تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
جب دُکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل بانہوں میں
لوہُو میں کتنی لالی تھی
یُوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے
اور ناؤ پُورم پار لگی
ایسا نہ ہُوا ، ہر دھارے میں
کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں
کچھ مانجھی تھے انجان بہُت
کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں
اب جو بھی چاہو چھان کرو
اب جِتنے چاہو دوش دھرو
ندیا تو وہی ہے ، ناؤ وہی
اب تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
اب کیسے پار اُترنا ہے
جب اپنی چھاتی میں ہم نے
اِس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے
تھا ویدوں پر وشواس بہت
اور یاد بہت سےنسخے تھے
یُوں لگتا تھا بس کچھ دِن میں
ساری بپتا کٹ جائے گی
اور سب گھاؤ بھر جائیں گے
ایسا نہ ہُوا کہ روگ اپنے
کچھ اِتنے ڈھیر پُرانے تھے
وید اُن کی ٹوہ کو پا نہ سکے
اور ٹوٹکے سب بیکار گئے
اب جو بھی چاہو چھان کرو
اب جتنے چاہو دوش دھرو
چھاتی تو وہی ہے ، گھاؤ وہی
اب تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
یہ گھاؤ کیسے بھرنا ہے
لندن ۱۹۸۱
٭٭٭
No comments:
Post a Comment