سورہ یونس
مکی سورت ہے۔
ایک سو نو آیتوں اور گیارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ حروف مقطعات سے آغاز ہے اور قرآن
کریم کے حکیمانہ کلام ہونے کا بیان ہے اور منکرین قرآن کی ذہنیت کی نشاندہی کی ہے
کہ وہ محض اس لئے اسے تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ایک انسان پر کیوں نازل ہوا۔ پھر
توحید باری تعالیٰ اور آسمان و زمین میں اس کی قدرت کے مظاہر کا بیان ہے۔ اس کے
بعد قیامت کا تذکرہ اور اس بات کی وضاحت کہ دنیا کا سارا نظام ایمان اور اعمال
صالحہ والوں کو جزا دینے اور کافروں کو کھولتے ہوئے پانی اور دردناک عذاب کی سزا
دینے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ چاند اور سورج رات اور دن کی روشنی اور ماہ و سال کے
حساب کے لئے بنائے گئے ہیں۔ دن رات کے آنے جانے میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں
موجود ہیں۔ جس طرح لوگ خیر کے لئے جلدی مچاتے ہیں ایسے ہی اگر شر کو بھی اللہ
تعالیٰ جلدی نازل کردیتے تو دنیا کا سارا نظام ختم ہوجاتا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ
کافروں پر عذاب اتارنے میںجلدی نہیںکرتے۔ انسان کا مزاج ہے کہ جب تکلیف میں مبتلا
ہو تو اٹھتے بیٹھتے اللہ کو یاد کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی تکلیف ہٹا دی جائے ویسے
ہی اللہ کو بھلا دیتا ہے جیسے کسی مشکل میں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ پہلی قوموں کے
گناہوں پر ان کی گرفت کی گئی پھر اللہ نے تمہیں ان کی جگہ دی تاکہ تمہارے اعمال کو
دیکھ کر ان کے مطابق تمہارے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
منکرین آخرت
کوجب ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ اس میں تبدیلی اور ترمیم و تنسیخ
کا مطالبہ کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ یہ تبدیلی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں وحی
کا پابند ہوں۔ تم دیکھ چکے ہو کہ چالیس سال کا طویل عرصہ میں نے تمہیں قرآن نہیں
سنایا کیونکہ اللہ کا حکم نہیں آیا تھا۔ اب سنانے کا حکم آگیا ہے اس لئے سنا رہا
ہوں میں اپنی طرف اگر کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کرنے لگا تو مجھے بڑے دن کے عذاب
کا خطرہ ہے، تمہارے معبودان باطل تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، نہ ہی
اللہ کے سامنے کسی قسم کی سفارش کرسکتے ہیں۔ کفر کے اندھیرے میں تمام لوگ متحد نظر
آتے ہیں جیسے ہی ایمان کی روشنی آتی ہے تو اختلاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب ہم تکلیف
کے بعد انہیں راحت دیتے ہیں تو یہ اپنی فطری کجروی کے باعث شر ارتوں پر اتر آتے
ہیں، آپ انہیں بتادیجئے کہ ہمارے فرشتے سب کچھ لکھ رہے ہیں اور اللہ بہت جلدی
تمہاری بدعملی پر سزا دے سکتے ہیں۔ بحر و بر میں اللہ کے حکم پر تمام نقل و حرکت
ہوتی ہے۔ باد بانی کشتیاں ہوا کے زور پر تمہیں منزل مقصود تک لے جائیں تو تم خوش
ہوتے ہو اور شرک میںمبتلارہتے ہو اور طغیانی میں پھنس کر بادِ مخالف کی زد پر
آجائیں تو مایوس ہوکر اللہ سے مدد طلب کرنے لگتے ہو۔ جیسے ہی اللہ نجات دیتے ہیں
تم پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ دنیا کی فانی اور عارضی زندگی کی مثال ایسی ہے
جیسے بارش برسے اور کھیتیاں لہلہانے لگیں او رکسان خوش ہونے لگیں اسی اثنا میں
کوئی آفت آکر اسے اس طرح تباہ کرکے رکھ دے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ غور و فکر
کرنے والوں کے لئے ہم ایسی ہی آیات کو واضح کرتے ہیں۔ اللہ جنت کی طرف بلاتے ہیں۔
نیک و صالح لوگوں کے لئے بہترین بدلہ، ان کے چہروں پر ذلت و رسوائی یا کدورت نہیں
چھائے گی اور گناہ گاروں کو ان کے گناہ کا بدلہ ملے گا۔ ان کے چہروں پر ذلت اور
سیاہی چھا رہی ہوگی۔ ہم قیامت میں ان سب کو جمع کرکے پوچھیں گے تو یہ اپنے معبودان
باطل کا انکارکریں گے اور ان کے معبود انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ ہماری عبادت
نہیں کرتے تھے۔ وہاں ان لوگوں کو اپنے اعمال کے غلط ہونے کا پتہ چل جائے گا۔ پھر
اللہ کی قدرت کے دلائل اور ہدایت و ضلالت کے اللہ کی مشیت کے تابع ہونے کا بیان
ہے۔ قرآن کریم کی حفاظت کا تذکرہ ہے کہ ایسا کلام کوئی شخص اپنے طور پر گھڑ نہیں
سکتا۔ اگر تم میں ہمت ہے تو ایسی ایک سورت ہی بناکر دکھادو۔ اگر یہ لوگ جھٹلاتے
ہیں تو ان پر جبر نہیں کیا جائے گا۔ آپ انہیں کہہ دیجئے کہ تمہارے اعمال کا بدلہ
تمہیں ملے گا اور میرے اعمال کا بدلہ مجھے ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر
بھی ظلم نہیں کرتے۔ ہر قوم کے پاس اللہ کا پیغام پہنچانے والا بھیجا گیا ہے۔ اگر
اللہ کا عذاب اچانک آجائے تو پھر جلدی مچانے والے کیا کریں گے۔ ظالموں سے کہا
جائے گا کہ اب دائمی عذاب کا مزہ چکھ لو۔ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ سب باتیں
سچی ہیں؟ آپ کہئے میرے رب کی قسم یہ تمام برحق اور سچ ہے۔ تم اس عذاب کی ہولناکی
سے بچنے کے لئے تمام دنیا کے خزانے فدیہ میں دینے کی تمنا کرو گے۔ عذاب دیکھ کر تم
پر ندامت چھا جائے گی مگر اس وقت انصاف کیا جائے گا کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
اے انسانو!
تمہارے رب کی طرف سے وعظ و نصیحت کا پیغام آگیا۔ اس میں شفا اور ہدایت و رحمت ہے۔
اللہ کے فضل و رحمت پر ایمان والوں کو خوشیاں منانی چاہئیں۔ یہ اس سے بہت بہتر ہے
جسے یہ لوگ جمع کررہے ہیں تم کسی حالت میں ہو کوئی بھی عمل کرو اللہ اس پر گواہ
ہیں کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی آسمان و زمین کے اندر اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ
سکتا۔ اللہ کے دوستوں پر کوئی اندیشہ و غم نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور
تقویٰ والے ہیں دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت ہے۔ اللہ کی بات بدلی نہیں
جاسکتی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ کی قدرت کا بیان اور اولاد کے باطل
عقیدہ کی تردید ہے۔ پھر نوح علیہ السلام کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کہ
انہوںنے اپنی قوم کے متکبر سرداروں کے مقابلہ میں اللہ پر توکل کیا اور اللہ کا
پیغام سنانے کے عوض کوئی تنخواہ طلب نہیں کی، اللہ نے انہیں اپنے پیروکاروں کے
ساتھ کشتی میں بچالیا اور مخالفین کو طوفان میں غرق کرکے عبرتناک انجام سے دوچار
کردیا۔پھر موسیٰ و ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجنے کا تذکرہ۔
انہوںنے متکبرانہ انداز میں جھٹلایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے معجزات دکھائے۔ انہوںنے
اسے جادو قرار دے کر مقابلے کے لئے اس دور کے بڑے جادوگر بلالئے۔ موسیٰ علیہ
السلام نے فرمایا کہ تمہارا جادو میرے معجزہ کے مقابلے میں ناکام ہوکر رہے گا۔
موسیٰ علیہ السلام نے بددعا کی جس پر اللہ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کا
فیصلہ کردیا۔ فرعون نے غرق ہوتے وقت کلمہ پڑھا۔ اللہ نے اسے رد کردیا کہ زندگی بھر
گناہ اور فساد مچا کر اب مرتے وقت ایمان لاتے ہو۔ حالت نزع کا ایمان قبول نہیں۔
البتہ انسایت کی عبرت کے لئے فرعون کے جسد خاکی کو باقی رکھ کر دنیا کو بتایا گیا
کہ اتنا بڑا مقتدر اور متکبر بادشاہ کس طرح بے بس اور ذلت کی موت کا شکار ہوا۔ پھر
یونس علیہ السلام اور انکی قوم کا تذکرہ کہ ان کی نافرمانیوں پر عذاب آگیا اور
آیا ہوا عذاب کبھی نہیں ٹلتا مگر ان کی الحاح و زاری پر اللہ نے عذاب ٹال دیا۔
کسی کو زبردستی اللہ ہدایت نہیں دیتے انسان کی چاہت اور اپنے اندر تبدیلی کا فیصلہ
ضروری ہے۔ کفرو شرک سے برأت کا اظہار اور دین حنیف پر غیر متزلزل اعتماد کا اعلان
کرنے کی تلقین ہے اور بتایا گیا کہ نفع نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہدایت کا پیغام
انسانیت کے لئے آچکا ہے جو اسے اختیار کرے گا اپنا نفع کرے گا اور جو اس سے منکر
ہوگا اپنا نقصان کرے گا۔وحی کی اتباع اور ثابت قدمی کی تلقین پر سورت کا اختتام
کیا گیا ہے۔
You did a great job ..
ReplyDelete