جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا
کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا
عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گیے پر دیکھیے دکھلائیں کیا
مر گیے پر دیکھیے دکھلائیں کیا
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
No comments:
Post a Comment