آئینہ
دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ
کتنا غرور تھا
قاصد
کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ
میرا قصور تھا
ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
اک گھر میں مختصر سا
بیاباں ضرور تھا
فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
نہیں رفتارِ عمرِ تیز
رو پابندِ مطلب ہا
No comments:
Post a Comment