دامنِ
یوسف
جاں
بیچنے کو آئے تو بے دام بیج دی
اے اہلِ
مصر، وضعِ تکلف تو دیکھیے
انصاف
ہے کہ محکمِ عقوبت سے بیشتر
اک بار
سوئے دامن یوسف تو دیکھیے!
ایک
منظر
بام و
در خامشی کے بوجھ سے چور
آسمانوں
سے جوئے درد رواں
چاند کا
دکھ بھرا فسانۂ نور
شاہراہوں
کی خاک میں غلطاں
خواب
گاہوں میں نیم تاریکی
مضمحل
لَے رباب ہستی کی
ہلکے
ہلکے سروں میں نوحہ کناں
٭٭٭
غزلیں
برو اے
عقل و منہ منطق و حکمت درپیش
کہ مرا
نسخۂ غمہائے فلاں درپیش است
ادائے
حسن کی معصومیت کو کم کر دے
گناہ
گار نظر کو حجاب آتا ہے
٭٭٭
رات
ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ
سلگاؤ آبگینوں میں
دلِ
عشّا قکی خبر لینا
پھول
کھلتے ہیں ان مہینوں میں
٭٭٭
نہ پوچھ
جب سے ترا انتظار کتنا ہے
کہ جن
دنوں سے مجھے تیرا انتظار نہیں
ترا ہی
عکس ہے اُن اجنبی بہاروں میں
جو تیرے
لب، ترے بازو، ترا کنار نہیں
٭٭٭
صبا کے
ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
ٹھہر
ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ ہاتھ
ڈھونڈ رہے ہیں بساطِ محفل میں
کہ دل
کے داغ کہاں ہیں نشستِ درد کہاں
٭٭٭
سرآغاز
شاید
کبھی افشا ہو، نگاہوں پہ تمہاری
ہر سادہ
ورق، جس سخنِ کُشتہ سے خون ہے
شاید
کبھی اُس گیت کا پرچم ہو سرافراز
جو آمدِ
صرصر کی تمنا میں نگوں ہے
شاید
کبھی اُس دل کی کوئی رگ تمہیں چُبھ جائے
جو سنگِ
سرِراہ کی مانند زبوں ہے
No comments:
Post a Comment