جب اونچے پہاڑوں سے اتر آتے ہیں دریا
کاندھوں پہ سمندر کو اٹھا لاتے ہیں
دریا
لگتے ہیں مگر ہم سے جنوں پیشہ کہاں ہیں
صحراؤں میں جاتے ہوئے گھبراتے ہیں دریا
سرگوشیاں کرتے ہوئے دن رات اچانک
رستہ میں کوئی آئے تو چلّاتے ہیں دریا
ہر وقت کی اس دوڑ سے تھک ہار کے اک روز
پہلو میں سمندر کے سمٹ جاتے ہیں دریا
معلوم ہے پھینکیں گے یہ سب ان میں
غلاظت
شہروں سے یہاں اس لئے کتراتے ہیں دریا
چلتے ہوئے رکتے نہیں اک پل کے لئے بھی
معلوم نہیں ایسا بھی کیا کھاتے ہیں
دریا
منزل سے سروکار نہ انجام کا ڈر ہے
ہر راہ پہ بل کھاتے ہیں اٹھلاتے ہیں
دریا
اک روز تمہیں ساتھ لئے گھر کو چلیں گے
ہر روز کناروں کو یہ سمجھاتے ہیں دریا
اس طرح بھی پھرتا ہے کوئی اپنی خوشی سے
احکام سمندر کے بجا لاتے ہیں دریا
میری تو کوئی لفظ سمجھ میں نہیں آتا
اے کاش بتا دے کوئی کیا گاتے ہیں دریا
لگتا ہے بچاروں کی نظر ٹھیک نہیں ہے
چلتے ہوئے ہر چیز سے ٹکراتے ہیں دریا
جانا ہے کہاں ان کو کوئی کہہ نہیں سکتا
جس سمت بھی دل چاہے نکل جاتے ہیں دریا
ہونٹوں پہ ہے ہر وقت کوئی تازہ کہانی
یا ایک ہی قصہ ہے جو دھراتے ہیں دریا
نزدیک چلے آتے ہیں گھبرا کے کنارے
غصّہ میں کچھ اس طرح سے غرّاتے ہیں
دریا
پتھر کی ہو تحریر تو شاید سمجھ آئے
مٹی کی تو ہر بات کو ٹھکراتے ہیں دریا
ڈرتے ہیں کہیں آگ نہ لگ جائے انہیں بھی
اس طرح بیابانوں کو ترساتے ہیں دریا
اڑنے کے لئے آج بھی رہتے ہیں پریشاں
بارش کی طرف دیکھ کے للچاتے ہیں دریا
گھر بار کے چکرّ میں کبھی یہ نہیں پڑتے
آوارہ مزاجوں کو بہت بھاتے ہیں دریا
یوں خاک میں منہ اپنا چھپاتے ہیں ہمیشہ
کیا بات ہے کیوں اس طرح شرماتے ہیں
دریا
No comments:
Post a Comment