سورة النساء
یہ مدنی سورہ
ہے۔ ایک سو چھہتر آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ امرأۃ عورت کو کہتے ہیں۔ اس
کی جمع نساء ہے، جس کے معنی ’’عورتیں‘‘ یا ’’خواتین‘‘ ہے۔ اس سورہ میں منجملہ دوسرے مسائل کے عورتوں کے
انتہائی اہم اور حساس مسائل زیر بحث آئے ہیں، اس لئے اس کا نام سورہ النساء رکھا
گیا ہے۔ سورہ بقرہ کے بعد متنوع اور بھرپور طریقہ پر مسائل کا بیان اس سورہ کے
اندر ہے۔ معاشرتی اور قومی مسائل کے ساتھ تشریعی مسائل اور ہجرت اور جہاد پر سیر
حاصل گفتگو، غیر مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، میراث کے احکام، کلالہ کا مسئلہ،
عقائد پر بحث، منافقین کا تذکرہ اور یہود و نصاریٰ کے مکروہ چہرہ کی نقاب کشائی
جیسے اہم موضوعات پر مفصل بات کی گئی ہے۔
تقویٰ اختیار
کرنے کی تلقین کے ساتھ سورہ کی ابتداء کی گئی ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ
آدم و حواء علیہما السلام کی معجزانہ تخلیق کے بعد بے شمار انسانوں کو اس جوڑے کی
صلب سے پیدا کرکے اس سرزمین پر پھیلادیا۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ایک ماں باپ
کی اولاد ہونے کے ناطے تمام انسانوں کو ایک گھرانے کے افراد کی طرح باہمی اتفاق و
اتحاد سے زندگی بسر کرنی چاہئے۔
پھر یتیموں کی
کفالت اور ان کے اموال کی دیانتداری کے ساتھ حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ چار تک
بیویاں رکھنے کی اجازت اور ان میں عدل و انصاف قائم رکھنے کا بیان ہے۔ مہر کی
ادائیگی بطیبِ خاطر کی جائے اور خواتین چاہیں تو اپنا مہر معاف بھی کرسکتی ہیں۔
معاشرہ میں ناسمجھ افراد کی نگہداشت اور ان کی مالی سرپرستی کا حکم دیا گیا ہے،
پھر وراثت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو اور تمام وارثوں کے حصے متعین کرکے بتایا گیا
ہے کہ وارثوں کے استحقاق کو اللہ تم سے بہتر جانتے ہیں۔ وراثت کی تقسیم سے پہلے
میت کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عملدرآمد کی تلقین ہے۔ زنا اور لواطت کے لئے
ابتدائی قانون سازی کی گئی ہے۔ عورتوں کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی کسی کے نکاح
میں دینے اور ان کے مہر میں خوردبرد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ والد کے انتقال کے
بعد اس کی منکوحہ سے نکاح پر پابندی لگائی گئی ہے اور محرمات کی فہرست ذکر کرکے
بتایا گیا ہے کہ ان خواتین سے نکاح حرام ہے۔ ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ،
بھتیجی، بھانجی، رضاعی ماں، رضاعی بہن، ساس، بہو، جس منکوحہ کا شوہر موجود ہے۔ ان
خواتین سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
وَالْمُحْصَنَاتُ
عفت و عصمت
اور نسل انسانی کے تحفظ اور شہوت کی تسکین کے لئے زنا کی بجائے نکاح کا راستہ اختیار
کیا جائے، اگر غیرمنکوحہ آزاد عورت میسر نہ آئے تو مالکان کی اجازت سے باندیوں
کے ساتھ بھی نکاح کیا جاسکتا ہے۔ زنا میں مبتلا ہونے کی صورت میں باندی کی سزا آزاد
عورت سے نصف ہوگی۔ کسی کا مال ناجائز طریقہ سے کھانا حرام ہے البتہ باہمی رضامندی
کے ساتھ تجارتی بنیادوں پر قیمت ادا کرکے استعمال کرسکتے ہیں، خودکشی حرام ہے۔ کبیرہ
گناہوں سے بچنے والوں کے صغیرہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی
جسمانی صلاحیتوں میں جو فرق رکھا ہے اس کے پیش نظر ایک دوسرے سے برابری کی تمنا نہ
کریں۔ ہر ایک کے عمل کے مطابق اجر و ثواب میں سے حصہ ملے گا۔ اللہ سے اس کا فضل
مانگنا چاہئے۔ مردوں کو عورتوں پر دو وجوہ سے برتری عطا کی گئی ہے۔ (۱)انہیں
خِلقی طور پر جسمانی فضیلت حاصل ہے۔ (۲)گھریلو معاملات میں مالی اخراجات کی ذمہ داری ان
پر عائد ہے۔ پاکیزہ خواتین وہ ہیں، جو اطاعت شعار اور اپنی عفت وپاکدامنی کی محافظ
ہوں۔ نافرمانی کرنے والی عورتوں کو وعظ و نصیحت کریں، زن وشوئی کے تعلقات منقطع کریں
اور مناسب سزا دے کر انہیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ فرماں برداری
اختیار کرلیں تو انہیں ستایا نہ جائے۔ اگر میاں بیوی کے اختلافات حد سے تجاوز
کرجائیں تو جانبین کی طرف سے ایک ایک نمائندہ کو باہمی مذاکرات سے مسئلہ کو حل
کرنے کے لئے مقرر کردیا جائے۔ اگر دونوں مخلص ہوں گے تو اختلافات کو ختم کرنے کا
کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی
اہتمام کرو۔ اللہ کی عبادت کرو۔ شرک سے گریز کرو۔ والدین، رشتہ دار، یتیم، مسکین،
پڑوسی، مسافر وغیرہ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں
کرتے اگر کوئی شخص نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھاکر اسے اجر عطا فرماتے ہیں۔
ہر امت میں سے گواہ لائے جائیں گے اور ان سب پر محمد علیہ السلام کو بطور گواہ پیش
کیا جائے گا۔ شراب کی حرمت کے حوالہ سے ذہن سازی کرتے ہوئے فرمایا کہ نشہ کی حالت
میں نماز کے قریب نہ جائو تاکہ مدہوشی کے عالم میں کوئی غلط اور نازیبا بات منہ سے
نہ نکل جائے۔
اس کے بعد
جنابت اور تیمم کے بعض مسائل ذکر کئے اور پھر یہودیت کی مکروہ ذہنیت کا پردہ چاک
کرتے ہوئے ان کی بعض سازشوں اور خرابیوں کو بیان کیا۔ امانت کو اس کے مستحقین تک
پہنچانے کا حکم دیا۔ اللہ اور اس کے رسول اور اولو الامر کی اطاعت کی تلقین فرمائی۔
بعض لوگ ایمان کے دعوے کے باوجود طاغوت (اللہ کے باغی رہنمائوں) سے اپنے فیصلے
کراتے ہیں جبکہ انہیں طواغیت سے براء ت کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انہیں بہت دور کی
گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے۔ جب انہیں اللہ کے کلام کے مطابق فیصلہ کرانے کی دعوت دی
جاتی ہے تو یہ لوگ اس راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگتے ہیں۔ پھر ایک واقعہ کی طرف
اشارہ ہے۔ ایک منافق اور ایک یہودی میں اختلاف ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے دلائل کی روشنی میں فیصلہ یہودی کے حق میں دیدیا۔ منافق نے حضرت عمر سے انصاف
مانگا۔ انہوں نے اسے قتل کردیا کہ جو شخص رسول خدا کے فیصلہ کو انصاف کے منافی خیال
کرے انصاف کا تقاضا ہے کہ اسے زندگی کی قید سے آزاد کرادیا جائے۔ اس پر قرآن کریم
نازل ہوا کہ تمہارے رب کی قسم ہے کہ وہ شخص ایمان سے خالی ہے جو اپنے اختلافات میں
آپ کے فیصلہ کو بلاچوں و چرا تسلیم نہ کرے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ اور اس کے
رسول کی اطاعت کرنے والے، اللہ کے انعام یافتہ بندوں انبیاء، صدیقین، شہداء اور
صالحین کے ساتھ جنت میں ہوں گے۔ ایسے پاکیزہ لوگوں کا ساتھ میسر آجانا اللہ کے
فضل کا آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب علم رکھنے والے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی
اطاعت و فرماں برداری کی فضیلت بیان کرکے سب سے بڑی اطاعت اور نیکی کا حکم دیا اور
وہ غلبۂ اسلام کے لئے اپنی جان و مال لگاکر جہاد میں حصہ لینا ہے۔ فرمایا: اے ایمان
والو! جہاد کے لئے میدانی جنگ یا چھاپہ مار جنگ جو بھی وقت کا تقاضا ہو اسے اختیار
کرو۔ تمہاری صفوں میں ایسے منافقین بھی موجود ہیں جو جہاد کے مخالف اور محاذ جنگ
سے پیچھے رہنے والے ہیں۔ ان کی صورتحال یہ ہے کہ اگر تمہیں محاذ پر کوئی ناگواری پیش
آئے تو خوشیاں مناتے ہیں کہ اچھا ہی ہوا کہ ہم ان کے ساتھ نہیں تھے اور اگر تمہیں
کوئی کامیابی حاصل ہو تو انہیں افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ کاش مال غنیمت کے حصول
میں ہم بھی شریک ہوتے۔ دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والوں کو قتال فی سبیل اللہ میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے کیونکہ اللہ کے راستہ میں قتال کے دوران اگر کوئی شخص
شہید ہوجاتا ہے یا کافروں پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے تو دونوں صورتوں میں اجر عظیم کا
مستحق قرار پاتا ہے۔ پھر قتال فی سبیل اللہ کے لئے جواز کی وجہ بیان کرتے ہوئے
فرمایا کہ تم آخر جہاد کے لئے کیوں نہیں نکلتے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ضعیف اور
مظلوم بچے، بوڑھے اور عورتیں کفار کے ظلم سے تنگ آکر تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں اور
دعائیں مانگتے ہیں کہ ہمارے لئے ظلم و ستم سے نجات دہندہ اور کوئی مددگار پیدا کردیجئے۔
ان حالات میں بھی اگر جہاد نہیں کروگے تو پھر کب کروگے؟ جب کافر طاغوت کی حمایت میں
لڑتے ہیں تو ایمان والوں کو اللہ کے دین کی حمایت میں لڑنا چاہئے۔ شیطان کے حمایتیوں
سے تمہیں جنگ کرنی چاہئے۔ شیطانی سازشیں انتہائی کمزور ہوا کرتی ہیں، بعض لوگ ایسے
ہوتے ہیں کہ جب نماز روزہ کی بات ہو تو جہاد شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور جب
جہاد کا وقت آتا ہے تو موت کے ڈر سے راہِ فرار اختیار کرجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں کہ موت تو ہر جگہ آکر رہے گی۔ مضبوط قلعوں کے اندر بند ہوکر بھی موت
سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ اگر انہیں کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے تو اسے اللہ کی طرف
منسوب کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی نقصان ہوجائے تو نبی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں،
جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ فائدہ کو اللہ کی طرف منسوب کریں اور نقصان کو اپنی کوتاہی
اور کج تدبیری کا نتیجہ قرار دیں۔ ہم نے رسول کو اسی لئے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت
کی جائے کیونکہ اطاعتِ خداوندی اطاعتِ رسول میں مضمر ہے۔ منافقین آپ کے سامنے
اطاعت کی باتیں کرتے ہیں اور آپ کی مجلس سے اٹھ کر آپ کی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔
آپ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ان سے صرفِ نظر کرتے رہیں اللہ بہترین کارساز ہیں۔ اس
کے بعد قرآن کریم میں غور و خوض کی دعوت دیتے ہوئے اس کے حق و صداقت پر مبنی ہونے
کے لئے دلیل یہ دی ہے کہ اس میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں پایا جاتا۔ پھر معاشرہ
کا امن و سکون تباہ کردینے والی بدترین عامل ’’افواہ سازی‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اس کے سدباب کا طریقہ بیان کیا ہے کہ
متعلقہ شخص سے رابطہ کرکے تحقیق کرلی جائے تو ’’افواہیں‘‘ اپنی موت آپ مرجاتی ہیں اور اگر دین کی کوئی بات سامنے
آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین کے ماہرین سے رجوع
اور تحقیق کے بغیر اس پر عمل نہ کیا جائے۔ جہاد کے لئے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ
دوسروں کو ہدفِ تنقید بنانے کی بجائے اپنے آپ کو پیش کردے اور دوسرے مسلمانوں کو
جہاد میں شریک کرنے کے لئے ترغیب دیتا رہے۔ یہی وہ راستہ ہے، جس سے کافروں کا زور
توڑا جاسکتا ہے۔ اللہ بڑی طاقت کے مالک ہیں اور وہ دشمنان اسلام کو عبرت کا نشان
بناسکتے ہیں۔
جائز اور
ناجائز سفارش کا ضابطہ بیان کیا اور سلام کرنے کے آداب سکھائے کہ سلام کا جواب
بہتر سے بہتر انداز میں دیا جائے۔ پھر قیامت کے محاسبہ کی یاددہانی کے لئے فرمایا
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تمہیں ایسے دن میں جمع کرے گا، جس کے آنے میں شک
و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اللہ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے۔ پھر
منافقین کے بارے میں دوٹوک پالیسی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ
منافقین کے بارے میں دہری ذہنیت کا کیوں شکار ہو؟ اللہ نے انہیں مستردکردیا ہے،
جسے اللہ گمراہ قرار دے دیں، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا! تم ان کے بارے میں
متردد ہو جبکہ وہ تمہیں کافر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ تم اور وہ ایک جیسے
ہوجائو۔ یہ لوگ تو اس قابل ہیں کہ ان سے کسی قسم کی دوستی نہ رکھی جائے بلکہ یہ
جہاں بھی ملیں انہیں قتل کرکے جہنم رسید کردیا جائے، البتہ ان میں سے اگر کسی نے
تمہارے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہو یا وہ قتل و غارت گری سے باز آنے کی ضمانت دینے کے
لئے تیار ہوتو اس سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے، پھر اس کے بعد کسی بے گناہ کے قتل کی
صورت میں دیت کی ادائیگی کا ضابطہ بیان کیا اور کسی مؤمن کے ناجائز قتل کی صورت میں
دائمی جہنمی ہونے کی وعید بیان فرمائی، پھر بلا تحقیق کسی کے خلاف انتقامی کارروائی
کرنے سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی اجنبی شخص تمہیں سلام کرتا ہے تو یہ اس
کے ایمان کی علامت ہے محض شک و شبہ کی بنیاد پر اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھانا
چاہئے۔ پھر محاذ جنگ پر مصروفِ عمل مجاہد کی فضیلت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مجاہدین‘‘ اور ’’قاعدین‘‘ ہمسر نہیں ہیں یعنی جہاد سے پیچھے رہنے والے، جہاد
کرنے والوں کے برابر کبھی نہیں ہوسکتے، ہر مسلمان سے اللہ نے اجر و ثواب کا وعدہ
کررکھا ہے مگر مجاہدین کا مرتبہ اور مقام بہت بڑا ہے، پھر ہجرت کے موضوع پر گفتگو
کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعویدار ہوکر بھی ایسی جگہ سے
ہجرت نہ کرے جہاں اسے دین پر عمل کرنے کی اجازت نہ ہوتو اس کے ایمان کا کوئی
اعتبار نہیں ہے۔ اللہ کے نام پر ہجرت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بڑی وسعت اور فارغ
البالی نصیب فرماتے ہیں۔ پھر جہاد اور نماز کی اہمیت کے ایک قرآنی حکم کا تذکرہ
ہے۔ مسلمان غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر جب ظہر کی نماز پڑھنے لگے تو کافروں نے
کہا کہ ہمیں اگر پہلے سے معلوم ہوتا تو اس حالت میں ایک دم حملہ آور ہوکر
مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا بہت آسان تھا۔ انہوں نے عصر کی نماز میں حملہ کرنے
کی پلاننگ کرلی، جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کافروں کی اس خفیہ تدبیر کی
اطلاع بھی دی اور اس کے سدباب کے لئے ’’صلوٰۃ الخوف‘‘ کا طریقہ بھی
بیان کردیا کہ اگر دشمن سے جان کا خطرہ ہوتو نماز کے لئے اس طرح صف بندی کریں کہ ایک
صف امام کے ساتھ نماز کی ایک رکعت مکمل کرلے۔ دوسری صف نیت باندھ کر کھڑی رہے اور
دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے پھر دوسری صف ایک رکعت امام کے ساتھ مکمل کرلے
اور پہلی صف پیچھے ہٹ کر دشمن کے اچانک حملہ کی صورت میں جوابی کارروائی کے لئے تیار
رہے پھر امام اپنی نماز مکمل ہونے پر سلام پھیردے اور دونوں صفیں باری باری اپنی
باقی ماندہ نماز پوری کرلیں۔ اس طرح نماز کے فریضہ کی بروقت اور باجماعت ادائیگی
بھی ہوجائے گی اور جہاد کے فریضہ کی ادائیگی میں بھی کوتاہی اور غفلت نہیں ہوگی۔
اسی ضمن میں حالت سفر میں ’’قصر نماز‘‘ کا حکم بھی
عنایت کیا گیا۔ چنانچہ دشمنوں کی تدبیر دھری کی دھری رہ گئی اور نماز اور جہاد کی
مشترکہ اہمیت بھی واضح ہوگئی کہ نماز جیسے عظیم الشان عمل کی وجہ سے جہاد کو مؤخر
کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور جہاد جیسے اہم عمل کی بناء پر نماز میں غفلت اور
کوتاہی کی اجازت نہیں دی گئی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی دوران جہاد ذکر میں
مشغولیت رہے۔ نماز کو وقت مقرر پر ادا کرنا فرض ہے۔ پہاڑی علاقہ میں ننگے پائوں
کافروں کا پیچھا کرنے سے مجاہدین کے پائوں زخمی ہوکر خون رِسنے لگا تھا، جس پر حکم
ہوا کہ کافروں کے تعاقب میں کسی قسم کی سستی کا مظاہرہ نہ کرو۔ اگر تمہیں تکلیف
پہنچی ہے تو کافر بھی آرام سے نہیں بیٹھے ہوئے انہیں بھی اپنا بچائو کرتے ہوئے
زخم سہنے پڑ رہے ہیں، مگر مسلمان اور کافر کی تکلیف میں بنیادی فرق ہے کہ تمہیں ہر
تکلیف اور زخم پر اللہ کے ہاں سے اجر و ثواب ملے گا، جبکہ ان کی تکلیف اور دکھ انہیں
مزید جہنم کے قریب کردے گا۔ اس کے بعد ہر حال میں عدل و انصاف کا مظاہرہ کرنے کی
تلقین ہے واقعہ یہ ہوا تھا کہ کسی گھر میں چوری ہوگئی تھی چور انتہائی چالاک اور
چرب لسان تھے۔ انہوں نے کسی بے گناہ کو پھنساکر اپنا دامن بچانے کی کوشش کی۔ بعض
لوگ ان کی چرب لسانی سے متاثر ہوکر انہیں بری کرانا چاہتے تھے۔ قرآن کریم نے ان
کے جرم کو طشت ازبام کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ بلاتحقیق کسی خائن مجرم کی حمایت
کرنے کی بجائے عدل و انصاف کے قانون کے مطابق فیصلہ کرکے مجرمین کو سزا دینی چاہئے۔
دنیا میں اگر تم نے کسی مجرم کو بچا بھی لیا تو کل قیامت میں اللہ کی گرفت سے اسے
کون بچائے گا۔ جس نے جرم کیا سزا بھی اسی کو ملنی چاہئے۔ اپنے گناہ کا الزام دوسرے
پر تھوپنا بہت بڑا جرم ہے اور بہتان تراشی کے زمرہ میں آتا ہے۔ کسی کو نقصان
پہنچانے کے لئے خفیہ تدبیروں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی خفیہ تدبیر کرنی
ہی ہے تو کسی نیک کام، صدقہ و خیرات یا مفادعامہ کے لئے کرنی چاہئے۔ اس پر اجر عظیم
نصیب ہوگا۔
نبی کی مخالفت
کرتے ہوئے جمہور مسلمانوں سے ہٹ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنانے والوں کی
مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اجماع کے خلاف کرے گا، اسے اللہ تعالیٰ دنیا میں
تو ڈھیل دے دیں گے، مگر کل قیامت میں اسے جہنم کے بدترین ٹھکانہ سے سابقہ پڑے گا۔
اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کرسکتے ہیں، مگر شرک کے گناہ کو کبھی معاف نہیں فرمائیں
گے۔ اس کے بعد شیطانی چالوں کا کچھ تذکرہ پھر جنت و جہنم کی باتیں اور ہر شخص کو
اپنے عمل کا بدلہ بھگتنے کے لئے تیار رہنے کی تلقین اور مساوات مرد و زن کا قرآنی
ضابطہ اور پھر ابراہیم علیہ السلام کے طرز زندگی کو اختیار کرنے کا حکم اور کائنات
پر اکیلے اللہ کی بلا شرکتِ غیرے حکمرانی کا بیان ہے۔ پھر خواتین کے مسائل کی طرف
رجوع کرتے ہوئے ان کے ضعف و کمزوری کی بناء پر ان کے ساتھ ظلم و ناانصافی سے منع کیا
گیا ہے۔ میاں بیوی کے اختلاف کی صورت میں خلع کا ضابطہ بیان کیا گیا ہے، پھر اللہ
کی قدرت و حکمرانی کو بیان کرنے کے بعد عدل و انصاف کا دامن تھامنے اور سچی گواہی
دینے کی تلقین ہے۔ اگرچہ اپنی ذات یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ پھر
منافقین کے لئے دردناک عذاب کی دھمکی کے ساتھ ہی ایسے لوگوں کی مجلسوں سے بچنے کی
تلقین ہے، جو احکام قرآنی میں ترمیم و تنسیخ کرنا چاہتے ہوں۔ منافقین اللہ کو
دھوکہ دینے کی کوشش میں اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ لوگ نماز میں سستی
اور اللہ کے ذکر سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ تذبذب کا شکار رہتے ہیں نہ ادھر کے نہ ادھر۔
ایسے گمراہوں کو ہدایت بھی نہیں ملاکرتی۔ یہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ڈالے جائیں
گے، مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں سے دوستی اور گٹھ جوڑ کی اجازت نہیں ہے۔ کافروں
کو مسلمانوں پر کسی طرح بھی فوقیت نہیں دی جاسکتی، یہ لوگ اگر تائب ہوکر اپنا طرز
عمل درست کرلیں تو ان کا شمار بھی مؤمنین کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ اگر تم ایمان کے
تقاضے پورے کرتے رہو اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہو تو اللہ تمہیں عذاب دیکر کیا کریں
گے؟ اللہ تو دلوں کا بھید جاننے والے بڑے ہی قدر دان ہیں۔
لاَ يُحِبُّ
اللّهُ
مظلوم کو ظالم
سے بدلہ لینے کی اجازت ہے لیکن در گزر کرنے والے سے اللہ بھی درگزر کر دیتے ہیں۔
جو لوگ اللہ کو مانیں اور رسولوں کا انکار کریں یا کچھ رسولوں کو مانیں کچھ کا
انکار کریں وہ پکے کافر اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں اور جو لوگ اللہ اور اس
کے تمام رسولوں کو تسلیم کریں وہ کامل ایمان والے ہیں اور قیامت میں اجرو ثواب کے
مستحق ہیں۔ اس کے بعد یہود اور ان کی فطری خباثتوں کا تذکرہ آیت نمبر ۱۵۳
سے آیت نمبر۱۶۱ تک آٹھ آیتوں میںکیا گیا ہے۔ یہودِ مدینہ نے حضور علیہ
السلام سے کہا تھا کہ ہم آپ پر اس وقت ایمان لائیں گے جب آپ ہمارے نام پر اللہ تعالیٰ
سے ایک خط لے کر آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ اس قسم کے بیجا
مطالبات سے دل برداشتہ نہ ہوں، ان کے آباء و اجداد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے
اس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا کہ ہم سے اللہ کی بالمشافہہ ملاقات کرائو! ان پر ایک
کڑک مسلط کی گئی۔ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے واضح دلائل اور معجزات عطاء کئے تھے۔
مگر اس کے باوجود یہ بچھڑے کی پرستش میں مبتلاء ہوگئے۔ ان کے سروں پر کوہ طور معلق
کرکے ان سے عہدو پیمان لیا گیا۔ انہیں بیت المقدس میں عجزو انکساری کے ساتھ داخلہ
کا حکم دیا، سنیچر کا دن ان کی عبادت کے لئے مقرر کیا مگر یہ کسی بات پر بھی پورے
نہیں اترے۔ ان کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ان کی نازیبا
حرکات کی بناء پر اللہ نے ان کے دلوں پر ایسا ٹھپہ لگادیا ہے کہ اب یہ ایمان لاہی
نہیں سکتے۔ انہوںنے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا دعویٰ کیا جبکہ یہ عیسیٰ علیہ
السلام کو قتل کرنے یا سولی پر چڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ انہوںنے شبہ کے اندر
کسی دوسرے کو پھانسی پر لٹکا دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں
پر زندہ اٹھالیا، اللہ بڑے زبردست اور حکمت والے ہیں۔عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی
موت سے پہلے پہلے تمام اہل کتاب کو ضرور ایمان لانا پڑے گا۔ ان یہودیوں کی ظالمانہ
حرکتوں کی بناء پر پاکیزہ اور حلال چیزوں کو ان پر حرام کیا گیا۔ منع کرنے کے
باوجود سود کھانے، لوگوں کا مال ناجائز طریقہ پر ہڑپ کر جانے کی وجہ سے ان کے لئے
دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ لیکن ان میں ایسے اعتدال پسند علم و فضل والے بھی ہیں
جو علم کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ پر، اس کے نازل کردہ کلام پر اور آخرت پر ایمان
لاتے ہوئے اسلام کو قبول کرکے نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو
ہم عظیم الشان جزا دیں گے۔ پھر اختصار کے ساتھ سلسلۂ انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے
فرمایا کہ ہم نے نوح، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون،
سلیمان کو نبی بنایا۔ ان سب کو بشیر و نذیر بناکر ہم نے بھیجا تھا تاکہ لوگوں کے
پاس کوئی بہانہ باقی نہ رہ جائے، آپ کو بھی انہی انبیاء علیہم السلام کی طرح نبی
برحق بنایا گیا ہے۔ اگر آپ کی نبوت کی گواہی یہودی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تو
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ اور فرشتوںکی گواہی کافی و شافی ہے۔ اس کے
بعد قرآن کریم کا روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہوگیا۔ فرمایا دین میں مبالغہ آمیزی
نہ کیا کرو۔ ادب و احترام کے جذبات کو اپنی حدود میں رکھنا چاہئے۔ عیسیٰ علیہ
السلام کو اللہ کہنا یا اللہ کا بیٹا کہنا کوئی دین داری نہیں ہے۔ عیسیٰ علیہ
السلام یا اللہ کے مقرب فرشتوں نے اللہ کا بندہ کہلانے میں کبھی کسی قسم کا عار
محسوس نہیں کیا۔ معبود تو ایک ہی اللہ ہے، وہ اولاد سے پاک ہے۔ اس کے ہاں قرب کا
معیار اعمال ہیں۔ جو ایمان اور اعمال صالحہ کرے گا اسے پورا پورا اجرو ثواب ملے گا
اور اللہ اپنی طرف سے اضافی جزا بھی دیں گے اور بندگی سے شرم محسوس کرنے والے
متکبرین کو دردناک عذاب دے گا اور اللہ کی گرفت سے انہیں بچانے والا کوئی نہیں
ہوگا۔ سورہ نساء کے آخر میں کلالہ (ایسی میت جس کے والدین اور اولاد موجود نہ
ہوں) کی وراثت کے باقی ماندہ مسائل ذکر کرکے فرمایا کہ تمہیں گمراہی سے بچانے کے
لئے اللہ تعالیٰ اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز
کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہیں۔
Great 💯
ReplyDelete