سورۃ
المؤمن
مکی سورت ہے۔
یہ پچاسی آیتوں اور نور کوع پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک ’’مرد مؤمن‘‘ کی حق گوئی و بے باکی کا تذکرہ ہے نیز اللہ کے لئے غافر
(گناہوں کو معاف کرنے والا) کی صفت کا اطلاق کیا گیا ہے اس لئے ’’سورہ الغافر‘‘ بھی کہا گیا ہے۔
زبردست قوت
اور علم کے مالک اللہ کا یہ کلام ہے وہ گناہوں کو معاف کرنے والا توبہ قبول کرنے
والا، سخت عذاب دینے والا ہے اس کے سوا کوئی معبودنہیں۔ اسی کی طرف سب لوٹ کر
جائیں گے۔ اللہ کی آیات میں جھگڑنے والے کافر ہیں۔ عیش و عشرت کے وسائل کی فراوانی
اور دنیا میں آزادنہ نقل و حرکت سے آپ دھوکہ میں نہ پڑجانا۔ قوم نوح اور ان سے
پہلوں اور پچھلوںنے بھی انبیاء کو جھٹلایا۔ انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی انہیں
جھگڑا کرکے حق کی آواز دبانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوکر ہمارے عذاب کے مستحق قرار
پائے۔ حاملین عرش اللہ کے مقرب فرشتے اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول رہتے ہیں اور
اہل ایمان اور ان کے متعلقین کے لئے استغفار و دعاء کرتے رہتے ہیں۔ اے ہمارے رب
آپ کی رحمت اور آپ کا علم ہر چیز پر وسیع ہے آپ کی تابعداری کرکے توبہ کرنے
والوں کی مغفرت فرما کر انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لیجئے۔ انہیں اپنے خاندان کے
نیکوکار افراد سمیت دائمی جنتوں میں داخل کرکے ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات عطا
فرمادیجئے۔ کافر جہنم میں پڑے ہوئے دوبارہ زندہ ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے
گناہوں کا اعتراف بھی کریں گے مگر جہنم سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ قیامت
کے دن اللہ کی حکمرانی کے مقابلہ میں کوئی جھوٹا دعوے دار بھی پیدا نہیں ہوگا۔
اکیلے اللہ ہی ہر چیز پر غالب ہوںگے۔ بغیر کسی ظلم و زیادتی کے ہر شخص کو اس کے
اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔ فرعون، ہامان اور قارون جو کہ اقتدار اعلیٰ،
انتظامیہ اور سرمایہ داری کے نمائندے ہیں ان کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام
ہماری آیات اور معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے۔ مگر انہوںنے ماننے کی بجائے قتل و
غارت گری کی مدد سے مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور موسیٰ علیہ السلام کو بھی
قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور ’’کلابی تقویٰ‘‘ کا مظاہرہ
کرتے ہوئے کہنے لگے کہ موسیٰ دراصل لوگوں کا دین بگاڑ رہا ہے اور زمین میں فساد
برپا کر رہا ہے اس لئے ہم اس کے خلاف یہ اقدامات کررہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے
اللہ کی پناہ اور حفاظت طلب کی تو فرعون کے خاندان کا ایک با اثر شخص کھڑا ہوگیا
اس نے لسانی، قومی اور سیاسی تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی حمایت کا واضح اعلان کردیا۔
اس کے ایمان
افروز اور طاغوت شکن گفتگو کو قرآن کریم نے آیت ۲۸
سے لیکر آیت ۴۵ تک نہایت تفصیل کے ساتھ ذکر کی ہے، جس میں اس نے موسیٰ
علیہ السلام کے حق و صداقت کا اعتراف کیا۔ امم ماضیہ کے اپنے انبیاء کا انکار اور
ان پر اللہ کے عذاب کا ذکر کیا۔ قیامت کے دن اللہ کی پکڑ سے ڈرایا اور بتایا کہ
وہاں پر گناہوں کی سزا مل کر رہے گی، جبکہ ایمان اور اعمال صالحہ والے مرد و عورت
جنت میں بے حساب نعمتوں کے مزے لوٹیں گے۔ آخر میں اس نے نہایت حسرت و افسوس کے
ساتھ کہا کہ تم آج میری بات نہیں مان رہے ہو، مگر عنقریب میری باتیں تمہیں یاد
آئیں گی، مگر اس وقت کی ندامت تمہارے کام نہ آسکے گی۔ میں اپنا معاملہ اللہ کے
حوالہ کررہا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم و ستم سے بچا کر فرعون اور اس کے
تمام لائو لشکر کو بدترین عذاب میں مبتلا کردیا۔ روزانہ صبح و شام جہنم کی آگ ان
کی قبروں میں پیش کی جاتی ہے۔ قیامت کے دن سخت ترین عذاب چکھنے کے لئے انہیں جہنم
میں داخل کردیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن مجرموں کا باہمی جھگڑا اور اپنے جرائم کی
ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی مذموم حرکت کو ذکر کرکے بتایا کہ وہ ایک آدھ دن کے
لئے ہی جہنم کے عذاب میں تخفیف کی درخواست کریں گے، مگر وہ بھی پوری نہیں کی جائے
گی۔ اپنے بندوں کی مدد کا برحق وعدہ اور ظالموں کے لئے لعنت اور بدترین عذاب کی
خبر دیتے ہوئے آگے فرمایا کہ ’’بعث بعدالموت‘‘ کے منکرین یہ
کیوں نہیں سوچتے کہ آسمان و زمین کی تخلیق کا مشکل ترین کام جس اللہ نے کرلیا اس
کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہوگا۔ جس طرح بینا اور نابینا برابر
نہیں اسی طرح نیک و بد اور مؤمن و کافر بھی برابر نہیں ہوسکتے۔
ہر مشکل میں
اللہ ہی کو پکارنا چاہئے جو اللہ سے دعا مانگنے سے پہلوتہی کرتا ہے وہ متکبر اور
اسے انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں جانا پڑے گا۔ پھر دن رات کے آنے جانے
اور آسمان و زمین کی تعمیر میں غور و فکر کی دعوت دیکر انسانی تخلیق کا بیان شروع
کردیا کہ انسان کو قدرت کا بہترین اور خوبصورت شاہکار بنایا گیا ہے۔ اسے حسین پیکر
میں تبدیل ہونے کے لئے جن تخلیقی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ان کا تذکرہ اور پھر
زندگی اور موت کے اللہ کے قبضہ میں ہونے کا بیان ہے، پھر بتایا ہے کہ اللہ کی
آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے اور قرآن کا انکار کرنے والوں کو طوق ڈال کر بیڑیوں
اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر جہنم میں گھسیٹا جائے گا اور ان کے غرور و تکبر کی بناء
پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کو ان کا ٹھکانہ قرار دے دیا جائے گا۔ اس کے بعد بتایا
گیا کہ انبیاء و رسل آپ سے پہلے بھی آتے رہے ہیں۔ مگر ایمان سب پر لانا ضروری ہے
کوئی رسول اپنے طور پر کبھی بھی نشانی نہیں لایا کرتا اور پھر انسان اپنے نواح و
اطراف میں اگر غور کرے تو پوری کائنات نشانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جب ہمارا عذاب یہ
لوگ دیکھتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہیں، لیکن ’’حالتِ نزع‘‘ کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور اس وقت
کافروں کو اپنا نقصان واضح نظر آنے لگ جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment