بجھ گئے
ہیں جو دئے جلتے تھے اُن گالوں میں
اب کوئی
بھی نہیں آئے گا تری چالوں میں
ایک ہی
پَل میں وہ کس طرح زمیں بوس ہوئی
وہ
عمارت جو بنائی تھی کئی سالوں میں
کل تو
تقدیر ترے ساتھ پھرا کرتی تھی
آج
پوچھے گا تجھے کون بُرے حالوں میں
وقت جس
نے انہیں بچپن میں لگایا تھا خضاب
کرنے
آیا ہے سفیدی بھی ترے بالوں میں
نکتہ
سنجی نہیں آواز کی لے دیکھتے ہیں
شاعری آ
کے کہاں پھنس گئی قوّالوں میں
اپنے
ہونے پہ ندامت کا وہ احساس رہا
کٹ گئی
عمر جلوسوں میں کچھ ہڑتالوں میں
No comments:
Post a Comment