جرمنی اورعالم اسلام
ایک دورتھا جب جرمنی عالم اسلام کے دشمن ممالک کی صفِ اوّل میں تھا۔ یہ
دورتھاصلیبی جنگوں کا۔ جرمنی کابادشاہ فریڈرک باربروسا ،یورپ کاوہ واحد بادشاہ ہے
جس نے دو صلیبی جنگوں میں بھرپور شرکت کی۔ دوسری صلیبی جنگ میں وہ سلطان نورالدین
زنگی کے مقابلے پر آیا،وہ دمشق کامحاصرہ کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا۔اس وقت دمشق
کاقلعہ دار نجم الدین ایوب تھا۔اسی نجم الدین ایوب کابیٹاصلاح الدین ایوبی تھا جس
کی عمر اس وقت لگ بھگ چودہ سال تھی۔
قدرت ِ الٰہیہ نے تین عشروں بعداسی صلاح الدین کو شام ومصر کاسلطان بنادیا۔صلاح
الدین نے بیت المقدس کو واپس لے کر مسلمانوں کاوقار بلند کردیا۔ اس پریورپ میں ایک
آ گ لگ گئی ۔ پادریوںنے بڑے بڑے بادشاہوں کو مسلم دنیا کے خلاف ایسابھڑکایاکہ ہر
حکمران اپنی فوج لے کر شام کی طرف جھپٹ پڑا۔شاہانِ یورپ میں اگرچہ برطانیہ کے رچرڈ
لائن ہارٹ کانام سب سے زیادہ مشہورہوا،مگر مؤرخین کااتفاق ہے ان میں سے سے
بڑالشکر جرمنی کاتھاجس میں اڑھائی لاکھ سپاہی تھے۔ اسلحہ سازی میں بھی جرمنی اس
وقت سارے یورپ سے آگے تھا۔ صلاح الدین ایوبی کے اہم مورچے عکاکو فتح کرنے کے لیے
جرمنی سائنسدانوںنے جو عجیب وغریب مشینیں عین حالت جنگ میں ایجاد کیں ،عرب مؤرخین
ان کاذکر بڑی حیرت اورتعجب سے کرتے ہیں۔
صلاح الدین ایوبی نے یہ جنگ بھی جیت لی اورباقی یورپی لشکروں کی طرح جرمن
بھی واپس چلے گئے۔یہ بارہویں صدی عیسوی(چھٹی صدی ہجری) کا واقعہ ہے۔
حقیقت یہ کہ نہ صرف جرمنی بلکہ باقی یورپی ممالک کو بھی عالم اسلام کے خلاف
برانگیختہ کرنے والی اصل لابی کیتھولک پادریوں کی تھی جواسلام اورمسلمانوں سے سخت
بغض رکھتے تھے۔ یہ بڑے گھمنڈی ، متعصب ،تنگ نظر اورخود غرض قسم کے لوگ تھے اوردرحقیقت
انہیں اپنے شہریوں اورعوام کی فلاح وبہبود سے بھی کوئی غرض نہ تھی۔ انہوںنے دین کو
بھی کمائی کاایک دھندابنارکھاتھا۔کلیسا غریب کو پیدائشی گناہ کے احساس جرم میں
جکڑتاتھااورامراء سے رقوم لے کر انہیں ہر بڑے سے بڑے گناہ کا معافی نامہ دے دیتاتھا۔
جب صلیبی جنگوں میں یورپی ممالک کومسلسل شکستیں ہوئیں اورجنگی اخراجات کی
وجہ سے وہ معاشی طورپر تباہ ہوگئے تو یورپ کے بعض بالغ نظرلوگ یہ محسوس کیے بغیر
نہ رہے کہ اس تمام تر نقصان کے ذمہ دار پادری ہیں ۔یہ سوچ سب سے پہلے جرمنی میں پیداہوئی
جوایک سائنسی ذہن رکھنے والا ملک تھا مگر دوصدیوں تک پادریوں کے اندھے مذہبی تصعب
نے اسے مسلم دنیا سے جنگوں میں دھکیل کر کچھ سوچنے سمجھنے سے محروم رکھاتھا۔مگر
ٹھوکریں کھاکر جرمنی سب سے پہلے سنبھلا۔وہاںکے ایک پادری مارٹن لوتھر نے پہلی بار
کلیسااورپادریوں کے احتساب کانظریہ عام کیا۔اس نے پیسے لے کرمعافی نامے تقسیم کرنے
کوایک نیچ حرکت قراردیاجو معاشرے میں بدعنوانی کاسب سے بڑامحرک تھی اورجس کی وجہ
سے امراء کے لیے تمام جرائم کادروازہ کھلاہواتھا۔
اس زمانے میں کیتھولک پادریوں کااثرورسوخ اتنا بڑھاہواتھاکہ ان کے مقابلے میں
کسی تحریک کا پنپنا بظاہر ناممکن تھا۔یورپ کے بڑے بڑے حکمران ان کے چیلے
تھے۔مسلمانوںسے بدترین تعصب رکھنے والے کیتھولک حکمران فرڈی ننڈ اوراس کی ملکہ
ازابیلا نے کچھ عرصے پہلے ہی اسپین کی آخری مسلم ریاست غرناطہ کاخاتمہ کیاتھاجس
کے بعد انہی پادریوںنے ’’محکمہ احتساب وتفتیش ‘‘ قائم کرکے اسپینی مسلمانوں کو
جبراً عیسائی بنانے کی مہم شروع کردی تھی ۔فرڈی ننڈ کے بعدا س کے جانشین چارلس نے
خاندانی نام ونسب ، امریکا سے ملنے والی سونے چاندی کی کانوں سے حاصل شدہ دولت اور
کیتھولک چرچ کے بخشے ہوئے مذہبی جوش وخروش سے کا م لیتے ہوئے جرمنی، فرانس اوراٹلی
سمیت یورپ کے بہت بڑے رقبے کو اسپین میں شامل کرلیا تھا۔ ان حالات میں کیتھولک چرچ
کے مقابلے میں کھڑاہونا ،خودکشی کے مترادف تھا مگر مارٹن لوتھر نے اپنی تحریک جاری
رکھی،جو فرقہ احتجاجیہ (پروٹیسٹینٹ)کے نام سے مشہورہوگئی۔لوتھرنے عبادت گاہوںمیں
دولت کے عوض مغفرت ناموں کی تقسیم کوغلط قراردیا،بت پرستی سے منع کیااورمذہبی پیشواؤں
کی اجاردہ داری کوچیلنج کیا۔جرمنی اس تحریک کامرکز بنا،فرانس اورآسٹریا میں بھی
اسے مقبولیت حاصل ہوئی اوربہت سے معتدل مزاج لوگوںنے اسے تیزی سے قبول کرلیا ۔پھر
کچھ امراء اور شہزادے بھی اس تحریک میں شریک ہوگئے جو اس کے باوجود اس تحریک کواٹلی
،اسپین اورپرتگال کے کیتھولک حکمرانوں کے بے رحم پنجے سے تحفظ کے لیے کسی بڑی طاقت
کے بیرونی سہار ے کی سخت ضرورت تھی۔
یہی وہ وقت تھاجب عالم اسلام اورجرمن رہنماؤں میں پہلی بار ایک تعلق قائم
ہوا۔ پروٹسٹنٹ تحریک کاسفیر استنبول پہنچااوراس نے ترک خلیفہ سلطان سلیمان اعظم
قانونی سے درخواست کی کہ وہ ان کاحامی بن کرانہیں کیتھولک پادریوں اورشاہ چارلس کے
عتاب سے بچائے۔
سلیمانِ اعظم نے دانش مندانہ فیصلہ کیااورپروٹسٹنٹ تحریک کی سرپرستی کی
قبول کرلی۔ پروٹسٹنٹ سفیر استنبول کاچکرلگاکرواپس یورپ پہنچاتواس کے پاس بابِ عالی
کامراسلہ تھا جس میں پروٹسٹنٹ مذہب قبول کرنے والوں کی حمایت کااعلان کیاگیاتھا۔یوں
چارلس جوپروٹسٹنٹ تحریک کوبالکل کچل دیناچاہتاتھا،اپنے ارادے میں ناکام ہوگیاکیونکہ
سختی برتنے کی صورت میں جرمن رہنما،ترکی کی پشت پناہی کے ساتھ اس کے خلاف بغاوت
کردیتے ۔اپنی عظیم سلطنت کوتقسیم سے بچانے کے لیے ۳، اکتوبر۱۵۵۵ء کوچارلس نے بادلِ نخواستہ ملکی قانون میں پروٹسٹنٹ مذہب کی گنجائش
کاقانون منظورکرلیا۔اس کے بعد پروٹسٹنٹ تحریک آزادی سے پروان چڑھی ،آسٹریااورجرمنی
سمیت بعض یورپی ممالک کایہی سرکاری مذہب بن گیا۔پروٹسٹنٹ چرچ کوماننے والے یہ عیسائی
حکمران خصوصاً جرمن سلطنتِ عثمانیہ کے شکر گزار بن گئے ۔وہ جانتے تھے کہ اگرترکی کیتھولک
اسپین اورپاپائے روم کے استبداد پر کاری ضربات نہ لگاتا، اورپروٹسٹنٹ فرقے کی حمایت
نہ کرتا تو تاجدارِ اسپین اور کلیسائے رومابڑے اطمینان سے اس تحریک کا گلا گھونٹ دیتے۔
اگرچہ اس کے بعدجرمنی اورترکی کے تعلقات یکدم تیزی سے آگے نہیں بڑھے ،جس کی
وجہ یہ تھی کہ جرمنی کواسپینی استعمار نے بہت کمزور اورمنتشر کردیاتھا۔تاہم جرمن
عالم اسلا م کے خلاف کسی جنگ کا حصہ بھی نہیں بنے۔وہ صدیوں تک چھوٹی چھوٹی جاگیروں
اورریاستوں کی شکل میں غیر متحد رہے ۔ جن کاالحاق کبھی اسپین ،کبھی فرانس اورکبھی
اٹلی سے ہوتارہا۔ یہی کیتھولک حکومتوں کی سیاست تھی ۔
مگر جرمن قوم تحقیق اورسائنس کے بل بوتے پر آگے بڑھی اورنپولین کے زوال کے
بعد وہ فرانس کے تسلط سے آزاد ہوگئی ۔ حیرت انگیز طورپر جرمنوںنے نصف صدی سے بھی
کم مدت میں دنیا کی بہترین فوج اوربہترین ٹیکنالوجی کے حامل ملک کی حیثیت حاصل کرلی۔
اس کے ساتھ ہی سلطنتِ عثمانیہ اورجرمنی میں اتحادوتعاون کاایک نیا دور شروع
ہوا۔ ترکوںنے یورپ سے کئی محاذوں پر شکستوں کے بعد جرمنی سے حربی وعسکری نظام لیا۔
جرمن سائنسدانوں کے اشتراک سے جدیداسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے جس کے بعد اس کی
فوج ایک بارپھر دنیا کی مضبوط ترین فوجوں میں شمار کی جانے لگی۔
اسی باہمی تعلق کی وجہ سے ترکی اورجرمنی نے مل کر جنگ ِ عظیم اوّ ل میں
مشترکہ محاذ بنایا۔ افسوس کہ اس جنگ میں یورپی اتحاد جیت گیا ۔شکست کے نتیجے میں
جرمنی اورترکی پر اپنے فیصلے نافذکیے گئے ۔ جرمنی سے بادشاہت اورترکی سے خلافت ختم
کردی گئی۔
جرمنی کے ساتھ جو
سلوک کیاگیا ،وہ بڑا بے رحمانہ تھا،وہاں بادشاہت کی جگہ جو جمہوری حکومت قائم کی
گئی ،وہ یورپی مفادات کی نگران تھی۔ بے روزگاری اورمعاشی بحران نے جرمنی کی کمرتوڑ
دی۔اس سے ملک میں احساسِ محرومی اوراشتعال پیداہوا۔جرمن فوج کااعلیٰ افسر ایڈولف
ہٹلراسی مشتعل فضا کی پیداوارتھا۔ وہ نہایت جوشیلا مگر ذہین اورشاطر انسان تھا
۔اسے جرمنی کے دشمنوں کے لیے قہرِ آسمانی کہا جائے توغلط نہ ہوگا ۔
وہ ایک غریب گھرانے
کافرد تھا۔مصوری کاشوقین تھا مگر پہلی جنگ عظیم میں جذبہ حب الوطنی اسے فوج میں لے
گیا۔ وہ ایک عام سپاہی تھا مگر اس کاذہن منفرد تھا۔ جرمنی کی شکست کے بعد بہت
غوروفکر کرکے اس نے ۱۹۲۰ء میں نازی تحریک کی بنیا دڈالی جس
کابنیادی منشوریہ تھاکہ جرمن دنیا کی واحد عظیم قوم ہیں اوران کے دشمنوں کانام
ونشان مٹادیناچاہیے۔ اس نے ۱۹۲۲ء میں
جرمنی کی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کی جو ناکام ہوگئی۔۱۹۲۳ء میں اس
نے جرمنی کے چانسلر کے عہد ے کے لیے الیکشن لڑامگراس میں بھی ناکام رہا۔تاہم اس کی
انتہاپسند پارٹی عوام میں مقبول ہوتی گئی اور۱۹۳۳ء میں وہ
ملک کاوزیراعظم بن گیا۔۱۹۳۴ء میں جرمنی کے صدرِ جمہوریہ ہنڈ ن برگ
کی موت کے بعد ہٹلر نے پارلیمنٹ کو نذرآتش کرادیا اورملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
اس نے صدراوروزیراعظم کاعہدہ ملاکر ملک کی مطلق العنان سربراہی اختیار کی۔اور نازی
پارٹی کے سواتمام پارٹیوں کوکالعدم قراردے دیا۔اس نے پورے ملک کوآتش جوالابنادیا۔پوراملک
فوجی تربیت لینے اور اسلحہ تیارکرنے میں مشغول ہوگیا۔جرمن سائنسدان قومی جذبے سے
سرشار ہوکر دن رات ٹیکنالوجی کو ترقی دینے میں منہمک ہوگئے۔ جرمنی کی اس ترقی میں
غیرمعمولی حصہ اس موٹر وے کاتھاجسے عام طورپرشاہراہِ جرمنی اورمقامی طورپر
’’آٹوبھان‘‘ کہاجاتاہے۔اس کی تعمیر خاص انداز میں ہوئی ۔ چارفٹ گہرائی تک پتھروں
کی تہہ بچھائی گئی تاکہ سڑک بیٹھنے یاٹوٹنے نہ پائے۔اس سڑ ک نے پورے جرمنی کے
ہرشہر کودوسرے شہر سے ملادیا۔ ہٹلر کواس شاہراہ کی تعمیر پر فخر تھا۔ اس نے ایک
موقع پر قوم سے خطا ب کرتے ہوئے کہاتھا:ـ’’یہ مت بھولناکہ میں نے تمہیں
’آٹوبھان ‘دی ہے۔‘‘
ہٹلر کی پالیسیوں کی
بدولت چند سال کے اندراندر جرمنی پورے یورپ کامدمقابل بن کرابھر آیا۔ ہٹلر سوشلزم
کادشمن تھااور روس کوجو پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کا اصل حریف تھا،نہ بھولنے
والامزہ چکھاناچاہتاتھا۔ہٹلر کی اشتراکیت دشمنی کو دیکھتے ہوئے شروع میں برطانیہ
اورامریکااس کی مددکرتے رہے تاکہ وہ طاقت پکڑ کرروس سے ٹکرائے اورسوشلز م کے اس ریچھ
کاشکم چاک کردے جوسرمایہ دار ممالک کے لیے خطرہ بن چکاہے۔مگر ہٹلرجہاں جرمن قوم
کوعظمت دلوانے کاداعی تھا،وہاں وہ ہراس ملک کادشمن تھا جس نے جرمنوں پر زیادتیاں کی
تھیں۔اس کااصل ہدف برطانیہ اورروس تھے۔اس کاکہناتھا میں زندہ رہوں یانہ رہوں مگر میں
برطانیہ کوایک تیسرے درجے کی طاقت بنا کر چھوڑوں گا۔
جرمنی کومستحکم کرنے
کے بعد۱۹۳۶ء میں ہٹلر نے اپنی فتوحات کاآغا زکیا۔ ۱۹۳۸ء میں اس نے اوسٹریا اور۱۹۳۹ء میںچیکوسلواکیہ
پر قبضہ کرلیا۔اس وقت تک برطانیہ کایہی خیال تھاکہ جرمنی اس کی منشاء کے مطابق چیکوسلواکیہ
کے بعد روس کوپامال کرے گامگرہٹلر نے سمجھ لیاتھاکہ برطانیہ اپنی مشہور ڈپلومیسی
(جسے ہٹلر مکاری اورعیاری کہتاتھا) کے ذریعے جرمنی کو ایک بارپھر نیچادکھاناچاہتاہے
۔جب جرمنی روس سے لڑائی میں مصروف ہو گاتواس دوران برطانیہ پورے یورپ کوجرمنی کے
خلاف متحد کرنے کاوقت حاصل کرلے گا۔
ہٹلر نے طے کیاکہ وہ
کسی کووقت نہیں لینے دے گا۔ ا س نے ۳ ستمبر ۱۹۳۹ء کو ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کردیاجو روس کادروازہ سمجھاجاتا تھا۔ اس کے
ساتھ ہی برطانیہ نے پولینڈ کی حمایت میں جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔یہ تھا
دوسری عالمی جنگ کاآغاز۔دیکھتے ہی دیکھتے جرمن افواج نے ڈنمارک،ناروے، بلجیم اور
ہالینڈ پربھی قبضہ کرلیا۔پولینڈ کے بارے میں روس سے مذاکرات ہوئے اوراسے تقسیم کرلیاگیا۔تقریباً
پوراوسطی یورپ جرمنی کے قبضے میں آگیا۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے پسِ
پردہ بہت بڑاکرداران جرمن یہودیوں کاتھاجو سیاست و معیشت سے لے کر فوجی افسران پر
بھی اثر انداز تھے۔(اسی طرح ترکی کی شکست میں بھی اصل کردار فری میسنری اوریہودیوں
کاتھا)ہٹلر نے اس کے ردعمل میں جرمنی کویہودیوں سے پاک کرنے کی مہم شروع کی اورانہیں
بڑی تعداد میں قتل اورجلا وطن کیا۔
جرمنی کے مقابلے میں
صرف برطانیہ اورفرانس رہ گئے تھے۔ایسے میں ہٹلرنے برطانوی وزیراعظم چمبرلین کو
دعوت دے دی کہ وہ برلن آکر مذاکرات کریں ۔ اس سے پہلے جرمن حکام لندن جاکر مـذاکرات کرتے تھے ،مگر اب بات دوسری تھی۔ برطانیہ جرمنی سے خوفزدہ تھا۔
مسٹرچمبرلین برلن گئے۔ یہ کسی برطانی وزیراعظم کاپہلادورہ جرمنی تھا۔ہٹلر نے
برطانوی وزیراعظم پر نفسیاتی داؤ آزمایا۔اس نے چمبرلین کے سامنے جرمن افواج کی
پریڈ کرائی جو ساڑھے سات گھنٹے تک جاری رہی۔ بری، بحری اورفضائی افواج کے دستوں
کاایک تانتاتھا جو ختم ہونے میں نہیں آتاتھا۔ سخت سردی کے باوجود مسٹر چمبرلین کو
پسینہ آگیا۔انہوںنے مذاکرات میں جرمنی کوہرقسم کی مراعات دینے پر آمادگی ظاہرکردی
،مگر ہٹلر برطانیہ کوزیر کرنے پر تلا ہوا تھا۔ آخرچمبرلین نے وہیں شکست قبول کرلی
۔ چمبرلین کے اعترافِ شکست پر ۱۹۴۰ء میںبرطانیہ
میں سرونسٹن چرچل نے وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی ۔ چرچل آہنی عزم کامالک کہلاتاتھا۔اس
کے وزیراعظم بنتے ہی دنیا میں مشہور ہوگیاکہ اب کچھ ہوکررہے گا۔ اس دوران ہٹلر
،اٹلی کے فاشسٹ حکمران مسولینی اورجاپان سے اتحاد کرچکاتھا۔ اٹلی اورجرمنی کے
مشترکہ حملے میں فرانس دوہفتے بھی مزاحمت نہ کرسکااورجرمن افواج پیرس میں گھس گئیں۔ہٹلر
برطانیہ پر قبضہ تونہ کرسکا مگر جرمن توپوں اورطیاروں نے لندن کی اینٹ سے اینٹ
بجادی۔
یورپی طاقتوں کوتہس
نہس کرنے کے بعد ہٹلر روس کی طر ف بڑھاجس نے فن لینڈ پر حملہ کرکے ایک نیامحاذ
کھول دیاتھا۔روس میں دوسال تک جنگ جاری رہی۔اس دوران ہٹلر کے اتحادی اـٹلی کے حکمران مسولینی کے خلاف بغاوت ہوگئی ۔ اس کی فوجوںنے ہتھیارڈال دیے
اورمسولینی گرفتار ہوگیا۔ ۱۹۴۵ء میں
اسے پھانسی دے دی گئی۔
ہٹلرنے حدسے زیادہ
جوش کی وجہ سے روس میں شکست کھائی اورپسپاہوتے ہوتے برلن پہنچ گیا۔ روسی افواج نے
شہر کامحاصرہ کرلیا۔ ہٹلر نے شکست یقینی دیکھ کر خود کشی کرلی ۔اس کے اتحادی جاپان
نے آخری کوشش کے طورپر امریکا کے بحری اڈے پرل ہاربر پر حملہ کیاجس کے جواب میں امریکا
نے جاپانی شہروں ہیروشیما اورناگاساکی پر ایٹم بم دے مارے۔ جاپان نے بھی ہتھیارڈال
دیے ۔ یوں جنگِ عظیم دوم ختم ہوگئی۔ ہٹلر اگر اپنی توجہ صرف یورپی دشمنوں پر مرکوز
رکھتاتو چند ہفتوں میں برطانیہ پر قبضہ کرسکتاتھامگر جوشِ انتقام میں اس نے محاذ ِ
جنگ کوحد سے زیادہ پھیلادیا۔اس کی غلطیوںنے مسٹر چرچل کویہ موقع دے دیاکہ پوری دنیا
کو جرمنی کے خلاف کھڑاکردیاجائے۔ حتیٰ کہ برطانیہ نے روس سے بھی اشتراک کرلیا جسے
نیچا دکھانا اس کی قدیم پالیسی تھی۔
ہٹلر اگرچہ ایک بے
رحم اورمنتقم مزاج انسان تھا مگر وہ دنیائے اسلام کے لیے ایک رحمت ثابت ہوا۔
استعما ری طاقتوں سے جو بدلہ مسلمان خودنہیں لے سکتے تھے، وہ ہٹلر نے لے کردکھادیا۔
وہ جنگ نہ جیت سکامگراس نے روس،برطانیہ اورفرانس کواتنا کمزورکردیاتھاکہ دوسری جنگ
عظیم کے خاتمے پر وہ سب کنگال اورتباہ ہوچکے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ان سب نے عالم
اسلام میں پھیلائے ہوئے اپنے پاؤں سمیٹے اوراپنی قدیم سرحدوں میں محدودہوجانے پر
مجبور ہوگئے۔
اگر جرمنی ،غاصب
اورظالم طاقتوں کے خلاف یہ جنگ نہ لڑتا تو برصغیر سمیت عالم اسلام کے متعدد ممالک
ابھی تک استعمار کے غلام ہوتے ہٹلر کی موت کے بعد جرمنی ایک بارپھر پامال ہوگیا۔برطانیہ ،فرانس ،روس
اورامریکا اس کے مستقبل کے مالک ہوگئے ۔جرمنی میں ان چاروں ملکوں کی فوجیںبٹھادی
گئیں۔ان ملکوں نے سارے جنگی اخراجات جرمنی سے وصول کرکے اسے بالکل قلاش کردیا۔جرمنی
کے ایک ایک شہر کو تہہ وبالا کردیا گیا۔ پھر اس ملک کوباقاعدہ دوالگ الگ ریاستوں میں
تقسیم کردیاگیا۔ مشرقی جرمنی میں روس نے اپنی سوشلسٹ حکومت قائم کرلی جبکہ مغربی
جرمنی برطانیہ اورامریکاکاباج گزار بن گیا۔
جرمنی میں صرف امریکا
کے ایک لاکھ فوجی مستقل رہتے تھے ۔ان کے سارے مصارف جرمنوں کو اداکرنا پڑتے
تھے۔مگر جرمنوںنے ہمت نہیں ہاری ۔انہوںنے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھااورایک ایک قدم
کرکے سیاسی خودمختاری اورمعاشی استحکام کی طرف قدم بڑھاتے رہے۔دنیا کی تین جابر
طاقتوں روس ، امریکااوربرطانیہ کے چنگل میں رہنے کے باوجود ،وہ مایو س نہ ہوئے۔
ہٹلر نے انہیں غرو روتکبر کاجو سبق پڑھایاتھا،وہ بہت جلد اس کے نقصانات سے آگاہ
ہوگئے اوراپنے دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کی طرف لوٹ آئے۔انہوںنے اشتعال انگیز نعروں
پر توجہ دینا چھوڑدی۔ نازی پارٹی کی مقبولیت ختم ہوگئی اورمعتدل مزاج لیڈروں کی پذیرائی
ہوئی۔
جرمن قوم تباہی سے
خوش حالی کی معراج پر یونہی نہیں پہنچ گئی ۔ قوم کے ایک ایک فرد نے حتیٰ کہ غریب
مزدوروںنے بھی اپنی ذمہ داری کوسمجھا۔۔ ۱۹۵۲ء میں
بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرو جرمنی کے دورے پر گئے۔اس وقت جرمنی کاکوئی شہر ایسانہیں
تھاجسے اتحادیوںنے تباہ نہ کردیاہو۔ ہر جگہ ملبہ ہی ملبہ دکھائی دیتاتھا۔ جواہر
لال نہرونے سناتھاکہ جرمنی کے کارخانوں میں کبھی ہڑتال نہیں ہوتی ۔ وہ ایک کارخانے
کی سیر کے لیے چلے گئے اوروہاں کے مزدوروں سے پوچھا:
’’تم لوگ مطالبات کے
لیے ہڑتال کیوں نہیں کرتے؟‘‘
وہ بولے:’’ہم ملک کی
دوبارہ تعمیر کافرض انجام دے رہے ہیں ۔ جب جرمنی کچھ بن جائے گاتو پھر ہم مطالبات
کریں گے۔ ابھی توہمارافرض ملک کی تعمیر ہے۔‘‘
یہ تھا وہ جذبہ جس نے
جرمنوں کو دوبارہ دنیا کی مضبوط قوموں میں لاکھڑاکیا۔ اس قوم کاہرفرد ملک کی ترقی
کے لیے جٹ گیا۔ حب الوطنی کے جذبے نے انہیں متحد کردیا۔ انہوںنے قابض فوجوں کے
اخراجات اپنے خون پسینے سے اداکیے مگر کبھی کسی ملک سے قرض نہیں لیا۔اپنی معاشی
حالت کواتنا مستحکم کیا کہ ترقی یافتہ ممالک اس پر رشک کرنے لگے۔
جرمنی ،خود اپنے سب
سے بڑے دشمن روس سے انتقام نہ لے سکامگر ۴۵سال بعد یہ
کام افغانستان کے غیورمسلمانوں نے کردکھایا۔ مسلمانوں پر جرمنی کاایک قرض تھا۔
جرمنی نے خود تباہ ہوکرمسلم ممالک کے لیے آزادی کے دروازے کھول دیے تھے۔ مسلم دنیانے
افغانستان کے میدان میں سوویت یونین کی طاقت کا جنازہ نکال کر ، جرمنی کو سوشلزم
کے تسلط سے نجات دلادی۔
۱۹۸۹ء میں روسی فوجیں افغانستان سے واپس
ہوئیں ،روس کی ساکھ مٹی میں مل گئی اوراس کا سر نیچاہوتے ہی دنیاسوشلز م کی زنجیروں
سے آزاد ہونے لگی۔جرمنوںنے متحد ہوکر دیوار ِبرلن گرادی۔ ۱۲ستمبر ۱۹۹۰ء کومغربی اورمشرقی جرمنی پھر متحد ہوگئے۔
یہ اتحاد کوئی آسان
نہیں تھا۔ ۴۵برسوں میں مشرقی جرمنی کامغربی جرمنی سے کوئی واسطہ
نہیں تھا۔مشرقی جرمنی کی زبان تک تبدیل ہوچکی تھی اورنسلِ نور وسی زبان بولتی تھی۔تمدن
،ثقافت ،کلچر سب بدل گیاتھا مگر پھر بھی وہ متحد ہوگئے۔
اب ہم ایک پاکستانی
اورایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے خود کودیکھیں ،کیاہمیں شرم نہیں آئے گی کہ
ہماراکلمہ ایک، قبلہ ایک ، ایمان ایک، تہذیب وثقافت ایک۔مگراس کے باوجود ہم ہمیشہ
الگ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک سے کوئی مطلب ہے نہ ملت سے۔ صر ف ہم نہیں
عالم اسلام کے اکثر ملکوں کایہی حال ہے ،کہ وہاں مذہبی، صوبائی ،لسانی اورعلاقائی
اختلافات کی خلیجیں روزبروز وسیع ہورہی ہیں۔جرمن غیرمسلم ہیں ۔ان کے پاس وہ آفاقی
ہدایات اوروہ نورانی منشور کہاں جو قرآن وسنت نے ہمیں دیاہے ،اس کے باوجود ،وہ لگ
بھگ نصف صدی الگ رہ کر پھر ایک ہوگئے۔ اس کے مقابلے میں ہم اپنے ملک ہی کی تاریخ دیکھ
لیں کہ لاکھوں جانیں قربان کرکے حاصل کردہ مملکت میں ہم پچیس سال بھی متحد نہ رہ
سکے۔ مشرقی اورمغربی پاکستان دوالگ الگ ملک بن گئے۔ شایدہم غیرتِ ملی سے دست کش
ہوچکے ہیں ۔ہمیں اپنی دنیا آپ پیداکرنے والے نہیں، اپنا نشیمن آپ برباد کرنے
والے ہیں۔ ہم قرض لے کر ترقی کرناچاہتے ہیں اورمزید معاشی بدحالی کی دلدل میں
دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ہم کہتے بہت کچھ ہیں مگر کرنے میں ہم جرمنی کے ان مزدوروں جیسا
احساسِ ذمہ داری بھی نہیں رکھتے جنہوںنے اپنے مطالبات کو تعمیرِ وطن کے لیے فراموش
کیے رکھا۔ اس جذبے کے سبب جرمن قوم ایک بارپھر اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی۔ آج کا
جرمنی چھپن ہزار۹سو ۴۵کلومیٹر
پر مشتمل یورپ کاخوشحال ترین ملک ہے۔ خودکفیل ہونے کے اعتبار سے وہ معاشی طورپر
امریکا سے زیادہ مستحکم ہے۔جرمن مارک کی قدر امریکی ـڈالر سے اوپر
ہے۔جرمن چانسلر (سربراہِ مملکت) کودنیا کی مؤثرترین شخصیات میں سے ایک شمارکیاجاتاہے۔جرمنی
ایک بارپھر سائنس اور ٹیکنالوجی کی شاہراہ پرآگے ہی آگے بڑھ رہاہے۔ دنیا بھر میں
آج جرمن مشینری کی مانگ ہے۔ قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی کی ہوکہ دنیا کاپہلا موٹر
کارگیراج جرمنی میں قائم ہواتھا۔یہ ۱۸۰۰ء کی بات
ہے۔اس کابانی کارل بینرتھا۔ اسی گیراج میں اس نے مرسڈیز ایجاد کی جو آج بھی دنیا
کی بہترین کاروں میں شمار کی جاتی ہے۔
عالم اسلام کے بارے میں جرمنوں کی سوچ اب بھی باقی یورپی دنیا اورامریکاسے
مختلف ہے۔وہاں کیتھولک چرچ کاتعصب نہیں ۔جرمنوں میں امریکی یابرٹش گوروں جیسا
احساسِ تفاخر بھی نہیں۔ نصف صدی کی غلامی نے انہیں حقیقت آشنابنادیاہے۔ وہ دوست
اوردشمن کوپہچانتے ہیں ۔عالم اسلام سے قدیم رشتوں کااب بھی وہاں احتر ام ہے۔ سلیمان
اعظم کے احسان کووہ اب بھی نہیں بھولے۔ ترکی کے ساتھ اتحاد کی طویل تاریخ انہیں یاد
رہے۔ مسلم دنیا خصوصاً پاکستان کو جرمنی کی شکل میں یور پ میں ایک اچھا معاون مل
سکتاہے۔قومی عزت ووقار کے ساتھ اس رخ پر کوشش ضرور ہونی چاہیے۔ ترکی اس سلسلے سب
سے مناسب رابطہ کار بن سکتاہے۔ اقتصادی کوریڈور کے اثرات یورپ تک جائیں گے۔ ان یورپی
ممالک میں اگر جرمنی کوترجیح دی جائے تو شایداپنی تاریخ کودیکھتے ہوئے ،یہ ایک اچھی
پالیسی ہوگی۔
حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب
No comments:
Post a Comment