''کسی نے
بھی تو محبت کی داستاں نہ سنی
تمہارے
بعد یہاں میں بہت ذلیل ہوا
وہ جس
پہ سرمد و حلاّج ہو گئے قرباں
اُسی
نگاہ کا میں بھی یہاں قتیل ہوا
تمہارے
جانے کا صدمہ عظیم صدمہ ہے
اُسی سے
آج میں اشکوں میں خود کفیل ہوا
یہ عشق
کھیل نہیں جناب بچّوں کا
یہاں جو
آگ میں کودا ہے وہ خلیل ہوا
ہمیشہ
سے یونہی پھولوں کو اس نے روندا ہے
شریف کب
تھا زمانہ جو اب رذیل ہوا
یہ جس
نگاہ سے دل کا علاج کرتے ہیں
اُسی
نگاہ سے مل کر یہ دل علیل ہوا
حیات
کیا تھی مسلسل عذاب کاٹا ہے
ہر ایک
لمحہ ترے ہجر کا طویل ہوا
وہ جس
نے کوہ و بیاباں کو کر دیا سیراب
ذرا سا
مجھ کو پلانے میں کیوں بخیل ہوا
غموں کی
خوب یہاں دل نے سرپرستی کی
نہیں
تھا جس کا کوئی اُس کا یہ کفیل ہوا
تری
تلاش میں پھرتا نہ اس طرح بے کل
یہ دل
کا درد تری ذات پر دلیل ہوا
No comments:
Post a Comment