول کر اپنی قبر کو
برباد کرے۔ اسی طرح نماز پڑھنا خیر ہے اور چھوڑنا شر ہے اب بندہ آزاد ہے پڑھے یا
نہ پڑھے کسی نے بیڑیوں میں تو جکڑا ہوا نہیں ہے کہ اس کو کھینچ کر کوئی نماز کیلئے
لے جائے گا۔ یا جھوٹ بولنے سے اس کی زبان پر کوئی گرہ آ جائے گی۔
کسی کی غیبت کرنا بری بات ہے شر ہے اب بندہ
آزاد ہے کہ یہ کرگزرے یا اس سے رک جائے کسی کو تکلیف دینا شر ہے۔ بری بات ہے یہ تو
طے ہے مگر اس کو اختیار کرنے یا اس سے بچنے کا اختیار بندے کو ہے اس اختیار کو غلط
استعمال کرے گا تو عذاب کا مستحق ہوگا اور اگر درست استعمال کرے گا تو اپنے
پروردگار کی خوشنودی حاصل کرے۔
خلاصہ کلام :شر کیا ہے خیر کیا ہے یہ تو وحی
الٰہی اور سنت رسول سے ہی مقرر ہوگا
پھربندوں کو اختیار ہے
بندے آزاد ہیں کسی نے ہاتھ نہیں باندھے کسی نے مجبور نہیں کیا کہ تم شر کو اپناؤ یا
خیر کی طرف جاؤ لیکن ترغیب ضرور دی جاتی ہے کہ خیر کو اختیار کرو اور شر کو اختیار
کرنے پر ترہیب ہے یعنی خیر اور شر میں سے کسی پر بھی عمل کرنے میں بندہ آزاد ہے۔
مگر مغربی فلسفہ میں آزادی کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کے
نزدیک ایک اور معنی مراد ہے وہ یہ کہ بھلائی کیا ہے ؟ برائی کیا ہے؟ شر اور خیر کیا
ہے ان کو متعین کرنے کی آزادی۔ انسان خود طے کرے گا کہ سو دلینا صحیح ہے یا غلط یعنی
اچھا کیا ہے برا کیا ہے یہ بات مذہب خدا یا رسول سے نہ پوچھی جائے بلکہ بندہ آزاد
ہے جسے چاہے حلال قرار دے جسے چاہے حرام ۔ اور اس میں بھی آزاد ہے کہ جس کے بارے میں
جو رائے قائم کرئے ۔ جس کی رو سے بزرگوں کی آبرو ریزی کرنے اور انبیاء کی گستاخی
کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں لہٰذا اس معنی کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ آزادی
کے اس معنی کو مغرب بطور اصول کے قبول کرتا ہے پھر ہر چیز کے صحیح اور غلط قرار دینے سے مراد وہی پیمانہ
ہوتا ہے۔ جدت پسند طبقے کا طریقہ کار یہی ہے پہلے اہلِ مغرب کے بیان کردہ اصول کو
تسلیم کرتے ہیں پھر اسی اصول کو صحیح مانتے ہوئے اسلامی احکام ومسائل کی تاویلات
کرکے اسے مغربی اصولوں کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیںاوراسی مغربی اصول سے اسلام
کے احکام ومسائل کے حدوداربع جانچنے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ ایک غلط طرز عمل ہے
لہٰذا ہم ان مغربی اصولوں کو عملی بنیادوں پر رد کریں گے۔
سوال: جب اسلام میں آزادی نہیں تو کیا غلامی ہے؟ عام
طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر آپ آزادی کا نظریہ غلط تسلیم کرتے ہو تو کیا
اسلام میں غلامی ہے؟
جواب: ہم جس آزادی کی نفی کررہے ہیں اس کے مقابلہ میں
غلامی نہیں آتی بلکہ اس کے مقابلے میں بندگی ہے۔ اور یہ بات ہم پوری اسلامی علمیت
کی روشنی میں کہتے ہیں کہ اسلام میں عبدیت ہے بندگی ہے مطلق العنانی نہیں ہے۔
جو کوئی مطلق العنان آزادی کی اسلام کاری کرنے کی کوشش نا حق کرے
تو اسے چاہیے کہ رحمت دوجہاںۖ کے فرمان عالی شان کا بغور مطالعہ کرے۔
ارشاد نبوی:
عن ابی ھریرة رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲۖ الدنیا سجن المؤمن وجنة الکافر ہذا حدیث حسن صحیح(ترمذی:ج2ص58)
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ۖ نے فرمایا دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے اور کافر کیلئے جنت۔ یہ حدیث حسن
صحیح ہے۔
ان ارشادات نبویۖ کو مدنظر رکھ کرانسان اس دنیا میں اپنی حیثیت دیکھے تو
معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس دنیا میں آزاد ہے یا احکام الٰہی کا پابند ہے اور جو
اپنے لیے مطلق العنانی کا دعوے دار ہے اور اس کیلئے کوشاں ہے تو وہ مسلمان نہیں ہو
سکتا کیونکہ مسلمان کیلئے تو قدم قدم پر اﷲ کی بندگی کا حکم ہے یوں کرو یوں نہ کرو
۔ بیت الخلاء میں جاتے وقت سے لیکر انداز حکمرانی تک ایک ایک چیز کا پابند ہے ۔
قدم قدم پر رہنمائی ہے اور اچھا مسلمان تو وہ ہوگا جوجس قدر اﷲ کی بندگی میںلگا
ہوا ہے اس کے لیل ونہار رب کریم کی رضا تلاش کرنے میں گزریں اس کا اٹھنا بیٹھنا
اپنے نبی کے طریقے کے مطابق ہو اس کی خوشی غمی بھی اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ شادی
و بیاہ سے لیکر کفن و مرگ تک بندہ پابند ہے۔
بغیر کسی ابہام کے یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انسانیت کی
بھلائی عبدیت میں ہے بندگی میں ہے مطلق العنانی میں نہیں انسانی افضلیت اور شرف کا
اندازہ بھی اسلامی نقطہ نظرسے اس کی بندگی یعنی تقویٰ دیکھ کر لگایا جاتا ہے ۔ جو
جتنا زیادہ متقی ہے اتنا زیادہ مکرم و محترم ہے۔ مطلق العنانی اورآزادی کی اسلام
اجازت نہیں دیتا ۔
اعتاق کی طرف اسلام ضرور دعوت دیتا ہے کہ غلاموں کو آزاد کرو نبی
پاکۖ نے غلاموں کو آزاد کرنے کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں۔
حتیٰ کہ رحمت دو عالم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان غلام کو آزاد
کرنے کا اتنا اجر ہے کہ اﷲ جل شانہ اسکے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کے ہر
عضوکو جہنم سے بچالیتے ہیں۔
ارشاد نبویۖ:
عن ابی ھریرة رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲۖ من اعتق رقبة مسلمة اعتق اﷲ بکل عضو منہ عضو امن النار حتی فرجہ بفرجہ
متفق علیہ(مشکواة المصابیح: حدیث نمبر3233)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ جناب نبی اکرمۖ سے روایت کرتے ہیں ۔ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا جو آدمی کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے
گا اﷲ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کے عضو کو جہنم سے آزاد(بری)کردیں گے حتیٰ
کہ اس کی فرج کے بدلے اس کی فرج کو۔
غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی ۔ اسلام آزادی کی حمایت کرتا ہے
کہ زیادہ سے زیادہ غلام آزاد کیے جائیں۔ تمام بنی آدم اﷲ کی بندگی اور اطاعت میں
آجائیں اسلام اس کا داعی ہے مطلق العنان آزادی اسلام میں نہ مطلوب ہے اور نہ ہی اس
کی گنجائش ہے۔
برصغیر پاک وہند اور دیگر
اسلامی ممالک میں لفظ آزادی یا حریت کی مقبولیت کی وجہ کیا بنی؟
جب آزادی (Freedom) پر مغربی فکرونظر کے لحاظ سے روشنی ڈالی
جاتی ہے تو لاشعوری طور پر یہ سوال مسلمانوں کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس قدر دہریت
آمیز معنی جس میں لادینیت ہے لامذہبیت ہے تو آخر کیا اسباب و وجوہ بنے جس کی وجہ
سے مغربی نظریات اقوام مسلم میں تیزی سے پھیل گئے اور کم علمی کی وجہ سے یا مغربی
تہذیب سے عدم تعارف کے سبب مسلمانوں نے ان نظریات کو قبول کیا حتیٰ کہ ان کی اسلام
کاری کی بھی کوشش شروع کردی ۔ آزادی کو اسلام سے ثابت کرنے لگے مساوات کو بھی
اسلام کا نصب العین قرار دینے لگے؟
مغل بادشاہوں کے زوال کے بعد انگریز برصغیر پر قابض ہوگئے چونکہ
انہوں نے بادشاہت مسلمانوں سے چھینی تھی اس لیے انگریز مسلمانوں کی بیخ کنی کی
مکمل کوشش کرتے اور ہندوستان کی باقی اقوام کو بھی اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں کو
سماجی 'معاشرتی واخلاقی طور پر کمزور کرنے کی مکمل کوشش کرنے لگے۔
ایسی صورتحال میں مسلمان
اکابرین نے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے لئے آزادی کی تحریک چلائی حریت کانعرہ لیکر
میدان عمل میں آئے اورزور و شور سے آزادی کی جدوجہد شروع کی۔ اگرچہ یہ تحریک کامیاب
نہ ہوسکی ۔ اس تحریک کو ختم کردیا گیا اور کارکن علماء کرام کو تختہ دار کی زینت
بنادیا گیا۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں علماء امت کے خون سے سرزمین ھند کو سرخ کیا گیا۔
اگرچہ یہ اولیاء وقت تو اس جہان فانی سے سرخرو ہوکر اپنے رب سے جاملے لیکن ان کی
چلائی ہوئی تحریک کااثر مسلمانوں میں باقی رہا وہ سوچ وفکر مسلمانوں میں چلتی رہی
کہ اس ظالم قوم سے نجات حاصل کرنی ہے۔ یہ حال صرف ہندوستان کا ہی نہ تھاکہ غیروں
کے زیر اثر تھا بلکہ خلافت عثمانیہ کا بھی 1919ء میں شیرازہ بکھر گیا تھا غرض تمام
اسلامی ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے اور انگریزوں نے ان پر اپنا تسلط
جمالیا تھا۔
مسلمانوں کے پاس اب کوئی بڑی حکومت نہ بچی تھی ۔ اس حالت میںان
کو شدت سے احساس ہوا کہ وہ ایک عظیم نعمت کو کھو چکے ہیں اور غیر مسلم قوموں کے مطیع
بن گئے ہیں۔ ایسے حالات میں مسلم اُمہ کیلئے آزادی کی تحریکیں اور آزادی کا حصول
گراں قدر چیز تھی اس لیے کہ جب غلامی کی زنجیروں کا مزا چکھا تو آزادی کی قدر
معلوم ہوئی لہٰذا مسلم دنیا میں آزادی و حریت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔
لفظ آزادی کا استعمال بے دریغ ہمارے لٹریچروں میں ہوا لیکن آزادی سے یہ بات ہٹ گئی
کہ کس سے آزادی اور کس لیے آزادی۔
Freedom
for Freedom from
کی تشریح کے بغیر لفظ آزادی کا استعمال ہوا اور اس کے معنی کے
ساتھ وضاحت کے ہٹ جانے کی وجہ سے وہ تصور آزادی ابھر کر سامنے آیا اور وہ معنی
مراد لیا جانے لگا جو مغربی دنیا میں مراد ہے جس معنی کی عکاسی اہل مغرب کرتے ہیں
بعض کلمہ گوافراد نے بھی آزادی سے وہ معنی مراد لینا شروع کردیااوربطور دلیل ہمارے
اکابر کی عبارات پیش کرنے لگے۔
حالانکہ مسلمان اگر آزادی کوقدر و اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
تو اس کا پس منظروہ سوسالہ غلامی ہے۔ ان کے ذہن میں آزادی کے مقابلے میں غلامی ہے
اس غلامی سے خلاصی کیلئے آزادی کی تحریکیں مسلمانوں نے چلائیں اورغیر مسلم قوموں کی
غلامی سے چھٹکاراحاصل کرنے کیلئے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔تاکہ انگریزوں سے
آزادی حاصل کرکے پوری طرح اﷲ کی بندگی کرسکیں اوراللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر
سکیں۔
No comments:
Post a Comment