بن ٹھن کے رات آتی ہے ہر رات اس کے پاس
کہتے ہیں پھر بھی لوگ کنوارا ہے آسماں
اس کھیل میں بھی دیکھنا ہو گی ہمیں ہی مات
بازی کبھی زمین سے ہارا ہے آسماں
ٹوٹے ہوئے دلوں پہ اسی ناز سے چلو
سب جانتے ہیں آج تمہارا ہے آسماں
کس طرح روشنی کا چلائیں گے یہ نظام
تاروں کی تربیت کا ادارہ ہے آسماں
دل اس کو دیکھتے ہی مچلتے ہیں اسطرح
اڑتا کوئی خلا میں غبارہ ہے آسماں
سیرابیوں کا ایسا نظارہ ہے آسماں
ہوں اس لئے اب اس پہ دل و جان سے فدا
میں نے زمین کے لئے ہارا ہے آسماں
یہ صاحبِ جمال ہے کیا صاحبِ کمال
آنکھوں میں اس طرح سے اتارا ہے آسماں
دیکھا نہیں کسی نے بھی جا کر قریب سے
شاید اسی لئے ہمیں پیارا ہے آسماں
اس حسن و دلکشی کا سبب صرف تو نہیں
ہم نے بھی آنسوؤں سے نکھارا ہے آسماں
سورج کو کیسے سونپ دیں اب اس کی باگ ڈور
تاروں نے اپنے خوں سے سنوارا ہے آسماں
مایوس ہوکے دیکھتے ہیں سب اسی طرف
ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ہے آسماں
No comments:
Post a Comment