مسجد ایک بار پھر یہودیوں کے
قبضے میں!
مسجد اقصیٰ پچھلے سات دنوں سے اسرائیلی
درندوں کے قبضے میں ہے۔مسجد اقصیٰ کے اس ظالمانہ قبضے کی روئیداد سننے سے
پہلے4جولائی 2017کوفلسطین کے بارے یونیسیکواجلاس کامنظرنامہ ملاحظہ کیجئے!
۔یہ وہ دن تھا جب پہلی مرتبہ بھارتی وزیراعظیم
نریندر مودی اسرائیل کے دورے پرآیا،یہی وہ دن تھا جب اسرائیل کے بارے پولینڈ میں یونیسکو
اجلاس کر رہاتھا۔موضوع اجلاس تھا کہ "بیت المقدس آزادہے یااس پرقبضہ کیا گیاہے"؟اسرائیلی
نمائندے نے اپنی گفتگوکے دوران ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا اور ساتھ
ہی حال میں موجود دنیا بھر کے نمائندوں کو ہولوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کے
افسوس میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے اور کھڑا ہونے کا کہا،اس کے ساتھ ہی حال
میں موجود کچھ لوگ کھڑے ہوئے، تو کچھ بیٹھے رہے۔
کیمونسٹ کیوبا کی نمائندہ خاتون نے
اسرائیلی نمائندے کے اس عمل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ صدر جلسہ کے علاوہ کسی کو
اختیار نہیں کہ وہ نمائندگان کو کھڑا کرے۔پھر اس بہادر خاتون نے فلسطینی مظلوموں
کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ آخر ہم فلسطینی مظلوموں کو کیوں یاد نہیں کرتے،جوآئے روز
بے گناہ قتل کردیے جاتے ہیں،اس کے ساتھ ہی اس خاتون نے سامنے لگے مائک کو جھٹکتے
ہوئے فلسطینی مظلوموں سے ہمدردی کی خاطراجلاس میں شریک دنیابھر کے نمائندگان سے
کھڑا ہونے کامطالبہ کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے پوراحال کیوبا کی اس کمیونسٹ خاتون کی آواز
پرتالیاں بجاتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔اسرائیلی نمائندہ اس حیرت انگیز منظر پر دم بخود
رہ گیا۔کیوبا کی اس بہادر خاتون کی وجہ سے جہاں مسئلہ فلسطین کو دنیا بھر میں خوب
پذیرائی وہیں اس خاتون کو بھی دنیا بھر میں سراہاگیا۔بعدازاں یونیسکونے اپنی
قرارداد میں القدس پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف قرارداد منظور کرلی۔
اس سے پہلے مئی 2017 میں بھی یونیسکو
نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں کہاگیا تھا کہ القدس فلسطینی مسلمانوں کا شہر
ہے جس سے یہودیوں کا کوئی تعلق نہیں،یہاں موجود قدیم ثقافتی ورثے کے مالک بھی یاتو
مسلمان ہیں یا عیسائی۔یونیسیکو کی ان قراردادوں کے بعد جہاں دنیا بھر میں اسرائیل
کو ذلت کا سامنا کرناپڑا وہیں اسرائیل نے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان
قراردادوں کو مسترد کردیا اور القدس میں اپنا پہرہ مزید سخت کردیا۔
ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا
کہ14جولائی2017بروز جمعۃ المبارک کو غاصب اسرائیلیوں نے مسجد اقصی ا محاصر ہ کرکے
مسجد اقصی کومکمل طورپر بندکردیا۔جس کی وجہ سے48سال بعدمسجد اقصیٰ میں جمعہ کی
نمازادانہ کی جاسکی۔غاصب اسرائیلیوں کی جانب سے اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ تین
مسلح فلسطینیوں نے مسجد اقصیٰ کے قریب دواسرائیلی فوجیوں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا
جس کے بعد مسجد اقصیٰ کو بند کیا گیا۔جب کہ ایک موبائل ویڈیو کلپ میں ایک فلسطینی
کو ایک اسرائیلی کے ساتھ تصادم میں دکھایاگیا ہے جس کے بعد اس فلسطینی کو گولی
مارکرقتل کردیا گیا۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق عام طور پر
ابتدااسرائیل کی جانب سے کی جاتی ہے اور اس واقعہ میں بھی ابتدا اسرائیلی فوجیوں کی
جانب سے کی گئی۔ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو اس سے بھی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ
اولاً اسرائیلی فوجی فلسطینیوں پر ظلم وستم ڈھاتے ہیں اور انہیں ناجائز قتل اور جیلوں
میں ڈالتے ہیں۔جس پر عالمی میڈیا سمیت پوری دنیا گواہ ہے۔چنانچہ اقوام متحدہ کا ذیلی
ادارہ یونیسیکوبھی وقتافوقتا اپنی قرادادوں میں اسرائیل کے ان مظالم کے خلاف آواز
بلند کرتارہتاہے۔بہرحال اس واقعے کے دوروز بعد مسجد اقصیٰ کو جزوی طورپر کھول دیا
گیا لیکن پہلی مرتبہ مسجد اقصیٰ کے دروازوں کے سامنے اسرائیل نے واک تھرو گیٹ اور
میٹل ڈیٹکٹیر نصب کرکے فلسطینی مسلمانوں کی تلاشی لینا شروع کردی ہے۔فلسطینی
مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ کے سامنے یہودیوں کے اس جبری حصار کو رد کردیا۔چنانچہ
پچھلے سات دنوں سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمان احتجاجامسجد اقصیٰ کے دروازوں کے
سامنے نمازیں اداکررہے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں
کو زدوکوب کرنا شروع کردیاہے۔احتجاج کرنے والے لوگوں کو گرفتارکیا جارہاہے۔صوتی
گولے برسائے جارہے ہیں جن کی زد میں آکرمسجد اقصیٰ کے امام وخطیب شیخ عکرمہ صبری
سمیت درجنوں فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک عالم اسلام کی
طرف سے اسرائیل کے حالیہ تشدد پر لب کشائی نہیں کی گئی۔البتہ سعودی باشاہ کے حوالے
سے یہ خبرضرور سامنے آئی کہ ان کی مداخلت پر مسجد اقصیٰ کو کھولا گیا لیکن ماہر
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ محض ایک افواہ ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے از
خود مسجد اقصیٰ کو کھولا کیوں کہ اسرائیل یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ مسجد اقصیٰ کی
بندش سے دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف جو رد عمل آئے گا اسے اسرائیل برداشت نہیں
کرسکتا۔
مسجد اقصیٰ144000مربع میٹرپرمشتمل اس
حصے کے نام ہے جسے آخری بار حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیاتھا۔حرم کا یہ وہ
حصہ ہے جس میں200کے لگ بھگ تاریخی آثار ہیں ۔جن میں قبۃ الصخرا،مسجد القِبلی،مسجدالمروانی،دیوارِبراق
جسے یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں جیسے قدیمی اور تاریخی آثار شامل ہیں۔صحیح بخاری کی
روایت کے مطابق بیت اللہ کی تعمیر کے 40سال بعد اس مسجد کو تعمیر کیا گیا۔محققین
کے مطابق سب سے پہلے اسے آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا،بعدازاں ابراہیم ،داؤود اور
سلیمان علیہم السلام ایسے جلیل القدر انبیاء نے اپنے اپنے دور میں اس مسجد کو ترمیم
وتزین کی۔
اسلام کی آمد کے بعد مسجد اقصیٰ کو
خصوصی اہمیت دی گئی ۔کیوں کہ یہی وہ مسجد تھی جسے مسلمانوں کا قبلہ اول بنایاگیا۔یہی
وہ مبارک جگہ ہے جہاں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے ہم کلام ہونے کے لیے
آسمانوں پر تشریف لے گئے۔یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے تمام انبیاء کی امامت کی۔یہی وہ مقدس مقام ہے جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم پانچ نمازوں کا تحفہ لانے رب کے حضور پہنچے۔یہی وہ مبارک جگہ ہے جسے خلیفہ
ثانی عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بغیر قتل وقتال اور خون خرابے کے فتح کیااور مسلمانوں
کے لیے ایک مسجد بنائی۔جس میں بعدازں اسلامی دور میں توسیع ہوتی رہے۔
مسجد اقصیٰ دنیا کی واحد ایسی جگہ ہے
جس کے تقدس پر تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکار یعنی مسلمان،یہودی،عیسائی متفق ہیں۔لیکن
افسوس عیسائیوں نے صلیبی جنگ کے نام پر اس مبارک سرزمین کے تقدس کوپامال کیا ،تو یہودیوں
نے 1948میں ناجائز قبضے سے اس مبارک جگہ کو فسادوخون کی جگہ بنادیا۔چنانچہ آئے روز
یہاں اسرائیلی یہودی نہ صرف مسلمانوں پر تشدد کرتے ہیں،بلکہ انہیں قیدوقتل کرنے
اور مختلف حیلے بہانوں سے مسجد اقصیٰ کو نقصان پہچانے کے درپے رہتے ہیں۔جس کے پیچھے
صرف ایک ہی سوچ کارفرماہے کہ مسجد اقصیٰ کی موجودہ ہئیت مٹاکر یہاں مزعومہ ہیکل سلیمانی
تعمیر کیا جائے جسے آج تک یہودی ثابت بھی نہیں کرسکے ۔چنانچہ حالیہ مسجد اقصیٰ کی
بندش اور الیکٹرانک واک تھرودروازوں کے ذریعے مسجد اقصیٰ کا حصاردراصل اسرائیلی یہودیوں
کے انہیں ناپاک عزائم کا اظہارہے۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینی مسلمان اسرائیل کے ان ناپاک
عزائم کو بھانپ گئے ہیں ،تبھی انہوں نے مسجد اقصیٰ کے گرد یہودیوں کے واک
تھرودروازوں کے نام پر عسکری حصار کو رد کردیاہے اور ابھی تک مسجد اقصیٰ کے
دروازوں کے سامنے احتجاجا کھڑے ہیں۔
دوسری طرف امت مسلمہ اورعالم اسلام کے
حکمرانوں کا افسوس ناک رویہ ہے،جوآج تک قبلہ اول پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کو
چھڑواسکے ہیں،نہ فلسطینی مسلمانوں پر آئے روز ہونے والے مظالم کو رکواسکے ہیں۔ان
سے بہتر تو وہ نہتے فلسطینی ہیں جو پچھلے ستر سالوں سے گردنیں کٹوانے کے باجودآج
بھی غاصب یہودیوں کے سامنے سینہ تان کرکھڑے ہیں ۔عالم اسلام کے حکمرانوں کو کم
ازکم ان نہتے فلسطینی مسلمانوں سے سبق سیکھنا چاہئے ،جواس قدر مظالم سہنے کے
باوجودبھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجداقصیٰ ہماری گردنوں میں امانت ہے۔اس امانت کی
خاطر ہماری گردنیں کٹ سکتی ہیں،مگر جھک نہیں سکتیں۔
تف ہے !عالم اسلام کے ان نام نہاد لیڈروں
پر جو مفادات کی خاطراسرائیل سے تعلقات بڑھانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔مصر کے غدار
ڈکٹیٹر عبدالفتاح السیسی کو شرم آنی چاہئے ،جو مصر میں اسرائیلی عبادت خانے کی تعمیر
پر22ملین ڈالر خرچ کرنے پر راضی ہے ،مگر قبلہ اول کو یہودیوں کے حالیہ عسکری حصار
سے آزاد کروانے کے لیے کچھ خرچ کرنے کو تیارنہیں۔غیرت ان نام نہاد اسلامی حکمرانوں
کو بھی کرنی چاہئے ،جو امریکہ کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر امریکہ کے بے غیرت بچے
اسرائیل کو سفاکیت سے نہیں روک پاتے۔شرم عالم اسلام کے ان ملاؤں کو بھی کرنی چاہئے
جو حکمرانوں کے درباروں میں جاکر حکمرانوں کے تلوے چاٹتے ہیں اور ان کے اقتدار کو
مضبوط کرنے کے لیے فتوے بھی دیتے ہیں، مگر اسرائیلی یہودیوں کے قبلہ اول کی بے
حرمتی پر ان حکمرانوں کو غیرت نہیں دلاتے۔کس قدر بے شرمی کی بات ہے کہ کیمونسٹ کیوبا
کی ایک خاتون فلسطینی مظلوموں کی خاطریونیسیکو کے ایک اجلاس کے ذریعے دنیا بھر میں
اسرائیل کورسواکرسکتی ہے مگر بھاری بھر فوج اور مال وودلت کی فروانی رکھنے والے
اسلامی ملکوں کے حکمران اسرائیل کو مسجد اقصیٰ کی حالیہ بے حرمتی سے نہیں روک
سکتے۔
ایسے میں داددینی چاہئے ان لوگوں کو جو
آج بھی بغیر رنگ ومذہب کے دنیا بھر میں فلسطینی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔
سلام ہے !ان مسلمانوں پر جوگزشتہ سات دنوں سے مسجد اقصیٰ کی حالیہ بے حرمتی کے
خلاف احتجاج کررہے ہیں۔انہیں میں سے وہ درد دل رکھنے والے لوگ بھی ہیں جو آج کراچی
پریس کلب کے سامنے سہ پہرتین بجے" لبیک یااقصی" اور "جمعہ
غضب" کے نام سے مسجداقصیٰ کی حالیہ ناکہ بندی کے خلاف احتجاجی ریلی منعقد
کررہے ہیں،جس میں مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔بلکہ یہ احتجاجی ریلیاں
ملک بھر میں منعقد ہونے چاہئیں، تاکہ دنیا کو اسرائیل کی حالیہ بدمعاشی کا پتہ چلے
اوروہ اسرائیل کو اس بدمعاشی سے بازآنے سے روکے۔خطباء اورائمہ حضرات کو بھی مساجد
کے منبرومحراب سے قبلہ اول کے بارے خطبہ جمعہ دینا چاہئے ،تاکہ عام مسلمانوں میں
قبلہ اول کی اہمیت کا احساس پیداہو اور وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں!
بقلم
(غلام نبی
مدنی،مدینہ منورہ)
No comments:
Post a Comment