سورۃ الرُّوم
ابتدائی آیات کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ رومی باشندے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی وجہ سے آسمانی نظام کے قائل تھے اور مسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ رہتی تھیں اور فارسی باشندے آتش پرست ہونے کی وجہ سے آسمانی نظام کے منکر تھے اور مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ روم کے عیسائیوں اور فارس کے مجوسیوں کے درمیان جنگ میں مجوسی غالب آگئے اور عیسائی مغلوب ہوگئے، اس پر مشرکین مکہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ جس طرح ’’ہمارے والوں‘‘ نے ’’تمہارے والوں‘‘ کو شکست دی ہے ایسے ہم بھی تمہیں شکست دیں گے۔ قرآن کریم اتر آیا کہ تمہاری یہ خوشیاں عارضی ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ رومیوں کو فتحیاب کرکے مسلمانوں کے لئے خوشیاں منانے کی صورت پیدا کردیں گے۔ اس قرآنی پیشگوئی کے مطابق سات سال کے عرصہ کے اندر اندر مجوسی مغلوب ہوئے اور رومی غالب آگئے اور اللہ کی قدرت دیکھئے کہ ادھر معرکۂ بدر میں مسلمان بھی مشرکین پر غالب آگئے اور اس طرح قرآنی پیشگوئی حرف بہ حرف سچی ثابت ہوکر اہل ایمان کی خوشیوں کا باعث بنی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کا وعدہ برحق اور سچا ہے، لیکن اکثر لوگ حقیقت کو نہیں جانتے۔ ظاہری اسباب کو دیکھ کر فتح و شکست کے فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ آسمانی علوم کے جاننے والے قرآن کی نگاہ میں عالم ہیں جبکہ دنیوی سوجھ بوجھ رکھنے والے بے علم اور غافل ہیں۔ پھر کائناتی شواہد میں غور و خوض، توحیدباری تعالیٰ کو تسلیم کرنے اور زمین میں گھوم پھر کر مکذبین کے عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔ اس کے بعد قیامت میں مجرمین کے حیران و پریشان اور بے یار و مددگار رہ جانے اور عذاب میں مبتلا ہوجانے اور اہل ایمان و اعمال صالحہ کے جنت میں شاداں و فرحاں رہنے کی نوید سنائی ہے۔ آسمان و زمین کے اندر صبح دوپہر شام اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے کی تلقین کی۔
آیت ۱۷،۱۸،۱۹ کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ یومیہ اوراد و ظائف میں اگر کمی رہ جائے تو ان تین آیات کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ پوری کردیتے ہیں۔ اللہ کی قدرت کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ تمہیں مٹی سے انسان بناکر دنیا میں پھیلادیا۔ پھر سکون حاصل کرنے کے لئے تمہارا جوڑا پیدا کرکے باہمی الفت و محبت پیدا کردی۔ آسمان و زمیں کی تخلیق، تمہاری رنگت اور زبانوں کا اختلاف دنیا والوں کے لئے بہت بڑی دلیل ہے۔ دن اور رات میں تمہارا سونا اور روزی کمانا بھی قدرت الٰہی پر ایک دلیل ہے۔ آسمانی بجلی کی چمک اور گڑگڑاہٹ سے تمہارے اندر امید و بیم کے ملے جلے جذبات کا پیدا ہونا اور آسمان سے پانی برس کر زمین کا لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل ہوجانا بھی عقل والوں کے لئے بہت بڑی آیت اور نشانی ہے۔ آسمان و زمین کا بغیر کسی سہارے کے اللہ کے حکم سے فضاء میں معلق رہنا بھی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ اللہ تمہاری ہی ایک مثال پیش کرکے تمہیں سمجھاتے ہیں کہ تمہارا ایک غلام ہو۔ ہم نے جو نعمتیں تمہیں عطاء فرمارکھی ہیں، کیا تم اسے ان نعمتوں میں برابر کا شریک ماننے کے لئے تیار ہوجائوگے؟ اگر نہیں تو پھر تم میری مخلوق کو میرا شریک کیوں بناتے ہو؟ پھر آیت ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۲ میں مشرکوں اور ظالموں کی مذمت کرتے ہوئےے جو قرآنی گفتگو کی گئی ہے اس کی روشنی میں ’’فرقہ واریت‘‘ کی تعریف اور اس کے سدباب کے لئے زرین اصول اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو بغیر کسی دلیل کے اپنا مذہب قرار دے لینا ایک ظالمانہ فعل اور گمراہی کی بات ہے۔ ایسا کرنے والوں کو نہ ہدایت ملتی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی حمایتی اور مددگار ہوتا ہے۔ ایسی حرکت کے مرتکب مشرکانہ ذہنیت کے حامل لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دین میں فرقہ واریت کو رواج دے کر دھڑے بندیاں اور گروہ بنالیتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے نظریات میں مگن رہتا ہے کہ اس سے اس کا تشخص برقرار رہتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ انسانی فطرت کے عین مطابق دین کو یکسوئی کے ساتھ اختیار کرلیا جائے۔ اللہ کا نظام کسی بھی دور میں تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ سیدھا اور مضبوط نظام حیات ہے، جس کے بنیادی عوامل انابت الی اللہ، تقویٰ اور اقامت صلوٰۃ ہیں۔ رزق میں فراخی و تنگی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ عزیز و اقارب، غریب و مسکین اور مسافروں پر خرچ کرنا چاہئے۔ اللہ کی رضا کے طلبگار اور فلاح پانے والوں کا یہی وطیرہ ہے۔ واپسی میں زیادہ ملنے کی نیت سے رشتہ داروں یا دوسرے لوگوں پر خرچ کرنا سود خور ذہنیت کا عکاس ہے۔ اس سے مال میںکوئی ترقی نہیں ہوتی البتہ پاکیزہ ذہن کے ساتھ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے جو زکوٰۃ دیتے ہو اس میں اضافہ اور ترقی ضرور ہوتی ہے۔ بحر و بر میں فساد کا برپا ہونا انسانی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ کفر کا وبال خود کافر پر ہی ظاہر ہوتا ہے جبکہ اعمال صالحہ کرنے والے اپنے عمل کے پھل سے مستفید ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن کی کمزوری سے تمہاری ابتداء کرنے کے بعد تمہیں جوانی کی قوت سے نوازا اور پھر تمہیں بڑھاپے کی کمزوری سے دوچار کردیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ بڑا علم اور قدرت والا ہے۔ قیامت کے دن ظالموں کی عذرخواہی ان کے کسی کام نہیں آئے گی اور نہ ہی ان کی مشکلات میں کمی کا باعث بنے گی۔ لوگوں کو سمجھانے کے لئے قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں دے دی گئی ہیں، لیکن باطل پرست اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ بے علم لوگوں کے دلوں میں مہریں لگی ہوئی ہیں۔ آپ دین پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہیں۔
No comments:
Post a Comment