کنٹا کنٹے انسانیت کے ٹھیکیداروں کے ایک فراموش کردہ ظلم و غلامی کی داستان
تحریر۔۔۔۔احید حسن
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
یہ 17500ء کی ایک خوشگوار صبح ہے۔افریقہ کے ملک
گیمبیا میں دریائے گیمبیا کے کنارے پہ واقع دیہات جوفورے میں اومورو کنٹے اور بنتا
کنٹے کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے۔علاقے کی روایت کے مطابق اس کا باپ اومورو کنٹے
رات کی تاریکی میں اسے جنگل میں لے جاتا ہے اور دونوں ہاتھوں میں لے کر آسمان کی
طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کنٹا کنٹے۔ وقت گزرتا جاتا ہے۔کنٹا کنٹے قبیلے کی آنکھ کا
تارا بن جاتا ہے۔اس کے بعد اس کا ایک بھای پیدا ہوتا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب امریکا میں یورپی پہنچ چکے ہیں۔اور
نئے براعظم کی آبادکاری کے لیے افریقہ سے غلام خرید کر اور اغوا کر کے دھڑا دھڑ
امریکہ لے جائے جا رہے ہیں۔گیمبیا میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ہر کوئ ایک دوسرے
کو اپنے بچوں،جوانوں اور جوان لڑکیوں کی توبوب یعنی یورپی سفید فاموں سے حفاظت کی
تلقین کر رہا ہے۔خوف کی اتنی فضا قائم ہے کہ لوگ باہر اور ویرانوں میں جانے سے
ڈرتے ہیں۔
یہ 17677ء کا ایک خوشگوار دن ہے۔کنٹا کنٹے سترہ
سال کا ہوچکا ہے۔ یہ سترہ سالہ نوجوان،باپ اومورو کنٹے اور ماں بنتا کنٹے کا جواں
سال بیٹا اپنی دادی کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہے۔اسے نہیں معلوم کہ اسے ہمیشہ کے
لیے اپنوں سے جدا کرنے والے لوگ اس کے دیہات کے بہت قریب آچکے ہیں۔
کنٹا کنٹے اپنے چھوٹے بھائی کے لئے ڈھول بنانے کے
لیے لکڑیاں اکٹھی کرنے قریبی جنگل جاتا ہے۔وہ لکڑیاں اکٹھی کرنے میں مصروف
ہے۔اغواکار گورے اپنے چار ساتھیوں کی مدد اس کے گرد اپنا چنگل مضبوط کرنے میں
مصروف ہیں اور اچانک اس کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگتا
ہے لیکن اس کا محاصرہ کر کے اسے پکڑ لیا جاتا ہے۔اغوا کار اسے پکڑ کر دریائے
گیمبیا کے دہانے اور بحر اوقیانوس کے ساحل کے قریب واقع جزیرے جیمز آئی لینڈ لے
جاتے ہیں جو کہ ان قیدیوں کی امریکا روانگی سے پہلے ایک عارضی قیام گاہ ہے۔
کنٹا کنٹے اور اس کے ساتھی باقی قیدیوں کو برطانوی
بحری جہاز لارڈ لیگونیئر پر سوار کر کے چار مہینے کے سمندری سفر پر امریکا میں
غلامی کی زندگی کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے۔راستے میں ان قیدیوں کے ساتھ جانوروں
والاسلوک ہوتا ہے۔یہ قیدی بری طرح بندھے ہوئے حرکت نہ کر سکنے کے قابل جہاز کے سب
سے نچلے درجے میں موجود ہیں جہاں ان کو آلودہ کھانا ناکافی مقدار میں مہیا کیا
جاتا ہے۔راستے کی ان صعوبتوں کی وجہ سے سو کے لگ بھگ قیدی جان کی بازی ہار جاتے
ہیں جن کی لاشوں کو سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔
کنٹا کنٹے بچ جانے والے ان بد نصیب قیدیوں میں
شامل ہے جن کو امریکا پہنچ کر قیدیوں کی منڈی میری لینڈ میں ورجینیا کے ایک گورے
ماسٹر ویلر کے ہاتھ فروخت کر دیا جاتا ہے۔
ماسٹر ویلر کنٹا کنٹےکو زنجیروں میں جکڑ کر
ورجینیا لے آتا ہے اور اسکا افریقی مسلم نام کنٹا کنٹے تبدیل کر کے اسے ٹوبی کا
نام دیتا ہے۔جسے کنٹا کنٹے مسترد کر دیتا ہے۔اس پرکنٹا کنٹے کو درخت سے باندھ کر
کوڑے مارے جاتے ہیں۔مجبوری میں وہ یہ نام قبول کرتا ہے لیکن اپنی اصل شناخت نہیں
بھولتا۔
دوسری طرف کنٹا کنٹے کے والدین اپنے جواں سال بیٹے
کی گمشدگی پہ غم کی شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔لیکن کنٹا کنٹے کا کوئ پتہ نہیں۔ان کو
نہیں معلوم کہ ان کے بیٹے کو توبوب یاگورے اغوا کر کے دوہزار کلومیٹر دور امریکا
لے گئے ہیں۔
کنٹا کنٹے اس غلامی میں رہا لیکن اس نے اس غلامی
سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔تین بار اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن ناکام
رہا۔چوتھی بار جب وہ بھاگا تو پکڑے جانے پہ اس کے پاؤں کا اگلا حصہ کاٹ دیا گیا
اور آخر اسے اس غلامی سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔اس کی افریقی اور اسلامی شناخت ختم کر
کے اسے زبردستی انگریز عیسائ بنا دیا گیا۔لیکن اس نے اپنی اصل پہچان کبھی فراموش
نہ کی۔
کنٹا کنٹے کی ایک ساتھی غلام بیل ویلر سے شادی کی
گئ جس سے اس کی بیٹی کزی پیدا ہوئ۔ کنٹا کنٹے نے اپنی ساری داستان اپنی بیٹی کو
سنائ۔کزی جب سولہ سال کی ہوئ تو اسے شمالی کیرولینا کے ایک گورے کے ہاتھ بیچ دیا
گیا۔اس کے۔ مالک ٹام لی نے اس کے ساتھ ریپ کیا جس سے ایک بیٹا جارج پیداہوا۔جارج
اپنے مالک کے لیے مرغے لڑاتا جس کی بنیاد پہ اسے چکن جارج کا نام دیا گیا۔کزی نے
اپنی اور اپنے والد کنٹا کنٹے کی ساری داستان چکن جارج کو سنائ۔دوسری طرف بہت لمبے
عرصے بعد کزی کو پتہ چلا کہ اس کی والدہ بیل ویلر کو ایک اور گورے کے ہاتھ بیچ دیا
گیا اور اسکا والد کنٹا کنٹے اسکے غم میں 1822ء میں وفات پاگیا۔جارج کی شادی ایک
اور افریقن غلام لڑکی میتلدا سے ہوئ جس سے ایک بیٹا ٹام مورے پیدا ہوا۔ٹام مورے کی
شادی ایک سیاہ فام غلام لڑکی آئرین سے ہوئ جس سے باقی بچوں کے علاوہ ایک لڑکی
سنتھیا پیدا ہوئ۔سنتھیا کی شادی ایک اور امریکی افریقن غلام ول پامر سے ہوئ جس سے
برتھا پیدا ہوئ۔برتھا کی شادی ایک اور افریقن امریکی افریقن غلام سائمن الیگزینڈر
ہیلے سے ہوئ جس سے ایلیکس ہیلے پیدا ہوئے۔
کنٹا کنٹے نے اپنے اغوا اور افریقہ کی یاداشت کی
ساری کہانی کزی کو سنائ
اور پھر کزی سے جارج،میتلدا،آئرین،سنتھیا اور
برتھا سے ہوتے ہوئے 1912ء میں پیدا ہو کر 1992ء میں وفات پانے والے ایلیکس ہیلے تک
پہنچی اور ایلیکس ہیلے نے اپنی ساری خاندانی یاداشت کو دیکھتے ہوئے اپنے جد امجد
کنٹا کنٹے کے اس افریقی خاندان کو ڈھونڈ نکالا جس کے ایک فرد کنٹا کنٹے کو برطانوی
اغوا کر کے امریکہ لے گئے تھے۔
قارئیں یہ ظلم و ستم کی وہ داستان ہے جس میں
کروڑوں انسانوں کوافریقہ سے اغوا کرکے جبری مشقت کے لیے
امریکہ لے جایا گیا اور ان میں سے آدھی تعداد راستے میں ہی ظلم و ستم کی وجہ سے
موت کا شکار ہوگئ اور باقی نسل کو امریکا پہنچا کر ساڑھے تین سو سال زبردستی نسل
در نسل غلام بناکر رکھا گیا۔اور ان کے پیدا ہونے والے بچوں میں سے بیٹی کو الگ،باپ
کوالگ اور ماں کو الگ بیچا گیا۔اور یہ ظلم و ستم کا وہ سلسلہ تھا جس کی مثال دنیا
کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔بچ جانے والوں سے جبری مشقت کرائ گئ،زبردستی عیسائ
بنایا گیا۔معمولی باتوں پر آنکھیں نکالنا اور قتل کرنا آج کے امریکا میں صرف کچھ
عشرے پہلے تک عام بات رہی ہے۔
یہ لوگ اور ملحدین کس طرح اسلام کو ظلم و ستم کا
الزام دے سکتے ہیں جب کہ اسلام نے غلامی کا خاتمہ کیا۔اسلامی دنیا میں ہونے والی
چھوٹی باتوں پہ شور کرنے والے ملحدین اس ظلم و ستم پہ کیوں خاموش ہیں؟یہ منافقت
اور دوہرا معیار اسلام کے ساتھ کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب لبرل و ملحدین کبھی نہیں
دے سکیں گے۔
نیچے دی گئی تصاویر کنٹا کنٹے کے حوالے سے آپ کو
گیمبیا اور جیمز آئ لینڈ کی مزید داستان بتائیں گی۔امید ہے یہ مضمون پڑھنے کے بعد
آپ حضرات کے لیے اسے سمجھنا مشکل نہیں ہوگا
No comments:
Post a Comment