لبرل ازم :
لبرل ازم لفظ لبرل قدیم روم کی لاطینی
زبان کے لفظ لائیبر اور پھر لائیبرالس سے ماخوذ ہے ۔جس کی مطلب آزادلیا جاتا ہے یعنی ہر قسم کی فکری
اور ذھنی غلامی سے آزاد ۔ آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنیٰ ایک آزاد آدمی
ہی تھا ۔ بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پرآزاد ـتعلیم یافتہ اور کشادہ ذھن کا مالک ہو ۔
اٹھارویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس
کے معنوں میں خد ایا کسی اور ما فوق الفطرت ہستی یا مافوق فطرت ذرائع سے حاصل ہو
نے والی تعلیمات وحی سے آزادی بھی شامل کر لی گئی ۔ یعنی اب لبرل ازم سے مراد ایسا
شخص لیا جانے لگا جو خدااور پیغمبر وں کی تعلیمات اور مذھبی اقدار کی پابندی سے
خدکو آزاد سمجھتا ہو ۔ اورلبرل ازم سے مراد اسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ
اورنظام اخلاق وسیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے ۔۔۔
سیکولر تصورات کو پیش کرنے والے تین
بڑے فلسفی ڈاران ۔مارکس اور فرائڈتھے جو کہ بے دین مادہ پرست دھریے ہونے کی وجہ سے
ان کے مبینہ نظام میں سے مذاہبیت کے ساتھ تعصب کی جھلک نظر آتی ہے ۔اسی وجہ سیکولر
ازم کا ترجمہ ہی بے دینی کے نام سے ہوئے لگا ،۔سیکولر ازم کی اس خامی کو دور کرکے
جو نظام سامنے آتاہے اسی کو ہی لبرل ازم کہتے ہیں ۔ لبرل ازم ایسا تصور عدل جو
مذہب کا بھی جواز فراہم کرتا ہے اور کوئی مذہب اختیار کرنا چاہے تو اسکو مکمل
آزادی ہے کہ وہ انفرادی زندگی میں اس کو نافذ کر ے لیکن اجتماعی معاملات ،معاشرت
، معیشت ، سیاست ،میں محض انسان بن کر سوچے مسلمان ،عیسائی یا ہندو بن کر نہیں ۔
قانون لوگ بنائیں گے لوگوں کے لیے بنائیں
گے اور لوگ ہی اس کو چلانے کے حقدار ہیں یعنی دین الجمہور ۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ
اکثر یت جس کو حرام کہے وہ حرام ہوگا چاہے عوام جسے خیر قرار دے اور جسے چاہے شر
قرار دے مثلا اگر سود کو اچھا سمنجھتے ہیں تو اس نظام کے نافذہونے میں کوئی حرج نہیں
۔ اگر شراب پینا پسند کرتے ہیں تو شراب خانے قائم کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے
۔اگر لوگ مسجد جانا پسند کرتے ہیں تو مسجد بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ کسی خاص
تصور خیر [قرآن سنت ]کو نافذ کرکے لوگو ں کی آزادی کو مجروح نہ کریں گے بلکہ خود
یہ طے کریں گے کہ انکو کیا کرنا چا ہئے ؛کسے خیر سمجھنا چاہیے اور کسے شر قرار دینا چاہئے ۔ جو بھی
ان کا تصور خیر و شر ہوگا سیکولر حکومت کی ذمہ داری ہے نافذ کرے ۔
لبرل ازم کے تصور کوپیش کرنے والے فلسفی
خود عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ۔ ظاہرا لبرل تصور ردل ایسا تصور عدل نظر آتا
ہے جو مذہب کا جواز فراہم کرتا ہے اگر کوئی مذہب اختیار کرنا چاہے تو اسکو مکمل
آزادی ہے کہ انفرادی زندگی میں نافذ کرے ۔ اس پر عمل کرے لیکن اجتماعی ،معاشرتی سیاسی
معاملات میں محض انسان بن کر سوچنا چاہیے مسلمان عیسائی یا یہودی بن کر نہیں بلکہ
فقظ ایک انسان بن کر سوچنا چاہیے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ صرف لبرل تصورعدل ہی ایک ایسا
عادلانہ نظام فراہم کرتا ہے جو سب کے لئے عادلانہ ہوسکتا ہے لبرل ازم کے علاوہ
جتنے بھی تصور عدل لوگوں نے بنارکھے ہیں وہ تمام انسانو ں کو عدل فراہم نہیں
کرسکتے ۔
لبرل ازم کے ثبوت میں دلیل:
اگر کوئی مسلمان ہے اس کا ایک تصور عدل
ہے ،وہ مسلمان کے حق میں عادلانہ ہوگا مگر عیسائیت کے لئے ، بدھ مت اور ہندوں کیلئے
ہر گز عادلانہ نہیں ہوگا کیونکہ مسلمان اپنے ہی عادلانہ تصور کو فوقیت دیں گے اور
معاشرتی سطح پر بھی اپنے تصور عدل کوہی باقیوں سے بہتر گردانیں گے ، حقیقتا ان کا
تصور عدل تمام انسانیت کیلئے عادلانہ نہیں ہو سکتا بلکہ صرف مسلمانوں کیلئے
عادلانہ ہوگا ،بالکل اسی طرح اگر کوئی آدمی بائبل پر ایمان رکھتا ہے تو اس کا
تصورعدل صرف عیسائیو ں کیلئے تو عادلانہ ہو گا مسلمان اور سکھو ں اور دیگر اقوم کیلئے
عادلانہ نہیں ہو گا ۔ عیسائی اپنے ہی تصور عدل کو باقیو ں سے بڑھ کرسمجھیں گے ؛اور
معاشرتی سطح پر عیسائی اپنے تصور عد ل کو قابل قدر سمجھیں گے یہی حال ہے تمام قو
مو ں اور مذاہب کا ان کے تصور عدل صرف انکے مفاد کی بات کرتے ہیں باقی لوگوں کیلئے
عادلانہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ہم مکمل عادلانہ نہیں کہ سکتے ۔ جبکہ لبرل ازم وہ
تصور عدل پیش کرتاہے جو سب کو عدل فراہم کرے گا ۔ آپ عدل کا کوئی بھی اصول اور پیمانہ
نہیں بنا سکتے جب تک آپ جاہلیت کے پر دے کے پیچھے نہ چلے جائیں ایسی جہالت کا
پردہ جس میں صرف آپ
سے دو چیزیں اوجھل ہونگی ، نمبر ایک آپ کون ہو ،نمبر دو آپ کس چیز کو اچھا یا
برا سمجھتے تھے ۔ اس کے علاوہ آپ کو دنیا جہاں کی تمام معلومات فراہم ہو سکتی ہیں
کہ اس دنیا میں مسلمان کتنے ہیں عیسائی کتنے ہیں ،ہندو عورتیں کتنی ہیں غرض ہر طرح
کی معلومات فراہم ہو سکتی ہیں مگر جہالت کے اس پر دے کے پار آپ کو صرف دو چیزوں
کا علم نہیں ،
[۱]آپ کون
ہیں معاشرتی حیثیت آپ کی کیا تھی، مسلمان تھے کافر تھے غریب تھے یا امیر تھے مرد
تھے یا عورت تھے ۔
[۲]کس چیز
کو آپ خیر سمجتے تھے کس چیز کو شر گردانتے تھے حلال کیا تھا حرام کیاتھا صحیح کیا
تھا غلط کیا تھا ،
ان دو چیزوں کو بھلا کر ایک کمرہ میں
داخل ہوں پھر اس کمرے میں بیٹھ کر آپ عدل کا قانون وضع کر سکتے ہیں؛اس کمرے میں بیٹھ
کر آپ جوتصور عدل وضع کریں گے وہ عادلانہ ہوگا ، ایسی کوئی جگہ دنیامیں نہیں ہے
جس میں وہ داخل ہونے سے آدمی ان دو چیزوں کو بھول جائے اورباقی سب کی اسکو خبر ہو
بلکہ یہ ذہن کا ہی ایک خانہ ہے ، یعنی آپ کچھ دیر کے لئے ایسا سمجھ لیں کہ مجھے
ان دو چیزوں کا علم نہیں ۔نمبر ایک آپ کون ہو نمبر دو صحیح اور غلط کیا ہے پھر
محض انسانی مفاد کو مدنظر رکھ کر صحیح اور غلط کے اصول وضع کریں تو یہ تصور عدل حقیقی
عدل فراہم کر سکتا ہے ، تمام انسانو ں کو لبرل ازم اسی تصور عدل کی طرف دعوت دیتا
ہے نہ کہ مسلمان بن کر سوچو نہ عیسائی بن کر نہ مرد بن کر نہ عورت بن کر بلکہ محض
انسان بن کر سوچو
یہ ہے لبرل ازم کا تصور عدل ،جس کے
سامنے بہت ساروں نے گھٹنے ٹیک دیے بلکہ اسی کو حق اور سچ سمجھ کر اپنا مذہبی نکتہ
نظر سے اس کی توثیق پیش کر نا شروع کردی ۔لبرل ازم سیکو لر ازم سے زیادہ خطرناک
ثابت ہوا جو کہ بظاہر مذہب کو اپنے اندر ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔انفرادی
معاملات میں فرد مذہب پر عمل کرکے مطمئن رہتا ہے جبکہ سیاسی اور معاشرتی طور پر
لبرل ازم اپنا کام دیکھاتا ہے ایک خاموش طوفان کی طرح یہ کام کرتا ہے لوگ مذہب سے
دور ہوجاتے ہیںاگر کوئی مانتا بھی ہے تو مذہب چند عبادات اور رسومات کا نام بن کر
رھ جاتاہے۔اول نظر میں دیکھنے سے یہ دلیل مضبوط نظر آتی ہے کہ تصور عدل اور حقیقی انصاف صرف لبرل ازم ہی
مہیا کر تا ہے ۔ اگر تھوڑا سا غور سے دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا ۔
دلیل کا رد :
کہ جو الزام عدل کے حوالہ سے مذہب پر
لگا یا جاتا ہے وہ وجہ تو خود لبرل تصورعدل میں بھی ہے وہ اس طرح کہ انسان کبھی بھی
اپنے زمان ومکان سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ سکتایعنی اپنے تاریخی تناظر میں ہی رہ رہ
کر سوچ سکتا ہے لہذٰا لبرل تصور عدل اس خاص تناظر والوں کیلئے تو عادلانہ ہوگا باقی
ساری دنیا والوںکیلئے غیر عادلانہ ۔ جیسا کہ عملی طور پربھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ
لبرل تصور عدل سوسائٹی کے علاوہ سب کیلئے غیر عادلانہ ہے خواہ کوئی بھی مذہب ہوکوئی
بھی روایتی کلچر ہو ۔
لبرل تصورکو اپنا نے کا نتیجہ یہ نکلتا
ہے کہ اس کائنات میں کوئی چیز نہ صحیح ہے اور نہ غلط، شراب پینا، نماز پڑھنا ، زنا
کرنا ، والدین کی خدمت کرنا ، قرآن پڑھنا ۔ پارک میں بیٹھ کر گھاس کے پتے گننا
،سب کا م برابر ہیں ان میں نہ کوئی خیر ہے اور نہ کوئی شر ہے ۔ کیونکہ جب ہر فرد
الگ الگ متعین کرے گا کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے تو ہر ایک کیلئے صحیح وہ سمجھا
جائے گاجسے وہ صحیح کہے اور اس کیلئے غلط اس کو سمجھا جائے جسے وہ غلط کہے ۔ حقیقت
کے اعتبار سے خیر وشر کا تصور ہی باطل ہوگا بلکہ یہ معاملہ ایک فرد پر منحصرہو کر
رہ جائے گا ۔ جو چاہئے کر ے جیسے چاہے ، جو مرضی سمجھ لے مسجد جانے کو اچھا سمجھے یا
گرجا گھر جانے کو یا پھر جوا خانہ کو اچھا سمجھے ۔
(جدید افکار و نظریات
۔ ایک تجزیاتی مطالعہ)
No comments:
Post a Comment