دو دن
میں پھیل جائے گی اس درد کی خبر
یہ بوجھ
آنسوؤں سے سنبھالا نہ جائے گا
ہر سانس
کی جبیں پہ ترے نقش ثبت ہیں
اس
زندگی سے تیرا حوالہ نہ جائے گا
اب تو
کرے گی ان کی وہاں خوب دیکھ بھال
تاروں
کو اب خلا میں اچھالا نہ جائے گا
جب تو
وہاں رہے گی تو کیا فکر ہے ہمیں
جنت سے
اب کسی کو نکالا نہ جائے گا
تجھ سے
سیاہ بخت کو وہ روشنی ملی
مٹی سے
اب کبھی یہ اجالا نہ جائے گا
اب اس
کے پاس کوئی نہیں ہے تری طرح
اب
زندگی سے موت کو ٹالا نہ جائے گا
قدرت
بھی آج سوچ کے یہ سوگوار ہے
مٹی سے
اور یوں کوئی ڈھالا نہ جائے گا
No comments:
Post a Comment