دنیا کی کسی بات کا قائل تو نہیں ہوں
اب بھی میں تری یاد سے غافل تو نہیں
ہوں
مجھ سے تو مناسب نہیں اس طرح کا برتاؤ
عاشق ہوں تمہارا کوئی سائل تو نہیں ہوں
کر لوں گا کسی روز یقیناً تجھے تسخیر
میں آج کے حالات سے بد دل تو نہیں ہوں
لوگوں سے تو پہلے بھی تعلق نہیں رکھا
میں آج بھی اس بھیڑ میں شامل تو نہیں
ہوں
خورشید کا اک خاک کے ذرّہ سے ہے رشتہ
اس لطف و عنایت کے میں قابل تو نہیں
ہوں
کس طرح کا انصاف ہے یہ داور محشر
مقتول ہوں میں حسن کا قاتل تو نہیں ہوں
اس قید سے نکلوں گا تو جاؤں گا بہت دور
رستہ ہوں میں اپنی کوئی منزل تو نہیں
ہوں
سکھ چین سے رہنا مری فطرت میں نہیں ہے
دریا ہوں کسی بحر کا ساحل تو نہیں ہوں
دن رات جلوں گا تو شکایت بھی کروں گا
انساں ہوں ترے رخ کا کوئی تل تو نہیں
ہوں
چاہو تو سمجھ جاؤ گے اک دن مرا مطلب
دشوار سہی اتنا بھی مشکل تو نہیں ہوں
بدلی ہوئی نظروں کی نہ ہو گی مجھے
پہچان
ناداں ہوں مگر اتنا بھی جاہل تو نہیں
ہوں
کیا سوچ کے تم مجھ سے ہو اس طرح گریزاں
کڑوا ہوں مگر زہرِ ہلاہل تو نہیں
ہوں
مجھ سے تو ہر اک طرح کی تقصیر ہوئی ہے
ناقص ہوں بہت میں کوئی کامل تو نہیں
ہوں
تو جیت بھی جائے تو کوئی بات نہیں ہے
میں کوئی برابر کا مقابل تو نہیں ہوں
کر دوں گا کسی روز یہ جاں تجھ پہ
نچھاور
صد شکر کہ دیوانہ ہوں بُزدل تو نہیں
ہوں
No comments:
Post a Comment