سورۃ
النمل
مکی سورت ہے،
اس میں ترانوے آیتیں اور سات رکوع ہیں۔ سورت کی ابتداء میں قرآن کریم کے اہل
ایمان کے لئے بشارت اور ہدایت کی واضح کتاب ہونے کا اعلان ہے۔ پھر منکرین آخرت کے
انجام بد کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس کے بعد قصۂ موسیٰ و فرعون کی شکل میں معرکۂ
حق و باطل کو دل آویز اختصار کے ساتھ بیان کرکے بتایا کہ اللہ اپنے بندوں کی مدد
کرتے ہیں اور انہیں خوف اور ہر قسم کی مشکلات سے بچاتے ہیں جبکہ ظالموں کو عبرتناک
انجام سے دوچار کرتے ہیں۔ پھر دائود و سلیمان علیہما لسلام کے واقعہ کی شکل میں
اقتدار و بادشاہت اور نبوت و رسالت کے حسین امتزاج او رمادی و روحانی ترقی کے بام
عروج پر پہنچ کر بھی عبدیت و ایمان کے روح پرور مناظر کو بیان کیا ہے۔
دونوں باپ
بیٹوں کو بے پناہ وسائل، جنات پر حکمرانی اور پرندوں کی گفتگو سمجھنے کا سلیقہ بھی
عطاء کیا گیا تھا۔ سلیمان علیہ السلام ایک مرتبہ جن و انس اور پرندوں پر مشتمل
اپنے لشکر کے ساتھ جارہے تھے کہ ’’وادی النمل‘‘ چیونٹیوں کے
علاقہ سے ان کا گزر ہوا۔ ایک چیونٹی کے متوجہ کرنے پر چیونٹیاں اپنے بچائو کے لئے
بلوں میں گھسنے لگیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام اس منظر سے بہت محظوظ ہوئے اور
اللہ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس کی رحمت کے طلبگار ہوئے۔ پھر ہدہد پرندہ کے ذریعہ
موصول ہونے والی خبر پر ملک سباء کے سورج پرست عوام اور ان کی ملکہ بلقیس کے نام
حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے تذکرہ کے ساتھ ہی حضرت سلیمان کی جاہ و حشمت اور
وسائل کی فراوانی کو بیان کرکے بتایا گیا ہے کہ قوم سباء کے نخوت و تکبر کے مقابلہ
میں سلیمان علیہ السلام کی عجزو انکساری کو فتح نصیب ہوئی۔ حضرت سلیمان کے جنات نے
ملکہ سباء کا تخت پلک جھپکتے میں منتقل کردیا اور ملکہ بلقیس دربار سلیمانی میں
حاضر ہوکر آپ کی شان و شوکت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور کلمہ پڑھ کر حلقہ
بگوش اسلام ہوگئی۔ پھر قوم ثمود اور ان کے نبی صالح علیہ السلام کے روپ میں اسلام
اور کفر کا معرکہ وسائل و انتظامات کے مقابلہ میں ایمان و اعمال صالحہ کی جیت کو
بیان کیا گیا ہے۔ پھر قوم لوط اور ان کی بدکرداری کے مقابلہ میںاللہ کے نبی لوط
علیہ السلام کی فتح اور نافرمانوں کی تباہی کی منظر کشی کی گئی ہے۔اور پارہ کے
آخر میں اللہ کی حمد و ثناء اور منتخب بندگانِ خدا پر سلامتی کی نوید سنائی گئی
ہے اور معبود حقیقی اور معبودان باطل میں تقابلی مطالعہ کے ذریعہ حق تک رسائی حاصل
کرنے کی راہ سجھائی گئی ہے۔
أَمَّنْ
خَلَقَ
توحید باری
تعالیٰ پر ’’تقریری اسلوب‘‘ سے دلائل پیش
کرتے ہوئے بیسویں پارہ کی ابتداء ہوتی ہے کہ تم جتنی بھی کوشش کرلو، غور و خوض
کرلو، اس سوال کا جواب یہی ہوسکتا ہے، قرآن کریم کہتا ہے آسمان و زمین کو پیدا
کرکے بارش برسا کر پُر رونق سرسبز و شاداب باغ اور باغیچے کس نے پیدا کئے؟ کیا تم
ایسے درخت بنا سکتے تھے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہوسکتا ہے۔ اس کے
باوجود یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے معبودوں کے پیچھے بھٹکنے لگ جاتے ہیں۔ کس نے
زمین کو ہچکولے کھانے سے روک کر جانداروں کے لئے قرار گاہ بنایا۔ اس میں نہریں اور
پہاڑ بنائے اور دو دریائوں کو آپس میں مخلوط ہونے سے بچانے کے لئے درمیان میں حد
فاصل بنائی، کیا ایسے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود شریک کار ہوسکتا ہے؟ لیکن یہ
مشرک لوگ علم کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ پریشان حال جب پکارتا ہے تو اس کی تکلیف
دور کرنے اور تمہیں زمین پر اختیارات سونپنے والا کون ہے؟ خشکی اور تری کے
اندھیروں میں ہدایت دینے والا اور بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلانے والا کون ہے۔
تمہاری پہلی تخلیق کے بعد دوبارہ پیدا کرنے اور آسمان و زمین سے تمہیں روزی بہم
پہنچانے والا کون ہے؟ آسمان و زمین کے چھپے ہوئے بھید جاننے والا کون ہے؟ ان
مشرکین کے پاس شرک کے لئے کوئی دلیل نہیں جس سے اپنی سچائی ثابت کرسکیں۔ یہ بے
سوچے سمجھے بہکے چلے جارہے ہیں۔ دراصل آخرت کے بارے میں ان کا ’’علم‘‘ ان سے کھو گیا ہے بلکہ یہ شکوک و شبہات میں مبتلا
ہوکر بینائی کے تقاضوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ پھر مشرکین کے گھسے پٹے اعتراض کی
بازگشت سنائی گئی ہے کہ بوسیدہ ہڈیوں اور پیوند زمین ہوجانے کے بعد ہمیں دوبارہ
کیسے زندہ کیا جائے گا ایسے مجرموں کا انجام سب کے سامنے ہے۔ جس عذاب کے لئے جلدی
مچارہے ہیں وہ اگر اچانک آگیا تو انہیں کون بچا سکے گا؟ ہر قسم کے اختلافات کا حل
قرآن کریم میں ہے۔ اس میں ہدایت بھی ہے رحمت بھی ہے، کافر سماعت کے تقاضے پورے
نہیں کرتے اس لئے انہیں بہرے بلکہ مردے قرار دیا گیا ہے۔ پھر قرب قیامت کی بڑی
نشانی ’’دابۃ الارض‘‘ کے ظہور کا
بتایا گیا ہے۔ پھر صور پھونکا جانا، پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑتے پھرنا اور لوگوں
کا ٹولیوں کی شکل میں احتساب کے لئے پیش ہونا اور نیکی سر انجام دینے والوں کا
گھبراہٹ سے محفوظ رہنا اور ’’بدی‘‘ کے مرتکبین کا قیامت کے دن اوندھے منہ جہنم میں
ڈالا جانا بیان ہوا ہے۔ مسلمان بن کر رب کعبہ کی عبادت کی تلقین اور قرآن کریم کی
تلاوت کا حکم ہے۔ ہدایت یافتہ انسان اپنا فائدہ کرتے ہیں جبکہ گمراہ اپنا ہی نقصان
کرتے ہیں۔ اللہ اپنی قدرت کے دلائل کا مشاہدہ کراتے رہیں گے جنہیں تم اچھی طرح
پہچان لوگے تمہارے اعمال سے تمہارا رب غافل نہیں۔
It's helpful for me
ReplyDelete