توبہ
شیخ الحدیث حضرت
مولاناسلیم اللہ خان رحمہ للہ تعالی
دنیا کا جو چکر ہے یہ
چند روزہ ہے، لوگ سوچتے ہیں کہ میں ابھی تو بیس سال کا ہوں، کم از کم پچاس سال تو
رہوں گا، لیکن اگر آپ اندازہ لگائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ زیادہ لوگ بوڑھے ہونے
سے قبل مرتے ہیں ، اس لیے یہ سوچنا غلط ہے ، ہمہ وقت آخرت کی تیاری میں مستعد ہونا
چاہیے اور پھر اسلام جیسا دین جس میں آپ کی تمام خواہشات کا احترام ہے، نہ اچھے
کھانے سے منع کیا ہے، نہ اچھا پہننے سے منع کیا ہے اور جتنی آپ کی طبعی خواہشات ہیں
سب کا خیال رکھا گیا ہے، کہنا یہ ہے کہ بعض اوقات آدمی آزاد زندگی گزارتا ہے اور
گناہوں کا عادی ہوجاتا ہے، پھر جب ذرا نظر آنے لگتا ہے کہ اب تو معاملہ قریب ہوگیا
ہے تو مایوس ہوجاتا ہے #
زندگی ساری کٹی عشق
بتاں میں مومن
اب آخری وقت میں کیا
خاک مسلمان ہوں گے!
حالاں کہ یہ مایوسی
کفر ہے، کیوں کفر ہے؟ اس لیے کہ آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے بہت گناہ کیے اب توبہ
کروں گا تو معافی نہیں ملے گی تو اس نے گناہوں کو بڑا سمجھا اور اللہ رب العزت کی
رحمت کو کم سمجھا۔
ایک نصیحت آموز واقعہ
ایک واقعہ نقل کیا
جاتا ہے کہ ایک شخص تھا ، بت پرستی کرتے پوری عمر بیت گئی، ایک مرتبہ بہت سخت بیمار
ہوا ، بہت بے چین تھا، جس بت کی عبادت کرتا تھا ، اس کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے
تیری عبادت کی اور آ ج تک کوئی حاجت نہیں مانگی ، آج مانگتا ہوں ، میری اس حاجت کو
پورا کردے اور یہ بیماری ختم کردے ، بت نے کوئی جواب نہ دیا ، وہ آدمی بہت پریشان
ہوا اور خیال کیا کہ موسی علیہ السلام کے رب سے مانگتا ہوں، اس نے صرف اتنا کہا کہ
اے موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے رب ! اوپر سے آواز آئی کہ ”لبیک یا عبدی․“ وہ
بہت حیرن ہوا کہ ابھی میں نے اظہارمدعا نہیں کیا کہ جواب آگیا۔چناں چہ اس نے دعا کی
اور وہ بیماری ختم ہوگئی۔ اب وہ حضرت موسی ٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے پاس آکر کہتا
ہے کہ اگر ایک شخص نے برسہا برس بت کی عبادت کی ہو اور اب وہ ایمان لانا چاہے تو
اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے حضر ت موسی علیہ الصلوٰة والسلام کے چہرے
پر ناگواری کے آثار دیکھے تو وہ ڈر کر بھاگ گیا، فوراً وحی آئی اور اللہ تعالیٰ نے
کہا کہ اے موسیٰ ! جاؤ اور اس کو میرا پیغام دو کہ اگر تم چار ہزار سال تک بت پرستی
کرتے اور پھر میری طرف لوٹ کر آتے تو میں معاف کردیتا ، حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة
والسلام نے پیغام پہنچایا اور اس کو ایمان نصیب ہوا ۔
تو اللہ کی رحمت بہت
وسیع ہے ۔وہ خود فرماتے ہیں کہ میری رحمت سے ناامید نہ ہو ، سب گناہ معاف کردیتا
ہوں ، وہ تو فرعون کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار ہیں اور جو یہود کہتے ہیں اللہ فقیر
ہے، ان کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار ہیں، جو حضرت عیسی علیہ الصلوٰة والسلام کو
ابن الله کہنے والے ہیں، ان کو معاف کرسکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ انابت اور رجوع
الی الله ہو۔
قارون کا قصہ
ایک مرتبہ قارون نے
کسی عورت کو پیسے دے کر اس پرتیار کیا کہ مجمع میں آکر کہے کہ(نعوذ بالله) موسیٰ
نے مجھ سے بدکاری کی ہے، موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کو اس بات کا علم ہوا تو
انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے الله! آپ ا س قارون کا انتظام فرمائیں ،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے زمین کو حکم دیا ہے ، تم جو کہو وہ ہوگا۔ حضرت
موسیٰ علیہ الصلاة والسلام نے زمین کو حکم دیا کہ اس کو پکڑو، زمین نے قارون کو
پکڑا تو قارون گڑ گڑانے لگا اور منت سماجت کی، حضرت موسی علیہ الصلوٰة والسلام نے
اس پر رحم نہیں کھایا، چناں چہ وہ زمین میں دھنس گیا ، اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ
الصلوٰة والسلام سے فرمایا کہ قارون نے بڑی غلطی کی تھی، لیکن وہ آپ سے معافی مانگ
رہا تھا ،آپ نے معاف نہیں کیا ، ٹھیک ہے، یہ آپ کا حق ہے، لیکن اگر وہ مجھ سے معافی
مانگتا تو میں معاف کردیتا۔ (المستدرک علی الصحیحین 2/443، حدیث نمبر 3536، روح
المعانی 11/123)
صد بار گر تو بہ شکستی
باز آ
اس لیے یہ سوچنا کہ
ہم نے بہت گناہ کیے ہیں ، قابل معافی نہیں، یہ شیطان کا دھوکہ ہے ، اگر آپ نے زندگی
بھر گناہ ہی گناہ کیے ہیں اور اب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں تو ایک پل میں معاف
کردیتے ہیں، وہاں تو حالت یہ ہے کہ توبہ کی ، توڑ دی ،پھر توبہ کی اور توڑ دی، پھرتوبہ
کی تو پھر معافی مل جائے گی، وہاں خالی ہاتھ واپس کرنے کا سوال ہی نہیں #
بازآ بازآ ہر آنچہ
ہستی بازآ
گر کافر و گبرو بت
پرستی بازآ
کایں درگہ مادرگہ نومیدی
نیست
صد بار اگر توبہ شکستی
بازآ
آدمیوں کی چار قسمیں
آدمی کئی قسم کے ہوتے
ہیں، ایک تو وہ حضرات ہیں جن سے گناہ سرزد نہیں ہوتے، وہ حضرات انبیاء ہیں۔
جو معصوم ہیں، دوم وہ
جو کوشش کر کے اپنے آپ کو بچاتے ہیں اور بچ جاتے ہیں وہ اولیاء ہیں ان سے گناہ
سرزد ہوسکتے ہیں، لیکن وہ مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ شریعت کو طبیعت بنالیتے
ہیں، ان کا عمل شریعت کے مطابق ہوتا ہے۔
تیسری قسم ان لوگوں کی
ہے کہ بشری تقاضوں کے مطابق ان سے گناہ توہوتا ہے، لیکن وہ سچے دل سے توبہ کرتے ہیں
اور ساتھ ہی یہ عزم کرتے ہیں کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی، جسے:﴿ تُوبُوا إِلَی
اللَّہِ تَوْبَةً نَّصُوحاً﴾․ (سورة التحریم :8 ) میں بیان فرمایا گیا ہے ، باقی
اگر دوبارہ غلطی ہوئی تو شرمندہ ہو کر پھر معافی مانگتا ہے اور توبہ کرتا ہے، اگر یہ
احساس ندامت اور اظہار شرمندگی ہو تو سوبار توبہ توڑ دے، پھر بھی اللہ تعالیٰ معاف
کردیتے ہیں۔
اور ایک چوتھی قسم ان
لوگوں کی ہے جو گناہ کرتے ہیں اور اس میں ترقی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع
اور توبہ کی توفیق نہیں ہوتی ، یہ شیطان سے بدترہیں ، اور ایسے لوگوں کی کوئی کمی
نہیں اور یہ مرض عام طور پر احکام الٰہیہ کے ساتھ مذاق اڑانے اور انکار کرنے سے پیدا
ہوتا ہے، پھر حق قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے: ﴿وَإِخْوَانُہُمْ یَمُدُّونَہُمْ
فِیْ الْغَیِّ ثُمَّ لاَ یُقْصِرُون﴾․ (الاعراف:202)
ترجمہ :”اور جو شیاطین
کے تابع ہیں وہ ان کو گم راہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں ، پس وہ باز نہیں آتے۔“
تو پھر نتیجہ یہ ہوتا
ہے کہ توبہ کی توفیق نہیں ہوتی اور پھر ﴿خَتَم َالله ُعَلیٰ قُلُوْبِہِمْ﴾ والا فیصلہ
ہوتا ہے۔
توبہ کا طریقہ
توبہ کرنے کے معنی ٰ یہ
نہیں کہ صرف زبانی اور رٹے ہوئے الفاظ پڑھ لے اور بس ! بلکہ توبہ کا بھی ایک طریقہ
ہے، وہ یہ کہ جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے ان میں بندوں سے معافی مانگنا
اور معاف کرانا ضروری ہے، جیسے کسی نے دوسرے شخص کا مال غصب کیا ہے یا اس کی زمین
چھین لی ہے تو یا اس کا حق اس کو واپس کر کے معافی مانگے یا اس سے معاف کرائے، اگر
کسی کی غیبت کی ہے تو اس سے معافی مانگے، اگر ممکن نہ ہو، مثلاً اس آدمی کا انتقال
ہوگیا ہو تو اس کے لیے خوب دعا ئے مغفرت کرتا رہے اور اگر گناہ کا تعلق حقوق الله
سے ہے تو اگر اس کی قضا ممکن ہے تو قضا کرے، مثلاً نماز نہیں پڑھی تو نمازوں کی
قضا کرے ، روزے نہیں رکھے تو ان کی قضا کرے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور
اگر اس کی قضا بھی ممکن نہیں تو دل سے توبہ کر کے، اس کے بعد اعمال صالحہ کی پابندی
کرے اور احکام الٰہیہ کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہے۔اسی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں
بیان فرمایا ہے ، ارشاد ہے :﴿ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً
فَأُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَات﴾․(الفرقان :70)
ترجمہ ”: مگر جو توبہ
کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے گزشتہ
گناہوں کی جگہ نیکیاں عنایت فرمائے گا۔“
وآخر دعوانا ان
الحمدلله رب العالمین
والصلاة والسلام علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
No comments:
Post a Comment