لواطت:
یعنی پیچھے کی راہ میں
خواہش پوری کرنا
اس فعل (طوالت) کی
خباثت عقلاً و نقلاً ہر طرح ثابت ہے اور طبیعت سلیمہ اس سے خود ہی انکا رکرتی ہے۔
اس فعل پر سوائے بد طینت آدمی کے اور کوئی سبقت (پیش قدمی) نہیں کر سکتا۔ (دین و
دنیا صفحہ ۲۷۲)
یہ بہت پرانا مرض ہے
اور سب سے پہلے لوط علیہ السلام کی قوم میں یہ مرض پیدا ہوا تھا اور شیطان نے ان
لوگوں کی راہ ماری۔ (دعوات عبدیت صفحہ ۳۴)
یہ ناپاک (خبیث) فعل
سب سے پہلے قوم لوط میں رائج ہوا‘ ان سے پہلے آدمیوں میں اس کا وقوع نہ ہوا تھا۔
چنانچہ لوط علیہ السلام نے ان سے فرمایا
{اَتَاْتُوْنَ
الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بْھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ}
(الکمال فی الدین
ملحقہ دین و دنیا صفحہ ۲۶۸)
لوط علیہ السلام کو
شہر سدوم میں رہنے اور اس شہر والوں کی ہدایت کا حکم ہوا تھا وہ لوگ لواطت کے عادی
تھے‘ جس کا ارتکاب ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔
’’لوط علیہ السلام نے
اپنی قوم سے فرمایا‘ کیا تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا
والوں میں سے نہیں کیا۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو؟
بلکہ تم حد ہی سے گزر گئے ہو۔ پھر ہم نے لوط علیہ السلام اور ان کے متعلقین کو بچا
لیا‘ سوائے ان کی بیوی کے۔ پھر اور سب کو ہم نے ہلاک کر دیا اور ہم نے ان پر خاص
قسم کا یعنی پتھروں کا مینہ برسایا (یعنی پتھروں کی بارش کی)‘‘
یہاں دو عذابوں کا
ذکر ہے تختہ الٹ جانا (یعنی زمین کو الٹ دینا) اور پتھر برسنا۔ ظاہر یہ ہے کہ پہلے
زمین اٹھا کر الٹ دی گئی جب وہ نیچے کو گرے تو اوپر سے ان پر پتھرائو کیا گیا۔ اور
بعض لوگوں نے کہا کہ جو بستی میں تھے وہ الٹ دیئے گئے اور جو باہر گئے تھے ان پر پتھر
برسے۔
سود یکھو تو سہی ان
مجرموں کا انجام کیسا ہوا۔ اگر غور سے دیکھے گا تو تعجب کرے گا۔ اور سمجھے گا کہ نافرمانی
کا کیا انجام ہوتا ہے۔ بیشک اس واقعہ میں بھی (بڑی ) عبرت ہے۔ (بیان القرآن ترجمہ
و تفسیر سورہ اعراف‘ شعراء‘ ہود ملتقطاً)
اس وقت یہ مرض لوگوں
میں شدت سے پھیل رہا ہے کوئی تو خاص اصل گناہ ہی میں مبتلا ہے اور کوئی اس کے
مقدمات میں یعنی اجنبی لڑکے یا اجنبی عورت پر (شہوت کے ساتھ) نظر کرنا۔
حدیث میں ہے
((اللسان یزنی وزناہ
النطق والقلب یتمنی و یشتھی))
اس میں ہاتھ لگانا‘
بری نگاہ سے دیکھنا سب داخل ہو گئے‘ یہاں تک کہ جی خوش کرنے کے لئے حسین لڑکے یا
لڑکی سے باتیں کرنا یہ بھی زنا و لواطت میں داخل ہے‘ اور دل کا زنا سوچنا ہے‘ جس
سے لذت حاصل ہو‘ تو جیسے زنا میں تفصیل ہے ایسے ہی لواطت میں بھی ہے۔ (دعوات عبدیت
وعظ الاتعاظ بالغیر صفحہ ۱۱۸ جلد ۹)
اپنی عورت سے لواطت
کرنا
پیچھے کے موقع میں
اپنی بیوی سے صحبت کرنا حرام ہے۔ (بیان القرآن صفحہ ۱۲۹ جلد ۱)
(بد فعلی اور لواطت یعنی
پیچھے کی راہ میں خواہش پوری کرنے کی عادت) ایسی عادت ہے جس سے نسل انسانی کی بیخ
کنی ہوتی ہے۔ اس طریقہ سے گویا انسان نظام الٰہی کو بگاڑ
کر اس کے مخالف (اور ناجائز و غلط) طریقہ سے قضائے حاجت کرتا ہے۔ اس وجہ سے ان
افعال کا برا اور مذموم ہونا تو لوگوں کی طبیعتوں میں جم گیا ہے۔ فاسق و فاجر ( جو
لوگ) ایسے کام کرتے ہیں (وہ بھی) ان کے جواز کا اقرار نہیں کرتے۔ اگر ان کی طرف ایسے
افعال (بد عملی) کی نسبت کر دی جائے تو شرم و حیاء سے مر جانا گوارا کرتے ہیں۔ ہاں
جو لوگ فطرت کے سر چشمہ سے ہٹ گئے ہوں تو ان کو پھر کسی کی حیاء باقی نہیں رہتی
اور برملا (بے دریغ) وہ ایسے افعال عمل میں لاتے ہیں۔
اور لواطت (یعنی پیچھے
کی راہ میں خواہش پوری کرنے والے) پر شریعت نے کوئی کفارہ مقرر ومشروع نہیں فرمایا
اور کفارہ اس لئے مشروع نہیں ہوا کہ (یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ) اس جنس کے گناہوں میں
کفارہ کا اثر نہیں ہوتا۔ کفارہ کا اثر تو وہاں ہوتا ہے جو امر اصل میں مباح (جائز)
ہو اور کسی عارضی سبب سے حرام ہو جائے مگر (اس قسم کے) گناہ فی نفسہٖ بڑے سخت گناہ
ہیں اس لئے ان میں سزا ہی ہے کفارہ نہیں۔
(المصالح العقلیہ لاحکام النقلیہ صفحہ ۲۳۶۔ ۲۳۹)
No comments:
Post a Comment