سورۃ
سبأ
قوم سبأ کے
تذکرہ کی بناء پر سورت کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ مکی سورت ہے اس میں چوّن
آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ ابتداء میں اس بات کا بیان ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز
اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرتی ہے۔ اس کا علم بڑا وسیع ہے۔ زمین سے نکلنے یا
داخل ہونے اور آسمان سے اترنے یا چڑھنے والی ہر چیز کو وہ جانتا ہے زمین و آسمان
کی وسعتوں میں پائی جانے والی کوئی چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں
ہے۔ وہ عالم الغیب ہے قیامت قائم ہونے پر ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو مغفرت
اور اجر عظیم کی شکل میں بدلہ ملے گا جبکہ اللہ کی آیتوں میں عاجز کرنے کی کوشش
کرنے والوں کو دردناک عذاب دیا جائے گا۔ کافر لوگ اللہ کے نبی کا مذاق اڑاتے ہوئے
کہتے ہیں کہ آئو تمہیں ایسا آدمی دکھائیں جو کہتا ہے کہ ریزہ ریزہ ہوکر منتشر
ہوجانے کے بعد بھی ہمیں نئے سرے سے پیدا کردیا جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے یہ غلط
بیانی سے کام لے رہا ہے یا پاگل ہوچکا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ منکرین آخرت کے لئے
کھلی گمراہی اور عذاب مقدر ہوچکا ہے۔ پھر حضرت دائود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ
کے فضل و عنایت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایسی خوش الحانی عطا کی گئی تھی
کہ وہ جب زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تلاوت میں مشغول
ہوجاتے۔ لوہا ان کے ہاتھوںمیں ایسا نرم کردیا گیا تھا کہ اس سے وہ ’’زرہ بکتر‘‘ بنالیا کرتے تھے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ سے
مزدوری عیب نہیں اعزاز ہے اور وسائل کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ سلیمان
علیہ السلام کو سفر کی ایسی سہولت عطاء فرما رکھی تھی کہ ہوا کی مدد سے صبح کی
منزل میںایک ماہ کی مسافت طے کرلیتے اور شام کی منزل میں بھی ایک ماہ کی مسافت طے
کرلیتے اور برتن وغیرہ بنانے کے لئے یہ آسانی تھی کہ تانبے کا چشمہ بہتا تھا، اس
سے جیسے برتن چاہیں ڈھال لیتے تھے اور ان کے لئے جنات بھی مسخر کردیئے گئے تھے کہ
وہ بڑے بڑے تعمیری کام اور وسیع پیمانہ پر کھانا پکانے میں تندہی سے کام کرتے تھے۔
جب سلیمان علیہ السلام کی موت آئی تو وہ ایک تعمیری کام کی نگرانی کررہے تھے اور
جنات تعمیرات میں مصروف تھے۔ وہ اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑے کھڑے انتقال کرگئے۔ جنات
کو ان کی موت کا علم نہ ہوسکا اور وہ نہایت محنت و جانفشانی سے کام میں لگے رہے جب
کام مکمل ہوگیا تو ان کی لاٹھی دیمک لگ جانے کے سبب سے ٹوٹ گئی اور سلیمان علیہ
السلام گر گئے جس سے جنات کے علم میں یہ بات آگئی کہ آپ انتقال کرچکے ہیں اس سے
یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جنات غیب کا علم نہیں جانتے ورنہ وہ اس طرح تعمیری مشقت میں
مبتلا نہ رہتے۔
قوم سباء کی
بستی بھی اپنے اندر درس عبرت لئے ہوئے ہے وہ ذراعت پیشہ لوگ تھے اس بستی کے دائیں
بائیں سرسبز و شاداب باغات تھے۔ انہیں چاہئے تھا کہ اللہ کا رزق کھاتے اور اس کا
شکر ادا کرتے۔ مگر انہوں نے اعراض کیا اور کفران نعمت میں مبتلا ہوگئے۔ چنانچہ ہم
نے ان پر ’’عرم‘‘ کا بند توڑ کر سیلاب مسلط کردیا اور بہترین باغات
کے بدلہ بدمزہ پھل، جھائو اور تھوڑے سے بیری کے درختوں پر مشتمل بیکار باغ پیدا
کردئے اور ان کی بابرکت اور پر امن بستیوں کو تباہ کرکے انہیں تتر بتر کرکے رکھ
دیا اور ان کی داستانوں کو ’’افسانہ‘‘ بنادیا۔ شیطان نے اپنے نظریات کے پیچھے انہیں
چلالیا حالانکہ اسے کوئی ظاہری اختیار تو حاصل نہیں تھا مگر ہم چاہتے تھے کہ شکوک
و شبہات میں مبتلاء اور پختہ ایمان والے ظاہر ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت
پر دلائل کے ساتھ ساتھ حضور علیہ السلام کی نبوت و رسالت کی تائید کردی اور بتایا
کہ قیامت کے بارے میں بار بار پوچھنے والوں کا جب متعین وقت آگیا تو انہیں ذرہ
برابر بھی مہلت نہیں مل سکے گی۔ پھر میدانِ قیامت میں لیڈروں اور عوام کی گفتگو
بتائی کہ اللہ کے سامنے پیشی کے موقع پر یہ آپس میں ایک دوسرے پر اعتراضات کریں
گے وہ کہیں گے کہ تمہاری وجہ سے ہمیںیہ دن دیکھنے پڑے اور یہ کہیں گے کہ سارا قصور
تمہارا ہے۔ ہم ان کے گلے میں طوق ڈال کر انہیں اپنے اعمال بد کی سزا اٹھانے کے لئے
جہنم رسید کردیں گے۔ لوگ مال و دولت کے گھمنڈ میں اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار
کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ پیسے کی فراوانی و تنگی کا نظام بھی اللہ ہی کے پاس ہے۔
مال و اولاد لوگوںکو اللہ کے قریب نہیں کرتے بلکہ ایمان و اعمال صالحہ سے اللہ کا
قرب حاصل ہوتا ہے۔
I want shortest khulasa of 2-3 words you are giving pages
ReplyDelete