پھر آسمان کے نخرے اٹھا رہا ہو گا
کسی ستارہ سے آنکھیں لڑا رہا ہو گا
فواد کا تو یہاں اور کام ہی کیا ہے
صبا کو روک کے نظمیں سنا رہا ہو گا
اُسے یہ ہوش کی سب محفلیں پسند نہیں
پھر اُس گلی میں کہیں لڑ کھڑا رہا ہو
گا
وہ ہنستے گاتے درختوں پہ جان دیتا ہے
انہیں کہیں پہ کھڑا گدگدا رہا ہو گا
بہت دنوں سے وہ گھر لوٹ کر نہیں آیا
ہوا کے ساتھ کہیں گنگنا رہا ہو گا
تمہارے آنے سے مایوس ہو کے غصّہ میں
پھر اٹھ کے چاند ستارے بجھا رہا ہو گا
یہ منہ بسورتے لوگ اُس کو زہر لگتے ہیں
وہ ان کا دور کھڑا منہ چڑا رہا ہو گا
وہ جانتا ہے کہ اُس کا دماغ ٹھیک نہیں
یہ سوچ سوچ کے خود مسکرا رہا ہو گا
وہ بیوقوف تمہیں آج بھی نہیں بھولا
تمہاری یاد میں آنسو بہا رہا ہو گا
تمہارے آنے کی کوئی خبر ملی ہو گی
تمہاری راہ میں کلیاں بچھا رہا ہو گا
ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں آسماں کیا ہے
زمیں کو پھر یہی پٹّی پڑھا رہا ہو گا
تم اُس کو ڈھونڈنے آئے ہو نیند کے گھر
میں
وہ چاندنی سے کھڑا گپ لگا رہا ہو گا
نئے شگوفوں کی بستی سے دو قدم آگے
وہ تتلیوں کے لئے گھر بنا رہا ہو گا
زمیں کو پھر کسی سورج نے آنکھ ماری ہے
یہ بات سُن کے وہ پھر تلملا رہا ہو گا
وہ جس کو سُن کے سب اس کا مذاق اڑاتے
ہیں
کسی کو پھر وہی قصہ سنا رہا ہو گا
بہار آئی ہے اُس کو ابھی نہیں معلوم
وہ زرد پتوں کو ٹیوشن پڑھا رہا ہو گا
وہ اب یہاں سے کہیں دور جا نہیں سکتا
ستارہ بن کے یہاں جگمگا رہا ہو گا
خوشی سے اب بھی نہیں کوئی واسطہ اس کا
اداسیوں کا کہیں دل بڑھا رہا ہو گا
وہ آنسوؤں کی خطابت میں طاق ہے اب بھی
پھر اپنی باتوں سے سب کو رُلا رہا ہو
گا
وہ زندگی سے تعلق پہ شرمسار رہا
اب اپنی موت پہ خوشیاں منا رہا ہو گا
کسی نے اُس سے کیا ہو گا شام کا وعدہ
وہ انتظار میں شب بھر کھڑا رہا ہو گا
No comments:
Post a Comment