سماعتوں
کی نوید ہو—کہ
ہَوائیں
خُوشبو کے گیت لے کر
دریچہ
گُل سے آ رہی ہیں
تتلیاں
فصیلِ
شب عبور کر کے
میری
کور کوکھ کے لیے
پروں
میں رنگ ، آنکھ میں کرن لیے
کلائیوں
سے ہو کے اب ہتھیلیوں تک آ گئیں
مگر
مری
تمام اُنگلیاں کٹی ہُوئی ہیں
پھر
ڈسنے لگی ہیں سانپ راتیں
برساتی
ہیں آگ پھر ہوائیں
پھیلا
دے کسی شکستہ تن پر
بادل کی
طرح سے اپنی بانہیں
چڑیا
پُوری بھیگ چکی ہے
اور
درخت بھی پتّہ پتّہ ٹپک رہا ہے
گھونسلا
کب کا بکھر چکا ہے
چڑیا
پھر بھی چہک رہی ہے
انگ انگ
سے بول رہی ہے
اس موسم
میں بھیگتے رہنا کتنا اچھا لگتا ہے
مورنی
بارش نے
جب سے
مجھ کو پا زیب پہنائی ہے
میں رقص
میں ہوں
اور
اتنی خوش ہوں
اپنے
پاؤں کی بد رنگی کو
دیکھ
دیکھ کے بھول رہی ہو
پَر
پھیلائے
بھیگے
ہُوئے جنگل میں مسلسل ناچ رہی ہوں
میں وہ
لڑکی ہوں
جس کو
پہلی رات
کوئی
گھونگھٹ اُٹھا کے یہ کہہ دے۔
میرا سب
کُچھ ترا ہے ، دِل کے سوا
ننّھی
لڑکی
ساحل کے
اِتنے نزدیک
ریت سے
اپنے گھر نہ بنا
کوئی
سرکش موج اِدھر آئی ،تو
تیرے
گھر کی بنیادیں تک بہہ جائیں گی
اور پھر
اُن کی یاد میں تُو
ساری
عُمر اُداس رہے گی
مجبوری
ہوائیں
دستکوں
میں میرا نام لے رہی ہیں
میں
،کواڑ کیسے کھولوں
میرے
دونوں ہاتھ پُشت کی طرف بندھے ہُوئے ہیں
پروین شاکر
یہ جو
دفعتاً اُدھر سے
گلُ مہر
کی شاخ کو ہٹاکر
اُبھرا
ہے اُفق پہ چاند میرا
اس چاند
کا حُسن تو وہی ہے
گمان
میں کچی
نیند میں ہوں
اور
اپنے نیم خوابیدہ تنفس میں اترتی
چاندنی
کی چاپ سنتی ہوں
گماں ہے
آج بھی
شاید
میرے
ماتھے پہ تیرے لب
ستارے
ثبت کرتے ہیں
پروین شاکر
اے خدا
میری
آواز سے ساحری چھین کر
تو نے
سانپوں کی بستی میں کیوں مجھ کو پیدا کیا
کیا کیا دکھ دل نے پائے
کیا کیا
دکھ دل نے پائے
ننھی سی
خوشی کے بدلے
ہاں کون
سے غم نہ کھائے
تھوڑی
سی ہنسی کے بدلے
زخموں
کا کون شمار کرے
یادوں
کا کیسے حصار کرے
اور
جینا پھر سے عذاب کرے
اس وقت
کا کون حساب کرے
وہ وقت
جو تجھ بن بیت گیا
ہونٹ بے
بات ہنسے
زُلف بے
وجہ کُھلی
خواب
دکھلا کہ مجھے
نیند کس
سمت چلی
خُوشبو
لہرائی میرے کان میں سرگوشی کی
اپنی
شرمیلی ہنسی میں نے سُنی
اور پھر
جان گئی
میری
آنکھوں میں تیرے نام کا تارا چمکا
کتھارسس
میرے
شانوں پہ سر رکھ کر
آج
کسی کی
یاد میں وہ جی بھر کہ رویا
پروین شاکر
کتنی
دیر تک
املتاس
کے پیڑ کے نیچے
بیٹھ کر
ہم نے باتیں کیں
کچھ یاد
نہیں
بس اتنا
اندازہ ہے
چاند
ہماری پشت سے ہو کر
آنکھوں
تک آپہنچا
کانچ کی
سُرخ چوڑی
میرے
ہاتھ میں
آج ایسے
کھنکنے لگی
جیسے کل
رات شبنم سے لکھی ہوئی
ترے
ہاتھوں کی شوخیوں کو
ہواؤں
نے سَر دے دیا ہو ۔۔۔
چند خط
روز لِکھا کرتے تھے
دُوسرے
تیسرے ، تم فون بھی کر لیتے تھے
اور اب
یہ ، کہ تمھاری خبریں
صرف
اخبار سے مل پاتی ہیں
نوحہ گر چُپ ہیں کہ روئیں بھی تو کِس کو روئیں
کوئی اس فصلِ ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو
کون سا دل ہے کہ جس کے لئے آنکھیں کھولیں
کوئی بِسمل کسی شب خوں کی علامت بھی تو ہو
شُکر کی جا ہے کہ بے نام و نسب کے چہرے
مسندِ عدل کی بخشش کے سزاوار ہوئے
کتنی تکریم سے دفنائے گئے سوختہ تن
کتنے اعزاز کے حامِل یہ گنہگار ہوئے
یوں بھی اِس دور میں جینے کا کِسے تھا یارا
بے نوا بازوئے قاتِل سے گِلہ مند نہ ہوں
زندگی یوں بھی تو مُفلِس کی قبَا تھی لیکن
دلفگاروں کے کفن میں بھی تو پیوند نہ ہوں
ناوکِ ظِلّ الٰہی اجل آہنگ سہی
شُکر کی جا ہے کہ سَونے کی انی رکھتے ہیں
جاں گنوائی بھی تو کیا مَدفن و مَرقد تو ملا
شاہ جم جاہ طبیعت تو غنی رکھتے ہیں
نہ کوئی
عہد، نہ پیمان
نہ وعدہ
ایسا
نہ تیرا
حُسن ہی ایسا کوئی انگشت تراش
نہ میرے
ہاتھ میں تاثیرِ زلیخائی ہے
رقص گہ
ہے یہ جہاں اور نہ میں سِنڈریلا ہوں
نہ تُو
شہزادہ ہے
ہم تو
بس رزم گہِ ہستی میں
دو
مبارز دِل ہیں
اِس
تعلق کا کوئی رنگ اگر ہے تو حریفانہ ہے
ایک ہی
تھال سے چُننی ہے ہمیں نانِ جویں
ایک ہی
سانپ کے منہ سے ہمیں من چھیننا ہے
اور اس
کشمکشِ رزق میں موہوم کشائش کی کلید
جس قدر
میری قناعت میں ہے
اتنی
تیری فیاضی میں
میں
تیری چھاؤں میں پروان چڑھوں
اپنی
آنکھوں پہ تیرے ہاتھ کا سایہ کر کے
تیرے
ہمراہ میں سُرج کی تمازت دیکھوں
اس سے
آگے نہیں سوچا دل نے
پھر بھی
احوال یہ ہے
اِک
بھروسہ ہے کہ دل سبز کئے رکھتا ہے
ایک
دھڑکا ہے کہ خوں سرد کیئے رہتا ہے
گھنے درختوں کی سبز
شاخوں پہ کِھلنے والے حسیں شگوفے
سُنا ہے
تیرے گلاب چہرے کو
برفباری کی رُت نے نرگس بنا دیا ہے
سوننھی کونپل!اُداس مت
ہو
کہ تیرے رُخسار کی شفق
کو
کبھی بھی دستِ شبِ
زمستاں نہ چُھوئے پائے گا
اِس شفق میں محبتوں کا
لُہو رواں ہے
عظیم گہری محبتوں کے
صدف میں
اَبرِ بہار کی پہلی
سانس ہے تو
جو ان جسموں کی مشترک
دھڑکنوں کا پہلا جمیل نغمہ
جو ان راتوں کی کوکھ
سے پھوٹتا ہُوا پہلا چاند ہے تُو
زمین اور آسماں کے
سنگم پہ
زندگی کا نیا اُفق تُو
سواے مرے اَدھ کِھلے
شگوفے
تمام سچی محبتوں کے
تمام گیتوں کی طرح تُو بھی اَمر رہے گا
وہ لمحہ آواز دے رہا
ہے
جب ایسی ویران
شاخساروں کے بے نمو جسم پر نئی کونپلیں اُگیں گی
شجر شجر کی برہنگی سبز
پوش ہو گی
وہ ساعتیں راستے میں
ہیں
جبکہ تیرے کم سِن بدن
کی کچّی مہک کو
دستِ بہار کا لمس
وصفِ گویائی دے سکے
گا،
یہ زرد رُت جلد بِیت
جائے گی
سبز موسم قریب تر ہے
وہ میری ہم سبق
زمین پر جو ایک آسمانی
رُوح کی طرح سفر میں ہے
سفید پیرہن،گلے میں
نقرئی صلیب
ہونٹ___مستقل دُعا!
میں اُس کو ایسے
دیکھتی تھی جیسے ذرہ آفتاب کی طرف نظر اُٹھائے! پر____یہ
کل کا ذکر ہے
کہ جب میں اپنے بازؤوں
پہ سر رکھے
ترے لیے بہت اُداس تھی
تو وہ مرے قریب آئی
اور مجھ سے کیٹس کے
لکھے ہُوئے کسی خیال تک رسائی چاہنے لگی
سو مَیں نے اُس کو
شاعرِ جمال کی شریک خواب،فینی،کا پتہ دیا
مگر وہ میری بات سُن
کے سادگی سے بولی:
پیار کس کو کہتے ہیں ؟
میں لمحہ بھر کو گُنگ
رہ گئی
دماغ سوچنے لگا
یہ کتنی بدنصیب ہے
جو چاہتوں کی لذتوں سے
بے خبر ہے
میں نے اُس کی سمت پھر
نگاہ کی
اور اُس سمے
مُجھے مری محبیتں تمام
تر دُکھوں کے ساتھ یاد آ گئیں
محبتوں کے دُکھ عظیم
دُکھ
مُجھے لگا
کہ جیسے ذرہ آفتاب
کے مقابلے میں بڑھ گیا
پروین شاکر
تم مجھے گُڑیا کہتے ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو ۔۔۔
کھیلنے والے سب ہاتھوں
کو میں گڑیا ہی لگتی ہوں
جو پہنا دو، مجھ پہ
سجے گا
میرا کوئی رنگ نہیں
جس بّچے کے ہاتھ تھما
دو
میری کسی سے جنگ نہیں
سوچتی جاگتی آنکھیں
میری
جب چاہے بینائی لے لو
کُوک بھرو اور باتیں
سن لو
یاں میری گویائی لے لو
مانگ بھرو، سیندور
لگاؤ
پیار کرو، آنکھوں میں
بساؤ
اور جب دل بھر جائے تو
دل سے اُٹھا کہ طاق پہ
رکھ دو
تم مجھ کو گڑیا کہتے
ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو
اب وہ کہتے ہیں تم
کوئی چارہ کرو
جب کوئی عہد و پیماں سلامت
نہیں
اب کسی کنج میں بے
اماں شہر کی
کوئی دل کوئی داماں
سلامت نہیں
تم نے دیکھا ہے سر سبز
پیڑوں پہ اب
سارے برگ و ثمر خار و
خس ہو گئے
اب کہاں خوبصورت
پرندوں کی رت
جو نشیمن تھے اب وہ
قفس ہو گئے
صحن گلزار خاشاک کا
ڈھیر
اب درختوں کے تن پر
قبائیں کہاں
سرو و شمشاد سے قمریاں
اڑ گئیں
شاخ زیتون پر فاختائیں
کہاں
شیخ منبر پہ نا معتبر
ہو چکا
رند بدنام کوئے خرابات
میں
فاصلہ ہو تو ہو فرق
کچھ بھی نہیں
فتوہ دیں میں ہو اور
کفر کی بات میں
اب تو سب رازداں ہمنوا
نامہ بر
کوئے جانا ں کے سب
آشنا جا چکے
کوئی زندہ گواہی بچی
ہی نہیں
سب گنہگار سب پارسا جا
چکے
اب کوئی کس طرح قم بہ
اذنی کہے
اب کہ جب شہر کا شہر
سنسان ہے
حرف عیسیٰ نہ صور
اسرافیل ہے
حشر کا دن قیامت کا
میدان ہے
مرگ انبوہ بھی جشن
ساماں نہیں
اب کوئی قتل گاہوں میں
جائے تو کیا
کب سے توقیر لالہ
قبائی گئی
کوئی اپنے لہو میں
نہائے تو کیا
رُت بدلی تو بھنوروں
نے تتلی سے کہا
آج سے تم آزاد ہو
پروازوں کی ساری سمتیں
تُمھارے نام ہُوئیں
جاؤ
جنگل کی مغرور ہوا کے
ساتھ اُڑو
بادل کے ہمراہ ستارے
چُھو آؤ
خوشبو کے بازو تھامو،
اور رقص کرو
رقص کرو
کہ اس موسم کے سُورج
کی کِرنوں کا تاج تُمھارے سر ہے
لہراؤ
کہ ان راتوں کا چاند،
تمھاری پیشانی پر اپنے ہاتھ سے دُعا لکھے گا
گاؤ
ان لمحوں کی ہوائیں تم
کو ، تمھارے گیتوں پر سنگیت دیں گی
پتّے کڑے بجائیں گے
اور پُھولوں کے ہاتھوں
میں دف ہو گا!
تتلی ، معصومانہ حیرت
سے سرشار
سیہ شاخوں کے حلقے سے
نکلی
صدیوں کے جکڑے ہُوئے
ریشم پَر پھیلائےِ_اور اُڑنے لگی
کُھلی فضا کا ذائقہ
چکھا
نرم ہَوا کا گیت سُنا
اَن دیکھے کہساروں کی
قامت ناپی
روشنیوں کا لمس پیا
خوشبو کے ہر رنگ کو
چُھو کر دیکھا
لیکن رنگ ، ہَوا کا
وجدان ادھورا تھا
کہ رقص کا موسم ٹھہر
گیا
رُت بدلی
اور سُورج کی کِرنون
کا تاج پگھلنے لگا
چاند کے ہاتھ، دُعا کے
حرف ہی بُھول گئے
ہَوا کے لب برفیلےسموں
میں نیلے پڑکر اپنی صدائیں کھو بیٹھے
پتّوں کی بانہوں کے
سُر بے رنگ ہُوئے
اور تنہا رہ گئے
پُھولوں کے ہاتھ
برف کی لہر کے ہاتھوں
، تتلی کو لَوٹ آنے کا پیغام گیا
بھنورے شبنم کی
زنجیریں لے کر دوڑے
اور بے چین پَروں میں
ان چکھی پروازوں کی آشفتہ پیاس جلا دی
اپنے کالے ناخونوں سے
تتلی کے پَر نوچ کے
بولے
احمق لڑکی
گھر واپس آ جاؤ
ناٹک ختم ہُوا
(خواتین کا عالمی سال)
من
و تو
معاف کر مری مستی
خدائے عز و جل
کہ میرے ہاتھ میں ساغر
ہے میرے لب پہ غزل
کریم ہے تو مری لغزشوں
کو پیار سے دیکھ
رحیم ہے تو سزا و جزا
کی حد سے نکل
ہے دوستی تو مجھے اذن
میزبانی دے
تو آسمان سے اتر اور
مری زمین پہ چل
بہت عزیز ہے مجھ کو یہ
خاکداں میرا
یہ کوہسار یہ قلزم یہ
دشت یہ دلدل
مرے جہاں میں زمان و
مکان و لیل و نہار
ترے جہاں میں ازل ہے
ابد ہے نہ آج نہ کل
تو اپنے عرش پہ شاداں
ہے سو خوشی تیری
میں اپنے فرش پہ نازاں
ہوں اے نگار ازل
مجھے نہ جنت گم گشتہ
کی بشارت دے
کہ مجھ کو یاد ابھی تک
ہے ہجرت اول
ترے کرم سے یہاں بھی
مجھے میسر ہے
جو زاہدوں کی عبادت
میں ڈالتا ہے خلل
وہ تو کہ عقدہ کشا و
مسب اللا سباب
یہ میں کہ آپ معمہ ہوں
آپ اپنا ہی حل
میں آپ اپنا ہی ہابیل
اپنا ہی قابیل
مری ہی ذات ہے مقتول و
قاتل و مقتل
برس برس کی طرح تھا
نفس نفس میرا
صدی صدی کی طرح کاٹتا
رہا پل پل
ترا وجود ہے لاریب
اشرف و اعلیٰ
جو سچ کہوں تو نہیں
میں بھی ارذل و اسفل
یہ واقعہ ہے کہ شاعر
وہ دیکھ سکتا ہے
رہے جو تیرے فرشتوں کی
آنکھ سے اوجھل
یہی قلم ہے جو دکھ کی
رتوں میں بخشتا ہے
دلوں کو پیار کا مرہم
سکون کا صندل
یہی قلم ہے کہ جس کے
ہنر سے نکلے ہیں
رہ حیات کے خم ہوں کہ
زلف یار کے بل
یہی قلم ہے کہ جس کی
عطا سے مجھ کو ملے
یہ چاہتوں کے شگوفے محبتوں
کے کنول
تمام سینہ فگاروں کو
یاد میرے سخن
ہر ایک غیرت مریم کے
لب پہ میری غزل
اسی نے سہل کئے مجھ پہ
زندگی کے عذاب
وہ عہد سنگ زنی تھا کہ
دور تیغ اجل
اسی نے مجھ کو سجھائی
ہے راہ اہل صفا
اسی نے مجھ سے کہا ہے
پل صراط پہ چل
اسی نے مجھ چٹانوں کے
حوصلے بخشے
وہ کربلائے فنا تھی کہ
کار گاہ جدل
اسی نے مجھ سے کہا اسم
اہل صدق امر
اسی نے مجھ سے کہا سچ
کا فیصلہ ہے اٹل
اسی کے فیض سے آتش کدے
ہوئے گلزار
اسی کے لطف سے ہر زشت
بن گیا اجمل
اسی نے مجھ سے کہا جو
ملا بہت کچھ ہے
اسی نے مجھ سے کہا جو
نہیں ہے ہاتھ نہ مل
اسی نے مجھ سے قناعت
کا بوریا بخشا
اسی کے ہاتھ سے دست
دراز طمع ہے شل
اسی نے مجھ سے کہا
بیعتِ یزید نہ کر
اسی نے مجھ سے کہا
مسلک حسین پہ چل
اسی نے مجھ سے کہا زہر
کا پیالہ اٹھا
اسی نے مجھ سے کہا، جو
کہا ہے اس سے نہ ٹل
اسی نے مجھ سے کہا
عاجزی سے مات نہ کھا
اسی نے مجھ سے کہا
مصلحت کی چال نہ چل
اسی نے مجھ سے کہا
غیرت سخن کو نہ بیچ
کہ خون دل کے شرف کو
نہ اشرفی سے بدل
اسی نے مجھ کو عنایت
کیا ید بیضا
اسی نے مجھ سے کہا سحر
سامری سے نکل
اذیتوں میں بھی بخشی
مجھے وہ نعمت صبر
کہ میرے دل میں گرہ ہے
نہ ماتھے پہ بل
تری عطا کے سبب یا میری
انا کے سبب
کسی دعا کا ہے موقع نہ
التجا کا محل
کچھ اور دیر ابھی حسرت
وصال میں رہ
کچھ اور دیر آتش فراق
میں جل
سو تجھ سا ہے کوئی
خالق نہ مجھ سی ہے مخلوق
نہ کوئی تیرا ہی ثانی
نہ میرا کوئی بدل
فراز تو بھی جنوں میں
کدھر گیا ہے نکل
ترا دیار محبت تری
نگار غزل
مفاہمت
زندگی کے لیے
اب تمھارا رویہ ،اچانک
بہت صلح جُو ہو گیا ہے
سمندر کی سرکش ہواؤں کو
جُوئے شبستاں کی آہستہ
گامی مبارک
یہ اچھا شگن ہے
ہوا کے مقابل
اگر پُھول آئے
تو پھر پنکھڑی پنکھڑی
اُجلے بادل کے خوابوں
کی صُورت بِکھر جائے گی
سو ایسے میں ،جھکنے
میں ہی خیر ہے
بارشِ سنگ میں
خواب کے شیش محل کو کب
تک بچائے رکھیں
اِتنے ہاتھوں میں پتھر
ہیں
کوئی تو لگ جائے گا
اور پھر
گُھپ اندھیرے میں کب
تک نظر کرچیاں ان کی ڈھونڈے
کیا یہ بہتر نہ ہو گا
کہ ایسی قیامت سے پہلے
ہی
ان شیش محلوں کو ہم
مصلحت کی چمکتی ہوئی
ریت میں دفن کر دیں
اور پھر خواب بُنتی
ہُوئی آنکھ سے معذرت کر لیں
سو تم نے بھی اب
ایک ہاری ہُوئی قوم کے
رہنما کی طرح
اپنے ہتھیار دُشمن کے
قدموں میں رکھ کر
نئی دوستی کا لرزتا
ہُوا ہاتھ اس کی طرف پھر بڑھایا ہے
اور میری سمجھ میں
نہیں آ رہا ہے
کہ ہتھیار دینے کی اس
رسم میں
کیا کروں
تمھاری چمکدار ،متروکہ
تلوارکو
بڑھ کے چُوموں
کہ اپنے گلے پر رکھوں
؟
معبود
بہت حسین ہیں تیری
عقیدتوں کے گلاب
حسین تر ہے مگر ہر گلِ
خیال ترا
ہم ایک درد کے رشتے
میں منسلک دونوں
تجھے عزیز مرا فن مجھے
جما ل ترا
مگر تجھے نہیں معلوم
قربتوں کے الم
تری نگاہ مجھے فاصلوں
سے چاہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید کہ
خلوتوں میں مری
لہو اگلتی ہوئی زندگی کراہتی
ہے
تجھے خبر نہیں شاید کہ
ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن نہیں ہے اذیت ہے
زندگی بھر کی
یہاں گلوئے جنوں پر
کمند پڑتی ہے
یہاں قلم کی زباں پر
ہے نوک خنجر کی
مشترکہ
دُشمن کی بیٹی
ننھے سے اک ریستوران
کے اندر
میں اور میری نیشنلسٹ
کولیگز
کیٹس کی نظموں جیسے دل
آویز دھند لکے میں بیٹھی
سُوپ کے پیالے سے
اُٹھتی ، خوش لمس مہک کو
تن کی سیرابی میں
بدلتا دیکھ رہی تھیں
باتیں ’’ہوا نہیں پڑھ
سکتی‘‘، تاج محل، میسور کے ریشم
اور بنارس کی ساری کے
ذکر سے جھِلمل کرتی
پاک و ہند سیاست تک آ
نکلیں
پینسٹھ اُس کے بعد
اکہتّر جنگی قیدی
امرتسر کا ٹی وی
پاکستان کلچر__محاذِ
نو__خطرے کی گھنٹی۔۔
میری جوشیلی کولیگز
اس حملے پر بہت خفا
تھیں
میں نے کُچھ کہنا چاہا
تو
اُن کے منہ یوں بگڑ
گئے تھے
جیسے سُوپ کے بدلے
اُنھیں کونین کا رس پینے کو ملا ہو
ریستوران کے مالک کی
ہنس مُکھ بیوی بھی
میری طرف شاکی نظروں
سے دیکھ رہی تھی
(شاید سنہ باسٹھ کا کوئی
تِیر ابھی تک اُس کے دل میں ترازو تھا!)
ریستوران کے نروز میں
جیسے
ہائی بلڈ پریشر انساں
کے جسم کی جیسی جھلاّہٹ در آئی تھی
یہ کیفیت کچھ لمحے
رہتی
تو ہمارے ذہنوں کی
شریانیں پھٹ جاتیں
لیکن اُس پل ،
آرکسٹراخاموش ہُوا
اور لتا کی رس ٹپکاتی،
شہد آگیں آواز ، کچھ ایسے اُبھری
جیسے حبس زدہ کمرے میں
دریا کے رُخ والی
کھڑکی کھلنے لگی ہو
میں نے دیکھا
جسموں اور چہروں کے
تناؤ پر
ان دیکھے ہاتھوں کی
ٹھندک
پیار کی شبنم چھڑک رہی
تھی
مسخ شدہ چہرے جیسے پھر
سنور رہے تھے
میری نیشنلسٹ کولیگز
ہاتھوں کے پیالوں میں
اپنی ٹھوڑیاں رکھے
ساکت و جامد بیٹھی
تھیں
گیت کا جادو بول رہا
تھا
میز کے نیچے
ریستوران کے مالک کی
ہنس مُکھ بیوی کے
نرم گلابی پاؤں بھی
گیت کی ہمراہی میں
تھرک رہے تھے
مشترکہ دشمن کی بیٹی
مشترکہ محبوب کی صورت
اُجلے ریشم لہجوں کی
بانہیں پھیلائے
ہمیں سمیٹے
ناچ رہی تھی
مسئلہ
’’پتھر کی زباں ‘‘ کی
شاعرہ نے
اک محفلِ شعر و شاعری
میں
جب نظم سُناتے مُجھ کو
دیکھا
کُچھ سوچ کے دل میں
،مُسکرائی
جب میز پر ہم مِلے تو
اُس نے
بڑھ کر مرے ہاتھ ایسے
تھامے
جیسے مجھے کھوجتی ہو
کب سے
پھر مجھ سے کہا
کہ۔۔۔۔آج،پروین
جب شعر سناتے تم کو
دیکھا
میں خود کو بہت یہ یاد
آئی
وہ وقت،کہ جب تمھاری
صُورت
میں بھی یونہی شعر کہہ
رہی تھی
لکھتی تھی اِس طرح کی
نظمیں
پر اب تو وہ ساری
نظمیں ،غزلیں
گزرے ہُوئے خواب کی
ہیں باتیں
میں سب کو ڈِس اون کر
چکی ہوں
’’پتھر کی زباں ‘‘کی
شاعرہ کے
چنبیلی سے نرم ہاتھ
تھامے
’’خوشبو‘‘کی سفیر سوچتی
تھی
در پیش ہواؤں کے سفر
میں
پل پل کی رفیقِ
راہ۔۔میرے
اندر کی یہ سادہ لوح
ایلس
حیرت کی جمیل وادیوں
سے
وحشت کے مہیب جنگلوں
میں
آئے گی۔۔۔۔تو اُس کا
پُھول لہجہ
کیا جب بھی صبا نفس
رہے گا!؟
وہ خود کو ڈس اون
کرسکے گی!؟
مسفٹ
کبھی کبھی میں سوچتی
ہوں
مجھ میں لوگوں کو خوش
رکھنے کا ملکہ
اتنا کم کیوں ہے
کچھ لفظوں
سے۔کچھ میرے لہجے سے خفا ہیں
پہلے میری ماں میری
مصروفیت سے
نالاں رہتی تھی
اب یہی گلہ مجھ سے
میرے بیٹے کو ہے
رزق کی اندھی دوڑ میں
رشتے کتنے پیچھے رہ جاتے ہیں
جبکہ صورتِ حال تو یہ
ہے
میرا گھر میرے عورت
ہونے کی
مجبوری کا پورا لطف
اٹھاتا ہے
ہر صبح میرے شانوں پر
زمہ داری کا بوجھا لیکن
پہلے سے بھاری ہوتا ہے
پھر بھی میری پشت پہ
نا اہلی کا کوب
روز بروز نمایاں ہوتا
جاتا ہے
پھر میرا دفتر ہے
جہاں تقرر کی پہلی ہی
شرط کے طور پہ
خود داری کا استعفی
دائر کرنا تھا
میں پتھر بنجر زمینوں
میں پھول اگانے کی کوشش کرتی ہوں
کبھی ہریالی دکھ جاتی
ہے
ورنہ
پتھر
بارش سے اکثر ناراض ہی
رہتے ہیں
مرا قبیلہ
میرے حرف میں روشنی
ڈھونڈ نکالتا ہے
لیکن مجھ کو
اچھی طرح معلوم ہے
کس کی نظریں لفظ پہ
ہیں
اور کس کی خالق پر
سارے دائرے میرے
پاووءں سے چھوٹے ہیں
لیکن وقت کا وحشی ناچ
کسی مقام نہیں رکتا
رقص کی لے ہر لمحہ تیز
ہوئی جاتی ہے
یا تو میں کچھ اور ہوں
یا پھر یہ میرا سیارہ
نہیں ہے۔۔۔
مری
دعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام
مری دُعا ترے رخشِ صبا
خرام کے نام
کہ میں نے اپنی محبت
سپرد کی ہے تجھے
سو دیکھ!میری امانت
سنبھال کے رکھنا
اسے بہار کی نرماہٹوں
نے پالا ہے
سو اس کو گرم ہوا سے
بہت بچا رکھنا
یہ گُل عذار نہیں
آشنائے سختی گل
یہ ساتھ ہو تو بہت
احتیاط سے چلنا
مزاج اس کا ہَواؤں کی
طرح سرکش ہے
سو اس کی جنبشِ ابرو
کو دیکھتے رہنا
نہیں ، یہ سُننے کا
عادی نہیں رہا ہے کبھی
سو اس کی بات ، وہ
کیسی ہو، مانتے رہنا
اطاعت اس کی بہر گام
اَب ہے تیرا کام
ہَوا کے ساتھ اُسے یہ
پیام بھی پہنچے
کہ خوش نصیب ہے تو اس
کا ہمسفر ٹھہرا
میں تیرہ بخت تھی، اس
سے بچھڑ گئی کب کی
بھٹک رہی ہوں گھنے
جنگل میں اب تنہا
تو اس کے لمس سے ہر
روز زندگی پائے
میں اُس کے ہجر میں ہر
رات لمسِ مرگ چکھوں
ترے گلے میں وہ ہر روز
باہیں ڈالتا ہے
مرے بدن کو وہ حلقہ
مگر نصیب نہیں
وہ تیرے جسم سے کتنا
قریب ہوتا ہے
مگر میں اُس کے بدن کی
مہک کہاں ڈھونڈوں
کہ اُس کے شہر کی پاگل
ہوائیںِ__ میرے گھر
نجانے کون سی گلیوں سے
ہوکے آتی ہے
کہ وہ مہک کہیں رستے
میں چھوٹ جاتی ہے
اُسی کی یاد میں ہوتی
ہے اب تو صبح وشام
ہَوا کے ہاتھ اُسے یہ
پیام بھی پہنچے
کہ تیری عُمر خُدائے
ازل دراز کرے
جو خواب بھی تری
آنکھوں میں ہو،وہ پورا ہو
کہ تیرے ساتھ نے اُس
کو بہت خوشی دی ہے
وہ اپنے سارے رفیقوں
میں سربلند ہُوا
شکستہ دل تھا مگر آج
ارجمند ہُوا
غریبِ شہر کو جینے کا
آسرا تو دیا
بہت اُداس تھا، تُو نے
اُسے ہنسا تو دیا
(میں کس زباں میں
،بتا،تجھ کو شکریہ لکھوں )
دُعا یہ ہے کہ تجھے ہر
خوشی میسر ہو
اِسی طرح سے کبھی تو
بھی سر اُٹھا کے چلے
کبھی تجھے بھی کوئی
بھیجے تہنیت کا پیام
ہَوا کے ساتھ اُسے یہ
پیام بھی پہنچے
کہ اپنے آقا کے ہمراہ
سیر کو نکلے
تواسپِ تازی،کسی دِن
زقند ایسی بھرے
کہ اُڑ کے میرے
نگر،میرے شہر آ پہنچے
تمام عُمر دعائیں رہیں
گی اُس کے نام
محاصرہ
مرے غنیم نے مجھکو
پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے
گرد لشکری اُسکے
فصیل شہر کے ہر برج،
ہر منارے پر
کماں بدست ستادہ ہیں
عسکری اُسکے
وہ برقِ لہر بجھا دی
گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش
فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود
اسکے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری
گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دہن اب بدن
دریدہ ہوئے
سپردِ دار و رسن سارے
سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک،
سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پہ ایوانِ
کج کلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت حلف
اٹھانے کو
مثال سائلِ مبرم نشستہ
راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار
کے ثنا گر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم
سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ
دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم
سامنے ہیں
قلندرانِ وفا کی اساس
تو دیکھو
تمھارے ساتھ ہے کون؟آس
پاس تو دیکھو
تو شرط یہ ہے جو جاں
کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل
گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کہ نشانہ
کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، تو غیرت
کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا،
تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ
کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید
کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج
تراش لاتی ہے
تو یہ جواب ہے میرا
مرے عدو کے لیے
کہ مجھکو حرصِ کرم ہے
نہ خوفِ خمیازہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ
گھمنڈ بہت
اسے شکوہِ قلم کا نہیں
ہے اندازہ
مرا قلم نہیں کردار اس
محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور
کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی
سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں
سے سرفراز کرے
مرا قلم نہیں اوزار اس
نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت
میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزدِ
نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر
کمند اچھالتا ہے
مرا قلم نہیں تسبیح اس
مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم
حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان
ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا
نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے
میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے
ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا
تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا،
زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت
رہوں ، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی
تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا
نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائگاں
نہ جائے گا
لیلۃ
الصّک
عجب پُراسرار سی فضا
تھی
ہَوا میں لوبان و عود
عنبر کی آسمانی مہک رچی ہوئی تھی
سپید، مخروطی،مومی
شمعیں
عجیب نا قابلِ بیاں
مذہبی تیقن سے جل رہی تھیں
کہ جیسے آبی قباؤں میں
کچھ اُداس ،معصوم لڑکیاں
دونوں ہاتھ اٹھائے
دُعا میں مصروف ہوں
اور اُن کی چنبیلی سی
اُنگلیوں کی لو تھرتھرا رہی ہو
دریچوں میں ،طاقچوں
میں
ننھے چراغ یوں جھلملا
رہے تھے
کہ جیسے نو زائیدہ
فرشتے
زمین کو دیکھ کر
تعجب سے اپنی پلکیں
جھپک رہے ہوں
کتابِ الہام کی تلاوت
سروشِ جبریل کے تصور
کی جیسے تجسیم کر رہی تھی
میں ہلکے رنگوں کے اک
دوپٹے میں اپنی زیبائشیں چھپائے
ترے بہت ہی قریب،
سر کو جُھکائے بیٹھی
تھی
اور تو اپنے سادہ
ملبوس میں مرے پاس تھا
مگر ہم ،ایک اور دُنیا
میں کھو چکے تھے
زمین کی خواہشیں دھنک
پر ہی رہ گئی تھیں
وجود،تتلی کے پَر کی
صُورت،لطیف ہو کر
ہَوا میں پرواز کر رہا
تھا
ہمیں بزرگوں نے یہ
بتایا،کہ آج کی رات
آسمانوں میں زندگی اور
موت کے فیصلے بھی انجام پا رہے ہیں
دُعاؤں کی باریابیوں
کا یہی سمے ہے
سو ہم نے اپنے دیے جلا
کر
حیاتِ تازہ کی آرزو کی
محبتوں کی ہمیشگی کی
دُعائیں مانگیں
میں آج اپنے اکیلے گھر
میں
ہَوا کے رُخ پر چراغ
ہاتھوں میں لے کر بیٹھی
خدا کے اُس فیصلے کا
مفہوم سوچتی ہوں
کہ جس کی تکمیل میں یہ
دیکھا
بدن تو زندہ ہے میرا
اب تک
مگر مری رُوح مر چکی
ہے
میں آج جا کر سمجھ سکی
ہوں
کہ آج سے ایک سال پہلے
ترا جلایا ہُوا دیا
جَلد کیوں بُجھا تھا
لڑکیاں
اُداس ہیں
پھر وہی نرم ہوا
وہی آہستہ سفر موجِ
صبا
گھر کے دروازے پہ ننھی
سی ہتھیلی رکھے
منتظر ہے
کہ کِسی سمت سے آواز
کی خوشبو آئے
سبز بیلوں کے خنک سائے
سے کنگن کی کھنک
سُرخ پُھولوں کی سجل
چھاؤں سے پائل کی جھنک
کوئی آواز۔۔۔بنامِ
موسم!
اور پھر موجِ ہوا،موجۂ
خُوشبو کی وہ البیلی سکھی
کچی عمروں کے نئے
جذبوں کی سر شاری سے پاگل برکھا
دھانی آنچل میں شفق
ریز،سلونا چہرہ
کاسنی چُنری،بدن بھیگا
ہوا
پشت پر گیلے ،مگر آگ
لگاتے گیسو
بھوری آنکھوں میں
دمکتا ہُوا گہرا کجرا
رقص کرتی ہوئی، رِم
جھم کے مُدھر تال کے زیرو بم پر
جُھومتی ،نقرئی پازیب
بجاتی ہوئی آنگن میں اُتر آئی ہے
تھام کر ہاتھ یہ کہتی
ہے
مرے ساتھ چلو
لڑکیاں
شیشوں کے شفاف دریچوں
پہ گرائے ہُوئے سب پردوں کو
اپنے کمروں میں اکیلی
بیٹھی ہے
کیٹس کے
’’اوڈس‘‘پڑھاکرتی ہیں
کتنا مصروف سکوں چہروں
پہ چھایا ہے۔۔مگر
جھانک کے دیکھیں
توآنکھوں کو نظر
آئے،کہ ہر مُوئے بدن
گوش برساز ہے
ذہن بیتے ہُوئے موسم
کی مہک ڈھونڈتا ہے
آنکھ کھوئے ہُوئے
خوابوں کا پتہ چاہتی ہے
دل ،بڑے کرب سے
دروازوں سے ٹکراتے
ہوئے نرم رِم جھم کے مُدھر گیت کے اس سُرکو بُلانے کی سعی کرتا ہے
جو گئے لمحوں کی بارش
میں کہیں ڈوب گیا
گئے
جنم کی صدا
وہ ایک لڑکی
کہ جس سے شاید میں ایک
پل بھی نہیں ملی ہوں
میں اُس کے چہرے کو
جانتی ہوں
کہ اُس کا چہرہ
تُمھاری نظموں
،تُمھارے گیتوں کی چلمنوں سے اُبھر رہا ہے
یقین جانو
مُجھے یہ چہرہ تُمھارے
اپنے وُجود سے بھی عزیز تر ہے
کہ اُ س کی آنکھوں میں
چاہتوں کے وہی سمندر
چُھپے ہیں
جو میری اپنی آنکھوں
میں موجزن ہیں
وہ تم کو اِک دیوتا
بنا کر،مِری طرح پُوجتی رہی ہے
اُس ایک لڑکی کا جسم
خُود میرا ہی بدن ہے
وہ ایک لڑکی
جو میرے اپنے گئے جنم
کی مَدھُر صدا ہے
گوری
کرت سنگھار
بال بال موتی چمکائے
روم روم مہکار
مانگ سیندور کی سندرتا
سے
چمکے چندن وار
جوڑے میں جوہی کی بینی
بانہہ میں ہار سنگھار
کان میں جگ مگ بالی
پتّہ
گلے میں جگنو ، ہار
صندل ایسی پیشانی پر
بندیا لائی بہار
سبز کٹارا سی آنکھوں
میں
کجرے کی دو دھار
گالوں کی سُرخی میں
جھلکے
ہر دے کا اقرار
ہونٹ پہ کچھ پُھولوں
کی لالی
کُچھ ساجن کے کار
کَساہوا کیسری شلوکا
چُنری دھاری دار
ہاتھوں کی اِک اِک
چُوڑی میں
موہن کی جھنکار
سہج چلے ، پھر بھی
پائل میں
بولے پی کا پیار
اپنا آپ درپن میں
دیکھے
اور شرمائے نار
نار کے رُوپ کو انگ
لگائے
دھڑک رہا سنسار
کنگن
بیلے کا
اُس نے میرے ہاتھ میں
باندھا
اُجلا کنگن بیلے کا
پہلے پیار سے تھامی
کلائی
بعد اُس کے ہولے ہولے
پہنایا
گہنا پُھولوں کا
پھر جُھک کر ہاتھ
کوچُوم لیا
پُھول تو آخر پُھول ہی
تھے
مُرجھا ہی گئے
لیکن میری راتیں ان کی
خوشبو سے اب تک روشن ہیں
بانہوں پر وہ لمس ابھی
تک تازہ ہے
(اخِ صنوبر پر اِک چاند
دِمکتا ہے)
پُھول کا کنگن
پیار کا بندھن
اَب تک میری یاد کے
ہاتھ سے لپٹاہُوا ہے
کن
رس
یہ جھکی جھکی آنکھیں
یہ رُکا رُکا لہجہ
لب پہ بار بار آ کے
ٹوٹتا ہُوا فقرہ
گرد میں اٹی پلکیں
دُھوپ سے تپا چہرہ
سر جُھکائے آیا ہے
ایک عمر کا بُھولا
دل ہزار کہتا ہے
ہاتھ تھام لُوں اس کا
چُوم لُوں یہ پیشانی
لَوٹنے نہ دُوں تنہا
کوئی دل سے کہتا ہے
سارے حرف جُھوٹے ہیں
اعتبار مت کرنا
اعتبار مت کرنا
کرنوں
کے قدم
خوش پوش مسافروں کے
آگے
ننّھا سا وہ کم لباس
بچہ
کِس شانِ انا سے چل
رہا تھا
سُورج کی تمازت کے
باوصف
سائے کی تلاس تھی__نہ
اس کو
دردکار تھیں نقرئی
پناہیں
جیبوں پہ نگاہ تھی نہ
رُخ پر
سکّوں سے وہ بے نیاز
آنکھیں
کُچھ اور ہی ڈھونڈنے
چلی تھیں
اُس کو تو مسافروں سے
بڑھ کر
سایوں سے لگاؤں ہو گیا
تھا
اپنے نئے کھیل میں مگن
وہ
لوگوں کے بہت قریب جا
کر
میلی ، بے رنگ
اُنگلیوں سے
سایوں کو مزے سے گن
رہا تھا
دلدل سے اُگا ہُوا وہ
بچہ
خوشبو کا حساب کر رہا
تھا
کُہرے میں پلا ہُوا وہ
کیڑا
کرنوں کا شمار کر رہا
تھا
کس نے اُسے گنتیاں
سکھائیں
جس نے کبھی زندگی میں
اپنی
اسکول کی شکل تک نہ
دیکھی
اُستاد کا نام تک نہ
جانا
سچ یہ ہے کہ سورجوں کو
چاہے
بادل کا کفن بھی دے کے
رکھیں
کب روشنیاں ہوئی ہیں
زنجیر
تنویر کا ہاتھ کِس نے
تھاما!
کونوں کے قدم کہاں
رُکے ہیں
کتبہ
یہاں پہ وہ لڑکی سو
رہی ہے
کہ جسکی آنکھوں نے
نیند سے خواب مول لے کر
وصال کی عمر رتجگے میں
گزار دی تھی
عجیب تھا انتظار اسکا
کہ جس نے تقدیر کے تنک
حوصلہ مہاجن کے ساتھ
بس اک دریچۂنیم با ز
کے سکھ پہ
شہر کا شہر رہن کروا
دیا تھا
لیکن وہ ایک تارہ
کہ جس کی کرنوں کے مان
پر
چاند سے حریفانہ کشمکش
تھی
جب اس کے ماتھے پہ
کھلنے والا ہوا
تو اس پل
سپیدۂصبح بھی نمودار
ہو چکا تھا
فراق کا لمحہ آ چکا
تھا۔۔۔
کالا
بھوت
جیسے کوئلے کے نطفے سے
جنم لیا ہو
ایک جہنمی درجۂ حرارت
پر رہتے ہوئے
اُس کا کام
دہکتی بھٹی میں کوئلے
جھونکتے رہنا تھا
اُس کے بدلے
اُس کو اُجرت بھی
زیادہ ملتی تھی
اور خوراک بھی خصوصی
اور ایک وقت میں چار
گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جاتا تھا
لیکن شاید اس کو یہ
نہیں معلوم
کہ خود کشی کے اس
معاہدے پر
اُس نے
بقائمی ہوش و حواس
دستخط کئے ہیں
اس بھٹی کا ایندھن
دَراصل وہ خود ہے
فلاور
شو
پُھول ہی پُھول ہیں
تا بہ حدِ نظر
آتشی، آسمانی، گُلابی
کاسنی، چمپئی،ارغوانی
کتنے مشتاق ہاتھوں نے،
کتنی،
یاسمین یاسمن اُنگلیوں
نے
اِ س طرح سے
سجایا،سنواراانھیں
اور پھر دادِ اہلِ نظر
اور تحسینِ چشمِ نگاراں ملی
یہ نہ سوچا کسی نے،کہ
گُل نے
شاخ سے ٹُوٹ کر
حسن کے اس سفر میں
کِس طرح کی اذیت
اُٹھائی
ہم کہ شاعر ہیںِ__نوکِ
قلم سے
فِکر کے پُھول مہکا
رہے ہیں ،
اپنی سوچوں کی تابندگی
سے
عارضِ وقت چمکا رہے
ہیں
ایک وقت ایسا بھی ا
رہا ہے
جب کہ دیوان اپنے
آبنوس اور مرمر کے
شیلفوں میں پتھر کی مانند سج جائیں گے
یاسمن یاسمن اُنگلیاں
شعر کے لمس سے بے خبر
ان کو ترتیب دیں گی
نرگسی نرگسی کتنی
آنکھیں
حُسنِ ترتیب کی داد
دیں گی
اس حقیقت سے نا آشنا
حُسنِ تخلیق کے اس سفر
میں
ہم نے کیسی اذیت
اُٹھائی
عیادت
پت جھڑ کے موسم میں
تجھ کو
کون سے پُھول کا تحفہ
بھیجوں
میر ا آنگن خالی ہے
لیکن میری آنکھوں میں
نیک دُعاؤں کی شبنم ہے
شبنم کا ہرتارہ
تیراآنچل تھام کے کہتا
ہے
خوشبو،گیت ہَوا،پانی
اور رنگ کو چاہنے والی لڑکی
جلدی سے اچھی ہو جا
صبحِ بہار کی آنکھیں
کب سے
تیری نرم ہنسی کا رستہ
دیکھ رہی ہیں
آئینہ
لڑکی سرکوجُھکائے
بیٹھی
کافی کے پیالے میں
چمچہ ہلا رہی ہے
لڑکا،حیرت اور محبت کی
شدت سے پاگل
لانبی پلکوں کے لرزیدہ
سایوں کو
اپنی آنکھ سے چُوم رہا
ہے
دونوں میری نظر بچا کر
اک دُوجے کو دیکھتے
ہیں ہنس دیتے ہیں
میں دونوں سے دُور
دریچے کے نزدیک
اپنی ہتھیلی پراپنا
چہرہ رکھے
کھڑکی سے باہر کا منظر
دیکھ رہی ہوں
سوچ رہی ہوں
گئے دنوں میں ہم بھی
یونہی ہنستے تھ
ضِد
میں کیوں اُس کو فون کروں
اُس کے بھی تو علم میں
ہو گا
کل شب
موسم کی پہلی بارش تھی
صرف
ایک لڑکی
اپنے سر د کمرے میں
میں اُداس بیٹھی ہوں
نیم وا دریچوں سے
کاش میرے پَر ہوتے
نَم ہوائیں آتی ہیں
تیرے پاس اُڑ آتی
میرے جسم کو چُھو کر
کاش میں ہَوا ہوتی
آگ سی لگاتی ہیں
تجھ کو چُھو کے لوٹ
آتی
تیرا نام لے لے کر
میں نہیں مگر کُچھ بھی
مُجھ کو گدگداتی ہیں
سنگ دِل رواجوں کے
آہنی حصاروں میں
عمر قید کی ملزم
صرف ایک لڑکی ہوں
تیری ہم رقص کے نام
رقص کرتے ہوئے
جس کے شانوں پہ تُو نے
ابھی سر رکھا ہے
کبھی میں بھی اُس کی
پناہوں میں تھی
فرق یہ ہے کہ میں
رات سے قبل تنہا ہُوئی
اور تُو صبح تک
اس فریبِ تحفظ میں
کھوئی رہے گی
شہرِچارہ
گراں
پس شہرِ چارہ گراں
نرم آبی قباؤں میں
ملبوس کُچھ نوجواں
اپنے اپنے فرائض کی
تکمیل میں
مثلِ موجِ صبا ،پھر
رہے ہیں
آنسوؤں کا مداوا
دُکھوں کی مسیحائی
زخمِ ہُنر کی پذیرائی
کرتے ہُوئے
پُھول چہرہ،فرشتہ
قبا،زندگی رنگ
،شبنم زباں ،چاندنی لمس،عیسیٰ نفس چارہ گر
مجھ کو بے طرح اچھے لگے
جی یہ چاہا کہ اُن کے
لیے کُچھ لکھوں
اُن کے چہروں کی یہ
مہرباں چاندنی
اُن کی آنکھوں کی یہ
نرم دل روشنی
ان کے لہجوں کی غم
خوار تابندگی
ان کے ہونٹوں کی دلدار
پیاری ہنسی
یوں ہی روشن رہے،
جگمگاتی رہے
زندگی اُن کے ہمراہ
ہنستی رہے
یہ دُعا میرے ہونٹوں
پہ لیکن اُدھوری رہی
دفعتاً جانے کس سمت سے
ایک انساں کا زخمی بدن
ا گیا
خُوں میں ڈوبا
ہُوا،کرب آلُود چہرہ
مرے ذہن پر اس طرح چھا
گیا
میری پلکوں کی مانند
لہجہ بھی نم ہو گیا
گفتگو کی قبا بھی لُہو
رنگ ہونے لگی
مگر جو مسیحا مِرے
سامنے تھا
کھڑا مُسکراتا رہا
سلسلہ اُس کی باتوں کا
چلتا رہا
اُس کی آنکھوں میں
ہلکا سا بھی دُکھ نہ تھا
بلکہ وہ
میری افسردگی دیکھ کر
ہنس دیا
’’بی بی ! اس طرح تو روز
ہوتا ہے
کوئی کہاں تک پریشان
ہو
کون اوروں کے دُکھ مول
لے
روز کی بات ہے
چھوڑیے بھی اسے۔آئیں
باتیں کریں
میری آنکھیں تقدس کے
پیکر کو حیرت سے تکنے لگیں
میں فرشتوں کے پرسے
تراشے ہُوئے
نرم آبی لبادے میں
ملبوس انسان کو دیکھتی رہ گئی
مجھ کو لوگوں نے
سمجھایا۔۔’’دیکھو۔۔سُنو۔۔
یہ مسیحا ہیں ،ان کے
لیے موت بھی
عام سا واقعہ ہے،قیامت
نہیں
چارہ سازی کی منزل
مبارک انھیں
پر یہاں تک یہ جس راہ
سے آئے ہیں
اُس میں ،ہر موڑ پر
ان کے دِل کے پیروں
تلے آئے ہیں
نرم حسّاس دل کے
عوض،چارہ سازی خریدی گئی
اور یہ قیمت بہت ہی
بڑی ہے۔۔بہت ہی بڑی
سحاب تھا کہ ستارہ،
گریز پا ہی لگا
وہ اپنی ذات کے ہر رنگ
میں ہَوا ہی لگا
میں ایسے شخص کی
معصومیت پہ کیا لکھوں
جو مجھ کو اپنی خطاؤں
میں بھی بھلا ہی لگا
زباں سے چُپ ہے مگر
آنکھ بات کرتی ہے
نظر اُٹھائی ہے جب بھی
تو بولتا ہی لگا
جو خواب دینے پہ قادر
تھا، میری نظروں میں
عذاب دیتے ہُوئے بھی
مجھے خدا ہی لگا
نہ میرے لُطف پہ حیراں
نہ اپنی اُلجھن پر
مُجھے یہ شخص تو ہر
شخص سے جُدا ہی لگا
شہر
آشوب
اپنی بود و باش نہ
پُوچھو
ہم سب بے توقیر ہوئے
کون گریباں چاک نہیں
ہے
ہم ہوئے تم ہوئے میر
ہوئے
سہمی سہمی دیواروں میں
سایوں جیسے رہتے ہیں
اس گھر میں آسیب بسا
ہے
عامل کامل کہتے ہیں
دیکھنے والوں نے دیکھا
ہے
اک شب جب شب خون پڑا
گلیوں میں بارود کی
بُو تھی
کلیوں پر سب خون پڑا
اب کے غیر نہیں تھا
کوئی
گھر والے دشمن نکلے
جن کو برسوں دودھ
پلایا
ان ناگوں کے پھن نکلے
رکھوالوں کی نیت بدلی
گھر کے مالک بن بیٹھے
جو غاصب تھے محسن کُش
تھے
صوفی سالک بن بیٹھے
جو آواز جہاں سے اُٹھی
اس پر تیر تبر برسے
ایسے ہونٹ سلے لوگوں
کے
سرگوشی کو بھی ترسے
گلی گلی میں بندی خانے
چوک چوک میں مقتل ہیں
جلادوں سے بھی بڑھ چڑھ
کر
منصف وحشی پاگل ہیں
کتنے بے گنہوں کے گلے
پر
روز کمندیں پڑتی ہیں
بُوڑھے بچے گھروں سے
غائب
بیبیاں جیل میں سڑتی
ہیں
اس کے ناخن کھینچ لئے
ہیں
اس کے بدن کو داغ دیا
گھر گھر قبریں در در
لاشیں
بجھا ہر ایک چراغ دیا
ماؤں کے ہونٹوں پر ہیں
نوحے
اور بہنیں کُرلاتی ہیں
رات کی تاریکی میں
ہوائیں
کیسے سندیسے لاتی ہیں
قاتل اور درباری اس کے
اپنی ہٹ پر قائم ہیں
ہم سب چور لُٹیرے ڈاکو
ہم سب کے سب مجرم ہیں
ہمیں میں کوئی صبح
سویرے
کھیت میں مُردہ پایا
گیا
ہمیں سا دہشت گرد تھا
کوئی
چھُپ کے جسے دفنایا
گیا
سارا شہر ہے مُردہ
خانہ
کون اس بھید کو جانے
گا
ہم سارے لا وارث لاشیں
کون ہمیں پہچانے گا
شکست
بارہا مجھ سے کہا دل نے
کہ اے شعبدہ گر
تو کہ الفاظ سے اصنام
گری کرتا ہے
کبھی اس حسنِ دل آرا
کی بھی تصویر بنا
جو تری سوچ کے خاکوں
میں لہو بھرتا ہے
بارہا دل نے یہ آواز
سنی اور چاہا
مان لوں مجھ سے جو
وجدان میرا کہتا ہے
لیکن اس عجز سے ہارا
میرے فن کا جادو
چاند کو چاند سے بڑھ
کر کوئی کیا کہتا ہے
شرط
ترا کہنا ہے
’’مجھ کو خالقِ کون و
مکاں نے
کِتنی ڈھیروں نعمتیں
دی ہیں
مری آنکھوں میں گہری
شام کا دامن کشاں جادو
مری باتوں میں اُجلے
موسموں کی گُل فشاں خوشبو
مرے لہجے کی نرمی موجۂ
گل نے تراشی ہے
مرے الفاظ پر قوسِ قزح
کی رنگ پاشی ہے
مرے ہونٹوں میں ڈیزی
کے گلابی پُھولوں کی رنگت
مرے رُخسار پر گلنار
شاموں کی جواں حِدّت
مرے ہاتھوں میں
پنکھڑیوں کی شبنم لمس نرمی ہے
مرے بالوں میں برساتوں
کی راتیں اپنا رستہ بُھول جاتی ہیں
میں جب دھیمے سُروں
میں گیت گاتی ہوں
تو ساحل کی ہوائیں
اَدھ کھلے ہونٹوں میں
،پیاسے گیت لے کر
سایہ گُل میں سمٹ کر
بیٹھ جاتی ہیں
مرا فن سوچ کو تصویر
دیتا ہے
میں حرفوں کو نیا چہرہ
تو چہروں کو حروفِ
نوکا رشتہ نذر کرتی ہوں
زباں تخلیق کرتی ہوں ۔‘‘
ترا کہنا مجھے تسلیم
ہے
میں مانتی ہوں
اُس نے میری ذات کو بے
حد نوازا ہے
خدائے برگ و گل کے
سامنے
میں بھی دُعا میں ہوں
،سراپا شکر ہوں
اُس نے مجھے اِتنا بہت
کُچھ دے دیا، لیکن
تجھے دے دے تو میں
جانوں
سمندر
کی بیٹی
وسعتوں سے سدا اُس کا
ناتا رہا تھا
کُھلے آسمانوں
کُھلے پانیوں
اور کُھلے بازؤوں سے
ہمیشہ محبت رہی تھی
ہَوا،آگ،پانی،کرن اور
خوشبو
وہ سارے عناصر جو
پھیلیں تو ہر دو جہاں اپنی بانہوں میں لے لیں
سد ا اُس کے ساتھی رہے
تھے
وہ جنگل کی اَلھڑ ہوا
کی طرح راستوں کے تعین سے آزاد تھی
وہ تو تخلیقِ فطرت تھی
پر خُوبصورت سے شوکیس
میں قید کر دی گئی تھی
قفس رنگ ماحول کے حبس
میں سانس روکے ہُوئے تھی
کہ اِک دم جو تازہ
ہَوا کی طرح
اِک نویدِ سفر آئی۔تو
ایک لمحے کو آزاد ہونے
کی وحشی تمنا میں ۔وہ
ایک بچے کی صُورت
مچلنے لگی
شہر سے دُور
ماں کی محبت کی مانند
بے لوث،بے انتہا
مہرباں دوست اُس کے لیے منتظر تھا
نرم موجیں کُھلے
بازؤوں اس کی جانب بڑھیں
اور وہ بھی ہوا کی طرح
بھاگتی ہی گئی
اور پھر چند لمحوں میں
دُنیا نے دیکھا
سمندر کی بیٹی سمندر
کی بانہوں میں سمٹی ہُوئی تھی
سُکھ
کے موسم کا دُکھ
آنے والی رُتوں کے
آنچل میں
کوئی ساعت سعید کیا ہو
گی
رات کے وقت رنگ کیا
پہنوں
روشنی کی کلید کیا ہو
گی
جبکہ بادل کی اوٹ لازم
ہو
جانتی ہوں ،کہ دید کیا
ہو گی
زردموسم کی خشک ٹہنی
سے
کونپلوں کی اُمید کیا
ہو گی
چاند کے پاس بھی
سُنانے کو
اب کے کوئی نوید کیا
ہو گی
گُل نہ ہو گا تو جشنِ
خوشبو کیا
تم نہ ہو گے تو عید
کیا ہو گی
سفر
بارش کا اِکقطرہ آکر
میری پلک سے اُلجھا
اور آنکھوں میں ڈُوب
گیا
سرشاری
ہاں ، یہ موسم تو وہ
ہے
کہ جس میں نظر چُپ رہے
اور بدن بات کرتا رہے
اُس کے ہاتھوں کے شبنم
پیالوں میں
چہرہ میرا
پھول کی طرح ہلکورے
لیتا رہے
پنکھڑی پنکھڑی
اُس کے بوسوں کی بارش
میں
پیہم نِکھرتی رہے
زندگی اس جنوں خیز
بارش کے شانوں پر سر کو رکھے
رقص کرتی رہے
سرِ
شاخِ گُل
وہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دُور ، بہت
دُور ہے، مگر اُس کی
لطیف چھاؤں
سجل، نرم چاندنی کی
طرح
مرے وجود،مری شخصیت پہ
چھائی ہے
وہ ماں کی بانہوں کی
مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مُجھ
کو سمیٹ لیتی ہیں
وہ ایک مشفقِ دیرینہ
کی دُعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں
کی نرم سرگوشی
کلام کرنے کا لہجہ
مُجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی حسیں
مُسکراہٹوں کی طرح
شفق عذار،دھنک پیرہن
شگوفے،جو
مُجھے زمیں سے محبت کا
درس دیتے ہیں
اُداسیوں کی کسی
جانگذار ساعت میں
میں اُس کی شاخ پہ سر
رکھ کے جب بھی روئی ہوں
تو میری پلکوں نے
محسوس کر لیا فوراً
بہت ہی نرم سی اِک
پنکھڑی کا شیریں لمس
(نِمی تھی آنکھ میں لیکن
مَیں مُسکرائی ہوں )
کڑی دھوپ ہے
تو پھر برگ برگ ہے
شبنم
تپاں ہوں لہجے
تو پھر پُھول پُھول ہے
ریشم
ہرے ہوں زخم
تو سب کونپلوں کا رَس
مرہم!
وہ ایک خوشبو
جو میرے وجود کے اندر
صداقتوں کی طرح زینہ
زینہ اُتری ہے
کرن کرن مری سوچوں میں
جگمگاتی ہے
مُجھے قبول،کہ وجداں
نہیں یہ چاند مرا یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے
مگر
وہ ایک جھونکا
جو اُس شہرِ گُل سے
آیا تھا
اَب اُس کے ساتھ بہت
دُور جاچکی ہُوں میں
میں ایک ننھی سی بچی
ہوں ،اور خموشی سے
بس اُس کی اُنگلیاں
تھامے،اور آنکھیں بند کیے
جہاں جہاں لیے جاتا
ہے،جا رہی ہوں میں
وہ سایہ دار شجر
جو دن میں میرے لیے
ماں کا نرم آنچل ہے
وہ رات میں ،مرے آنگن
پہ ٹھہرنے والا
شفیق ،نرم زباں
،مہرباں بادل ہے
مرے دریچوں میں جب
چاندنی نہیں آتی
جو بے چراغ کوئی شب
اُترنے لگتی ہے
تو میری آنکھیں کرن کے
شجر کو سوچتی ہیں
دبیز پردے نگاہوں سے
ہٹنے لگتے ہیں
ہزار چاند ،سرِشاخ گُل
اُبھرتے ہیں
سالگرہ
یہی وہ دن تھا
جب آج سے چار سال پہلے
اسی روش پر،بنفشی
بیلوں کے نرم سائے میں ہم ملے تھے
وہ لمحہ جبکہ ہمارے
جسموں کو اپنے ہونے کا
حیرت آمیز،راحت
افزا،نشاطِ اثبات مل سکا تھا
ہماری رُوحوں نے اپنا
اپنا ،نیا سنہری جنم لیا تھا
وہ ایک لمحہ
ہماری روحوں کو اپنے
دستِ جمال سے چُھو رہا ہے اب تک نظر کو شاداب کر رہا ہے
بدن کو مہتاب کر رہا
ہے
ہم اس کے مقروض ہو چکے
ہیں
سو آؤ اب اس عظیم لمحے
کے نام کوئی دُعا کریں ہم
اُٹھائیں ہاتھ
اور محبتوں کی تمام تر
شدتوں سے چاہیں
کہ جب بھی چھبیس جون
کا آفتاب نکلے
تو ہم اُسے ایک ساتھ
دیکھیں
پروین شاکر
ساتھ
کتنی دیر تک
املتاس کے پیڑ کے نیچے
بیٹھ کے ہم نے باتیں
کیں
کچھ یاد نہیں
بس اتنا اندازہ ہے
چاند ہماری پشت سے ہو
کر
آنکھوں تک آ پہنچا
زود
پشیماں
گہری بھوری آنکھوں
والا اک شہزادہ
دور دیس سے
چمکیلے مشکی گھوڑے پر
ہوا سے باتیں کرتا
جَگر جَگر کرتی تلوار
سے جنگل کاٹتا
دروازے سے لپٹی بیلیں
پرے ہٹاتا
جنگل کی بانہوں میں
جکڑے محل کے ہاتھ چھڑاتا
جب اندر آیا تو دیکھا
شہزادی کے جسم کی ساری
سوئیاں زنگ آلودہ تھیں
رستہ دیکھنے والی
آنکھیں سارے شکوے بھول چکی تھیں
زمیں
پہ جب کسی نئے وجُود نے جنم لیا
زمیں پہ جب کسی نئے
وجود نے جنم لیا
یقین ا گیا
خدا ابھی بشر سے
بدگماں نہیں
مگر نئی کلی کا رنگ
دیکھ کر
یہ واہمہ بھی جاگ
اُٹھا
خدا بہار سے خفا ہے
کیا؟
خدا خفا ہو یا نہ ہو
ہَوا ضرور بدگمان ہے
یہ زرد رُو،دریدہ جاں
یہ پور پور استخواں
اماوسوں کی رات میں نہ
لوریاں ،نہ پالنا
خزاں کے ہاتھ بچ سکیں
نہ شوخیاں نہ بچپنا
نہ ان کا ذہن آگہی کے
لمس کا شریک ہے
نہ ان کی آنکھ روشنی
کے ذائقے سے آشنا
ضِدوں کا وقت اور خود
کو روکنا
شرارتوں کی عُمر اور
سوچنا
یہ سراُٹھائیں
کیا،انھیں کسی پہ مان ہی نہیں
کسی کا پیار ان کے
حوصلوں کی جان ہی نہیں
ہَوائیں خوشبوؤں کے
تحفے دلدلوں کے پار لے گئیں
گھٹائیں بارشوں کے سب
سندیس ندیوں کو دے گئیں
غزال اب بھی تشنہ کام
ہی رہے
ہَوا سے صرف نامہ و
پیام ہی رہے
وہی ہے تشنگی،وہی
رُتوں کی کم نگاہیاں
وہی اکیلا پن،وہی سمے
کی کج ادائیاں
ہَوا میں طائرانِ آہنی
کا وصل(اگرچہ)خُوب ہے
(خلا سے لے کر چاند تک
زمیں کہاں غروب ہے؟)
مگر زمیں کے اپنے
چاند،آج بھی گہن میں ہیں
جبیں کے داغ کیا
دُھلیں ،سیاہیاں کرن میں ہیں
صبا نفس حیات کا جمال
بے نمو رہا!
ہوا گزیدہ پُھول کا
لباس بے رفو رہا
ہمکتے کِھلکھلاتے بچے
اب خیال و خواب ہو گئے
ہمارے اگلے
اپنی بے بضاعتی میں
کیا عذاب گئے
یہ شب نصیب
جن کو بُھوک نے جنم
دیا ہے
تشنگی نے دیکھ بھال کی
یہ کھوکھلی جڑیں
نئی رُتوں میں
شاخسارِجاں کو
کیسی کونپلیں عطا کریں
گی؟
(کرسکیں گی؟۔۔یہ بھی
سوچنے کی بات ہے)
شدید موسموں پہ پلنے
والے پیڑ
کتنے اُونچے جائیں گے؟
یہ بے ثمر درخت
اپنی چھاؤں کتنی دُور
لائیں گے؟
جڑوں کی بانجھ کھوکھ
میں نہ رنگ ہے ،نہ رُوپ ہے
نظر کی آخری حدوں تلک
فضا میں صرف دُھوپ ہے!
نوادرات ،سیم و زر،گئے
زمانوں کی کہانیاں بھی
محترم ہیں
ان کو جمع کرنا نیک
کام ہے
مگر یہ بچے زندگی ہیں
میوزیم کے افسران
زندگی جمع کریں
اِسے پناہ دیں
اسے نمود دیں
اسے غرور دیں
یہ بے اماں ۔۔یہ بے
مکاں
یہ کم لباس، کم زباں
انھیں بھی راستوں میں
نرم چھاؤں کی نوید ہو
ہرے بھرے لباس میں
کبھی تو ان کی عید ہو
روزنا
جرمن نژاد
روزنا جرمن نژاد
اس کے ہونٹوں میں
حرارت
جسم میں طوفاں
برہنہ پنڈلیوں میں آگ
نیت میں فساد
رنگ و نسل و قامت و قد
سرزمین و دین کے سب
تفرقوں سے بے نیاز
ہر کسی سے بے تکلف،
ایک حد تک دلنواز
وہ سبھی کی ہم پیالہ،
ہم نفس
عمر شاید بیس سے اوپر
برس یا دو برس
روزنا جرمن نژاد
اور دیکھنے والوں میں
سب
اس کی آسودہ نگاہی، بے
محابا میگساری کے سبب
پیکر تسلیم و سر تا پا
طلب
ان میں ہر اک کی متاع
کل
بہائے التفات نیم شب
روزنا جرمن نژاد
اور اس کا دل۔ ۔ ۔
زخموں سے چُور
اپنے ہمدردوں سے
ہمسایوں سے دور
گھرکی دیواریں نہ
دیواروں کے سایوں کا سرور
جنگ کے آتش کدے کا رزق
کب سے بن چکا
ہر آہنی بازو کا خوں
ہر چاند سے چہرے کا
نور
خلوتیں خاموش و ویراں
اور دہلیز پر اک مضطرب
مرمر کا بت
ایستا وہ ہے بچشم
ناصبور
کون ہے اپنوں میں باقی
تو سن راہ طلب کا
شہسوار
ہر دریچے کا مقدر،
انتظار
اجنبی مہمان کی دستک
خواب
شاید خواب کی تعبیر
بھی
چند لمحوں کی رفاقت
جاوداں بھی
حسرت تعمیر بھی
الوداعی شام، آنسو،
عہد و پیماں
مضطرب صیاد بھی، نخچیر
بھی
کون کر سکتا ہے ورنہ
ہجر کے کالے سمندر کو عبور
اجنبی مہماں کا اک حرف
فوار
نومید چاہت کا غرور
روزنا اب اجنبی کے ملک
میں خود اجنبی
پھر بھی چہرے پر اداسی
ہے نہ آنکھوں میں تھکن
اجنبی کا ملک جس میں
چار سو
تاریکیاں ہی خیمہ زن
سب کے سایوں سے بدن
روزنا مرمر کا بت
اور اس کے گرد
ناچتے سائے بہت
سب کے ہونٹوں پر وہی
حرف وفا
ایک ہی سب کی صدا
وہ سبھی کی ہم پیالہ،
ہم نفس
عمر شاید بیس سے اوپر
برس یا دو برس
اس کی آنکھوں میں تجسس
اور بس
رقص
آئینہ سے فرش پر
ٹوٹے بدن کا عکس،
آدھے چاند کی صورت لرزتا ہے
ہوا کے وائلن کی نرم موسیقی
خنک تاریکیوں میں
چاہنے والوں کی سرگوشی کی صورت بہہ رہی ہے
اور ہجومِ ناشناساں سے پرے
نسبتاً کم بولتی تنہائی میں
اجنبی ساتھی نے ، میرے دل کی ویرانی کا ماتھا چُوم
کر
مجھ کو یوں تھاما ہُوا ہے
جیسے میرے سارے دُکھ اب اُس کے شانوں کے لیے ہیں
دونوں آنکھیں بند کر کے
میں نے بھی اِن بازؤوں پر تھک کے سریوں رکھ دیا ہے
جیسے غربت میں اچانک چھاؤں پاکر راہ گم گشتہ مسافر
پیڑ سے سر ٹیک دے
خواب صورت روشنی
اور ساز کی دلدار لے
اُس کی سانسوں سے گُزر کر
میرے خوں کی گردشوں میں سبز تارے بو رہی ہے
رات کی آنکھوں کے ڈورے بھی گُلابی ہو رہے ہیں
اُس کے سینے سے لگی
میں کنول کے پُھول کی وارفتگی سے
سر خوشی کی جھیل پر آہستہ آہستہ قدم یوں رکھ رہی
ہوں
جیسے میرے پاؤں کچّی نیندوں میں ہوں اور ذرا بھاری
قدم رکھے تو پانی ٹوٹ جائے گا
شکستہ روح پر سے غم کے سارے پیرہن
ایک ایک کر کے اُترتے جا رہے ہیں
لمحہ لمحہ
میں زمیں سے دُور ہوتی جا رہی ہوں
اب ہَوا میں پاؤں ہیں
اب بادلوں پر
اب ستاروں کے قریب
اب ستاروں سے بھی اُوپر
اور اُوپر…۔۔اور اُوپر…۔۔اور
No comments:
Post a Comment