Sunday 16 July 2017

Compare India and China

ہندوستان اور چین کا تقابل
جیسے ان لوگوں نے ہندوستان کی خوبیوں اور خصوصیتوں کا ذکر بغیر تنگدلی کے کیا ہے، بجنسہ یہی طریقہ ان مسلمانوں نے چین کے حالات کے بیان کرنے میں اختیار کیا ہے۔ بلکہ ان دونوں مشرقی ملکوں میں مقابلہ کرتے ہوئے اپنے تاثرات بھی ظاہر کئے ہیں۔ مثلاً سلیمان نے ایک جگہ لکھا ہے :
"ہندوستان اور چین میں فرق یہ ہے کہ ہندوستان زیادہ تر دیہاتوں سے آباد ہے، شہر اس میں کم ہیں، لیکن چین کا کوئی ایسا حصہ نہیں ہے جہاں باضابطہ شہر پناہ رکھنے والے بڑے بڑے شہر نہ ہوں۔ اور گو چین کی آب و ہوا ہندوستان کی آب و ہوا سے بہتر ہے، اسی لئے چین میں اندھے، کانے یا آفت رسیدہ لوگ کم نظر آتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر ہندوستان کے علاقوں کا بھی یہی حال ہے۔ بڑے بڑے دریاؤں کے لحاظ سے دونوں ملکوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور بارش بھی ان دونوں اقلیموں میں بکثرت ہوتی ہے۔ البتہ ہندوستان میں ریگستانی صحرا و بیابان بھی پائے جاتے ہیں اور اچھا خاصا علاقہ اس کا صحرائی ہے لیکن چین میں اول سے آخر تک اس قسم کے غیر آباد بیابان نہیں دکھائی دیتے۔"
دونوں ملکوں کا اختلاف مذاق
دونوں ملکوں کے لباس کے فرق کر ظاہر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ "چینی لباس میں عرب (یعنی مسلمانوں) سے زیادہ مشابہ ہیں یعنی قبا پہنتے ہیں، کمر بند باندھتے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے باشندے زیادہ تر دو چادروں پر قناعت کرتے ہیں۔ البتہ سونے اور جواہرات کے زیور ہندوستانی زیادہ پہنتے ہیں، انکے مرد بھی اور ان کی عورتیں بھی۔" (سلیمان ص ۵۹)۔
مذاق کا ایک عجیب فرق ان دونوں ملکوں کے متعلق یہ بھی بتایا ہے کہ "چینیوں کے پاس ہاتھ نہیں ہوتے بلکہ اپنے ملک میں ہاتھی کو دیکھنا بھی وہ پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ اس جانور کو منحوس سمجھتے ہیں۔" (سلیمان ص۵۸)
چین میں حصول علم کا مذاق
پھر ان امور کے ساتھ ساتھ چینیوں کی طرف انہوں نے بعض ایسی خصوصیتوں کو منسوب کیا ہے جنہیں پڑھکر حیرت ہوتی ہے خصوصاً جن باتوں کو آج مغربی تمدن کی خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے ان کے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔
الفقیر والغنی من اہل الصین والصغیر والکبیر یتعلم الخط والکتابتہ۔ (سلیمان ص ۳۸)
امیر ہوں یا غریب، چھوٹے ہوں یا بڑے، اہل چین میں ہر ایک خط لکھنا پڑھنا سیکھتا ہے۔
جس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ چین جیسے طویل و عریض ملک میں آج سے ہزار سال پہلے لازمی تعلیم مروج تھی اور یہ جو سمجھا جاتا ہے کہ لازمی تعلیم مغربی تہذیب کی خصوصیت ہے۔ اگر سلیمان کا بیان صحیح ہے تو ظاہر ہے کہ خصوصیت کا یہ دعویٰ بے معنی ہو جاتا ہے، اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
"چین کے تمام شہروں اور اس ملک کی آبادیوں میں مدارس جاری ہیں۔ جن میں مدرسین حکومت کی طرف سے مقرر ہیں اور شاہی خزانے سے ان کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ ملک کے فقراء اور غربا کو یہ لوگ مفت تعلیم دیتے ہیں۔" (سلیمان ص ۴۷)
اہل چین کے تہذیبی و معاشرتی خصوصیات
اس نے یہ بھی بیان کی اہے اور شاید عام تعلیم کی بنا پر یہ توقع کی جاتی تھی کہ:
"حکومت میں درخواست پیش کرنے والوں کی زبانی درخواست لائق توجہ نہیں سمجھی جاتی ہے جب تک لکھ کر نہ دی جائے اور داخل کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیا جات اہے کہ درخواست حکومت کے ضوابط و اصول کے مطابق ہے یا نہیں۔ ایک خاص آدمی اس کام کے لئے مقرر ہے۔ اگر درخواست اصول کے مطابق نہیں ہوتی تو وہ مسترد کر دی جاتی ہے۔" (سلیمان ص ۳۹)
لین دین میں بھی اسکے بیان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چینی باضابطہ تحریروں سے کام لیتے تھے۔ سلیمان کے بیان کا حاصل یہ ہے کہ :
کسی شخص کا دین کسی کے ذمے جب ہوتا ہے تو ایک تحریر دائن کو اور ایک تحریر مدیون کو لکھنی پڑتی ہے، دونوں کو اپنی تحریروں پر خاص قسم کے نشانات بنانے پڑتے ہیں۔"
الغرض آجکل بیان تحریری عرضی دعویٰ، پٹہ قبولیت نامہ وغرہ کاغزات انگریزی دفاتر میں جو مروج ہیں معلوم ہوتا ہے کہ چین میں ہمیشہ سے ان کا رواج تھا۔ بلکہ ایک عجیب بات اسی سلسلہ میں اس نے یہ بھی لکھی ہے کہ :
"چینیوں کے ملک میں تھوڑی تھوڑی دور پر خاص قسم کے پگھر ہیں۔ جنکی لمبائی دس ہاتھ ہو گی۔ ان پتھروں میں بیماریوں
اور اُن بیماریوں کی دواؤں کے نام کندہ کردیے گئے ہیں، یعنی فلاں بیماری ہو تو اس کی دوا فلاں ہے اور غرباء جن کے پاس دوائیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے اُنہیں حکومت کے خزانے سے دام ملتے ہیں‘‘۔ (سلیمان ص۴۷)
گو سلیمان نے لکھا نہیں ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ عام امراض اور ان کے علاج و معالجہ کے طریقوں کی تعلیم چینیوں میں شاید عام تھی، اور حکومت کی فیاضیوں کا سلسلہ جو چین میں جاری تھا ان کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ابھی یورپ کو چین سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ:۔
’’ایک مقام سے دوسرے مقام تک جب چین میں کوئی سفر کرنا چاہتا ہے تو حکومت اور خصّی (ہرمقام کے گورنر) سے دوقسم کی تحریریں اپنے ساتھ لیتا ہے۔ ایک میں تو اس شخص کا نام، اسکی عمر، اُسکے رفقاء کی عمریں، اور یہ کہ وہ کس قبیلے کا آدمی ہے، لکھا ہوتا ہے اور دوسرے میں ان اموال کی تفصیل ہوتی ہے کہ جو اس شخص کے پاس ہوتے ہیں‘‘۔
سلیمان نے لکھا ہے کہ اس کا اس ملک میں بڑا اہتمام ہے۔ مقصود ان کا یہ ہے کہ :۔
’’سفر کرنے والوں کا مال ضائع نہ ہو۔ اور اگر کہیں ضائع ہوجاتا ہے (تو فہرست مکتوبہ) سے پتہ چل جاتا ہے۔ یا اگر مسافر راستہ میں کہیں مرگیا۔ بہرحال حکومت اُس کے مال کو واپس کرتی ہے خواہ اسی کو یا اُسکے وارثوں کو‘‘۔ (سلیمان ص ۴۳)
سلیمان ہی نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ:۔
’’جس زمانہ میں گرانی پیدا ہوجاتی ہے تو حکومت اپنے خاص انبار خانوں سے غلّہ بازار میں نکالتی ہے اور بازار کا جو بھاؤ ہوتا ہے اُس سے کم دام میں وہ فروخت کرتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اِس ملک میں کبھی گرانی پیدا نہیں ہونے پاتی‘‘۔ (سلیمان ص ۴۱)
اسی طرح جب کوئی دیوالیہ ہوجاتا ہے تو باضابطہ تحقیق کے بعد حکومت پر جب یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ واقعی وہ مفلس ہوگیا ہے کہ:۔
’’جن جن لوگوں کا بقایا اُس دیوالیہ نکالنے والے شخص پر ہوتا ہے سب کو حکومت ادا کردیتی ہے‘‘۔ (سلیمان ص ۴۶)
سلیمان ہی نے لکھا ہے کہ:۔
’’ہندوستان کی طرح چین میں بھی مسلمانوں کے مقدمات کے فیصلے کے لیے حاکم مسلمان ہی مقرر ہوتا تھا اور وہی عید کے دن مسلمانوں کو نماز پڑھاتا تھا اور اسلامی قوانین کے مطابق مسلمانوں کے فیصلے کرتا تھا۱؎‘‘۔ (سلیمان ص۱۴)
اور اسی قسم کی حیرت انگیز باتوں کا ان لوگوں نے چینیوں کے متعلق تذکرہ کیا ہے۔ یورپ والوں کے متعلق عام طور پر جو یہ مشہور ہے کہ ان کا موجودہ تمدن رومیوں اور یونانیوں کے تمدن سے ماخوذ ہے۔ مشرق سے انہوں نے کچھ نہیں لیا ہے۔ چینیوں کے حالات پڑھکر مجھے تو اب اسمیں شک پیدا ہوگیا ہے۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر چیزیں انہوں نے چینیوں ہی سے اخذ کی ہیں۔ بلکہ ابھی ان کو ان سے بہت کچھ لینا ہے۔ ان دونوں تمدنوں میں بعض امور کے متعلق کچھ عجیب قسم کا تشابہ معلوم ہوتا ہے۔ ان مسلمان سیاحوں کا بیان ہے کہ باہر سے چین کے باشندے بڑے پاک و صاف بنے ٹھنے رہتے ہیں اور ٹھیک آج یورپ والوں کا جو حال ہے کہ کپڑوں پر کپڑے پہنتے چلے جاتے ہیں، لکھا ہے کہ یہی حال چینیوں کا بھی تھا۔ بلکہ چینی تو حد کر دیتے تھے کہ صرف جسم کے بالائی حصہ ہی کو نہیں بلکہ ٹانگوں تک پر سردیوں کے موسم میں:
" دو دو شلواریں چڑھا لیتے ہیں۔ بلکہ تین تین چار چار پانچ پانچ پائجامے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق لوگ پہنتے ہیں۔"
اور اس کی ایک طبی توجیہ بھی بیان کرتے تھے کہ :
"جسم کے نچلے حصہ ہی میں سردی کے سرایت کرنے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔" سلیمان ص ۲۵)
اور نہ صرف سردیوں میں بلکہ سلیمان نے ایک قصہ ایک چینی آفیسر کا بیان کیا ہے :
"وہ کسی عربی سوداگر کے ےپاس آیا۔ سوداگر کے پاس بیٹھا تو چینی افسر نے دیکھا کہ بار بار وہ اس کے سینے کو دیکھ رہا ہے جس پر ایک تل تھا اور کپڑوں کے اندر سے نظر آ رہا تھا۔ عرب سوداگر کو تعجب ہو رہا تھا کہ باوجود کپڑوں کے تل باہر سے کیسے نظر آ رہا ہے۔ اس پر افسر نے اس سے کہا کہ کو کس بات پر حیرت ہو رہی ہے۔ اس نے حیرت کی وجہ بیان کی تو وہ ہنسا اور اس نے اپنی آستین کو آگے بڑھا کر سوداگر سے کہا کہ گن لو میں کتنے کپڑے پہنے ہوئے ہوں اس نے گنا تو معلوم ہوا کہ پانچ اچکنیں حریر کی چینی افسر پہنے ہوئے تھا لیکن کپڑے اتنے باریک تھے کہ ان پانچ کپڑوں کے اندر بھی اس کے سینے پر جو تل تھا، وہ باہر سے نظر آ رہا تھا۔" (سلیمان ۷۵)
جس سے چینیوں کی اس مہارت کا تو خیر اندازہ ہی ہوتا ہے جو پارچہ بانی کی صنعت میں انہیں حاصل تھی۔ سلیمان نے لکھا ہے کہ :
"بادشاہوں کے یہاں چین میں جو کپڑے استعمال ہوتے ہیں وہ ان کپڑوں سے بھی اعلٰی ہوتے ہیں۔"
پتھر کے کوئلہ کا استعمال
کہنے والوں کو کہا کہیے جو کہتے پھرتے ہیں کہ پتھر کے کوئلوں کے استعمال سے یورپ ہی نے دنیا کو واقف کیا ہے۔ اس سے پہلے لوگ اس کے استعمال سے ناواقف تھے۔ اب میں کیا کہوں کہ یورپ نے جس طرح اور بہت سی چیزیں چین سے اخذ کی ہیں ان ہی میں پتھر کے کوئلے کا استعمال بھی ہے۔ ابن بطوطہ نے جو آٹھویں صدی ہجری کا سیاح ہے، اپنے سفر نامہ میں انہی سنگین کوئلوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چین میں بجز انکے کوئی دوسری چیز ایندھن میں استعمال ہی نہیں ہوتی۔
نوٹ کا رواج
اسی نے چین کے حالات میں یہ بھی لکھا ہے کہ بجائے چاندی سونے اور تانبے وغیرہ کے سکوں کے عام طور پر یہاں کاغذی سکہ مروج ہے۔ اس نے اس کا نقشہ بھی بتایا ہے اور لکھا ہے کہ دوسرے سکے بازار میں لوگ مشکل سے قبول کرتے ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہوا کہ نوٹ کا رواج بھی ایک قدیم رواج ہے۔
چینی تہذیب کا یورپی اقوام پر اثر
لیکن مجھے اسی کے ساتھ چینیوں کے اس مذاق کو دکھانا ہے کہ باہر سے جامہ زیبی کا تو ان کے یہ حال تھا، لیکن اندر ان کی کیفیت جو تھی وہ بھی انہی
انصاف پسند غیر متعصب سیاحوں ہی کے بیان سے معلوم کیجیے۔ سلیمان ہی نے لکھا ہے کہ:۔
’’ان کے اندر نظافت اور طہارت قطعاً نہیں پائی جاتی‘‘۔
گویا جو حال آج یورپ والوں کا ہے بلکہ اسی کی تفصیل کرتے ہوئے سلیمان نے یہ عجیب بات لکھی ہے کہ:۔
ولا يستنجون بالماء بل يمسحون بالقراطيس الصينية. (سلیمان ص ۲۵)
استنجا پانی سے چین کے لوگ نہیں کرتے بلکہ کاغذ سے پونچھ لیتے ہیں۔
گویا کاغذ سے استنجا کا طریقہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپ والوں نے چینیوں ہی سے سیکھا ہے۔ یہ بھی اسی کتاب میں ہے کہ:۔
’’چینی پیشاب عموماً کھڑے ہوکر کرتے ہیں۔ یہاں کے عام باشندوں کی یہی عادت ہے‘‘۔
بلکہ اسی سلسلہ میں چینی امراء کے ایک خاص لطیفہ کا بھی ذکر کیا ہے کہ:۔
’’ان میں جو امیر اور بڑے لوگ ہیں، وہ ایک سوراخ دار لکڑی (نلکی) رکھتے ہیں جس کا طول ایک ہاتھ کے برابر ہوگا۔ اُس لکڑی کے دونوں طرف سوراخ ہوتا ہے اور کسی روغن سے اُس پر پالش بھی کردی جاتی ہے۔ جب پیشاب کی ضرورت ہوتی ہے تو اس نلکی کے ذریعے کھڑے کھڑے وہ پیشاب کرتے ہیں۔‘‘ (سلیمان ص ۱۱۴)
اور عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان کے متعلق حالانکہ ان ہی لوگوں کا بیان ہے کہ روزانہ غسل کے بغیر وہ کھانا بھی نہیں کھاتے لیکن پیشاب کے سلسلہ میں ان کے متعلق بھی لکھا ہے کہ:۔
’’پیشاب کرنیکے بعد بغیر اسکے کہ نجاست کو صاف کریں فوراً کپڑے
کو برابر کر لیتے ہیں۔" (سلیمان ص ۱۱۸)
عربوں کو ہندوستانیوں کی اس عادت پر تعجب ہوا ہے۔
چینیوں کی معاشرت اور انکے تمدن کے اکثر عناصر کا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپ والوں نے تتبع کیا ہے، چینیوں کی عورتوں کی حالت بیان کرتے ہوئے سلیمان نے لکھا ہے :
"ان کی عورتیں اپنے سروں کو کھلا رکھتی ہیں اور بالوں میں کنگھیاں لگاتی ہیں۔ کبھی کبھی ایک عورت کے سر میں بیس بیس کنگھیاں نظر آتی ہیں۔" (سلیمان ص ۲۵)
چینیوں کی آدم خوری
خلاصہ یہ ہے کہ باوجود اس عقل و ہوش کے چونکہ چینیوں کا تعلق اس زمانہ میں کسی آلہی دین سے باقی نہیں رہا تھا اسی لئے بعض باتیں ان کی ایسی ان لوگوں نے بیان کی ہیں جو سمجھ میں نہیں آتا کہ با اینہمہ دانش و دانائی، فرزانگی و فرہنگی بیچارے کن حالات میں مبتلا تھے۔ اسی سلیمان تاجر کی کتاب اور اسکے ساتھ ابو زید سیرافی کا جو ضمیمہ ہے اس میں یہ عجیب بات لکھی ہے کہ :
"چینیوں کا قاعدہ ہے کہ انمیں سے کوئی قوم جب اسی ملک کی دوسری قوم پر غلبہ حاصل کرتی ہے تو انہیں بالکل تباہ کر دیتی ہے اور وہاں کے باشندوں کو وہ کھا جاتے ہیں۔ (۱)
------------------------------
۱۔ حال میں جاپان کی جنگ جو ہوئی تھی، تو منجملہ اور خبروں کے بعض خبریں یہ بھی آئی تھیں کہ جاپانی دشمن قیدیوں کو، یا جو ان میں قتل ہو جاتے ہیں انکو بھون کر کھا گئے۔ اس سے بھی مسلمان سیاحوں کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔
اسی کے بعد لکھا ہے کہ :
و ذالک مساح لھم فی شریعتیھم فی اسواقھم (سلیمان ۶۶)
یہ ان کے مذہب اور قانون میں جائز ہے کیونکہ انسانی گوشت تو ان کے بازاروں میں بکتے ہیں۔
یہ بھی لکھا ہے کہ چینیوں میں جب کوئی جرم کرتا ہے جسکی سزا قتل ہو، تو قتل کرنے کے بعد،
یدفع الی من یاکلہ (سلیمان ص ۶۸)
ان لوگوں کے حوالہ مقتول کی لاش کر دی جاتی ہے جو ان کو کھا جاتے ہیں۔
یہ کوئی دس بیس ہزار سال پہلے کا قصہ نہیں ہے بلکہ ابو زید السیرافی جو سلیمان تاجر کے بعد کا آدمی ہے وہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ انسانوں کے گوشت کا چین کے بازاروں میں بکنا ایک عام بات ہے۔
اسمیں شک نہیں جیسا کہ میں نے بھی لکھا ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو بھی ان لوگوں نے اس زمانہ میں چوہے وغیرہ چیزوں کو کھا جاتے دیکھا تھا۔ لیکن کہاں آدم خوری اور کہاں موش خوری، اگرچہ اس زمانے میں ہندوستان کا بھی پیغمبروں کے لائے ہوئے خدائی دین سے کوئی تعلق باقی نہ رہا تھا اور جیسے چینی صرف عقل کی رہنمائی میں زندگی کے ضوابط و اصول بنا بنا کر جی رہے تھے، یہی حال ہندوستان والوں کا بھی تھا۔ لیکن اس اعتبار سے دیکھئے تو ہندوستان پھر بھی آپ کو بسا غنیمت معلوم ہو گا۔ نہ صرف اسی ایک معاملہ میں بلکہ اور بھی مختلف چیزیں ان ہی سیاحوں کی کتابوں میں ملتی ہیں جن سے چین اور ہندوستان کے غیر پیغمبرانہ تمدن و تہذیب میں نمایاں فرق معلوم ہوتا ہے۔
بدکاری کی اجازت اور اسکے اڈے
مثلاً چین کے متعلق بیان کیا ہے کہ :
"چینیوں میں ایک دستور یہ بھی ہے کہ ان کی عورتوں میں جو عورت شادی کرنے سے گریز کرنا چاہتی ہو اور اس کی خواہش ہو کہ آوارگی کی زندگی بسر کرے حکومت کی طرف سے ممانعت نہیں ہے بلکہ قاعدہ ہے کہ پولیس کا جو افسر اس علاقے میں ہوتا ہے عورت اس کے دفتر میں حاضر ہو جاتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ وہ شادی کر کے زندگی بسر کرنا نہیں چاہتی اور خرچی کمانے والی بیسواؤں میں شریک ہونا چاہتی ہے پھر درخواست دیتی ہے کہ جس رجسٹر میں اس قسم کی بدچلن عورتوں کے نام لکھے جاتے ہیں اسی میں میرا نام بھی درج کر دیا جائے، تب اس عورت کا نام، اس کا نسب، اس کی شکل و صورت، حلیہ اور اس کے گھر کا پتہ، دیوان الزوانی (بیسوا عورتوں کے دفتر) میں لکھ لیا جاتا ہے اور گلے میں اس عورت کے ایک دھاگہ ڈال دیا جاتا ہے جس میں تانبے کی ایک انگوٹھی ہوتی ہے، جس میں حکومت کی مہر کندہ ہوتی ہے۔ اور اس کو ایک اجازت نامہ لکھ کر دیدیا جاتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ بیسواؤں میں شریک ہونے کی اسے اجازت دی جاتی ہے اور یہ کہ سرکاری خزانہ میں ہر سال اتنی رقم داخل کرتی رہے۔
گی۔ اسی میں یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ اس عورت سے جو کوئی باضابطہ عقد کرے گا، وہ قتل کر دیا جائے گا۔ عورت اس اجازت نامہ اپنے ساتھ رکھتی ہے اور سالانہ جو رقم اس کے ذمہ واجب کی جاتی ہے ادا کرتی ہے۔ اس طبقہ کی عورتوں کا قاعدہ ہے کہ پچھلے پہر بن ٹھن کر بغیر کسی حجاب کے گذرگاہوں پر بیٹھتی ہیں، فسق و فجور والے ان کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ رات ان عورتوں کے پاس بسر کر کے صبح کو نکل آتے ہیں۔" (ص ۷۰)
عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف چینیوں کے تمدن میں زنا کا شمار ایسے سخت جرائم میں تھا جس کی سزا ان کے یہاں قتل تھی۔ ابو زید سیرافی سلیمان کی کتاب کے تکملہ میں لکھتا ہے کہ :
"شادی شدہ مرد و عورت اگر زنا کے مرتکب ہوں تو چینی قانون میں اس کی سزا قتل ہے۔"
اور قتل بھی کس طریقے سے، ابو زید ہی کا بیان ہے کہ:
دونوں ہاتھوں کو پہلے خوب مضبوطی کے ساتھ باند دینے کے بعد پھر ان بندھے ہوئے ہاتھوں کو گردن پر چڑھا دیتے ہیں، پھر داہنے پاؤں کو اوپر کر کے اسی بندھے ہوئے داہنے ہاتھ میں گھسیڑ دیتے ہیں، اسی طرح بائیں پاؤں کو بائیں ہاتھ میں، اس ترکیب سے دونوں تلوی اس کی پیٹھ کی طرف نکل آتے ہیں اور آدمی گویا ایک گیند کی طرح بن جاتا ہے۔ اپنے اوپر کسی قسم کا قابو اس کو باقی نہیں رہتا۔ نہ ہل سکتا ہے اور نہ کسی قسم کی جنبش کا اختیار اس میں باقی رہتا ہے۔ اور اب ضرورت اسکی نہیں رہتی کہ کوئی پکڑنے والا اسے پکڑے رہے۔ اس تدبیر کے بعد اس کی گردن کو مہرے سے توڑ دیتے ہیں اور ریڑھ کی ساری ہڈیاں پیٹ کی طرف نکل آتی ہیں۔ وہ ایک ایسے حال میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اگر اسے یونہی چھوڑ دیا جائے تو اس کا دم نکل جائے۔ لیکن اسی پر بس نہیں کرتے۔ بلکہ ایک خاص قسم کی لکڑی ہوتی ہے جس سے اس کو مارتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کا دم نکل جاتا ہے۔"
اس موقعہ پر یہ بھی لکھا ہے کہ :
"اس کی لاش کھانے والوں کے سپرد کر دی جاتی ہے۔"
بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ مطلقاً زنا کاری کو چینی جائز نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہی بات کہ سارے انسان ان کی نگاہوں میں ایک نہیں تھے اور ہر عورت جو بہرحال کسی کی بیٹھی اور بہن ہی ہوتی ہے اس کے ناموس کی حفاظت ان کی نگاہوں میں ضروری نہیں تھی۔
اور میں خیال کرتا ہوں کہ ابن خردادبہ نے اپنی کتاب ہندوستان کے متعلق جو یہ لکھا ہے کہ:۔
’’ہندوستان کے راجہ زنا کو حلال قرار دیتے ہیں۔ صرف القمار (غالباً کامروپ آسام) کے راجہ کے ملک میں زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے‘‘۔ (سلیمان ص۶۶)
اس سے مراد وہی بات ہوگی جو چینیوں کے دستور میں نظر آتی ہے۔ کیونکہ سلیمان تاجر کے حوالے سے میں پہلے یہ نقل کرچکا ہوں کہ ’’ہندوستان میں بھی زنا کی سزا قتل ہی تھی۔ مردو عورت دونوں کی رضامندی سے فعل اگر صادر ہوا ہو تو دونوں ختم کردیے جاتے تھے، اور اگر ثابت ہوجائے کہ عورت کے ساتھ جبر و زبردستی سے کام لیا گیا ہے تو صرف مرد ہی قتل ہوتا تھا‘‘۔
چین کے متعلق انہی سیاحوں اور تاجروں کا یہ بیان اگر صحیح ہے جو سلیمان نے لکھا ہے، میں بجنسہٖ اُس کے الفاظ نقل کردیتا ہوں۔ وہ لکھتا ہے:۔
وأهل الصين يلوطون بغلمان. (ص۵۴)
اور چین والے چھوکروں کے ساتھ فعل خلافِ وضعِ فطری کے مرتکب ہوتے ہیں۔
تو اسک امطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ چوری چھپے نہیں بلکہ علانیہ چین والوں میں اس بَدعادت کا رواج تھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے اس پر لوگوں کی گرفت نہیں ہوتی تھی بلکہ جیسے فاحشہ عورتوں کو فحش کاری کی باضابطہ سند حکومت کی طرف سے دی جاتی تھی اسی طرح شاید اس فعل کا حکومت کی طرف سے لائسنس بھی دیا جاتا تھا۔ جیسا کہ میں باربار کہتا رہا ہوں کہ پیغمبرانہ اور غیرپیغمبرانہ نظامِ حیات میں بڑا فرق ہے۔ چین صنعتو حرفت، طب و فلسفہ، حکمت و دانش کی جن بلندیوں تک ترقی کر کے جس زمانہ میں پہونچا ہوا تھا۔ ٹھیک ان ہی دنوں میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان ہی دانش مندوں کی نگاہ ایسے غیر معمولی اخلاقی جرم کے جرم ہونے تک نہ پہنچ سکی۔ (۱)
------------------------------
۱۔ ڈاکٹر اشرف الحق مرحوم حیدر آبادی جنہوں نے پچھلے دنوں خاص چینی مسائل پر مختلف رسائل شائع کئے تھے۔ خیال آتا ہے کہ ان کے انہی رسائل میں سے کسی رسالہ میں یہ چیز بھی درج تھی کہ جرمنی کے ریشتاغ میں ایک رکن نے قوم لوط کی اس عادت کو قانونی جواز عطا کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ یاد پڑتا ہے کہ ڈاکٹر اشرف الحق صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ آخر اس قانون کو ریشتاغ سے اس ممبر نے منوا بھی لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب شاید اس سے خود بھی ملے تھے۔
بہر حال مجھے یہ کہنا ہے کہ مغربی تہذیب و تمدن کے ائمہ کو آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدا اور خدائی تعلیم سے ٹوٹ کر بااینہمہ عقل و فرزانگی کن خندقوں میں جا گرے ہیں۔ عقل انسانی، انسانی عقل اس وقت تک بن ہی نہیں سکتی۔ جب تک کہ انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیم کی روشنی سے وہ منور نہ ہو۔ اس روشنی سے بے تعلق ہو کر چلنے والے کل بھی ان ہی گڑھوں میں گرے تھے۔ اور آج بھی ٹھوکریں کھا کھا کر وہ ان ہی میں گر رہے ہیں۔ اعاذنا اللہ من طغیان العقل و سکراتہ۔
عام اسلام ممالک
اس وقت ان اسلامی مؤرخین کی انہی معلومات کو میں نے پیش کیا ہے جن کا زیادہ تر ہندوستان اور چین سے تعلق ہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ ان مؤرخین نے اپنے زمانہ میں اسلامی ممالک جو جس حال میں پایا ہے اور ان کے جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ کچھ تھوڑا بہت ان کا تذکرہ بھی درج کر دوں۔
جنات و انہار کا مذاق عام اور اس کا عجیب منشا
اس قسم کے تمام سیاحوں (مثلاً لہمدانی، ابن حوقل، ابن خردادبہ، المقدسی وغیرہ) سب ہی کی کتابوں میں اسلامی ممالک کے متعلق ہم جس چیز کو بطور قدر مشترک کے پاتے ہیں وہ جنات (باغوں) اور انہار کا تذکرہ ہے۔ مشکل ہی سے کسی ملک کا ذکر ان لوگوں نے کیا ہے جس میں وہاں کے باغات، بہتی ہوئی نہروں، جاری چشموں کا اور وہاں کے سرد و سبک پانی کے ذکر کو انہوں نے ترک کیا ہو۔ الا ماشاء اللہ۔ آج انہی اسلامی علاقوں کا جو حال ہے اسکو دیکھتے ہوئے سچ تو یہ ہے کہ ان سیاحوں کے بیان پر اعتماد کرنا، دشوار ہے، لیکن روایت ایک دو آدمی کی جھٹلائی جا سکتی ہے۔ سب ہی جھوٹ بولتے تھے اور سبھوں نے غلط بیانیوں سے کام لیا ہے، یہ فیصلہ بھی تو آسان نہیں ہے۔
خدا ہی جانتا ہے کہ اپنے مذہب کے ان شدید معتقد مسلمانوں پر جنات و انہار کا یہ مذاق کیسے غالب آ گیا تھا۔ المقدسی نے اپنی کتاب "احس التقاسیم" میں فارس کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بیان کرنے کے بعد کہ آجکل اس علاقہ پر ویلم کے بنی بویہ کی حکومت ہے۔ مشہور ویلمی بادشاہ عضد الدولہ کے شاہی محل (۱) اور اسکے متعلقہ جنات و انہار کی تفصیل کے سلسلہ میں ایک دلچسپ اپنا خود زائیدہ نکتہ یہ درج کیا ہے۔ یعنی یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ اس قسم کی نہروں اور باغوں کا یہ خیال ان لوگوں میں کس راہ سے پیدا ہوا؟ جواباً اپنی یہ توجیہ پیش کی ہے کہ :
و اظنہ بنا ھا علے ما سمع من اخبار الجنۃ (احسن التقاسیم ص ۴۴۵ مقدسی)۔
میں خیال کرتا ہوں کہ جنت کے متعلق جو خبریں ان لوگوں نے سنی ہیں انہی خبروں نے ان باغوں اور نہروں کا خیال ان میں پیدا کیا۔
------------------------------
۱۔ مقدسی نے اس شاہی محل کی براہ راست خود سیر کی تھی۔ اس نے لکھا ہے کہ بادشاہ نے تین سو ساٹھ محل بنوائے ہیں۔ سال کا ہر دن ایک خاص محل میں گذارتا ہے۔ ہر محل دو منزلوں پر مشتمل ہے۔ ایک بالائی اور دوسری تحتانی ہر محل کی تحتانی منزل میں میلوں دور سے نہریں کاٹ کر لائی گئی ہیں، اور محل کے مختلف کاشانوں اور حصوں میں نہایت تیزی سے بہتی رہتی ہیں، اسی طرح چھ میل دور ایک ندی سے نہر کاٹ کر لائی گئی ہے اور نلوں کے ذریعہ انکا پانی بالائی منزل کی عمارتوں ین دوڑایا گیا ہے۔ بنگلوں پر اوپر سے ان نہروں کا پانی گرتا رہتا ہے اور ان کو ہمیشہ تر رکھتا ہے۔ اس شاہی محل کے ہر کمرہ کا رنگ الگ ہے کسی پر چینی کے برتن جیسا کام ہے۔ کسی کا رنگ پتھر کے مانند ہے۔ کوئی ان میں سنہرا ہے۔ کسی کا رنگ نقرئی ہے۔ ان تین سو ساٹھ محلوں میں ہر محل اپنی وضع قطع شکل وصورت فرش فروش سازوسامان میں دوسرے سے قطعاً علیٰحدہ ہے اور ہر ایک کو گھنے باغات گھیرے ہوئے ہیں۔ جن میں دنیا بھر کے نوادر میوے اور پھل لگے ہیں۔ انہی محلوں میں ایک ’’ایوان‘‘ کتابوں کے لیے مختص ہے۔ اسکے لیے ایک خازن ایک مشرف ایک کلید بردار اور ایک ناظر مقرر ہے اس وقت تک دنیا میں جو کتابیں تصنیف ہوئی ہیں اُن کا ایک ایک نسخہ یہاں مہیا کیا گیا ہے کتب خانہ کا یہ محل برا طویل وعریض پلاسٹر کیا ہوا ہے جن میں الماریاں ہیں اور ترتیب سے کتابیں رکھی گئی ہیں۔ ہر فن کی کتابوں کا کمرہ الگ ہے۔ کتابوں کی مفصّل فہرستیں بھی بنی ہوئی ہیں۔ (احسن التقاسیم ص۴۴۹ )

جس کا مطلب گیا یہی ہوا کہ ان مسلمانوں میں ’’جَنّات وانہار‘‘ کے عمومی ذوق کو قرآن ہی نے پیدا کیا تھا۔
مقدسی ہی نے لکھا ہے کہ:۔
’’عضد الدولہ کے ان محلات کو دیکھ کر عام آدمی تو آزمائش
میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جو صاحب علم و معرفت ہیں ان کے قلوب میں جنت کا شوق زیادہ تیزی کے ساتھ بھڑک اٹھتا ہے۔"
(ہزار سال پہلے)

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)