عورت کی ایک خامی:نامحرموں
کے ساتھ خلوت اختیار کرنا:
عورتوں کے اندر ایک
خامی جوبعض اوقات بڑی مُہلک اور خطرناک ثابت ہوجاتی ہے ،وہ یہ ہےکہ وہ غیر محرم کے
ساتھ خلوت اختیار کریں ،نامحرم کے ساتھ سفر کریں ، جبکہ احادیث میں اس کی بڑی سختی
کے ساتھ مُمانعت کی گئی ہے ، چنانچہ مندرجہ ذیل روایات میں اس کی مُمانعت کو ملاحظہ
کیا جاسکتا ہے:
حضرت عبد اللہ بن
عباس نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : ”لَاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ
بِامْرَأَةٍ، وَلاَ تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ إِلَّا وَمَعَهَا مَحْرَمٌ“کوئی شخص
ہرگز کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت بغیر محرم کے سفر
کرے۔یہ سن کر ایک شخص کھڑے ہوئےاور کہنے لگے : یارسول اللہ! میرا نام فلاں غزوہ میں
لکھ دیا گیا ہے جبکہ میری اہلیہ حج کے اِرادے سے نکل رہی ہیں تو میں کیا کروں؟آپﷺنے
اِرشاد فرمایا:”اذْهَبْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ“جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج
کرو۔(بخاری:3006)
ایک اور روایت میں
ہے،حضرت عمر نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ
بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، قَالَهَا ثَلَاثًا
“خبردار!کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ جب خلوت میں ہوتا ہے تو اُن کے ساتھ ضرورتیسرا
شیطان ہوتا ہے۔ یہ بات آپﷺنے تین مرتبہ اِرشاد فرمائی۔(مستدرکِ حاکم:387)
ایک روایت میں
ہے،حضرت ابوامامہ نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”إِيَّاكُمْ وَالْخَلْوَةَ
بِالنِّسَاءِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا خَلَا رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ إِلَّا
دَخَلَ الشَّيْطَانُ بَيْنَهُمَا، وَلَيَزْحَمُ رَجُلٌ خِنْزِيرًا مُتَلَطِّخًا
بِطِينٍ، أَوْ حَمْأَةٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَزْحَمَ مَنْكِبِهِ مَنْكِبَ
امْرَأَةٍ لَا تَحِلُّ لَهُ“ عورتوں کے ساتھ خلوت اختیار کرنے سے بچو، قسم اُس ذات
کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی شخص جب کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو
شیطان ضرور اُن کے درمیان داخل ہوجاتا ہے،اور کسی شخص کا مٹی یا کیچڑ کے ساتھ خلط
ملط ہونے والے خنزیر سے چپک جانا اُس کیلئے اس سے بہتر ہے کہ اُس کے کندھے کسی ایسی
عورت(یعنی نامحرم) کے ساتھ لگیں جو اس کیلئے حلال نہ ہو ۔(طبرانی کبیر:7830)
حضرت سیدناعقبہ بن
عامر نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى
النِّسَاءِ“عورتوں کے پاس داخل ہونے سے بچو،کسی انصاری صحابی نے عرض کیا:”يَا
رَسُولَ اللهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟“یارسول اللہ! دیور کے بارے میں آپ کیا
فرماتے ہیں؟آپﷺنے اِرشاد فرمایا: ”الْحَمْوُ الْمَوْتُ“دیور تو موت ہے
۔(مسلم:2172)
حضرت جابر نبی کریمﷺکا
یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”أَلَا لَا يَبِيتَنَّ رَجُلٌ عِنْدَ امْرَأَةٍ إِلَّا
أَنْ يَكُونَ نَاكِحًا، أَوْ ذَا مَحْرَمٍ“خبرادر! کوئی شخص ہرگز کسی عورت کے پاس
رات نہ گزارے ،مگر یہ کہ وہ اُس عورت کا شوہر یا محرم ہو ۔(سنن کبریٰ بیہقی:9171)
ایک اور روایت میں
ہے،نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا:”لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ أَنْ
يَخْلُو بِامْرَأَةٍ لَيْسَتْ ذَاتَ مَحْرَمٍ، إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ“اللہ
پر ایمان رکھنے والے کسی مؤمن کیلئے جائز نہیں کہ وہ کسی غیر محرم عورت کے ساتھ
خلوت اختیار کرے مگر اِسی طرح کہ اُس عورت کے ساتھ اُس کا محرم ہو۔(مصنّف عبد
الرزاق:12544
حضرت عبد اللہ بن
عمرو بن العاص فرماتے ہیں:”مَثَلُ الَّذِي يَأْتِي الْمُغِيبَةَ لِيجْلِسَ عَلَى
فِرَاشِهَا، وَيَتَحَدَّثَ عِنْدَهَا، كَمَثَلِ الَّذِي يَنْهَشُهُ أَسْودُ مِنَ
الْأَسَاوِدِ“جو کسی ایسی عورت کے پاس اُس کے بستر پر بیٹھنے کیلئے آئے جس کا شوہر
گھر پر نہ ہو،اس کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جس کو کالے اور سیاہ سانپوں میں سے کوئی
سانپ ڈس لے۔(مصنّف عبد الرزاق:12547)
اور پھر زنا کرنا:
ایک اِنسان کیلئے اس
سے بڑی کیا خامی ہوگی کہ وہ انتہائی درجہ کے اُس گندے فعل کا اِرتکاب کربیٹھے جس کی
حُرمت اور قباحت و شناعت میں کچھ کہنے کی بھی ضرورت بھی نہیں ،ہر شخص اس کی
مضرّتوں اور نقصانات کو اور اس کی وجہ سے اللہ کے نازل ہونے والے قہر و غضب کو بہت
حد تک جانتا اور سمجھتا ہے،دنیا کا کوئی مذہب اس کے جواز اور اِس کی اِباحت کا
قائل نہیں ،ہاں !جدید دَور کے جدّت پسند اور مغرب کےمادر پدر آزاد مُعاشرے سے
مرعوب اور متاثر لوگ ضرور یہ کہتے ہوئےنظر آتے ہیں کہ ایک مَرد اور عورت جب باہمی
رضامندی کے ساتھ جنسی عمل پر راضی ہوں تو اُن کو اپنے طبعی تقاضوں کے پورا کرنے میں
پابند نہیں کرنا چاہیئے ۔لیکن اُن کی یہ بات اِس قدر گری پڑی ہےکہ جس کے ردّ کیلئے
دین و مذہب اور شرعی نصوص کی بھی ضرورت نہیں ،خود انسانی عقل اور فطرتِ انسانی ہی
اِس کا اِنکار کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اُس مادر پدر آزاد مُعاشرے سے خود اُس
مُعاشرے کے افراد بھی نالاں اور پریشان ہوچکےہیں۔
ذیل میں اس گھناؤنے
فعل کی مذمّت پر مشتمل قرآن و حدیث کی سخت اور شدید وعیدیں ملاحظہ فرمائیں: زنا کی
سخت اور شدید وعیدیں:
قرآن و حدیث میں بڑی
تفصیل اور وضاحت کے ساتھ زنا کی حرمت و قباحت اور اس کی سخت اور شدید وعیدیں اور
سزائیں ذکرکی گئی ہیں ، جن کا یہاں اِحاطہ تو نہیں کیا جاسکتا البتہ چند وعیدیں
ملاحظہ فرمائیں:
زنا کی سخت سزا کوڑے
اور سنگساری:
زنا کی سخت ترین سزا یہ
ہے کہ زانی مُحصن(شادی شدہ)کو سنگسار کردیا جاتا ہے جبکہ غیر مُحصن(غیر شادی شدہ
)کو سو کوڑے لگائے جاتے ہیں۔چنانچہ سورۃ النّور میں کوڑوں کی سزا بیان کی گئی
ہے:﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ
جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ
تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مَرد دونوں کو سو سو
کوڑے لگاؤ،اور اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے
معاملے میں اُن پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پر غالب نہ آئے، اور یہ بھی چاہیئے
کہ مؤمنوں کا ایک مجمع اُن کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔(النّور:2۔آسان ترجمہ
قرآن)
زانی مُحصن کے سنگسار
کرنے کا حکم پہلے خود قرآن کریم کی آیت میں موجود تھا جس کی تلاوت تو منسوخ ہوچکی
ہے لیکن اُس کا حکم قیامت تک کیلئے باقی ہے،چنانچہ احادیث میں اس کی صراحت کی گئی
ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”لَاَ يَحِلُّ
دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ
اللَّهِ،إِلَّا بِإِحْدَى ثَلاَثٍ:النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي
وَالمَارِقُ مِنَ الدِّينِ التَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ“اللہ کی وَحدانیت اور میری
رِسالت کی گواہی دینے والےکسی مسلمان کا خون(یعنی اُسےقتل کرنا)حلال نہیں مگر تین
باتوں میں سے کسی ایک وجہ سے : ایک یہ کہ(قصاص میں) جان کے بدلے میں جان ماری
جائے،دوسرا یہ کہ شادی شدہ زنا کرنے والا(جس کو رجم کردیا جاتا ہے) ،تیسرا وہ شخص
جو دین سے نکل جانے والا ،(مسلمانوں کی )جماعت سے نکل جانے والا(یعنی مُرتد،کیونکہ
اُس کو بھی قتل کردیا جاتا ہے)۔(بخاری:6878)
زنا ایک کھلی بےحیائی
اور بےراہ رَوی ہے:
قرآن کریم میں اللہ
تعالیٰ نے زنا کو ایک کھلی بےحیائی اور گھناؤنا عمل قرار دیا ہے:﴿إِنَّهُ كَانَ
فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾وہ(یعنی زنا)یقینی طور پر بڑی بےحیائی اور بےراہ رَوی
ہے۔(الاسراء:32۔آسان ترجمہ قرآن)
سورۃ النّساء میں
اِرشاد فرمایا:﴿إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا﴾یہ بڑی بےحیائی
ہے،گھناؤنا عمل ہے،اور بےراہ رَوی کی بات ہے۔(النّساء:22۔آسان ترجمہ قرآن)
قباحت کے تین درجہ ہیں
: (1)عقلی۔جو عقل و قیاس کی رُو سے قبیح و شنیع ہو ۔(2)شرعی۔جس کا قبیح و شنیع
ہونا شریعت سے ثابت ہو (3)عادی۔جس کو عُرف و عادت کے مطابق قبیح و شنیع سمجھا جاتا
ہو۔پس آیتِ مذکورہ بالا میں ”فَاحِشَةً“ سے قباحتِ عقلیہ کو ،”مَقْتًا“ سے قباحتِ
شرعیہ کو اور ”سَاءَ سَبِيلًا“ سے قباحتِ عادیہ کوبیان کیا گیا ہے۔گویا زنا ایک ایسی
گندی اور قبیح چیز ہے جس کو عقلی ،شرعی اور عُرفی کسی بھی طرح درست اور صحیح نہیں
کہاجاسکتا، اور جو چیز عقلاً،شرعاً اور عادۃً تینوں طرح ہی قبیح اور شنیع ہو وہ
انتہائی درجہ کی قبیح چیز کہلاتی ہے۔(الزواجرعن اقتراف الکبائر:2/212 ،213)
زنا کے قریب جانا بھی
ممنوع ہے:
جب کوئی چیز بہت زیادہ
خطرناک اور خوفناک ہوتی ہے اُس کی مضرّتیں اور ہلاکتیں شدید ہوتی ہیں تو سمجھداری
اِسی میں ہوتی ہےکہ اُس کے قریب جانے سے بھی گریز کیا جائے ،چنانچہ یہی وجہ ہے کہ
بھڑکتی ہوئی آگ کے قریب سے بھی نہیں گزرا جاتا کیونکہ نہ معلوم کب اور کون سی چنگاری
اُڑ کر جھلسادے، اِسی طرح زنا بھی ایسی مہلک اور خطرناک چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
اِس کے قریب جانے اور اس کے اسباب و دَواعی سے بھی بچنے کی تلقین فرمائی ہے،چنانچہ
سورۃ الاسراء میں فرمایا:﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا﴾اور زنا کے پاس بھی نہ
پھٹکو۔(الاسراء:32۔آسان ترجمہ قرآن)
ایک اور جگہ فرمایا:﴿وَلَا
تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ﴾اور بےحیائی کے کاموں کے
پاس بھی نہ پھٹکو،چاہے وہ بےحیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی ۔(الأنعام:151۔آسان
ترجمہ قرآن)
اِس آیت میں صرف زنا
ہی سے منع نہیں کیا گیا بلکہ اُس کے دواعی اور اسباب خواہ قریبہ ہوں یا بعیدہ ،اُن
سب سے منع کردیا گیا ہے۔(روح المعانی:8/66)
چنانچہ مذکورہ آیت کی رو سے نامحرم کو دیکھنا ،باتیں کرنا یا سننا،یا اس کی
جانب چل کر جانا، ملاقات کرنا ،چھونا بوس و کنار کرنا ،یہ سب حرام و ناجائز ہیں ،کیونکہ
یہ سب زنا کے دواعی اور اسباب ہیں اور ان سب ہی سے بچنا ضروری ہے،احادیث ِ مبارکہ
میں اِن سب کو زنا ہی قرار دیا گیا ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ نبی کریمﷺکا یہ
اِرشادنقل فرماتے ہیں:”كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا،
مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ، فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ،
وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ،
وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ،وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا، وَالْقَلْبُ يَهْوَى
وَيَتَمَنَّى،وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ“ ابن آدم پر اس کے زنا
سے حصہ لکھ دیا گیا ہے وہ لا محالہ (یقینی طور پر )اسے ملے گا پس آنکھوں کا زنا
(نامحرم کو)دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا (نامحرم کی باتوں کو)سننا ہے اور زبان کا
زنا (نامحرم سے)گفتگو کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا (نامحرم کو)پکڑنا ہے اور پاؤں کا
زنا (نامحرم کی طرف)چل کر جاناہے اور دل کا گناہ خواہش اور تمنا کرنا ہے اور
شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔(مسلم:2657)
شرک کے بعد کوئی گناہ
زنا سے بڑھ کر نہیں :
حضرت ہیثم بن مالک
طائی رضی اللہ عنہنبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”مَا مِنْ ذَنْبٍ بَعْدَ الشِّرْكِ
بِاللَّهِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ نُطْفَةٍ وَضَعَهَا رَجُلٌ فِي رَحِمٍ لَا
تَحِلُّ لَهُ“اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانے کے بعد کوئی گناہ اِس سے بڑا
نہیں کہ کوئی شخص اپنے نطفہ کو اُس رحم میں رکھے جو اُس کیلئے حلال نہیں ۔(الورع
لابن ابی الدّنیا:137۔تفسیر ابن کثیر:5/72)(الزّواجر:2/225)
دنیا و آخرت میں زنا
کے چھ بڑے نقصانات:
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہسے
مَروی ہے کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا:”يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، إِيَّاكُمْ
وَالزِّنَا، فَإِنَّ فِيهِ سِتَّ خِصَالٍ، ثَلَاثٌ فِي الدُّنْيَا، وَثَلَاثٌ فِي
الْآخِرَةِ، فَأَمَّا الَّتِي فِي الدُّنْيَا: فَذَهَابُ الْبَهَاءِ، وَدَوَامُ
الْفَقْرِ، وَقِصَرُ الْعُمُرِ، وَأَمَّا الَّتِي فِي الْآخِرَةِ: سَخَطُ اللهِ،
وَسُوءُ الْحِسَابِ، وَالْخُلُودُ فِي النَّارِ“اے مسلمانو!زنا سے بچو، اِس لئے کہ
اس میں چھ خصلتیں (نقصانات)ہیں،تین دنیا میں اور تین آخرت میں۔دنیا کے تین نقصانات
یہ ہیں:(1)زنا کرنے والے کے چہرے کی رونق کا ختم ہوجانا۔(2)مسلسل
غربت۔(3)عُمر کا کم ہوجانا۔آخرت میں پیش آنے والی تین چیزیں یہ ہیں: (1)اللہ کی
ناراضگی۔(2)بُرا حساب و کتاب۔(3)دوزخ کی آگ میں ہمیشہ رہنا (یعنی طویل زمانہ تک
جلنا)۔(شعب الایمان:5091)
زنا سے چہرے بےرونق
اور بے نور ہوجاتے ہیں:
نبی کریمﷺکا اِرشاد
ہے:”لَتَغُضُّنَّ أَبْصَارَكُمْ،وَلَتَحْفَظُنَّ فُرُوجَكُمْ، وَلَتُقِيمُنَّ
وُجُوهَكُمْ أَوْ لَتُكْسَفَنَّ وُجُوهُكُمْ“ تم لوگ ضرور بالضرور اپنی نگاہوں کی
حفاظت کرو،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اوراپنے چہروں کو سیدھا رکھوورنہ تمہارے
چہروں کو بے نور کردیا جائے گا۔(طبرانی کبیر:7840)
زنا سے فقر و فاقہ
اور مسکنت پیدا ہوتی ہے:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی
کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”اَلسُّلْطَانُ ظِلُّ اللَّهِ فِي الأَرْضِ
يَأْوِي إِلَيْهِ كُلُّ مَظْلُومٍ مِنْ عِبَادِهِ فَإِنْ عَدَلَ كَانَ لَهُ
الأَجْرُ، وَكان يَعْنِي عَلَى الرَّعِيَّةِ الشُّكْرُ، وَإن جَارَ، أَوْ حَافَ،
أَوْ ظَلَمَ كَانَ عَلَيْهِ الْوِزْرُ وَعَلَى الرَّعِيَّةِ الصَّبْرُ“حاکم زمین میں
اللہ کا سایہ ہوتا ہے،اُس کے پاس اللہ کے بندوں میں سے ہر مظلوم آکر پناہ حاصل
کرتا ہے، پس اگر وہ عدل و اِنصاف سے کام لے تواُس کو اَجر ملتا ہےاور رعایا کے
اوپر لازم ہوتا ہے کہ وہ اُس کے شکر گزار اور قدر دان بنیں، اور اگر وہ ظلم اور
نااِنصافی سے کام لے تو اُس پر اس کا وَبال ہوتا ہے اور رعایا کے ذمّے صبر کرنا
ہوتا ہے۔ اُس کے بعد آپﷺنے اِرشاد فرمایا:”وَإِذَا جَارَتِ الْوُلاةُ قَحَطَتِ
السَّمَاءُ،وَإِذَا مُنِعَتِ الزَّكَاةُ هَلَكَتِ الْمَوَاشِي،وَإِذَا ظَهَرَ
الزِّنَا ظَهَرَ الْفَقْرُ وَالْمَسْكَنَةُ وَإِذَا خَفَرَتِ الذِّمَّةُ أُدِيلَ
لِلْكُفَّارِ“جب حکمران ظلم کریں تو آسمان سوکھ جاتا ہے(بارشیں نہیں ہوتیں)،جب زکوۃ
روک لی جائےتو مویشی ہلاک ہوجاتے ہیں ،جب زنا کاری پھیل جائےتو فقر اور مَسکنت عام
ہوجاتی ہے، اور جب ذمّہ (عہد)توڑے جانے لگیں تو کافروں کو غلبہ دیدیا جاتا
ہے۔(مسند البزار:5383)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی
کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں :”الزِّنَا يُورِثُ الْفَقْرَ“ زنا فقر کے پیدا
ہونے کا سبب ہے۔(شعب الایمان:5034)
زنا کا عام ہوجانا
قربِ قیامت کی نشانی ہے :
بہت سی احادیث سے
معلوم ہوتا ہے کہ قربِ قیامت کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ لوگوں میں زنا اور بدکاری
عام ہوجائیں گے، چنانچہ ایک روایت میں ہے،نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:”بَيْنَ يَدَيِ
السَّاعَةِ يَظْهَرُ الرِّبَا، وَالزِّنَا، وَالْخَمْرُ“قیامت کے قریب سود، زنا
اور شراب ظاہر(یعنی لوگوں میں عام)ہوجائیں گے۔(طبرانی اوسط:7695)(الترغیب :2860)
ایک اور روایت میں
ہے،حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ،
أَنْ يُرْفَعَ العِلْمُ، وَيَظْهَرَ الجَهْلُ، وَيُشْرَبَ الخَمْرُ، وَيَظْهَرَ
الزِّنَا، وَيَقِلَّ الرِّجَالُ، وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ حَتَّى يَكُونَ
لِلْخَمْسِينَ امْرَأَةً القَيِّمُ الوَاحِدُ“قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ
علم اُٹھالیا جائے گا،جہالت پھیل جائے گی،شراب پی جائے گی،زنا عام ہوجائے
گا،مَردوں کی قلّت اور عورتوں کی کثرت ہوجائے گی، یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا ایک ہی
نگہبان ہوگا۔(بخاری:6808) حضرت عبد اللہ بن عمرونبی کریمﷺکایہ
ارشادنقل فرماتے ہیں:”لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَتَسَافَدُوا فِي الطَّرِيقِ
تَسَافُدَ الْحَمِيْرِ، قُلْتُ: إِنَّ ذَاكَ لَكَائِنٌ؟ قَالَ:نَعَمْ
لَيَكُونَنَّ“قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک ایسا وقت آئے گا کہ لوگ گدھوں کی طرح
راستوں میں ایک دوسرے سے بدکاری کریں گے، حضرت عبد اللہ بن عمرونے سوال کیا کہ یا
رسول اللہ !یہ ضرور ہوگا ؟ آپﷺنے جوب دیا : جی ضرور بضرور ہوگا ۔(صحیح ابن حبان
:6767)
ایک روایت میں آپﷺنےقربِ
قیامت کے احوال کوذکر کرتے ہوئےاِرشاد فرمایا:حَتَّى تَمُرَّ الْمَرْأَةُ
فَيَقُومُ إِلَيْهَا، فَيَرْفَعُ ذَيْلَهَا فَيَنْكِحُهَا وَهُمْ يَنْظُرُونَ،
كَمَا يَرْفَعُ ذَيْلَ النَّعْجَةِ، وَرَفَعَ ثَوْبًا عَلَيْهِ مِنْ هَذِهِ
السُّحُولِيَّةِ فَيَقُولُ الْقَائِلُ مِنْهُمْ: لَوْ تَجَنَّبْتُمُوهَا عَنِ
الطَّرِيقِ، فَذَلِكَ فِيهِمْ كَأَبِي بكر وعمر رَضِيَ الله عَنْهما، فَمَنْ
أَدْرَكَ ذَلِكَ الزَّمَانَ وَأَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ
فَلَهُ أَجْرُ خَمْسِينَ مِمَّنْ صَحِبَنِي وَآمَنَ بِي وَصَدَقَنِيلوگوں کی حالت
اِس قدر بد تر ہوجائے گی کہ راستہ چلتی ہوئی کوئی عورت کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے گی
تو اُن لوگوں میں سے کوئی شخص اُٹھ کر(بدکاری کے لئے ) عورت کا دامن اِس طرح
اُٹھائے گا جیسا کہ کسی دنبی کی دُم اُٹھاتے ہیں ،پس اُس وقت کوئی کہنے والا کہے
گا کہ عورت کو لے کر دیوار کی اوٹ میں چلے جاؤ، وہ کہنے والا اُس دن اُن لوگوں میں
اجر و ثواب کے اعتبار سے ایسا ہوگا جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تمہارے درمیان مرتبہ رکھتے ہیں ، پس اُس دن جس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
کیا تو اُس کے لئے ایسے پچاس لوگوں کا اجر و ثواب کا ہوگا جنہوں نے مجھے دیکھا ،
مجھ پر ایمان لائے ، میری اطاعت کی اور میری اتباع کی ، یعنی حضرات صحابہ کرام ۔(المطالب
العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ لابن الحجر :4471)
زناکا
عام ہوجانا اللہ کے عذاب کے نازل ہونے کا سبب ہے:
نبی کریمﷺکاارشادہے:”مَا
ظَهَرَ فِي قَوْمٍ الزِّنَى وَالرِّبَا إِلَّا أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عِقَابَ
اللَّهِ“جس قوم میں زنا اور سود عام ہوجائے(اور لوگ اُس میں کثرت سے مبتلاء ہوجائیں)تو
وہ لوگ اپنے اوپر خود اللہ تعالیٰ کے عذاب کو اتارلیتے ہیں۔(مسند ابی یعلی موصلی:7091)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا فرماتی
ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا:”لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا
لَمْ يَفْشُ فِيهِمْ وَلَدُ الزِّنَا، فَإِذَا فَشَا فِيهِمْ وَلَدُ الزِّنَا،
فَيُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِعِقَابٍ“ میری امّت ہمیشہ خیر و
بھلائی پر رہے گی جب تک کہ اُن میں(زنا کی کثرت کی وجہ سے)زنا سے پیدا ہونے والے
بچوں کی کثرت نہ ہوجائے، پس جب ولد الزنا پھیل جائیں گے تو اللہ تعالیٰ عنقریب اُن
کو عمومی عذاب میں مبتلاءکردیں گے۔(مسند احمد:26830)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک اور روایت میں ہے:”لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ
مُتَمَاسِكٌ أَمْرُهَا مَا لَمْ يَظْهَرْ فِيهِمْ أَوْلَادُ الزِّنَى، فَإِذَا
ظَهَرُوا خِفْتُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ“میری امّت ہمیشہ خیر و بھلائی
پر رہے گی،اوراُن کا معاملہ جما رہے گا،جب تک کہ اُن میں(زنا کی کثرت کی وجہ
سے)زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہوجائیں، پس جب ولد الزنا پھیل جائیں تو مجھے
خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں عمومی عذاب میں مبتلاء کردے گا۔(مسند ابی یعلی موصلی:7091)
زنا کا عادی شخص بُت
پرست کی طرح ہے:
حضرت سیدناانس بن
مالک نبی کریمﷺکایہ ارشادنقل فرماتے ہیں:”الْمُقِيمُ عَلَى الزِّنَا كَعَابِدِ
وَثَنٍ“ہےکہ زنا پر قائم رہنے والا شخص بت پرستی کرنے والے کی طرح ہے۔(اعتلال
القلوب للخرائطی:164)
زنا ایمان کے مُنافی
ہے :
حضرت عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”لاَ يَزْنِي العَبْدُ حِينَ يَزْنِي
وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَشْرَبُ
حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ“کوئی بندہ جس وقت
وہ زنا کررہا ہوتا ہے،مؤمن نہیں ہوتا، کوئی شخص جس وقت وہ چوری کرہا ہوتا ہے،وہ مؤمن
نہیں ہوتا،کوئی شخص جس وقت وہ شراب پی رہا ہوتا ہے،وہ مؤمن نہیں ہوتا،کوئی شخص جس
وقت وہ قتل کررہا ہوتا ہے،وہ مؤمن نہیں ہوتا۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں :میں نے حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا:”كَيْفَ يُنْزَعُ الْإِيْمَانُ مِنْهُ؟“ایمان اُس بندے سے
کیسے کھینچ لیا جاتا ہے؟ حضرت عبد اللہ بن عباسنےاپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں
کوایک دوسرے میں داخل کرکے پھر اُنہیں الگ کیا اور فرمایا:اِس طرح(ایمان اُس سے
الگ ہوجاتا ہے)پھراگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو ایمان دوبارہ اُس میں لوٹ آتا ہے،یہ
کہہ کراُنہوں نے دوبارہ انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کردیا۔(بخاری:6809)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکا
یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”إِذَا زَنَى الرَّجُلُ خَرَجَ مِنْهُ الْإِيْمَانُ
كَانَ عَلَيْهِ كَالظُّلَّةِ، فَإِذَا انْقَطَعَ رَجَعَ إِلَيْهِ الْإِيْمَانُ“جب
انسان زنا کرتا ہے تواُس سے ایمان نکل جاتا ہے اور اُس کے سر پر
سائبان کی طرح معلّق رہتا ہے ، جب وہ زنا ختم ہوجاتا ہےتو وہ ایمان واپس اُس کی
جانب لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد:4690)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکایہ
اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”مَنْ زَنَى وَشَرِبَ الْخَمْرَ نَزَعَ اللَّهُ مِنْهُ
الْإِيْمَانَ كَمَا يَخْلَعُ الْإِنْسَانُ الْقَمِيْصَ مِنْ رَأْسِهِ“ جس نے زنا کیا
اور شراب پی اللہ تعالیٰ اُس سے ایمان کوایسے ہی سلب کرلیتے ہیں جیسےکوئی انسان قمیص
اپنے سر سے اتار لیتا ہے۔(مستدرکِ حاکم:57)
حضرت ابوہریرہنبی کریمﷺکایہ
اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”إِنَّ الْإِيْمَانَ سِرْبَالٌ يُسَرْبِلُهُ اللهُ مَنْ
يَّشَاءُ، فَإِذَا زَنَى الْعَبْدُ نُزِعَ مِنْهُ سِرْبَالُ الْإِيْمَانُ، فَإِنْ
تَابَ رُدَّ عَلَيْهِ“بے شک ایمان ایک کُرتے کی مانند ہے ، اللہ تعالیٰ جسے چاہتے
ہیں پہنادیتے ہیں ، پس جب بندہ زنا کرتا ہےتو اُس سے ایمان کا کُرتا کھینچ لیا
جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہےتو اُس کو لوٹا دیا جاتا ہے۔(شعب الایمان:4981)
حضرت عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مَروی ہے:”تَزَوَّجُوا فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا زَنَى نُزِعَ
مِنْهُ نُورُ الْإِيْمَانِ، فَرَدَّ اللهُ عَلَيْهِ بَعْدُ أَوْ أَمْسَكَهُ“شادی
کرو اِس لئے کہ بندہ جب زنا کرتا ہےتو اُس سے ایمان کا نور چھن جاتا ہےپھر اس کے
بعد اللہ تعالیٰ اُسے (توبہ کرنے کی صورت میں)لوٹادیتے ہیں یا روک لیتے ہیں (ایمان
کا نور دوبارہ نہیں دیتے)۔(شعب الایمان:4983)
ایک جگہ زنا ،چوری
اور شراب نوشی کی مذمّت بیان کرتے ہوئے نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا:”فَإِذَا فَعَلَ
ذَلِكَ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ
عَلَيْهِ“جس نے یہ کام کیےاُس نے اِسلام کا کڑا اپنی گردن سے اُتاردیا،
پھر اگر وہ توبہ کرلے تواللہ تعالیٰ اُس کے گناہوں کو معاف کردیں گے۔(سنن النسائی:4872)
زنا کی وجہ سے دُعاؤں
کی قبولیت سے محرومی:
ایک روایت میں
ہے،حضرت عثمان ابن ابی عاص ثقفینبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: ”تُفْتَحُ
أَبْوَابُ السَّمَاءِ نِصْفَ اللَّيْلِ فَيُنَادِي مُنَادٍ: هَلْ مِنْ دَاعٍ
فَيُسْتَجَابَ لَهُ؟ هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَيُعْطَى؟ هَلْ مِنْ مَكْرُوبٍ
فَيُفَرَّجَ عَنْهُ؟ فَلَا يَبْقَى مُسْلِمٌ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ إِلَّا اسْتَجَابَ
اللهُ لَهُ إِلَّا زَانِيَةٌ تَسْعَى بِفَرْجِهَا أَوْ عَشَّارٌ“ آسمان کے دروازے
نصفِ شب میں کھول دیے جاتے ہیں اور ایک پکارنے والا ندا لگاتا ہے:”کوئی مانگنے
والاہے کہ اُس کی دعاء قبول کی جائے، کوئی سوال کرنے والا ہے کہ اُس کو عطاء کیا
جائے، کوئی مصیبت میں مبتلاء ہے کہ اُس کی تکلیف کودور کیا جائے “، پس کوئی مسلمان
بھی اُس وقت دعاء کرے تو اُس کی دعاء ضرور قبول کی جاتی ہے سوائے زنا کے لئے کوشاں
رہنے والی زانیہ عورت اور(ظلماً) ٹیکس وصول کرنے والا۔(طبرانی کبیر:8391)
زنا کرنے والوں کی
سخت ترین سزائیں:
بخاری شریف کی ایک طویل
حدیث میں ہےکہ ایک دفعہ نبی کریمﷺنےحضرات صحابہ کرام کےسامنے جہنمیوں کے مختلف
مناظر دیکھنےکا تذکرہ کیا ،اُن میں سے منظر ایک یہ بھی تھا:”فَانْطَلَقْنَا إِلَى
ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّورِ، أَعْلاَهُ ضَيِّقٌ وَأَسْفَلُهُ وَاسِعٌ يَتَوَقَّدُ
تَحْتَهُ نَارًا، فَإِذَا اقْتَرَبَ اِرْتَفَعُوا حَتَّى كَادَ أَنْ يَّخْرُجُوا،
فَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوا فِيهَا، وَفِيهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ“پھر ہم ایک
ایسے سوراخ تک پہنچے جو تنور کی طرح تھا،جس کا اوپر کا حصہ
تنگ اور نچلا حصہ کشادہ تھا، اُس کے نیچے آگ سلگ رہی تھی،جب آگ کی لپٹ قریب ہوتی (یعنی
بھڑکتی) تو وہ لوگ (جو اس سوراخ کے اندر تھے وہ سوراخ کے) اوپر آجاتے یہاں تک کہ
نکلنے قریب ہوجاتےاور جب آگ بجھ جاتی تو دوبارہ پھر اس میں لوٹ جاتے اور اس میں
ننگے مَرد اور عورتیں تھیں۔ بخاری شریف ہی کی ایک اورروایت میں ہے”فَإِذَا فِيهِ
لَغَطٌ وَأَصْوَاتٌ،قَالَ:فَاطَّلَعْنَا فِيهِ، فَإِذَا فِيهِ رِجَالٌ وَنِسَاءٌ
عُرَاةٌ، وَإِذَا هُمْ يَأْتِيهِمْ لَهَبٌ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ، فَإِذَا
أَتَاهُمْ ذَلِكَ اللَّهَبُ ضَوْضَوْا“اُس سوراخ میں چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں۔نبی
کریم ﷺنے فرمایا:ہم نے اُس میں جھانک کر دیکھا تو اُس میں ننگے مَرد اورننگی عورتیں
تھیں،اُن کے پاس اُن کے نیچے سے آگ کی لپٹیں آرہی تھیں،جب اُن کے پاس آگ شعلہ
مارتے ہوئے آتی تو وہ چیخنے لگ جاتے (یہ سب دیکھ کر)نبی کریم ﷺنے حضرت جبریل امین رضی اللہ عنہ سے
اُن کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟تو اُنہوں نے بتایا:”وَالَّذِي
رَأَيْتَهُ فِي الثَّقْبِ فَهُمُ الزُّنَاةُ“جو آپ نے سوراخ میں (جلتے ہوئے مرد و
عورت )دیکھے ہیں وہ زنا کرنے والے مرد اور عورتیں ہیں۔(بخاری:1386،7047)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی
کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:جس رات مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میرا گزر
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے بکثرت ایسی عورتوں پر ہو ا جو اپنے پستانوں سے لٹکی
ہوئی تھیں اور اُن میں سے بعض (تو ایسی تھیں جو)اوندھے مُنہ اپنے پاؤں سے لٹکی ہوئی
تھیں، اورا ُن کی سخت چیخ و پکار نکل رہی تھی، میں نے کہا : اے جبریل ! یہ کون لوگ
ہیں؟حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا:”هَؤُلَاءِ اللَّاتِي يَزْنِينَ، وَيَقْتُلْنَ
أَوْلَادَهُنَّ وَيَجْعَلْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ وَرَثَةً مِنْ غَيْرِهِمْ“یہ وہ
عورتیں ہیں جو زنا کرتی
تھیں،اپنی اولاد کو قتل کرتی تھیں اور
اپنے شوہروں کیلئےدوسرے لوگوں سے( زنا کے ذریعہ) وارث بنایا کرتی تھیں۔(مساوئ
الاخلاق للخرائطی:459)
جہنم میں زنا کرنے
والوں کی سخت بدبو ہوگی :
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے موقوفاً
اورمرفوعاً دونوں طرح مَروی ہے:”إِنَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ وَالأَرَضِيْنَ
السَّبْعَ وَالْجِبَالَ لَيَلْعَنَّ الشَّيْخَ الزَّانِيَ، وَإنَّ فُرُوْجَ
الزُّنَاةِ لَتُؤْذِيْ أَهْلَ النَّارِ بِنَتَنِ رِيْحِهَا“بیشک ساتوں آسمان و زمین
اور پہاڑ سب بوڑھے زنا کرنے والے پر لعنت کرتے ہیں، اوربیشک زنا کرنے والوں کی
شرمگاہیں اپنی (انتہائی غلیظ و کریہہ)بدبوسےسارے جہنمیوں کو تکلیف پہنچائیں گی۔(مسند
البزار:10/310)
نبی کریمﷺ کا یہ
ارشاد نقل کیا گیا ہے:”لَمَّا عُرِجَ بِيْ مَرَرْتُ بِرِجَالٍ تُقَطَّعُ
جُلُودُهُمْ بِمَقَارِيْضَ مِنْ نَارٍ، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ:
الَّذِينَ يَتَزَيَّنُونَ لِلزِّينَةِ.قَالَ: ثُمَّ مَرَرْتُ بِجُبٍّ مُنْتِنِ
الرِّيحِ، فَسَمِعْتُ فِيهِ أَصْوَاتًا شَدِيدَةً، فَقُلْتُ:مَنْ هَؤُلَاءِ يَا
جِبْرِيلُ؟ فَقَالَ:نِسَاءٌ كُنَّ يَتَزَيَّنَّ لِلزِّينَةِ، وَيَفْعَلْنَ مَا لَا
يَحِلُّ لَهُنَّ“ معراج کی شب جب مجھے لے جایا گیا تو میں کچھ ایسے مَردوں کے پاس
سے گزرا جن کی کھالیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں، میں نے کہا کہ یہ کون لوگ
ہیں؟ جواب دیا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو زینت اختیار کرنے لئے مزیّن ہواکرتے تھے، پھر
آپﷺفرماتے ہیں کہ میرا گزر ایک بہت ہی بدبو دار کنوئیں پر ہوا، میں نے اُس میں بہت
ہی سخت قسم کی (چیخنے چلّانےکی)آوازیں سنی ، پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا:یہ وہ عورتیں ہیں جو زینت اختیار کرنے کی غرض سے خوب مزیّن ہوا کرتی تھیں
اور حرام کاری میں مبتلاء ہوتی تھیں ۔(شعب الایمان:6326) حضرت
ابوامامہ باہلینبی کریمﷺکاایک خواب بیان کرتے ہیں جس میں آپﷺنے جہنمیوں کے کئی
مَناظر کا مُشاہدہ کیا تھا، اُس میں سے ایک یہ تھا:”ثُمَّ انْطَلَقَ بِيْ فَإِذَا
بِقَوْمٍ أَشَدِّ شَيْءٍ انْتِفَاخًا وَأَنْتَنِهِ رِيْحًا وَأَسْوَئِهِ
مَنْظَرًا، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قِيلَ:الزَّانُونَ وَالزَّوَانِي“پھر فرشتے
مجھے لیکر ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جو بہت پھولے ہوئے ،بہت گندی بدبو والے اور
بہت بُرے منظر والے تھے، میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟کہا گیا: یہ لوگ زنا کرنے
والے مَرد اور زنا کرنے والی عورتیں ہیں۔(صحیح ابن حبان:7491)
ابن خزیمہ کی روایت میں
”وَأَنْتَنِهِ رِيْحًا كَأَنَّ رِيْحَهُمُ الْمَرَاحِيْضُ“ کے الفاظ مذکور ہیں جس
کا معنی یہ ہے کہ وہ زانی مِرد اور عورت اِس قدر بدبودار ہوں گے کہ گویا اُن کی
بدبو اس جگہ کی طرح ہوگی جہاں پاخانہ کیا جاتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ:1986)
زنا کی کثرت سے طاعون
پھیل جاتا ہے:
حضرت عبد اللہ بن
مسعودسے موقوفاً مَروی ہے:”إِذَا بُخِسَ الْمِيْزَانُ حُبِسَ الْقَطْرُ، وَإِذَا
كَثُرَ الزِّنَا كَثُرَ الْقَتْلُ وَوَقَعَ الطَّاعُونُ، وَإِذَا كَثُرَ الْكَذِبُ
كَثُرَ الْهَرْجُ“جب ناپ تول میں کمی ہونے لگے توبارش روک دی جاتی ہے،جب زنا کی
کثرت ہوجائےتوقتل(اموات)کی کثرت ہوجاتی ہےاور طاعون واقع ہوجاتا ہےاور جب جھوٹ
کثرت سے بولا جانے لگے تو ”ھرج“یعنی قتل و غارتگری کی کثرت ہوجاتی ہے۔(مستدرکِ
حاکم:3536) ایک روایت میں ہے،نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے:”لَمْ
تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا، إِلَّا فَشَا
فِيهِمُ الطَّاعُونُ“جس قوم میں فحاشی اِس قدر ظاہر ہوجائے کہ لوگ کھلم کھلا یہ
(بےحیائی کے کام)کرنے لگیں تو اُس میں طاعون پھیل جاتا ہے۔(ابن ماجہ :4019)
زنا نِت نئی بیماریوں
کے پیدا ہونے کا باعث ہے:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:”يَا مَعْشَرَ
الْمُهَاجِرِينَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ
تُدْرِكُوهُنَّ“ اے جماعت مہاجرین! پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہو جاؤ (تو بہت
بُرا ہوگا)اور میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تم ان چیزوں میں مبتلا
ہو۔اول:”لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا،
إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ، وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي
أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا“جس قوم میں فحاشی اِس قدر ظاہر ہوجائے کہ لوگ
کھلم کھلا یہ (بےحیائی کے کام)کرنے لگیں تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں
پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلےگزرے ہوئے لوگوں میں نہ تھیں ۔ دوم:”وَلَمْ
يَنْقُصُواالْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ، وَشِدَّةِ
الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ“جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے
تو وہ قحط سالی، شدّتِ مصائب اور حکمرانوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کر دی جاتی
ہے۔سوم:”وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ
السَّمَاءِ،وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا“ جب کوئی قوم اپنے اموال کی
زکوٰۃ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی
بارش نہ برسے ۔ چہارم:”وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ، وَعَهْدَ رَسُولِهِ،
إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ“جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد
کو توڑتی ہے تو اللہ تعالی غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت
رکھتے ہیں پھر وہ انکے اموال چھین لیتے ہیں۔ پنجم:”وَمَا لَمْ تَحْكُمْ
أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ،
إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ“جب مسلمان حکمران کتاب اللہ کے مطابق
فیصلے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالی کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ احکام) اختیار
کر لیتے ہیں (اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالی اس قوم کو خانہ جنگی اور) باہمی
اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔(ابن ماجہ :4019)
زناسے وَبائی اَمراض
پھیل جاتے ہیں:
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مَروی
ہے:”إِذَا رَأَيْتَ الْمَطَرَ قَدْ قَحَطَ فَاعْلَمْ أَنَّ الزَّكَاةَ قَدْ
مُنِعَتْ وَإِذَا رَأَيْتَ السُّيُوفَ قَدْ عَرِيَتْ فَاعْلَمْ أَنَّ حُكْمَ اللهِ
تَعَالَى قَدْ ضُيِّعَ فَانْتَقَمَ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ، وَإِذَا رَأَيْتَ الْوَبَاءَ
قَدْ ظَهَرَ فَاعْلَمْ أَنَّ الزِّنَا قَدْ فَشَا“جب تم دیکھو کہ بارش کا قحط پڑگیا
ہے تو سمجھ لو کہ(لوگوں کی جانب سے) زکوۃ روک لی گئی ہے، اور جب تم دیکھو کہ تلواریں
برہنہ ہوگئیں ہیں(یعنی لوگ ایک دوسرے سے لڑنے کیلئے اسلحہ تاننے لگے ہیں)توسمجھ لو
کہ اللہ کا حکم(عدل و اِنصاف) ضائع کردیا گیا ہے،جس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے
سے(خود ہی)اِنتقام لینے لگے ہیں اور جب تم دیکھو کہ وَبائی اَمراض ظاہر ہوچکے ہیں
تو جان لو کہ زنا کاری پھیل گئی ہے۔(شعب الایمان:3041) زنا
کرنے والوں پراللہ کا غضب:
حضرت سیدنا انس بن
مالکنبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”اِشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَزَّوَجَلَّ
عَلَى الزُّنَاةِ“زنا کرنے والے(مَردوں اور عورتوں)پراللہ تعالیٰ کا شدیدغصہ اور
غضب نازل ہوتا ہے۔(أخرجہ ابوالشیخ الاصبہانی فی العوالی:42۔کنز العمال:13001)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی
کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”اِشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى امْرَأَةٍ
تُدْخِلُ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ لِيَشْرَكَهُمْ فِي أَمْوَالِهِمْ،
وَيَطَّلِعَ عَلَى عَوْرَاتِهِمْ“اللہ تعالیٰ کا سخت غصہ نازل ہوتا ہے اُس عورت پر
جو(زنا کے ذریعہ)کسی قوم میں ایسے شخص کو داخل کردے جو اُن میں سے نہیں ،جس کے نتیجے
میں وہ (ولَد الزّنا)اُس قوم کے مالوں میں(بحیثیتِ وارث) شریک ہوجائے اوراُن کے
مخفی اُمور سے مطلع اور باخبر ہوجائے۔
زناکرنے والوں کے
چہرے پر آگ بھڑکے گی:
حضرت عبد اللہ بن
بُسر رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”إنَّ الزُّنَاةَ تَشْتَعِلُ
وُجُوهُهُمْ نَارًا“بیشک زنا کرنے والے(مَردوں اور عورتوں)کے چہرےآگ سے بھڑکیں گے۔(الترغیب:3609)
زنا کرنے والے پرقیامت
کے دن اژدھا مقرر کیا جائےگا:
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکایہ
اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”مَنْ قَعَدَ عَلَى فِرَاشِ مُغِيبَةٍ قُيِّضَ لَهُ
ثُعْبَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ“جس کسی ایسی عورت کے بستر پر(زنا کیلئے) بیٹھا جس
کا شوہر نہ ہو اُس پرقیامت کے دن ایک اژدھا مقرر کیا جائے گا۔(طبرانی کبیر:3278) زناعام ہوجائے تو اَموات کی کثرت ہوتی ہیں:
حضرت عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : ”خَمْسٌ بِخَمْسٍ، قَالُوا: يَا
رَسُولَ اللهِ وَمَا خَمْسٌ بِخَمْسٍ؟ قَالَ:مَا نَقَضَ قَوْمٌ الْعَهْدَ إِلَّا
سُلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوُّهُمْ، وَمَا حَكَمُوا بِغَيْرِ مَا أَنْزَلَ اللهُ
إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الْفَقْرُ، وَلَا ظَهَرَتْ فِيهِمُ الْفَاحِشَةُ إِلَّا
فَشَا فِيهِمُ الْمَوْتُ، وَلَا طفَّفُوا الْمِكْيَالَ إِلَّا مُنِعُوا النَّبَاتَ
وَأُخِذُوا بِالسِّنِينَ، وَلَا مَنَعُوا الزَّكَاةَ إِلَّا حُبِسَ عَنْهُمُ
الْقَطْرُ“پانچ چیزیں پانچ چیزوں کے بدلہ میں(ملتی)ہیں،لوگوں نے دریافت کیا وہ
پانچ چیزیں کیا ہیں ؟آپﷺنے اِرشاد فرمایا:جو مُعاہدہ کی خلاف ورزی کرتی ہے اُس پر
دشمن غالب آجاتا ہے،جو لوگ اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں اُن میں
فقر و فاقہ پھیل جاتا ہے، جن لوگوں میں بےحیائی پھیل جائے اُن میں اموات کی کثرت
ہوجاتی ہے،جولوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں اُن کی پیداوار روک دی جائے گیاور وہ
قحط سالی کے شکار ہوجائیں گے اور جو لوگ زکوۃ روک لیں گے اُن پر بارش بند کردی
جائے گی۔(طبرانی کبیر:10992)
حضرت بُریدہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکایہ
اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”مَا نَقَضَ قَوْمٌ الْعَهْدَ قَطُّ إِلَّا كَانَ الْقَتْلُ
بَيْنَهُمْ، وَمَا ظَهَرَتْ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا سَلَّطَ اللهُ
عَلَيْهِمُ الْمَوْتَ، وَلَا مَنَعَ قَوْمٌ الزَّكَاةَ إِلَّا حَبَسَ اللهُ
عَنْهُمُ الْقَطْرَ“جو قوم عہد و پیمان کو توڑدےاُس کے درمیان قتل و قتال شروع
ہوجاتا ہے،جس قوم میں بےحیائی ظاہر ہوجائےاُس پر اللہ تعالیٰ(کثرت سے)موت کو مسلّط
کردیتے ہیں اور جو قوم زکوۃ کو روکتی ہےاللہ تعالیٰ اُن سے بارش کو روک دیتے ہیں۔(شعب
الایمان:3040) زنا شیطان کا پسندیدہ عمل ہے:
ایک روایت میں ہے،نبی
کریمﷺنےاِبلیس کی گمراہ کُن کاروائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اِرشادفرمایا: ”إنَّ
إبْلِيْسَ يَبُثُّ جُنُودَهُ فِي الْأَرْضِ وَيَقُولُ لَهُمْ أَيُّكُمْ أَضَلَّ
مُسْلِمًا أُلْبِسُهُ التَّاجَ عَلَى رَأْسِهِ فَأَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً
أَقْرَبُهُمْ إلَيْهِ مَنْزِلَةً“بیشک اِبلیس اپنے لشکر کو زمین میں پھیلادیتا ہے
اور اُن سے کہتا ہے کہ تم میں سے جو کسی مسلمان کو گمراہ کرے گا میں اُس کے سر پر
تاج پہناؤں گا، پس شیاطین میں جو سب سے زیادہ فتنہ پرور ہوتا ہے وہ اِبلیس کے نزدیک
سب سے زیادہ درجہ کے اعتبار سے قرب حاصل کرتا ہے۔اُس کے بعد مختلف شیاطین آکر اپنے
کارنامے ذکر کرتے ہیں اور وہ اُن کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا، یہاں تک کہ ایک شیطان
آکر یہ کہتا ہے:”لَمْ أَزَلْ بِهِ حَتَّى زَنَى“میں مسلسل اُس کے ساتھ لگارہا یہاں
تک کہ وہ زنا کربیٹھا، یہ سن کر شیطان کہتا ہے:”نِعْمَ مَا فَعَلْتَ“تونے بہترین
کام کیا،پس اُسے اپنے قریب کرتا ہے اور اپنا تاج اُس کے سر پر رکھ دیتا
ہے۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر:2/225)
٭…………٭…………٭…………٭
No comments:
Post a Comment