صبح
آزادی
یہ داغ
داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ
انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ
سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے
یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے
دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو
ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو
جا کے رکے گا سفینۂ غمِ دل
جواں
لہو کی پراسرار شاہراہوں سے
چلے جو
یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ
حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی
رہیں باہیں، بدن بلاتے رہے
بہت
عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت
قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
سبک سبک
تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن
سنا ہے
ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور
سنا ہے
ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام
بدل چکا
ہے بہت اہلِ درد کا دستور
نشاطِ
وصل حلال و عذابِ ہجر حرام
جگر کی
آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ
چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے
آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی
ابھی
چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی
گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ
دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو
کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
٭
No comments:
Post a Comment