بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار، حیف!
مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار، حیف!
جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اِک بار جل گئے
اے نا تمامیِ نَفَسِ شعلہ بار حیف!
اے نا تمامیِ نَفَسِ شعلہ بار حیف!
گردِ راہِ یار ہے سامانِ نازِ زخمِ دل
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک
مجھ کو ارزانی رہے، تجھ کو مبارک ہو جیو
نالۂ بُلبُل کا درد اور خندۂ گُل کا نمک
نالۂ بُلبُل کا درد اور خندۂ گُل کا نمک
شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج
گِردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک
گِردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک
داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی، واہ واہ!
یاد کرتا ہے مجھے، دیکھے ہے وہ جس جا نمک
یاد کرتا ہے مجھے، دیکھے ہے وہ جس جا نمک
چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک
غیر کی منت نہ کھینچوں گا پَے توفیرِدرد
زخم، مثلِ خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک
زخم، مثلِ خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک
اس عمل میں عیش کی لذٓت نہیں ملتی اسدؔ
زورِ نسبت مَے سے رکھتا ہے نصارا کا نمک
زورِ نسبت مَے سے رکھتا ہے نصارا کا نمک
یاد ہیں غالبؔ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق
میں
زخم سے گرتا، تو میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک
زخم سے گرتا، تو میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک
No comments:
Post a Comment