ب ۔ کی
کہاوتیں
( ۴۵) بلی کے بھاگوں چھینکا
ٹوٹا :
بھاگوں یعنی خوش قسمتی سے۔ چھینکا اُس
رَسّی کی جھولی کو کہتے ہیں جس میں سالن یا دودھ کا برتن رکھ کر
باورچی خانہ کی چھت سے لٹکا دیتے ہیں تاکہ چوہوں اور بلی سے حفاظت
رہے۔ بلّی کی خوش قسمتی سے اگر چھینکا ٹوٹ جائے تو اس کے وارے نیارے ہیں۔ کہاوت کا
مطلب ہے کہ حسن اتفاق سے کام بن ہی گیا۔
( ۴۶ ) بلی چوہے خدا کے واسطے نہیں
مارتی :
یعنی ہر
شخص اپنی غرض کا بندہ ہوتا ہے اور اسی مقصد سے کام کرتا ہے جیسے بلی چوہوں
کا شکار اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کرتی ہے،ا َ للہ واسطے نہیں کرتی۔
( ۴۷) بلی سے چھیچھڑوں کی
رکھوالی :
ظاہر ہے کہ بلّی سے چھیچھڑوں کی رکھوالی کروانے
کا کیا انجام ہو گا۔ اگر کسی شخص کا ذاتی مفاد کسی کام کے نہ ہونے سے وابستہ ہے تو
اسے اُس کام کا ذمہ دار بنا دینا حماقت ہے۔ایسے موقع پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۴۸ ) بلی جب گرتی ہے تو پنجوں کے
بل :
بلّی کو اُونچائی سے پھینکئے تو وہ ہمیشہ
پنجوں کے بل گرتی ہے اور چوٹ سے بچ جاتی ہے۔ اسی طرح انسان بھی نقصان کی
امکانی صورت میں ہمیشہ ایسے ذرائع اختیار کرتا ہے جس میں اس کو کم سے
کم نقصان اٹھانا پڑے۔
No comments:
Post a Comment