سورة
الملک
مکی سورہ ہے
تیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ میں دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے
قادر مطلق ہونے کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ ابتداء سورہ میں بتایا گیا ہے کہ زندگی
اور موت کی تخلیق کا مقصد ’’مقدار کی کثرت‘‘ نہیں بلکہ ’’معیار کا حسن‘‘ پیدا کرنا ہے۔ کسی بھی نیک عمل کو بہتر سے بہتر
اور خوبصورت سے خوبصورت انداز میں سرانجام دیا جائے۔ اس کے بعد قدرت کے ’’فن تخلیق‘‘ میں کمال مہارت کا بیان ہے وسیع و عریض سات آسمان
بنادئے مگر ان میں کوئی دراڑ یا کہیں پر کوئی جھول نہیں رہنے دیا۔ ستارے پیدا کرنے
کا مقصد زینت بھی ہے اور آسمانی نظام کے رازوں کو شیاطین سے تحفظ فراہم کرنا بھی
ہے۔ پھر جہنم کے اندر عذاب کی شدت، کافروں کی ندامت و شرمندگی اور بے بسی اور
کسمپرسی کی بہترین انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ پھر اخلاص کے ساتھ اللہ کا خوف
رکھنے والے جو ایسے مقام پر بھی، جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو، اللہ سے ڈریں ان کے
لئے ’’بڑے صلہ‘‘ کا وعدہ کیا
گیا ہے۔ پھر زمین پر چلنے پھرنے کی سہولت، روزی کمانے کے مواقع فراہم کرنے کے
انعام کا تذکرہ کرکے اس منعم حقیقی کے دربار میں پیشی کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔
پھر اچانک عذاب الٰہی کے ظہور کی صورت میں انسانی بے بسی کی تصویر کھینچی گئی ہے
اور ہدایت یافتہ اور گمراہ انسان کو نہایت خوبصورت تعبیر میں واضح کیا گیا ہے۔ ایک
شخص فطری انداز میں بالکل سیدھا بیچ راستہ میں چل رہا ہو اور دوسرا فطرت کے خلاف
سر کے بل چلنے کی کوشش کررہا ہو، یقینا یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ نبی اور اس کے
ساتھیوں کی ہلاکت کی تمنا و دیندار طبقہ کی ہلاکت کی خواہش اور کوشش پر فرمایا کہ
اے نبی آپ فرمادیجئے اگر میں اور میرے ساتھی ہلاک بھی ہوجائیں تو اس طرح تم اللہ
کے عذاب سے نہیں بچ سکوگے۔ اس لئے اللہ پر توکل کرنا چاہئے اور اس کی نعمتوں میں
غور کرکے اسے پہچاننے کی سعی بلیغ جاری رکھنی چاہئے۔ پانی جو کہ زندگی کی ابتداء
اور بقاء کا ضامن ہے اسے اگر اللہ تعالیٰ خشک کردیں اور زمین کی تہہ میں جذب کردیں
تو تمہارے کنوئوں کے ’’خشک سوتوں‘‘ میں پانی کا
بہائو اللہ کے سوا کون پیدا کرسکتا ہے۔ اس سورہ کے مضامین اور عقیدہ سے ان کا گہرا
تعلق حضور علیہ السلام کے سورہ کی روزانہ سونے سے پہلے تلاوت کرنے کی حکمت کو واضح
کرتا ہے۔
Very nice JAZAKALLAH
ReplyDeleteJazakillah khair
ReplyDeleteJazakillah khair
ReplyDeleteMASHALLAH
ReplyDelete