دل کے
دروازہ پہ
دل کے
دروازہ پہ اک نظم نے دستک دی ہے
اِن دو
آنکھوں کو سمندر کے کنارے لکھ دے
گہری
جھیلوں میں ستاروں کے دئے جلتے ہیں
دھوپ نے
سبز درختوں کے وطن لوٹ لئے
دل کے
دروازہ پہ اک نظم نے دستک دی ہے
دونوں
ہاتھوں میں نئے سرخ گلاب
چودھویں
رات کا مہتاب لئے
دل کے
دروازہ پہ اک نظم نے دستک دی ہے
جیسے
آفاق کے رخسار دھک اٹھتے ہیں
جیسے
صحراؤں میں گلزار مہک اٹھتے ہیں
جیسے
نغموں کو کوئی باندھ کے لے جاتا ہے
جیسے
دریا کسی ویرانے میں کھو جاتے ہیں
دل کے
دروازہ پہ اک نظم نے دستک دی ہے
آنسوؤں
میں نئے آلام کے پیوند لگے
اس نئے
درد کا درمان بھی مل جائے گا
تتلیاں
کس کے تصور میں یوں دیوانی بنی پھرتی ہیں
خاک کے
سینہ میں رنگوں کے کئی قریے ہیں
سبز
پتوں کو خزاں سے نہیں ملنے دینا
دل کے
دروازہ پہ
No comments:
Post a Comment