شکوۂ
یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
غالبؔ ایسے گنج کو عیاں یہی ویرانہ تھا
غالبؔ ایسے گنج کو عیاں یہی ویرانہ تھا
پھر وہ
سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
رنگ اڑتا ہے گُلِستاں کے ہوا داروں کا
رنگ اڑتا ہے گُلِستاں کے ہوا داروں کا
اسدؔ!
یہ عجز و بے سامانیِ فرعون توَام ہے
جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا
جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا
No comments:
Post a Comment