تو
دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ
مجھ پر نہ ہوا تھا
چھوڑا
مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
خورشید ہنوز اس کے
برابر نہ ہوا تھا
توفیق
بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ
کہ گوہر نہ ہوا تھا
جب
تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر
نہ ہوا تھا
میں
سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر
نہ ہوا تھا
دریائے
معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی
ابھی تر نہ ہوا تھا
جاری
تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مِری تحصیل
آتشکدہ جاگیرِ سَمَندر
نہ ہوا تھا
No comments:
Post a Comment