مدنی سورت ہے۔
ایک سو انتیس ۱۲۹ آیتوں اور سولہ رکوع پر مشتمل ہے۔ اس میں جہاد سے
پیچھے رہ جانے والے تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا اعلان ہے۔ اس لئے اس
کا نام توبہ رکھا گیا ہے اور اس سورت کا مضمون پہلی سورت سے جہاد کے حوالہ سے ملتا
جلتا ہے اور اس میں کفار کے لئے مہلت ختم کرکے کھلا ہوا اعلان جنگ ہے اس لئے اس کے
شروع میں بسم اللہ نہیں لائی گئی۔
یہ سورت غزوہ
تبوک کے بعد واپسی پر نازل ہوئی۔ جہاد اور زکوٰۃ کے حوالہ سے منافقین کی خباثتوں
کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقاب ہٹاکر انہیں معاشرے
میں ظاہر کیا گیا ہے۔ صلح اور امن کے معاہدوں سے کافروں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا
اور ان کے اسلام دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا ان معاہدوں کو چار
مہینہ کی مہلت دے کر ختم کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے اور حکم دیا جارہا ہے کہ جس
طرح یہ کافر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ
سے نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ کافر جہاں بھی ملیں انہیں
تہِ تیغ کریں۔ اللہ ان کافروں پر آسمان سے کوئی عذاب اتارنے کی بجائے میدان جہاد
میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں سزا بھی مل جائے، یہ ذلیل
و رسوا بھی ہوں اور مسلمانوں کے دلوں کا غصہ بھی اتر جائے اور بعض کافر اس عبرتناک
انجام سے سبق حاصل کرکے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرسکیں۔ دو مسلمانوں کی آپس
میں گفتگو ہوئی، ایک نے کہا حضور علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں شرکت کے بہت سے
مواقع مل چکے ہیں۔ اب تو میں کعبۃ اللہ میں رہ کر عبادت کرنے اور حاجیوں کو پانی
پلانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ جہاد کے برابر کوئی دوسرا
عمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا میں تو اللہ کے نبی کے ہمراہ جہاد کی سعادت حاصل کرتا رہوں
گا۔ حضور علیہ السلام نے آیت قرآنی پڑھ کر سنائی۔ کیا تم نے کعبۃ اللہ کی عبادت
اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھ لیا ہے؟ یہ
اللہ کی نگاہ میں کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ رشتہ داریوں، کاروباری مفادات اور
اپنے گھروں کو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد پر ترجیح دینے والے اللہ کے عذاب کے
لئے تیار ہوجائیں۔ ایسے فاسقوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتے۔ اس کے بعد غزوۂ حنین
اور اس میں کثرت تعداد کے باوجود مسلمانوں کے نقصان اٹھانے اور پھر اللہ کی مدد سے
کامیاب ہونے کا تذکرہ ہے۔ آئندہ کے لئے کافروں کے حرم شریف میں داخلے پر پابندی
کا قانون بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ توحید و آخرت پر ایمان نہ لانے
والے اور اسلامی نظام حیات سے پہلوتہی کرنے والے اسلامی معاشرہ کے افراد بن کر
نہیں رہ سکتے۔ انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ جزیہ ادا کرکے اپنے رہنے کے لئے جواز
پیدا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرنے کے عقیدہ کی تردید ہے اور
بتایا گیا ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو اتنا تقدس نہیں دیا جاسکتا کہ اللہ کی بجائے
اسی کو معبود بنالیا جائے اور عبادت سے مراد احکام کی پابندی ہے۔ مذہبی رہنمائوں
کے احکام اسی وقت تک قابل عمل ہیں جب تک وہ قوم کو آسمانی وحی کی روشنی میں
رہنمائی فراہم کرتے رہیں۔ اس کے بعد مال و دولت اور سونے چاندی میں اللہ کے احکام
کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ سونا چاندی جہنم میں تپاکر انہیں داغا
جائے گا۔ پھر مہینوں اور تاریخوں میں تبدیلی کرکے حرام کو حلال کرنے کی کافرانہ
حرکت پر تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر جہاد کے لئے نہ نکلنے پر وعید بیان کی ہے اور دردناک
عذاب کا پیغام دیا گیا ہے اور اس اٹل حقیقت کا اعلان ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہے
گا اور کفر کو اللہ نے مغلوب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تبوک کے پرمشقت اور طویل
جہادی سفر میں شریک نہ ہونے والے منافقین نے امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم
اور آپ کے ساتھی مجاہدین پر مختلف اعتراض اٹھائے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ خوبصورت
رومی عورتوں کی وجہ سے ہم بدنظری کے فتنہ میں پڑسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
کہ جہاد سے انکار بڑا فتنہ ہے، جس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ کوئی جہاد کے لئے چندہ اور
صدقات جمع کرنے پر اعتراض کرتا، کوئی حضور علیہ السلام کی گستاخی کرتے ہوئے کہتا
کہ یہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چندہ پر اعتراض
کرنے والوں کو اگر اس میں سے ’’مال‘‘ مل جائے تو ان کا سارا اعتراض ختم ہوجائے گا اور
سنی سنائی باتوں کے حوالہ سے فرمایا کہ وہ اللہ سے سنی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں
اور ایمان و رحمت کے پھیلانے اور بدی کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان
کے لئے باغات اور نہریں ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ کفار و منافقین کے خلاف جہاد
جاری رکھنے کا دوٹوک اعلان کیا گیا ہے۔ ایک شخص نے حضور علیہ السلام سے دعاء کرائی
کہ اللہ مجھے مال و دولت دے تو میں فی سبیل اللہ خرچ کروں گا۔ جب اس کے پاس بہت
مال و دولت ہوگیا تو اس نے زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کردیا۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے
فرمایا بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے صدقہ و خیرات کا عہد و پیمان کرتے ہیں اور
جب اللہ انہیں عطاء کردے تو وہ بخل کرتے ہیں اور صدقہ سے انکار کردیتے ہیں۔
منافقین کو ہمیشہ کے لئے مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اگر ستر مرتبہ بھی ان کے
لئے معافی کی درخواست کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں معاف نہیں کریں گے۔ گرمی
اور راستہ کی مشقت کا بہانہ بناکر یہ لوگ جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہ
کی مخالفت کرکے خوش ہورہے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ جہنم کی گرمی بہت سخت ہے اور جہاد
پر نہ جانے کی وجہ سے تمہیں جہنم میں جانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو
منافقین کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر جاکر دعاء مغفرت کرنے سے منع کردیا،
نبی پیغمبرانہ تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کے لئے نرم دل ہیں اور نبی کے گستاخوں اور
دل آزاری کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب تیار ہے۔ ایمان والے کبھی جہاد سے نہیں
بھاگتے۔ جہاد سے راہِ فرار تو بے ایمان اور کافر ہی اختیار کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں
کہ ہم بھی جہاد کے لئے نکلنے کو تیار ہیں۔ تیاری کا مطلب تو یہ ہے کہ تربیت اور
اسلحہ کے ساتھ تیار ہوں (جبکہ ان لوگوں نے ایسی کوئی تیاری نہیں کی)۔ ان منافقین
کو بدعملی اور دوغلی پالیسی کے پیش نظر آئندہ بھی جہاد کے سفر میں شریک نہیں کیا
جائے گا۔
آپ نے انہیں
جہاد سے پیچھے رہ جانے پر معافی دے دی ہم اس بات پر آپ کو معاف کررہے ہیں ورنہ
آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تاکہ مخلص ایمان والے اور منافق سامنے آجاتے۔
پھر زکوٰۃ و صدقات کے مستحقین کی آٹھ اقسام کو بیان کیا ہے کہ فقراء، مساکین،
زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل، مؤلفۃ القلوب، غلاموں کو آزاد کرانے، قرض دار، مسافر
اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پھر منافقین کے متعلق بتایا کہ برائی کی نشر و اشاعت
اور نیکی کے راستہ میں رکاوٹ ہیں ان کے لئے جہنم کی سزا ہے جبکہ مؤمنین ایک دوسرے
کے دوست، نیکی پھیلانے والے ہیں جبکہ منافقین نے جہاد کے مقابلہ میں گھروں میں
رہنے کو ترجیح دے کر نسوانیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی
ہے۔ اگر کوئی شرعی معذور، غربت و مسکنت کا شکار جہاد سے پیچھے رہ گیا تو کوئی حرج
نہیں ہے کچھ لوگ سواری طلب کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے
تھے، آپ کے پاس سواری کا انتظام نہ پاکر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ وہ
سواری نہ ہونے کی وجہ سے جہاد کے عظیم الشان عمل سے محروم ہوجائیں گے۔ اللہ نے ان
کی تعریف کی اور صاحبِ حیثیت کے سفر خرچ کی گنجائش رکھنے کے باوجود جہاد کے لئے نہ
جانے پر مذمت کی گئی ہے۔
يَعْتَذِرُونَ
اس پارہ کی
ابتداء میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اپنے نفاق کی وجہ سے تبوک کے سفر جہاد میں
حضور علیہ السلام کے ساتھ شریک نہیںہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ
عذر بیان کریں گے اور قسمیں کھا کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں
گے۔ آپ ان کی بات کا اعتبار نہ کریں۔ یہ لوگ چاہیں گے کہ آپ صرفِ نظر کرکے ان سے
راضی ہوجائیں۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، اگر آپ ان سے راضی ہو بھی گئے تو
اللہ ایسے نافرمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ دیہاتیوں میں بھی دونوں قسم کے لوگ
ہیں۔ کفر و نفاق میں پختہ کار اور اللہ کے نام پر خرچ کرنے کو جرمانہ سمجھنے اور
مسلمانوں پر تکلیف و مشکلات کا انتظار کرنے والے اور توحید و قیامت پر ایمان کے
ساتھ اللہ کے نام پر پیسہ لگا کر خوش ہونے والے۔ یہ اللہ کے قرب اور رحمت کے مستحق
ہیں۔ دین میں پہل کرنے والے اور نیکی میں سبقت لے جانے والے انصارو مہاجرین اور ان
کے متبعین کے لئے جنت کی دائمی نعمتوں کی خوشخبری اور عظیم کامیابی کی نوید ہے۔
اور ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ نیک اعمال سر
انجام دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ ضرور قبول
فرماتے ہیں۔ اس کے بعد مسجد ضرار کا تذکرہ ہے۔ قبا کے مخلص مسلمانوں نے مسجد بنا
کر اللہ کی عبادت اور اعمالِ خیر کی طرح ڈالی تو کافروں نے ان کے مقابلہ میں فتنہ
و فساد کے لئے ایک مرکز بنا کر اسے مسجد کا نام دیا۔ انہیں خفیہ طور پر عیسائیوں
کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ لوگ حضور علیہ السلام کو بلا کر افتتاح کرانا چاہتے تھے
تاکہ مسلمانوں کی نگاہ میں مسجد مقدس بن جائے اور وہ در پردہ اس مسجد کے ذریعہ
مسلمانوں میں انتشار اور فساد پھیلانے کی سازشیں کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے تبوک سے واپسی پر اس مسجد کے افتتاح کی حامی بھری جس پر اللہ نے آپ کو
منع کردیا اور اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا۔ اللہ کے نبی نے اسے مسجد ضرار
(مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی مسجد) قرار دے کر بعض صحابہ کو بھیجا اور اسے آگ
لگا کر جلانے اور پیوند زمین کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اسلامی
معاشرہ میں فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے کوئی مسجد بھی تعمیر کی جائے تو اس کا
تقدس تسلیم نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی واضح ہوا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں میں
پھوٹ ڈالنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے مذہبی رنگ میں کوشاں رہتے ہیں اور
ایسی کارروائیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد قبا اور اس میں جمع
ہونے والے مخلصین کی تعریف فرمائی اور ان کی ظاہری و باطنی طہارت کے جذبہ کو
سراہا۔
مسلمانوں کی
مجاہدانہ کارروائیوں کو اللہ کے ساتھ تجارت قرار دے کر بتایا کہ جنت کی قیمت میں
اللہ نے اہل ایمان کی جانیں خریدلی ہیں۔ یہ لوگ کافروںکو قتل کرتے ہیں اور خود بھی
مرتبہ شہادت پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان کی مزید خوبیاں یہ ہیں
کہ یہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، اللہ کی تعریف کرنے والے، روزہ رکھنے والے،
رکوع سجدہ کرنے والے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے اور اللہ کی حدود
کے محافظ ہیں۔ ایسے مسلمان بشارت کے مستحق ہیں، مسلمانوں کو منع کیا کہ مشرکین کے
لئے استغفار نہ کریں۔ غزوہ تبوک میں شرکت سے تین مخلص مسلمان بھی بغیر کسی عذر کے
پیچھے رہ گئے تھے۔ پچاس دن تک ان کا مقاطعہ کیا گیا، ان سے بات چیت اور لین دین
بند رکھا گیا پھر ان کی توبہ قبول فرما کر ان کے تذکرہ کو قرآن کریم کا حصہ
بنادیا گیا۔ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت اور پیچھے رہ جانے والے مخلصین کی
سچی توبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سچائی کو ہر حال میں اپنانے کی تلقین ہے
اورکسی بھی حال میں نبی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی تاکید ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے
دوران بھوک پیاس اور تھکن برداشت کرنے اور مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ عام
حالات میں جہاد کے فرض کفایہ ہونے کا بیان ہے۔کافروں کے ساتھ مقابلہ میں کسی قسم
کی سستی اور نرمی اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ قرآن کریم کی تائید کا بیان ہے کہ
اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور ترقی کا باعث ہے جبکہ منافقین کے نفاق اور بغض
میں اضافہ کرتا ہے۔ سورت کے آخر میں حضور علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے
کہ وہ عظیم الشان رسول مسلمانوں کی تکلیف سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور انہیں فائدہ
پہنچانے کے خواہاں رہتے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کے اعلان کے ساتھ ہی عرش عظیم کے رب
پر توکل کی تعلیم پر سورت کا اختتام ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment