Sunday, 23 July 2017

(جلق، مشت زنی ) Masturbation



(جلق ، مشت زنی) Masturbation
جنسی بے راہ روی ہی کی ایک صورت جلق اور استمناء بالید کی ہے۔ اسلام کی نگاہ میں انسان کا پورا وجود اور اس کی تمام تر صلاحتیں اللہ کی امانت ہیں۔ قدرت نے ان کو ایک خاص مقصد کے تحت جنم دیا ہے۔ جو شخص جسم کے کسی حصہ کا غلط استعمال کرتا ہے وہ دراصل خدا کی امانت میں خیانت اور خلق اللہ میں من چاہے تغیّر کا مرتکب ہوتا ہے۔ انسان کے اندر جو جنسی قوت اور مادۂ منویہ رکھا گیا ہے وہ بھی بے مقصد اور بلا وجہ نہیں ہے، بلکہ اس سے نسلِ انسانی کی افزائش اور بڑھوتری مقصود ہے اور اس قسم کا عمل چاہے جلق و استمناء بالید ہو یا اغلام بازی یا خود اپنی بیوی سے لواطت، اس مقصد کے عین مغائر اور اس سے متصادم ہے۔
اس لئے یہ عمل بھی ممنوع اور حرام ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے شخص کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن توجہ نہیں فرمائیں گے ۔ ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر اللہ اور اسکے فرشتوں کی لعنت بھیجی ہے ۔ اس کی حرمت پر سورۂ المؤمنون کی آیت نمبر ۵ تا ۷ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ جس میں جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے دو ہی راستوں کی تحدید کر دی گئی ہے۔ ایک بیوی، دوسرے لونڈی۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ایک تیسری صورت ہے، فقہاء احناف نے اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا ہے۔
قضاء شہوت کی نیت سے ایسا کرنا قطعاً جائز نہیں، ہاں اگر شہوت کا غلبہ ہو، زنا سے بچنے اور شہوت میں سکون اور ٹھہراؤ پیدا کرنے کے لئے ایسا عمل کیا جائے تو لکھتے ہیں کہ امید ہے اس پر وبال اور عذات نہ ہو گاچنانچہ ایسے حالات میں ابن عباس، عبد اللہ بن عمر مجاہد، حسن بصری وغیرہ سے اس کا جواز نقل کیا گیا ہے (۱)۔ اسی ضرورت کے ذیل میں علاج اور میڈیکل جانچ کی غرج سے مادٔہ منویہ کا نکالنا بھی ہے، تاہم ان سب کا تعلق اتفاق سے ہے۔ عادتاً تو کسی بھی طرح اجازت نہ دی جائے گی، کہ یہ نہ صرف اخلاق کو متأثر کرتا ہے اور فطرت سے بغاوت کے مترادف ہے بلکہ صحتِ انسانی کے لئے بھی سخت مضر ہے۔
عورتوں میں ہم جِنسی
جس طرح مردوں کے درمیان فعلِ خلافتِ فطرت حرام ہے، اسی طرح عورتوں کے درمیان بھی فعلِ خلافِ فطرت جس کو "سحق" کہا جاتا ہے، ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ رہے ۔ حضرت واصلہ سے مروی ہے کہ عورتوں کے درمیان باھم لذت اندوزی زنا ہے ۔ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علاماتِ قیامت میں سے قرار دیا ہے کہ مرد مرد سے، عورت عورت سے اپنی ضرورت پوری کرے ۔
قدرت نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کی ضرورت اور تکمیلِ ضرورت کا سامان بنا کر پیدا کیا ہے اور اس کا مقصد بھی مجرد شہوت اور ہوس کی تکمیل نہیں، نسلِ انسانی کی افزائش اور اس کے بقاء میں تسلسل ہے۔ ہن جنسی فطرت کے ان مقاصد میں مخل ہے اور قطعی غیر فطری ہے۔

Saturday, 22 July 2017

Mukalma Between liberal and a hijab girl

لبرل اور ایک باحجاب لڑکی کے مابین مکالمہ
*ایک فلائٹ پر پاس بیٹھی لڑکی سے ایک لبرل خیالات کا حامل شخص بولا، آئیں کیوں نہ کچھ بات چیت کرلیں، سنا ہےاس طرح سفر بآسانی کٹ جاتا ہے۔ لڑکی نے کتاب سے نظر اُٹھا کر اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ ضرور، مگر آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہیں گے؟ اُس شخص نے کہا کہ ہم بات کرسکتے ہیں کہ ، اسلام عورت کو پردے میں کیوں قید کرتا ہے؟ یا اسلام عورت کو مرد کے جتنا وراثت کا حقدار کیوں نیہں مانتا؟ لڑکی نے دلچسپی سے کہا کہ ضرور لیکن پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجیئے۔ اس شخص نے پوچھا کیا؟ لڑکی نے کہا کہ گائے، گھوڑا اور بکری ایک سا چارہ یعنی گھاس کھاتے ہیں، لیکن۔۔۔ گائے گوبر کرتی ہے، گھوڑا لید کرتا ہے اور بکری مینگنی کرتی ہے، اسکی وجہ کیا ہے؟ وہ شخص اس سوال سے چکرا گیا اور کھسیا کر بولا کہ مجھے اسکا پتہ نہیں۔ اس پر لڑکی بولی کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ، آپ خدا کے بناے قوانین ،پردہ ،وراثت اور حلال و حرام پر بات کے اہل ہیں۔۔۔۔ جبکہ خبر آپ کو جانوروں کی غلاظت کی بھی نہیں ؟ یہ کہہ کر لڑکی اپنی کتاب کی طرف متوجّہ ہوگئی*


Jamhuriyat, Votes and Islam

جمہوریت، ووٹ اور اسلام
جمہوریت اور ووٹ کے بارے میں میرے ایک مضمون پر محمد مشتاق احمد صاحب نے ’’اوصاف‘‘ میں شائع شدہ مراسلے میں تنقید کی ہے اور اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ میں جمہوریت کو کفر بھی قرار دے رہا ہوں اور ووٹ کے مروجہ سسٹم کی حمایت بھی کر رہا ہوں۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ نے کبھی ووٹ کا طریقہ اختیار نہیں کیا اس لیے آج بھی عوامی ووٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لیے چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
جہاں تک جمہوریت کو کفر قرار دینے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جمہوریت کا یہ بنیادی فلسفہ سراسر کفر ہے کہ:
1- سوسائٹی اپنی حکمران خود ہے،
2- سوسائٹی کی اکثریت اپنے لیے جو قانون بھی طے کر لے وہی حرف آخر ہے، اور
3- وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر عمل اختیاری چیز ہے کہ سوسائٹی ان میں سے جس حکم کو چاہے قبول کر لے اور جسے چاہے نظر انداز کر دے۔
مگر وحی الٰہی کے دائرے میں اور آسمانی تعلیمات کی حدود کو قبول کرتے ہوئے سوسائٹی اپنی حکومت کی تشکیل اور روزمرہ امور طے کرنے کے لیے باہمی مشاورت کی بنیاد پر ووٹ کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ آج کے دور میں ان معاملات میں جن میں شریعت اسلامیہ ’عوامی رائے‘‘ کے حق کو تسلیم کرتی ہے، عام لوگوں کی رائے معلوم کرنے کا صحیح اور منظم طریقہ ووٹ ہی ہے، بشرطیکہ وہ صحیح طریقہ سے استعمال کیا جائے۔
یہ کہنا کہ اسلام میں عامۃ الناس کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، قطعی طور پر غلط بات ہے۔ بلکہ اسلامی حکومت کی تشکیل کی اصل اساس ’’عوامی رائے‘‘ ہے جس کی بنیاد پر حضرت ابوبکرؓ کو پہلا خلیفہ چنا گیا۔ اور خلافت پر بحث کرنے والے تقریباً تمام اصحاب علم اس بات کو بطور اصول تسلیم کرتے ہیں کہ خلیفۂ اول کا انتخاب رائے عامہ کی بنیاد پر ہوا تھا۔ اس بارے میں دو واضح نقطۂ نظر چلے آرہے ہیں۔ ایک یہ کہ جناب نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ نامزد کر دیا تھا، یہ نقطۂ نظر اہل تشیع کا ہے۔ دوسرا یہ کہ نبی اکرمؐ نے خلیفہ کا انتخاب امت کی عمومی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا اور رائے عامہ پر اعتماد کیا تھا۔ یہ نقطۂ نظر اہل سنت کا ہے اور خلیفۂ اول کے انتخاب کی واقعاتی صورت بھی یہی ہے۔ اس لیے اہل سنت کے ہاں یہ اصول طے شدہ ہے کہ خلیفہ کے انتخاب میں عوام کے اعتماد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
اس سلسلہ میں بخاری شریف کی ایک روایت کی طرف اپنے سابقہ مضمون میں بھی اشارہ کیا تھا اور اس طویل روایت کی تھوڑی سی تفصیل مزید عرض کر دیتا ہوں۔ امام بخاریؒ نے یہ روایت ’کتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ‘‘ میں نقل کی ہے اور اس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ نے جو آخری حج کیا اس میں ان کے سامنے منیٰ میں کسی صاحب کی یہ بات نقل کی گئی کہ اگر حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا تو وہ فلاں صاحب کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کر کے اس کا اعلان کر دیں گے۔ اور جس طرح حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر ہونے والی اچانک بیعت تسلیم ہوگئی تھی اسی طرح ان کی اس بیعت کو بھی بالآخر قبول کر لیا جائے گا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے اس بات پر سخت غصے کا اظہار کیا اور فرمایا کہ وہ آج شام عام لوگوں کے اجتماع سے خطاب کریں گے اور انہیں ایسے لوگوں کے بارے میں خبردار کریں گے جو یریدون ان یغصبوھم امورھم لوگوں سے ان کے اختیارات غصب کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے مشورہ دیا کہ امیر المومنین! یہاں دنیا بھر سے طرح طرح کے لوگ آئے ہوئے ہیں، آپ کی بات سن کر کوئی کچھ سمجھے گا اور کوئی اس سے کچھ نتیجہ اخذ کرے گا۔ جبکہ یہ بات انتہائی اہم ہے اس لیے زیادہ مناسب رہے گا کہ یہ بات دارالحکومت مدینہ منورہ جا کر کی جائے۔ امیر المومنین نے مشورہ قبول کرلیا اور جب اس سفر سے مدینہ منورہ واپس پہنچے تو پہلے جمعۃ المبارک کا خطبہ اسی موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں دیگر بعض اہم امور کے ساتھ ساتھ خلیفہ کے انتخاب کے مسئلہ پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔
حضرت عمرؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت اگرچہ اچانک ہوئی تھی لیکن اسے دو وجہ سے قبول کر لیا گیا تھا۔ ایک اس لیے کہ اس وقت حضرت ابوبکرؓ سے بہتر کوئی شخصیت ہمارے درمیان موجود نہ تھی۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ انصار مدینہؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے طور پر جمع ہو کر انصار میں سے امیر منتخب کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اگر انہیں اس فیصلے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا موقع مل جاتا تو باقی مسلمانوں کے لیے اسے قبول کرنا یا رد کرنا مشکل ہو جاتا اور معاملہ بہت زیادہ بگڑ جاتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی فرمائی اور ہم نے صورتحال کو قابو میں کر لیا۔ حضرت عمرؓ نے خطبہ میں سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اب کوئی شخص یہ بات ذہن میں نہ لائے کہ وہ اسی طرح کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسے باقی مسلمانوں سے قبول کرا لے گا۔ پھر امیرالمومنینؓ نے فرمایا کہ
’’جس شخص نے بھی مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کی تو اس کی بات ہرگز قبول نہ کی جائے۔‘‘
میں نے حضرت عمرؓ کے طویل خطبہ سے صرف ایک دو متعلقہ امور کا ذکر کیا ہے جس میں وہ خلیفہ کی بیعت کو مسلمانوں کے مشورہ کے ساتھ مشروط کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر کی جانے والی بیعت کو انہوں نے عام لوگوں کے اختیارات غصب کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
اس حوالہ سے ایک اور نکتہ پر غور کر لیجیے کہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت پر بیعت سے پہلے خلیفہ کے انتخاب پر عمومی بحث و مباحثہ ہوا بلکہ مہاجرینؓ اور انصارؓ کے درمیان جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس موقع پر مہاجرینؓ، انصارؓ اور خاندان نبوتؐ تینوں نے اپنے الگ الگ سیاسی تشخص کا اظہار کیا اور الگ الگ رائے پیش کی۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود حضرت عمرؓ اس سارے عمل کو ’’اچانک‘‘ قرار دے رہے ہیں اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس وقت کے حالات میں یہی ممکن تھا۔ اس لیے اسے آئندہ کے لیے مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کے وقت صحابہ کرامؓ کے مختلف طبقات کے درمیان جو بحث و مباحثہ ہوا اور جس کی بنیاد پر جمہور علماء امت خلیفۂ اول کی بیعت کو ’’عامۃ الناس‘‘ کی بیعت قرار دے رہے ہیں، حضرت عمرؓ کے نزدیک وہ بھی ناکافی تھا۔ اور اصل ضرورت اس سے کہیں زیادہ ’’عوامی مشاورت‘‘ کی تھی جو ہنگامی حالات کی وجہ سے اس وقت قابل عمل نہیں تھی۔ اور اسی حوالہ سے حضرت عمرؓ آئندہ کے لیے خبردار کر رہے ہیں کہ کوئی شخص مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ کے انتخاب کی بات نہ کرے۔
اس لیے محمد مشتاق احمد صاحب سے عرض ہے کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ بن الخطاب ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کے لیے مسلمانوں کی عمومی مشاورت کو ضروری قرار دے رہے ہیں جس کا دائرہ انہوں نے اس خطبہ میں ’’الناس‘‘ اور ’’المسلمون‘‘ بیان فرمایا ہے۔ جبکہ آج کے دور میں عام لوگوں اور مسلمانوں کی عمومی رائے معلوم کرنے کا طریقہ ’’ووٹ‘‘ ہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ ان کے ذہن میں ہو تو وہ ارشاد فرما دیں۔ مگر طریقہ ایسا ہو کہ حکومت کی تشکیل اور حاکم کے انتخاب میں ’’الناس‘‘ اور ’’المسلمون‘‘ کی رائے کا فی الواقع اظہار ہوتا ہو۔
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:

۷ مارچ ۱۹۹۹ء

Islam, Democracy & Pakistan

اسلام، جمہوریت اور پاکستان
۱۹۶۲ء کی بات ہے جب صدر محمد ایوب خان مرحوم نے مارشل لا ختم کرتے وقت نئے دستور کی تشکیل وترتیب کے کام کا آغاز کیا تھا اور پاکستان کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ حذف کر کے اسے صرف ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دینے کی تجویز سامنے آئی تھی تو دینی وعوامی حلقوں نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو یہ تجویز واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ میری عمر اس وقت چودہ برس تھی اور میں نے بھی بحمد اللہ تعالیٰ اس جدوجہد میں اس طور پر حصہ لیا تھا کہ اپنے آبائی قصبہ گکھڑ میں نظام العلماء پاکستان کی دستوری تجاویز پر لوگوں سے دستخط کرائے تھے اور اس مہم میں شریک ہوا تھا۔ اس دوران اس حوالے سے ہونے والے عوامی جلسوں میں سعید علی ضیاء مرحوم کی ایک نظم بہت مقبول ہوئی تھی جس کا ایک شعر مجھے اب تک یاد ہے کہ
ملک سے نام اسلام کا غائب، مرکز ہے اسلام آباد
پاک حکمران زندہ باد، پاک حکمران زندہ باد
تب سے اب تک ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کا کارکن چلا آ رہا ہوں، ہر تحریک میں کسی نہ کسی سطح پر شریک رہا ہوں اور اب بھی حسب موقع اور حتی الوسع اس کا حصہ ہوں۔ کسی دینی جدوجہد کے نتائج وثمرات تک پہنچنا ہر کارکن کے لیے ضروری نہیں ہوتا، البتہ صحیح رخ پر محنت کرتے رہنا اس کی تگ ودو کا محور ضرور رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مرتے دم تک اس جادۂ مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
اس جدوجہد میں مجھے جن اکابر کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے، ان میں مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا عبید اللہ انورؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک، مولانا پیر محسن الدین احمدؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا عبد الستار خان نیازیؒ ، مولانا مفتی ظفر علی نعمانیؒ ، مولانا معین الدین لکھویؒ ، قاضی حسین احمدؒ اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ عوامی جلسوں، جلوسوں، قید وبند کے مراحل اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے ساتھ ساتھ قلم وقرطاس کا میدان بھی میری جولان گاہ رہا ہیاور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے بیسیوں پہلوؤں پر اخبارات وجرائد میں سیکڑوں مضامین لکھنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ہے۔
عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے موجودہ حالات کے تناظر میں میری ان تحریری گزارشات کا ایک جامع انتخاب ’’اسلام، جمہوریت اور پاکستان‘‘ کے عنوان مرتب کیا ہے جو نفاذ اسلام کی جدوجہد کے معروضی تقاضوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں میرا کوئی الگ فکری یا علمی تعارف نہیں ہے اور میں اس کے کم وبیش تمام پہلوؤں میں انھی بزرگوں اور جمہور علماء کی نمائندگی کرتا ہوں جن میں سے چند بزرگوں کا میں نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
اسلامی نظام اور موجودہ دور کے تقاضوں اور ضروریات کے مختلف پہلوؤں پر ایک نظر ڈال لی جائے تو غور و فکر کے لیے مندرجہ ذیل بنیادی امور سامنے آتے ہیں اور ’’اسلام، جمہوریت اور پاکستان‘‘ کے زیر عنوان اس مجموعے میں انھی کو موضوع گفتگوبنایا گیا ہے:
1- اسلام کا تصور ریاست وحکومت کیا ہے اور اسلام حاکمیت اور اقتدار کا سرچشمہ کس چیز کو قرار دیتا ہے؟
2- حکومت کی تشکیل میں عوام کی نمائندگی اور عوامی رائے کی کیا اہمیت ہے؟
3- تاریخی تناظر میں اسلام کا سیاسی نظا م کن کن مراحل سے گزرا ہے؟
4- مختلف سیاسی جماعتوں کے وجود، امیدواری اور بالغ رائے دہی سے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟
5- اسلامی ریاست میں قانون سازی کا طریق کار کیا ہے؟
6- مغرب کے پیش کردہ جمہوری فلسفے اور نظام کا اسلام کی نظر میں کیا مقام ہے؟
7- پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے بنیادی اصول کیا رہے ہیں اور اس ضمن میں اب تک کیا پیش رفت ہو چکی ہے؟
8- پاکستان کے تناظر میں نفاذ شریعت کے لیے ریاست کے ساتھ تصادم اور مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
میں نے قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے مطالعہ کی روشنی میں، ان امور پر کچھ معروضات پیش کرنے کی جسارت کی ہے، اس امید کے ساتھ کہ اصحاب علم و دانش ان پر سنجیدہ توجہ دیں گے اور یہ گزارشات اس موضوع پر بحث کو آگے بڑھانے میں مدد دیں گے۔
یہ مجموعہ اسلام آباد کے ایک تحقیقی ادارے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے۔ میں اس کی اشاعت پر پاک انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ان طالب علمانہ گزارشات کو لوگوں تک پہنچانے کو مناسب خیال کیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام:
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت:

دسمبر ۲۰۱۳ء

Germany Aur Alam-e-islam

جرمنی اورعالم اسلام
ایک دورتھا جب جرمنی عالم اسلام کے دشمن ممالک کی صفِ اوّل میں تھا۔ یہ دورتھاصلیبی جنگوں کا۔ جرمنی کابادشاہ فریڈرک باربروسا ،یورپ کاوہ واحد بادشاہ ہے جس نے دو صلیبی جنگوں میں بھرپور شرکت کی۔ دوسری صلیبی جنگ میں وہ سلطان نورالدین زنگی کے مقابلے پر آیا،وہ دمشق کامحاصرہ کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا۔اس وقت دمشق کاقلعہ دار نجم الدین ایوب تھا۔اسی نجم الدین ایوب کابیٹاصلاح الدین ایوبی تھا جس کی عمر اس وقت لگ بھگ چودہ سال تھی۔
قدرت ِ الٰہیہ نے تین عشروں بعداسی صلاح الدین کو شام ومصر کاسلطان بنادیا۔صلاح الدین نے بیت المقدس کو واپس لے کر مسلمانوں کاوقار بلند کردیا۔ اس پریورپ میں ایک آ گ لگ گئی ۔ پادریوںنے بڑے بڑے بادشاہوں کو مسلم دنیا کے خلاف ایسابھڑکایاکہ ہر حکمران اپنی فوج لے کر شام کی طرف جھپٹ پڑا۔شاہانِ یورپ میں اگرچہ برطانیہ کے رچرڈ لائن ہارٹ کانام سب سے زیادہ مشہورہوا،مگر مؤرخین کااتفاق ہے ان میں سے سے بڑالشکر جرمنی کاتھاجس میں اڑھائی لاکھ سپاہی تھے۔ اسلحہ سازی میں بھی جرمنی اس وقت سارے یورپ سے آگے تھا۔ صلاح الدین ایوبی کے اہم مورچے عکاکو فتح کرنے کے لیے جرمنی سائنسدانوںنے جو عجیب وغریب مشینیں عین حالت جنگ میں ایجاد کیں ،عرب مؤرخین ان کاذکر بڑی حیرت اورتعجب سے کرتے ہیں۔
صلاح الدین ایوبی نے یہ جنگ بھی جیت لی اورباقی یورپی لشکروں کی طرح جرمن بھی واپس چلے گئے۔یہ بارہویں صدی عیسوی(چھٹی صدی ہجری) کا واقعہ ہے۔
حقیقت یہ کہ نہ صرف جرمنی بلکہ باقی یورپی ممالک کو بھی عالم اسلام کے خلاف برانگیختہ کرنے والی اصل لابی کیتھولک پادریوں کی تھی جواسلام اورمسلمانوں سے سخت بغض رکھتے تھے۔ یہ بڑے گھمنڈی ، متعصب ،تنگ نظر اورخود غرض قسم کے لوگ تھے اوردرحقیقت انہیں اپنے شہریوں اورعوام کی فلاح وبہبود سے بھی کوئی غرض نہ تھی۔ انہوںنے دین کو بھی کمائی کاایک دھندابنارکھاتھا۔کلیسا غریب کو پیدائشی گناہ کے احساس جرم میں جکڑتاتھااورامراء سے رقوم لے کر انہیں ہر بڑے سے بڑے گناہ کا معافی نامہ دے دیتاتھا۔
جب صلیبی جنگوں میں یورپی ممالک کومسلسل شکستیں ہوئیں اورجنگی اخراجات کی وجہ سے وہ معاشی طورپر تباہ ہوگئے تو یورپ کے بعض بالغ نظرلوگ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہے کہ اس تمام تر نقصان کے ذمہ دار پادری ہیں ۔یہ سوچ سب سے پہلے جرمنی میں پیداہوئی جوایک سائنسی ذہن رکھنے والا ملک تھا مگر دوصدیوں تک پادریوں کے اندھے مذہبی تصعب نے اسے مسلم دنیا سے جنگوں میں دھکیل کر کچھ سوچنے سمجھنے سے محروم رکھاتھا۔مگر ٹھوکریں کھاکر جرمنی سب سے پہلے سنبھلا۔وہاںکے ایک پادری مارٹن لوتھر نے پہلی بار کلیسااورپادریوں کے احتساب کانظریہ عام کیا۔اس نے پیسے لے کرمعافی نامے تقسیم کرنے کوایک نیچ حرکت قراردیاجو معاشرے میں بدعنوانی کاسب سے بڑامحرک تھی اورجس کی وجہ سے امراء کے لیے تمام جرائم کادروازہ کھلاہواتھا۔
اس زمانے میں کیتھولک پادریوں کااثرورسوخ اتنا بڑھاہواتھاکہ ان کے مقابلے میں کسی تحریک کا پنپنا بظاہر ناممکن تھا۔یورپ کے بڑے بڑے حکمران ان کے چیلے تھے۔مسلمانوںسے بدترین تعصب رکھنے والے کیتھولک حکمران فرڈی ننڈ اوراس کی ملکہ ازابیلا نے کچھ عرصے پہلے ہی اسپین کی آخری مسلم ریاست غرناطہ کاخاتمہ کیاتھاجس کے بعد انہی پادریوںنے ’’محکمہ احتساب وتفتیش ‘‘ قائم کرکے اسپینی مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنانے کی مہم شروع کردی تھی ۔فرڈی ننڈ کے بعدا س کے جانشین چارلس نے خاندانی نام ونسب ، امریکا سے ملنے والی سونے چاندی کی کانوں سے حاصل شدہ دولت اور کیتھولک چرچ کے بخشے ہوئے مذہبی جوش وخروش سے کا م لیتے ہوئے جرمنی، فرانس اوراٹلی سمیت یورپ کے بہت بڑے رقبے کو اسپین میں شامل کرلیا تھا۔ ان حالات میں کیتھولک چرچ کے مقابلے میں کھڑاہونا ،خودکشی کے مترادف تھا مگر مارٹن لوتھر نے اپنی تحریک جاری رکھی،جو فرقہ احتجاجیہ (پروٹیسٹینٹ)کے نام سے مشہورہوگئی۔لوتھرنے عبادت گاہوںمیں دولت کے عوض مغفرت ناموں کی تقسیم کوغلط قراردیا،بت پرستی سے منع کیااورمذہبی پیشواؤں کی اجاردہ داری کوچیلنج کیا۔جرمنی اس تحریک کامرکز بنا،فرانس اورآسٹریا میں بھی اسے مقبولیت حاصل ہوئی اوربہت سے معتدل مزاج لوگوںنے اسے تیزی سے قبول کرلیا ۔پھر کچھ امراء اور شہزادے بھی اس تحریک میں شریک ہوگئے جو اس کے باوجود اس تحریک کواٹلی ،اسپین اورپرتگال کے کیتھولک حکمرانوں کے بے رحم پنجے سے تحفظ کے لیے کسی بڑی طاقت کے بیرونی سہار ے کی سخت ضرورت تھی۔
یہی وہ وقت تھاجب عالم اسلام اورجرمن رہنماؤں میں پہلی بار ایک تعلق قائم ہوا۔ پروٹسٹنٹ تحریک کاسفیر استنبول پہنچااوراس نے ترک خلیفہ سلطان سلیمان اعظم قانونی سے درخواست کی کہ وہ ان کاحامی بن کرانہیں کیتھولک پادریوں اورشاہ چارلس کے عتاب سے بچائے۔
سلیمانِ اعظم نے دانش مندانہ فیصلہ کیااورپروٹسٹنٹ تحریک کی سرپرستی کی قبول کرلی۔ پروٹسٹنٹ سفیر استنبول کاچکرلگاکرواپس یورپ پہنچاتواس کے پاس بابِ عالی کامراسلہ تھا جس میں پروٹسٹنٹ مذہب قبول کرنے والوں کی حمایت کااعلان کیاگیاتھا۔یوں چارلس جوپروٹسٹنٹ تحریک کوبالکل کچل دیناچاہتاتھا،اپنے ارادے میں ناکام ہوگیاکیونکہ سختی برتنے کی صورت میں جرمن رہنما،ترکی کی پشت پناہی کے ساتھ اس کے خلاف بغاوت کردیتے ۔اپنی عظیم سلطنت کوتقسیم سے بچانے کے لیے ۳، اکتوبر۱۵۵۵ء کوچارلس نے بادلِ نخواستہ ملکی قانون میں پروٹسٹنٹ مذہب کی گنجائش کاقانون منظورکرلیا۔اس کے بعد پروٹسٹنٹ تحریک آزادی سے پروان چڑھی ،آسٹریااورجرمنی سمیت بعض یورپی ممالک کایہی سرکاری مذہب بن گیا۔پروٹسٹنٹ چرچ کوماننے والے یہ عیسائی حکمران خصوصاً جرمن سلطنتِ عثمانیہ کے شکر گزار بن گئے ۔وہ جانتے تھے کہ اگرترکی کیتھولک اسپین اورپاپائے روم کے استبداد پر کاری ضربات نہ لگاتا، اورپروٹسٹنٹ فرقے کی حمایت نہ کرتا تو تاجدارِ اسپین اور کلیسائے رومابڑے اطمینان سے اس تحریک کا گلا گھونٹ دیتے۔
اگرچہ اس کے بعدجرمنی اورترکی کے تعلقات یکدم تیزی سے آگے نہیں بڑھے ،جس کی وجہ یہ تھی کہ جرمنی کواسپینی استعمار نے بہت کمزور اورمنتشر کردیاتھا۔تاہم جرمن عالم اسلا م کے خلاف کسی جنگ کا حصہ بھی نہیں بنے۔وہ صدیوں تک چھوٹی چھوٹی جاگیروں اورریاستوں کی شکل میں غیر متحد رہے ۔ جن کاالحاق کبھی اسپین ،کبھی فرانس اورکبھی اٹلی سے ہوتارہا۔ یہی کیتھولک حکومتوں کی سیاست تھی ۔
مگر جرمن قوم تحقیق اورسائنس کے بل بوتے پر آگے بڑھی اورنپولین کے زوال کے بعد وہ فرانس کے تسلط سے آزاد ہوگئی ۔ حیرت انگیز طورپر جرمنوںنے نصف صدی سے بھی کم مدت میں دنیا کی بہترین فوج اوربہترین ٹیکنالوجی کے حامل ملک کی حیثیت حاصل کرلی۔
اس کے ساتھ ہی سلطنتِ عثمانیہ اورجرمنی میں اتحادوتعاون کاایک نیا دور شروع ہوا۔ ترکوںنے یورپ سے کئی محاذوں پر شکستوں کے بعد جرمنی سے حربی وعسکری نظام لیا۔ جرمن سائنسدانوں کے اشتراک سے جدیداسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے جس کے بعد اس کی فوج ایک بارپھر دنیا کی مضبوط ترین فوجوں میں شمار کی جانے لگی۔
اسی باہمی تعلق کی وجہ سے ترکی اورجرمنی نے مل کر جنگ ِ عظیم اوّ ل میں مشترکہ محاذ بنایا۔ افسوس کہ اس جنگ میں یورپی اتحاد جیت گیا ۔شکست کے نتیجے میں جرمنی اورترکی پر اپنے فیصلے نافذکیے گئے ۔ جرمنی سے بادشاہت اورترکی سے خلافت ختم کردی گئی۔
جرمنی کے ساتھ جو سلوک کیاگیا ،وہ بڑا بے رحمانہ تھا،وہاں بادشاہت کی جگہ جو جمہوری حکومت قائم کی گئی ،وہ یورپی مفادات کی نگران تھی۔ بے روزگاری اورمعاشی بحران نے جرمنی کی کمرتوڑ دی۔اس سے ملک میں احساسِ محرومی اوراشتعال پیداہوا۔جرمن فوج کااعلیٰ افسر ایڈولف ہٹلراسی مشتعل فضا کی پیداوارتھا۔ وہ نہایت جوشیلا مگر ذہین اورشاطر انسان تھا ۔اسے جرمنی کے دشمنوں کے لیے قہرِ آسمانی کہا جائے توغلط نہ ہوگا ۔
وہ ایک غریب گھرانے کافرد تھا۔مصوری کاشوقین تھا مگر پہلی جنگ عظیم میں جذبہ حب الوطنی اسے فوج میں لے گیا۔ وہ ایک عام سپاہی تھا مگر اس کاذہن منفرد تھا۔ جرمنی کی شکست کے بعد بہت غوروفکر کرکے اس نے ۱۹۲۰ء میں نازی تحریک کی بنیا دڈالی جس کابنیادی منشوریہ تھاکہ جرمن دنیا کی واحد عظیم قوم ہیں اوران کے دشمنوں کانام ونشان مٹادیناچاہیے۔ اس نے ۱۹۲۲ء میں جرمنی کی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کی جو ناکام ہوگئی۔۱۹۲۳ء میں اس نے جرمنی کے چانسلر کے عہد ے کے لیے الیکشن لڑامگراس میں بھی ناکام رہا۔تاہم اس کی انتہاپسند پارٹی عوام میں مقبول ہوتی گئی اور۱۹۳۳ء میں وہ ملک کاوزیراعظم بن گیا۔۱۹۳۴ء میں جرمنی کے صدرِ جمہوریہ ہنڈ ن برگ کی موت کے بعد ہٹلر نے پارلیمنٹ کو نذرآتش کرادیا اورملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس نے صدراوروزیراعظم کاعہدہ ملاکر ملک کی مطلق العنان سربراہی اختیار کی۔اور نازی پارٹی کے سواتمام پارٹیوں کوکالعدم قراردے دیا۔اس نے پورے ملک کوآتش جوالابنادیا۔پوراملک فوجی تربیت لینے اور اسلحہ تیارکرنے میں مشغول ہوگیا۔جرمن سائنسدان قومی جذبے سے سرشار ہوکر دن رات ٹیکنالوجی کو ترقی دینے میں منہمک ہوگئے۔ جرمنی کی اس ترقی میں غیرمعمولی حصہ اس موٹر وے کاتھاجسے عام طورپرشاہراہِ جرمنی اورمقامی طورپر ’’آٹوبھان‘‘ کہاجاتاہے۔اس کی تعمیر خاص انداز میں ہوئی ۔ چارفٹ گہرائی تک پتھروں کی تہہ بچھائی گئی تاکہ سڑک بیٹھنے یاٹوٹنے نہ پائے۔اس سڑ ک نے پورے جرمنی کے ہرشہر کودوسرے شہر سے ملادیا۔ ہٹلر کواس شاہراہ کی تعمیر پر فخر تھا۔ اس نے ایک موقع پر قوم سے خطا ب کرتے ہوئے کہاتھا:ـ’’یہ مت بھولناکہ میں نے تمہیں ’آٹوبھان ‘دی ہے۔‘‘
ہٹلر کی پالیسیوں کی بدولت چند سال کے اندراندر جرمنی پورے یورپ کامدمقابل بن کرابھر آیا۔ ہٹلر سوشلزم کادشمن تھااور روس کوجو پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کا اصل حریف تھا،نہ بھولنے والامزہ چکھاناچاہتاتھا۔ہٹلر کی اشتراکیت دشمنی کو دیکھتے ہوئے شروع میں برطانیہ اورامریکااس کی مددکرتے رہے تاکہ وہ طاقت پکڑ کرروس سے ٹکرائے اورسوشلز م کے اس ریچھ کاشکم چاک کردے جوسرمایہ دار ممالک کے لیے خطرہ بن چکاہے۔مگر ہٹلرجہاں جرمن قوم کوعظمت دلوانے کاداعی تھا،وہاں وہ ہراس ملک کادشمن تھا جس نے جرمنوں پر زیادتیاں کی تھیں۔اس کااصل ہدف برطانیہ اورروس تھے۔اس کاکہناتھا میں زندہ رہوں یانہ رہوں مگر میں برطانیہ کوایک تیسرے درجے کی طاقت بنا کر چھوڑوں گا۔
جرمنی کومستحکم کرنے کے بعد۱۹۳۶ء میں ہٹلر نے اپنی فتوحات کاآغا زکیا۔ ۱۹۳۸ء میں اس نے اوسٹریا اور۱۹۳۹ء میںچیکوسلواکیہ پر قبضہ کرلیا۔اس وقت تک برطانیہ کایہی خیال تھاکہ جرمنی اس کی منشاء کے مطابق چیکوسلواکیہ کے بعد روس کوپامال کرے گامگرہٹلر نے سمجھ لیاتھاکہ برطانیہ اپنی مشہور ڈپلومیسی (جسے ہٹلر مکاری اورعیاری کہتاتھا) کے ذریعے جرمنی کو ایک بارپھر نیچادکھاناچاہتاہے ۔جب جرمنی روس سے لڑائی میں مصروف ہو گاتواس دوران برطانیہ پورے یورپ کوجرمنی کے خلاف متحد کرنے کاوقت حاصل کرلے گا۔
ہٹلر نے طے کیاکہ وہ کسی کووقت نہیں لینے دے گا۔ ا س نے ۳ ستمبر ۱۹۳۹ء کو ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کردیاجو روس کادروازہ سمجھاجاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے پولینڈ کی حمایت میں جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔یہ تھا دوسری عالمی جنگ کاآغاز۔دیکھتے ہی دیکھتے جرمن افواج نے ڈنمارک،ناروے، بلجیم اور ہالینڈ پربھی قبضہ کرلیا۔پولینڈ کے بارے میں روس سے مذاکرات ہوئے اوراسے تقسیم کرلیاگیا۔تقریباً پوراوسطی یورپ جرمنی کے قبضے میں آگیا۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے پسِ پردہ بہت بڑاکرداران جرمن یہودیوں کاتھاجو سیاست و معیشت سے لے کر فوجی افسران پر بھی اثر انداز تھے۔(اسی طرح ترکی کی شکست میں بھی اصل کردار فری میسنری اوریہودیوں کاتھا)ہٹلر نے اس کے ردعمل میں جرمنی کویہودیوں سے پاک کرنے کی مہم شروع کی اورانہیں بڑی تعداد میں قتل اورجلا وطن کیا۔
جرمنی کے مقابلے میں صرف برطانیہ اورفرانس رہ گئے تھے۔ایسے میں ہٹلرنے برطانوی وزیراعظم چمبرلین کو دعوت دے دی کہ وہ برلن آکر مذاکرات کریں ۔ اس سے پہلے جرمن حکام لندن جاکر مـذاکرات کرتے تھے ،مگر اب بات دوسری تھی۔ برطانیہ جرمنی سے خوفزدہ تھا۔ مسٹرچمبرلین برلن گئے۔ یہ کسی برطانی وزیراعظم کاپہلادورہ جرمنی تھا۔ہٹلر نے برطانوی وزیراعظم پر نفسیاتی داؤ آزمایا۔اس نے چمبرلین کے سامنے جرمن افواج کی پریڈ کرائی جو ساڑھے سات گھنٹے تک جاری رہی۔ بری، بحری اورفضائی افواج کے دستوں کاایک تانتاتھا جو ختم ہونے میں نہیں آتاتھا۔ سخت سردی کے باوجود مسٹر چمبرلین کو پسینہ آگیا۔انہوںنے مذاکرات میں جرمنی کوہرقسم کی مراعات دینے پر آمادگی ظاہرکردی ،مگر ہٹلر برطانیہ کوزیر کرنے پر تلا ہوا تھا۔ آخرچمبرلین نے وہیں شکست قبول کرلی ۔ چمبرلین کے اعترافِ شکست پر ۱۹۴۰ء میںبرطانیہ میں سرونسٹن چرچل نے وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی ۔ چرچل آہنی عزم کامالک کہلاتاتھا۔اس کے وزیراعظم بنتے ہی دنیا میں مشہور ہوگیاکہ اب کچھ ہوکررہے گا۔ اس دوران ہٹلر ،اٹلی کے فاشسٹ حکمران مسولینی اورجاپان سے اتحاد کرچکاتھا۔ اٹلی اورجرمنی کے مشترکہ حملے میں فرانس دوہفتے بھی مزاحمت نہ کرسکااورجرمن افواج پیرس میں گھس گئیں۔ہٹلر برطانیہ پر قبضہ تونہ کرسکا مگر جرمن توپوں اورطیاروں نے لندن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
یورپی طاقتوں کوتہس نہس کرنے کے بعد ہٹلر روس کی طر ف بڑھاجس نے فن لینڈ پر حملہ کرکے ایک نیامحاذ کھول دیاتھا۔روس میں دوسال تک جنگ جاری رہی۔اس دوران ہٹلر کے اتحادی اـٹلی کے حکمران مسولینی کے خلاف بغاوت ہوگئی ۔ اس کی فوجوںنے ہتھیارڈال دیے اورمسولینی گرفتار ہوگیا۔ ۱۹۴۵ء میں اسے پھانسی دے دی گئی۔
ہٹلرنے حدسے زیادہ جوش کی وجہ سے روس میں شکست کھائی اورپسپاہوتے ہوتے برلن پہنچ گیا۔ روسی افواج نے شہر کامحاصرہ کرلیا۔ ہٹلر نے شکست یقینی دیکھ کر خود کشی کرلی ۔اس کے اتحادی جاپان نے آخری کوشش کے طورپر امریکا کے بحری اڈے پرل ہاربر پر حملہ کیاجس کے جواب میں امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اورناگاساکی پر ایٹم بم دے مارے۔ جاپان نے بھی ہتھیارڈال دیے ۔ یوں جنگِ عظیم دوم ختم ہوگئی۔ ہٹلر اگر اپنی توجہ صرف یورپی دشمنوں پر مرکوز رکھتاتو چند ہفتوں میں برطانیہ پر قبضہ کرسکتاتھامگر جوشِ انتقام میں اس نے محاذ ِ جنگ کوحد سے زیادہ پھیلادیا۔اس کی غلطیوںنے مسٹر چرچل کویہ موقع دے دیاکہ پوری دنیا کو جرمنی کے خلاف کھڑاکردیاجائے۔ حتیٰ کہ برطانیہ نے روس سے بھی اشتراک کرلیا جسے نیچا دکھانا اس کی قدیم پالیسی تھی۔
ہٹلر اگرچہ ایک بے رحم اورمنتقم مزاج انسان تھا مگر وہ دنیائے اسلام کے لیے ایک رحمت ثابت ہوا۔ استعما ری طاقتوں سے جو بدلہ مسلمان خودنہیں لے سکتے تھے، وہ ہٹلر نے لے کردکھادیا۔ وہ جنگ نہ جیت سکامگراس نے روس،برطانیہ اورفرانس کواتنا کمزورکردیاتھاکہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر وہ سب کنگال اورتباہ ہوچکے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ان سب نے عالم اسلام میں پھیلائے ہوئے اپنے پاؤں سمیٹے اوراپنی قدیم سرحدوں میں محدودہوجانے پر مجبور ہوگئے۔
اگر جرمنی ،غاصب اورظالم طاقتوں کے خلاف یہ جنگ نہ لڑتا تو برصغیر سمیت عالم اسلام کے متعدد ممالک ابھی تک استعمار کے غلام ہوتے ہٹلر کی موت کے بعد جرمنی ایک بارپھر پامال ہوگیا۔برطانیہ ،فرانس ،روس اورامریکا اس کے مستقبل کے مالک ہوگئے ۔جرمنی میں ان چاروں ملکوں کی فوجیںبٹھادی گئیں۔ان ملکوں نے سارے جنگی اخراجات جرمنی سے وصول کرکے اسے بالکل قلاش کردیا۔جرمنی کے ایک ایک شہر کو تہہ وبالا کردیا گیا۔ پھر اس ملک کوباقاعدہ دوالگ الگ ریاستوں میں تقسیم کردیاگیا۔ مشرقی جرمنی میں روس نے اپنی سوشلسٹ حکومت قائم کرلی جبکہ مغربی جرمنی برطانیہ اورامریکاکاباج گزار بن گیا۔
جرمنی میں صرف امریکا کے ایک لاکھ فوجی مستقل رہتے تھے ۔ان کے سارے مصارف جرمنوں کو اداکرنا پڑتے تھے۔مگر جرمنوںنے ہمت نہیں ہاری ۔انہوںنے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھااورایک ایک قدم کرکے سیاسی خودمختاری اورمعاشی استحکام کی طرف قدم بڑھاتے رہے۔دنیا کی تین جابر طاقتوں روس ، امریکااوربرطانیہ کے چنگل میں رہنے کے باوجود ،وہ مایو س نہ ہوئے۔ ہٹلر نے انہیں غرو روتکبر کاجو سبق پڑھایاتھا،وہ بہت جلد اس کے نقصانات سے آگاہ ہوگئے اوراپنے دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کی طرف لوٹ آئے۔انہوںنے اشتعال انگیز نعروں پر توجہ دینا چھوڑدی۔ نازی پارٹی کی مقبولیت ختم ہوگئی اورمعتدل مزاج لیڈروں کی پذیرائی ہوئی۔
جرمن قوم تباہی سے خوش حالی کی معراج پر یونہی نہیں پہنچ گئی ۔ قوم کے ایک ایک فرد نے حتیٰ کہ غریب مزدوروںنے بھی اپنی ذمہ داری کوسمجھا۔۔ ۱۹۵۲ء میں بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرو جرمنی کے دورے پر گئے۔اس وقت جرمنی کاکوئی شہر ایسانہیں تھاجسے اتحادیوںنے تباہ نہ کردیاہو۔ ہر جگہ ملبہ ہی ملبہ دکھائی دیتاتھا۔ جواہر لال نہرونے سناتھاکہ جرمنی کے کارخانوں میں کبھی ہڑتال نہیں ہوتی ۔ وہ ایک کارخانے کی سیر کے لیے چلے گئے اوروہاں کے مزدوروں سے پوچھا:
’’تم لوگ مطالبات کے لیے ہڑتال کیوں نہیں کرتے؟‘‘
وہ بولے:’’ہم ملک کی دوبارہ تعمیر کافرض انجام دے رہے ہیں ۔ جب جرمنی کچھ بن جائے گاتو پھر ہم مطالبات کریں گے۔ ابھی توہمارافرض ملک کی تعمیر ہے۔‘‘
یہ تھا وہ جذبہ جس نے جرمنوں کو دوبارہ دنیا کی مضبوط قوموں میں لاکھڑاکیا۔ اس قوم کاہرفرد ملک کی ترقی کے لیے جٹ گیا۔ حب الوطنی کے جذبے نے انہیں متحد کردیا۔ انہوںنے قابض فوجوں کے اخراجات اپنے خون پسینے سے اداکیے مگر کبھی کسی ملک سے قرض نہیں لیا۔اپنی معاشی حالت کواتنا مستحکم کیا کہ ترقی یافتہ ممالک اس پر رشک کرنے لگے۔
جرمنی ،خود اپنے سب سے بڑے دشمن روس سے انتقام نہ لے سکامگر ۴۵سال بعد یہ کام افغانستان کے غیورمسلمانوں نے کردکھایا۔ مسلمانوں پر جرمنی کاایک قرض تھا۔ جرمنی نے خود تباہ ہوکرمسلم ممالک کے لیے آزادی کے دروازے کھول دیے تھے۔ مسلم دنیانے افغانستان کے میدان میں سوویت یونین کی طاقت کا جنازہ نکال کر ، جرمنی کو سوشلزم کے تسلط سے نجات دلادی۔
۱۹۸۹ء میں روسی فوجیں افغانستان سے واپس ہوئیں ،روس کی ساکھ مٹی میں مل گئی اوراس کا سر نیچاہوتے ہی دنیاسوشلز م کی زنجیروں سے آزاد ہونے لگی۔جرمنوںنے متحد ہوکر دیوار ِبرلن گرادی۔ ۱۲ستمبر ۱۹۹۰ء کومغربی اورمشرقی جرمنی پھر متحد ہوگئے۔
یہ اتحاد کوئی آسان نہیں تھا۔ ۴۵برسوں میں مشرقی جرمنی کامغربی جرمنی سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔مشرقی جرمنی کی زبان تک تبدیل ہوچکی تھی اورنسلِ نور وسی زبان بولتی تھی۔تمدن ،ثقافت ،کلچر سب بدل گیاتھا مگر پھر بھی وہ متحد ہوگئے۔
اب ہم ایک پاکستانی اورایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے خود کودیکھیں ،کیاہمیں شرم نہیں آئے گی کہ ہماراکلمہ ایک، قبلہ ایک ، ایمان ایک، تہذیب وثقافت ایک۔مگراس کے باوجود ہم ہمیشہ الگ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک سے کوئی مطلب ہے نہ ملت سے۔ صر ف ہم نہیں عالم اسلام کے اکثر ملکوں کایہی حال ہے ،کہ وہاں مذہبی، صوبائی ،لسانی اورعلاقائی اختلافات کی خلیجیں روزبروز وسیع ہورہی ہیں۔جرمن غیرمسلم ہیں ۔ان کے پاس وہ آفاقی ہدایات اوروہ نورانی منشور کہاں جو قرآن وسنت نے ہمیں دیاہے ،اس کے باوجود ،وہ لگ بھگ نصف صدی الگ رہ کر پھر ایک ہوگئے۔ اس کے مقابلے میں ہم اپنے ملک ہی کی تاریخ دیکھ لیں کہ لاکھوں جانیں قربان کرکے حاصل کردہ مملکت میں ہم پچیس سال بھی متحد نہ رہ سکے۔ مشرقی اورمغربی پاکستان دوالگ الگ ملک بن گئے۔ شایدہم غیرتِ ملی سے دست کش ہوچکے ہیں ۔ہمیں اپنی دنیا آپ پیداکرنے والے نہیں، اپنا نشیمن آپ برباد کرنے والے ہیں۔ ہم قرض لے کر ترقی کرناچاہتے ہیں اورمزید معاشی بدحالی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ہم کہتے بہت کچھ ہیں مگر کرنے میں ہم جرمنی کے ان مزدوروں جیسا احساسِ ذمہ داری بھی نہیں رکھتے جنہوںنے اپنے مطالبات کو تعمیرِ وطن کے لیے فراموش کیے رکھا۔ اس جذبے کے سبب جرمن قوم ایک بارپھر اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی۔ آج کا جرمنی چھپن ہزار۹سو ۴۵کلومیٹر پر مشتمل یورپ کاخوشحال ترین ملک ہے۔ خودکفیل ہونے کے اعتبار سے وہ معاشی طورپر امریکا سے زیادہ مستحکم ہے۔جرمن مارک کی قدر امریکی ـڈالر سے اوپر ہے۔جرمن چانسلر (سربراہِ مملکت) کودنیا کی مؤثرترین شخصیات میں سے ایک شمارکیاجاتاہے۔جرمنی ایک بارپھر سائنس اور ٹیکنالوجی کی شاہراہ پرآگے ہی آگے بڑھ رہاہے۔ دنیا بھر میں آج جرمن مشینری کی مانگ ہے۔ قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی کی ہوکہ دنیا کاپہلا موٹر کارگیراج جرمنی میں قائم ہواتھا۔یہ ۱۸۰۰ء کی بات ہے۔اس کابانی کارل بینرتھا۔ اسی گیراج میں اس نے مرسڈیز ایجاد کی جو آج بھی دنیا کی بہترین کاروں میں شمار کی جاتی ہے۔

عالم اسلام کے بارے میں جرمنوں کی سوچ اب بھی باقی یورپی دنیا اورامریکاسے مختلف ہے۔وہاں کیتھولک چرچ کاتعصب نہیں ۔جرمنوں میں امریکی یابرٹش گوروں جیسا احساسِ تفاخر بھی نہیں۔ نصف صدی کی غلامی نے انہیں حقیقت آشنابنادیاہے۔ وہ دوست اوردشمن کوپہچانتے ہیں ۔عالم اسلام سے قدیم رشتوں کااب بھی وہاں احتر ام ہے۔ سلیمان اعظم کے احسان کووہ اب بھی نہیں بھولے۔ ترکی کے ساتھ اتحاد کی طویل تاریخ انہیں یاد رہے۔ مسلم دنیا خصوصاً پاکستان کو جرمنی کی شکل میں یور پ میں ایک اچھا معاون مل سکتاہے۔قومی عزت ووقار کے ساتھ اس رخ پر کوشش ضرور ہونی چاہیے۔ ترکی اس سلسلے سب سے مناسب رابطہ کار بن سکتاہے۔ اقتصادی کوریڈور کے اثرات یورپ تک جائیں گے۔ ان یورپی ممالک میں اگر جرمنی کوترجیح دی جائے تو شایداپنی تاریخ کودیکھتے ہوئے ،یہ ایک اچھی پالیسی ہوگی۔

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب

Friday, 21 July 2017

مسجد اقصیٰ ایک بار پھر یہودیوں کے قبضے میں!

مسجد ایک بار پھر یہودیوں کے قبضے میں!
مسجد اقصیٰ پچھلے سات دنوں سے اسرائیلی درندوں کے قبضے میں ہے۔مسجد اقصیٰ کے اس ظالمانہ قبضے کی روئیداد سننے سے پہلے4جولائی 2017کوفلسطین کے بارے یونیسیکواجلاس کامنظرنامہ ملاحظہ کیجئے!
۔یہ وہ دن تھا جب پہلی مرتبہ بھارتی وزیراعظیم نریندر مودی اسرائیل کے دورے پرآیا،یہی وہ دن تھا جب اسرائیل کے بارے پولینڈ میں یونیسکو اجلاس کر رہاتھا۔موضوع اجلاس تھا کہ "بیت المقدس آزادہے یااس پرقبضہ کیا گیاہے"؟اسرائیلی نمائندے نے اپنی گفتگوکے دوران ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا اور ساتھ ہی حال میں موجود دنیا بھر کے نمائندوں کو ہولوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کے افسوس میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے اور کھڑا ہونے کا کہا،اس کے ساتھ ہی حال میں موجود کچھ لوگ کھڑے ہوئے، تو کچھ بیٹھے رہے۔
کیمونسٹ کیوبا کی نمائندہ خاتون نے اسرائیلی نمائندے کے اس عمل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ صدر جلسہ کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ نمائندگان کو کھڑا کرے۔پھر اس بہادر خاتون نے فلسطینی مظلوموں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ آخر ہم فلسطینی مظلوموں کو کیوں یاد نہیں کرتے،جوآئے روز بے گناہ قتل کردیے جاتے ہیں،اس کے ساتھ ہی اس خاتون نے سامنے لگے مائک کو جھٹکتے ہوئے فلسطینی مظلوموں سے ہمدردی کی خاطراجلاس میں شریک دنیابھر کے نمائندگان سے کھڑا ہونے کامطالبہ کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے پوراحال کیوبا کی اس کمیونسٹ خاتون کی آواز پرتالیاں بجاتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔اسرائیلی نمائندہ اس حیرت انگیز منظر پر دم بخود رہ گیا۔کیوبا کی اس بہادر خاتون کی وجہ سے جہاں مسئلہ فلسطین کو دنیا بھر میں خوب پذیرائی وہیں اس خاتون کو بھی دنیا بھر میں سراہاگیا۔بعدازاں یونیسکونے اپنی قرارداد میں القدس پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف قرارداد منظور کرلی۔
اس سے پہلے مئی 2017 میں بھی یونیسکو نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں کہاگیا تھا کہ القدس فلسطینی مسلمانوں کا شہر ہے جس سے یہودیوں کا کوئی تعلق نہیں،یہاں موجود قدیم ثقافتی ورثے کے مالک بھی یاتو مسلمان ہیں یا عیسائی۔یونیسیکو کی ان قراردادوں کے بعد جہاں دنیا بھر میں اسرائیل کو ذلت کا سامنا کرناپڑا وہیں اسرائیل نے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قراردادوں کو مسترد کردیا اور القدس میں اپنا پہرہ مزید سخت کردیا۔
ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ14جولائی2017بروز جمعۃ المبارک کو غاصب اسرائیلیوں نے مسجد اقصی ا محاصر ہ کرکے مسجد اقصی کومکمل طورپر بندکردیا۔جس کی وجہ سے48سال بعدمسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نمازادانہ کی جاسکی۔غاصب اسرائیلیوں کی جانب سے اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ تین مسلح فلسطینیوں نے مسجد اقصیٰ کے قریب دواسرائیلی فوجیوں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا جس کے بعد مسجد اقصیٰ کو بند کیا گیا۔جب کہ ایک موبائل ویڈیو کلپ میں ایک فلسطینی کو ایک اسرائیلی کے ساتھ تصادم میں دکھایاگیا ہے جس کے بعد اس فلسطینی کو گولی مارکرقتل کردیا گیا۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق عام طور پر ابتدااسرائیل کی جانب سے کی جاتی ہے اور اس واقعہ میں بھی ابتدا اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے کی گئی۔ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو اس سے بھی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اولاً اسرائیلی فوجی فلسطینیوں پر ظلم وستم ڈھاتے ہیں اور انہیں ناجائز قتل اور جیلوں میں ڈالتے ہیں۔جس پر عالمی میڈیا سمیت پوری دنیا گواہ ہے۔چنانچہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسیکوبھی وقتافوقتا اپنی قرادادوں میں اسرائیل کے ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرتارہتاہے۔بہرحال اس واقعے کے دوروز بعد مسجد اقصیٰ کو جزوی طورپر کھول دیا گیا لیکن پہلی مرتبہ مسجد اقصیٰ کے دروازوں کے سامنے اسرائیل نے واک تھرو گیٹ اور میٹل ڈیٹکٹیر نصب کرکے فلسطینی مسلمانوں کی تلاشی لینا شروع کردی ہے۔فلسطینی مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ کے سامنے یہودیوں کے اس جبری حصار کو رد کردیا۔چنانچہ پچھلے سات دنوں سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمان احتجاجامسجد اقصیٰ کے دروازوں کے سامنے نمازیں اداکررہے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کو زدوکوب کرنا شروع کردیاہے۔احتجاج کرنے والے لوگوں کو گرفتارکیا جارہاہے۔صوتی گولے برسائے جارہے ہیں جن کی زد میں آکرمسجد اقصیٰ کے امام وخطیب شیخ عکرمہ صبری سمیت درجنوں فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک عالم اسلام کی طرف سے اسرائیل کے حالیہ تشدد پر لب کشائی نہیں کی گئی۔البتہ سعودی باشاہ کے حوالے سے یہ خبرضرور سامنے آئی کہ ان کی مداخلت پر مسجد اقصیٰ کو کھولا گیا لیکن ماہر تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ محض ایک افواہ ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے از خود مسجد اقصیٰ کو کھولا کیوں کہ اسرائیل یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ مسجد اقصیٰ کی بندش سے دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف جو رد عمل آئے گا اسے اسرائیل برداشت نہیں کرسکتا۔

مسجد اقصیٰ144000مربع میٹرپرمشتمل اس حصے کے نام ہے جسے آخری بار حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیاتھا۔حرم کا یہ وہ حصہ ہے جس میں200کے لگ بھگ تاریخی آثار ہیں ۔جن میں قبۃ الصخرا،مسجد القِبلی،مسجدالمروانی،دیوارِبراق جسے یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں جیسے قدیمی اور تاریخی آثار شامل ہیں۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق بیت اللہ کی تعمیر کے 40سال بعد اس مسجد کو تعمیر کیا گیا۔محققین کے مطابق سب سے پہلے اسے آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا،بعدازاں ابراہیم ،داؤود اور سلیمان علیہم السلام ایسے جلیل القدر انبیاء نے اپنے اپنے دور میں اس مسجد کو ترمیم وتزین کی۔
اسلام کی آمد کے بعد مسجد اقصیٰ کو خصوصی اہمیت دی گئی ۔کیوں کہ یہی وہ مسجد تھی جسے مسلمانوں کا قبلہ اول بنایاگیا۔یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے ہم کلام ہونے کے لیے آسمانوں پر تشریف لے گئے۔یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی امامت کی۔یہی وہ مقدس مقام ہے جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ نمازوں کا تحفہ لانے رب کے حضور پہنچے۔یہی وہ مبارک جگہ ہے جسے خلیفہ ثانی عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بغیر قتل وقتال اور خون خرابے کے فتح کیااور مسلمانوں کے لیے ایک مسجد بنائی۔جس میں بعدازں اسلامی دور میں توسیع ہوتی رہے۔
مسجد اقصیٰ دنیا کی واحد ایسی جگہ ہے جس کے تقدس پر تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکار یعنی مسلمان،یہودی،عیسائی متفق ہیں۔لیکن افسوس عیسائیوں نے صلیبی جنگ کے نام پر اس مبارک سرزمین کے تقدس کوپامال کیا ،تو یہودیوں نے 1948میں ناجائز قبضے سے اس مبارک جگہ کو فسادوخون کی جگہ بنادیا۔چنانچہ آئے روز یہاں اسرائیلی یہودی نہ صرف مسلمانوں پر تشدد کرتے ہیں،بلکہ انہیں قیدوقتل کرنے اور مختلف حیلے بہانوں سے مسجد اقصیٰ کو نقصان پہچانے کے درپے رہتے ہیں۔جس کے پیچھے صرف ایک ہی سوچ کارفرماہے کہ مسجد اقصیٰ کی موجودہ ہئیت مٹاکر یہاں مزعومہ ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جائے جسے آج تک یہودی ثابت بھی نہیں کرسکے ۔چنانچہ حالیہ مسجد اقصیٰ کی بندش اور الیکٹرانک واک تھرودروازوں کے ذریعے مسجد اقصیٰ کا حصاردراصل اسرائیلی یہودیوں کے انہیں ناپاک عزائم کا اظہارہے۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینی مسلمان اسرائیل کے ان ناپاک عزائم کو بھانپ گئے ہیں ،تبھی انہوں نے مسجد اقصیٰ کے گرد یہودیوں کے واک تھرودروازوں کے نام پر عسکری حصار کو رد کردیاہے اور ابھی تک مسجد اقصیٰ کے دروازوں کے سامنے احتجاجا کھڑے ہیں۔
دوسری طرف امت مسلمہ اورعالم اسلام کے حکمرانوں کا افسوس ناک رویہ ہے،جوآج تک قبلہ اول پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کو چھڑواسکے ہیں،نہ فلسطینی مسلمانوں پر آئے روز ہونے والے مظالم کو رکواسکے ہیں۔ان سے بہتر تو وہ نہتے فلسطینی ہیں جو پچھلے ستر سالوں سے گردنیں کٹوانے کے باجودآج بھی غاصب یہودیوں کے سامنے سینہ تان کرکھڑے ہیں ۔عالم اسلام کے حکمرانوں کو کم ازکم ان نہتے فلسطینی مسلمانوں سے سبق سیکھنا چاہئے ،جواس قدر مظالم سہنے کے باوجودبھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجداقصیٰ ہماری گردنوں میں امانت ہے۔اس امانت کی خاطر ہماری گردنیں کٹ سکتی ہیں،مگر جھک نہیں سکتیں۔
تف ہے !عالم اسلام کے ان نام نہاد لیڈروں پر جو مفادات کی خاطراسرائیل سے تعلقات بڑھانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔مصر کے غدار ڈکٹیٹر عبدالفتاح السیسی کو شرم آنی چاہئے ،جو مصر میں اسرائیلی عبادت خانے کی تعمیر پر22ملین ڈالر خرچ کرنے پر راضی ہے ،مگر قبلہ اول کو یہودیوں کے حالیہ عسکری حصار سے آزاد کروانے کے لیے کچھ خرچ کرنے کو تیارنہیں۔غیرت ان نام نہاد اسلامی حکمرانوں کو بھی کرنی چاہئے ،جو امریکہ کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر امریکہ کے بے غیرت بچے اسرائیل کو سفاکیت سے نہیں روک پاتے۔شرم عالم اسلام کے ان ملاؤں کو بھی کرنی چاہئے جو حکمرانوں کے درباروں میں جاکر حکمرانوں کے تلوے چاٹتے ہیں اور ان کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے فتوے بھی دیتے ہیں، مگر اسرائیلی یہودیوں کے قبلہ اول کی بے حرمتی پر ان حکمرانوں کو غیرت نہیں دلاتے۔کس قدر بے شرمی کی بات ہے کہ کیمونسٹ کیوبا کی ایک خاتون فلسطینی مظلوموں کی خاطریونیسیکو کے ایک اجلاس کے ذریعے دنیا بھر میں اسرائیل کورسواکرسکتی ہے مگر بھاری بھر فوج اور مال وودلت کی فروانی رکھنے والے اسلامی ملکوں کے حکمران اسرائیل کو مسجد اقصیٰ کی حالیہ بے حرمتی سے نہیں روک سکتے۔

ایسے میں داددینی چاہئے ان لوگوں کو جو آج بھی بغیر رنگ ومذہب کے دنیا بھر میں فلسطینی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ سلام ہے !ان مسلمانوں پر جوگزشتہ سات دنوں سے مسجد اقصیٰ کی حالیہ بے حرمتی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔انہیں میں سے وہ درد دل رکھنے والے لوگ بھی ہیں جو آج کراچی پریس کلب کے سامنے سہ پہرتین بجے" لبیک یااقصی" اور "جمعہ غضب" کے نام سے مسجداقصیٰ کی حالیہ ناکہ بندی کے خلاف احتجاجی ریلی منعقد کررہے ہیں،جس میں مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔بلکہ یہ احتجاجی ریلیاں ملک بھر میں منعقد ہونے چاہئیں، تاکہ دنیا کو اسرائیل کی حالیہ بدمعاشی کا پتہ چلے اوروہ اسرائیل کو اس بدمعاشی سے بازآنے سے روکے۔خطباء اورائمہ حضرات کو بھی مساجد کے منبرومحراب سے قبلہ اول کے بارے خطبہ جمعہ دینا چاہئے ،تاکہ عام مسلمانوں میں قبلہ اول کی اہمیت کا احساس پیداہو اور وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں!
بقلم

(غلام نبی مدنی،مدینہ منورہ)

Thursday, 20 July 2017

Liberalism: لبرل ازم

لبرل ازم :
لبرل ازم لفظ لبرل قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ لائیبر اور پھر لائیبرالس سے ماخوذ ہے ۔جس کی مطلب آزادلیا جاتا ہے یعنی ہر قسم کی فکری اور ذھنی غلامی سے آزاد ۔ آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنیٰ ایک آزاد آدمی ہی تھا ۔ بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پرآزاد ـتعلیم یافتہ اور کشادہ ذھن کا مالک ہو ۔
اٹھارویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خد ایا کسی اور ما فوق الفطرت ہستی یا مافوق فطرت ذرائع سے حاصل ہو نے والی تعلیمات وحی سے آزادی بھی شامل کر لی گئی ۔ یعنی اب لبرل ازم سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو خدااور پیغمبر وں کی تعلیمات اور مذھبی اقدار کی پابندی سے خدکو آزاد سمجھتا ہو ۔ اورلبرل ازم سے مراد اسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اورنظام اخلاق وسیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے ۔۔۔
سیکولر تصورات کو پیش کرنے والے تین بڑے فلسفی ڈاران ۔مارکس اور فرائڈتھے جو کہ بے دین مادہ پرست دھریے ہونے کی وجہ سے ان کے مبینہ نظام میں سے مذاہبیت کے ساتھ تعصب کی جھلک نظر آتی ہے ۔اسی وجہ سیکولر ازم کا ترجمہ ہی بے دینی کے نام سے ہوئے لگا ،۔سیکولر ازم کی اس خامی کو دور کرکے جو نظام سامنے آتاہے اسی کو ہی لبرل ازم کہتے ہیں ۔ لبرل ازم ایسا تصور عدل جو مذہب کا بھی جواز فراہم کرتا ہے اور کوئی مذہب اختیار کرنا چاہے تو اسکو مکمل آزادی ہے کہ وہ انفرادی زندگی میں اس کو نافذ کر ے لیکن اجتماعی معاملات ،معاشرت ، معیشت ، سیاست ،میں محض انسان بن کر سوچے مسلمان ،عیسائی یا ہندو بن کر نہیں ۔
قانون لوگ بنائیں گے لوگوں کے لیے بنائیں گے اور لوگ ہی اس کو چلانے کے حقدار ہیں یعنی دین الجمہور ۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اکثر یت جس کو حرام کہے وہ حرام ہوگا چاہے عوام جسے خیر قرار دے اور جسے چاہے شر قرار دے مثلا اگر سود کو اچھا سمنجھتے ہیں تو اس نظام کے نافذہونے میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر شراب پینا پسند کرتے ہیں تو شراب خانے قائم کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔اگر لوگ مسجد جانا پسند کرتے ہیں تو مسجد بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ کسی خاص تصور خیر [قرآن سنت ]کو نافذ کرکے لوگو ں کی آزادی کو مجروح نہ کریں گے بلکہ خود یہ طے کریں گے کہ انکو کیا کرنا چا ہئے ؛کسے خیر سمجھنا چاہیے اور کسے شر قرار دینا چاہئے ۔ جو بھی ان کا تصور خیر و شر ہوگا سیکولر حکومت کی ذمہ داری ہے نافذ کرے ۔
لبرل ازم کے تصور کوپیش کرنے والے فلسفی خود عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ۔ ظاہرا لبرل تصور ردل ایسا تصور عدل نظر آتا ہے جو مذہب کا جواز فراہم کرتا ہے اگر کوئی مذہب اختیار کرنا چاہے تو اسکو مکمل آزادی ہے کہ انفرادی زندگی میں نافذ کرے ۔ اس پر عمل کرے لیکن اجتماعی ،معاشرتی سیاسی معاملات میں محض انسان بن کر سوچنا چاہیے مسلمان عیسائی یا یہودی بن کر نہیں بلکہ فقظ ایک انسان بن کر سوچنا چاہیے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ صرف لبرل تصورعدل ہی ایک ایسا عادلانہ نظام فراہم کرتا ہے جو سب کے لئے عادلانہ ہوسکتا ہے لبرل ازم کے علاوہ جتنے بھی تصور عدل لوگوں نے بنارکھے ہیں وہ تمام انسانو ں کو عدل فراہم نہیں کرسکتے ۔

لبرل ازم کے ثبوت میں دلیل:
اگر کوئی مسلمان ہے اس کا ایک تصور عدل ہے ،وہ مسلمان کے حق میں عادلانہ ہوگا مگر عیسائیت کے لئے ، بدھ مت اور ہندوں کیلئے ہر گز عادلانہ نہیں ہوگا کیونکہ مسلمان اپنے ہی عادلانہ تصور کو فوقیت دیں گے اور معاشرتی سطح پر بھی اپنے تصور عدل کوہی باقیوں سے بہتر گردانیں گے ، حقیقتا ان کا تصور عدل تمام انسانیت کیلئے عادلانہ نہیں ہو سکتا بلکہ صرف مسلمانوں کیلئے عادلانہ ہوگا ،بالکل اسی طرح اگر کوئی آدمی بائبل پر ایمان رکھتا ہے تو اس کا تصورعدل صرف عیسائیو ں کیلئے تو عادلانہ ہو گا مسلمان اور سکھو ں اور دیگر اقوم کیلئے عادلانہ نہیں ہو گا ۔ عیسائی اپنے ہی تصور عدل کو باقیو ں سے بڑھ کرسمجھیں گے ؛اور معاشرتی سطح پر عیسائی اپنے تصور عد ل کو قابل قدر سمجھیں گے یہی حال ہے تمام قو مو ں اور مذاہب کا ان کے تصور عدل صرف انکے مفاد کی بات کرتے ہیں باقی لوگوں کیلئے عادلانہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ہم مکمل عادلانہ نہیں کہ سکتے ۔ جبکہ لبرل ازم وہ تصور عدل پیش کرتاہے جو سب کو عدل فراہم کرے گا ۔ آپ عدل کا کوئی بھی اصول اور پیمانہ نہیں بنا سکتے جب تک آپ جاہلیت کے پر دے کے پیچھے نہ چلے جائیں ایسی جہالت کا پردہ جس میں صرف آپ سے دو چیزیں اوجھل ہونگی ، نمبر ایک آپ کون ہو ،نمبر دو آپ کس چیز کو اچھا یا برا سمجھتے تھے ۔ اس کے علاوہ آپ کو دنیا جہاں کی تمام معلومات فراہم ہو سکتی ہیں کہ اس دنیا میں مسلمان کتنے ہیں عیسائی کتنے ہیں ،ہندو عورتیں کتنی ہیں غرض ہر طرح کی معلومات فراہم ہو سکتی ہیں مگر جہالت کے اس پر دے کے پار آپ کو صرف دو چیزوں کا علم نہیں ،
[۱]آپ کون ہیں معاشرتی حیثیت آپ کی کیا تھی، مسلمان تھے کافر تھے غریب تھے یا امیر تھے مرد تھے یا عورت تھے ۔
[۲]کس چیز کو آپ خیر سمجتے تھے کس چیز کو شر گردانتے تھے حلال کیا تھا حرام کیاتھا صحیح کیا تھا غلط کیا تھا ،
ان دو چیزوں کو بھلا کر ایک کمرہ میں داخل ہوں پھر اس کمرے میں بیٹھ کر آپ عدل کا قانون وضع کر سکتے ہیں؛اس کمرے میں بیٹھ کر آپ جوتصور عدل وضع کریں گے وہ عادلانہ ہوگا ، ایسی کوئی جگہ دنیامیں نہیں ہے جس میں وہ داخل ہونے سے آدمی ان دو چیزوں کو بھول جائے اورباقی سب کی اسکو خبر ہو بلکہ یہ ذہن کا ہی ایک خانہ ہے ، یعنی آپ کچھ دیر کے لئے ایسا سمجھ لیں کہ مجھے ان دو چیزوں کا علم نہیں ۔نمبر ایک آپ کون ہو نمبر دو صحیح اور غلط کیا ہے پھر محض انسانی مفاد کو مدنظر رکھ کر صحیح اور غلط کے اصول وضع کریں تو یہ تصور عدل حقیقی عدل فراہم کر سکتا ہے ، تمام انسانو ں کو لبرل ازم اسی تصور عدل کی طرف دعوت دیتا ہے نہ کہ مسلمان بن کر سوچو نہ عیسائی بن کر نہ مرد بن کر نہ عورت بن کر بلکہ محض انسان بن کر سوچو
یہ ہے لبرل ازم کا تصور عدل ،جس کے سامنے بہت ساروں نے گھٹنے ٹیک دیے بلکہ اسی کو حق اور سچ سمجھ کر اپنا مذہبی نکتہ نظر سے اس کی توثیق پیش کر نا شروع کردی ۔لبرل ازم سیکو لر ازم سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا جو کہ بظاہر مذہب کو اپنے اندر ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔انفرادی معاملات میں فرد مذہب پر عمل کرکے مطمئن رہتا ہے جبکہ سیاسی اور معاشرتی طور پر لبرل ازم اپنا کام دیکھاتا ہے ایک خاموش طوفان کی طرح یہ کام کرتا ہے لوگ مذہب سے دور ہوجاتے ہیںاگر کوئی مانتا بھی ہے تو مذہب چند عبادات اور رسومات کا نام بن کر رھ جاتاہے۔اول نظر میں دیکھنے سے یہ دلیل مضبوط نظر آتی ہے کہ تصور عدل اور حقیقی انصاف صرف لبرل ازم ہی مہیا کر تا ہے ۔ اگر تھوڑا سا غور سے دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا ۔
دلیل کا رد :
کہ جو الزام عدل کے حوالہ سے مذہب پر لگا یا جاتا ہے وہ وجہ تو خود لبرل تصورعدل میں بھی ہے وہ اس طرح کہ انسان کبھی بھی اپنے زمان ومکان سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ سکتایعنی اپنے تاریخی تناظر میں ہی رہ رہ کر سوچ سکتا ہے لہذٰا لبرل تصور عدل اس خاص تناظر والوں کیلئے تو عادلانہ ہوگا باقی ساری دنیا والوںکیلئے غیر عادلانہ ۔ جیسا کہ عملی طور پربھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لبرل تصور عدل سوسائٹی کے علاوہ سب کیلئے غیر عادلانہ ہے خواہ کوئی بھی مذہب ہوکوئی بھی روایتی کلچر ہو ۔

لبرل تصورکو اپنا نے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کائنات میں کوئی چیز نہ صحیح ہے اور نہ غلط، شراب پینا، نماز پڑھنا ، زنا کرنا ، والدین کی خدمت کرنا ، قرآن پڑھنا ۔ پارک میں بیٹھ کر گھاس کے پتے گننا ،سب کا م برابر ہیں ان میں نہ کوئی خیر ہے اور نہ کوئی شر ہے ۔ کیونکہ جب ہر فرد الگ الگ متعین کرے گا کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے تو ہر ایک کیلئے صحیح وہ سمجھا جائے گاجسے وہ صحیح کہے اور اس کیلئے غلط اس کو سمجھا جائے جسے وہ غلط کہے ۔ حقیقت کے اعتبار سے خیر وشر کا تصور ہی باطل ہوگا بلکہ یہ معاملہ ایک فرد پر منحصرہو کر رہ جائے گا ۔ جو چاہئے کر ے جیسے چاہے ، جو مرضی سمجھ لے مسجد جانے کو اچھا سمجھے یا گرجا گھر جانے کو یا پھر جوا خانہ کو اچھا سمجھے ۔
(جدید افکار و نظریات ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ)

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)