نیلا
اسی لئے نظر آتا ہے آسماں
آنکھوں سے تیرے رنگ چراتا ہے آسماں
ہر سال اس کو بھیج کے پھولوں کا اک لباس
مٹی پہ کتنا رعب جماتا ہے آسماں
ہر رات اپنے ہاتھ میں لیکر نئے چراغ
بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتا ہے آسماں
اب بھی حرام خور کی چالیں نہیں گئیں
بالوں میں گو خضاب لگاتا ہے آسماں
رہتا ہے اس پہ جیسے ہمیشہ ہی غسل فرض
ملتا ہے جب بھی پانی نہاتا ہے آسماں
تازہ نقوش دیکھتے رہنے کے شوق میں
پچھلے تمام نقش مٹاتا ہے آسماں
سنتا نہیں زمین کی چھوٹی سی کوئی بات
سب اپنا ہی کلام سناتا ہے آسماں
کرتی ہے رات اس لئے اس تیرگی پہ ناز
تاروں کی اس میں فصل اگاتا ہے آسماں
تنہا زمین کے لئے ممکن نہیں یہ کام
دن رات اس کا ہاتھ بٹاتا ہے آسماں
رہتی ہے میری خاک سدا حیرتوں میں گم
ہر روز اک کمال دکھاتا ہے آسماں
ہر رات کس کا کرتا ہے اس طرح انتظار
کس کے لئے یہ دیپ جلاتا ہے آسماں
ہم نے تو اس کا کچھ بھی بگاڑا نہیں کبھی
پھر کس لئے خلا میں نچاتا ہے آسماں
یا بھول کے بھی اس کی طرف دیکھتا نہیں
یا خاک میں گلاب کھلاتا ہے آسماں
ہم قید میں ہیں اس کے بھلا اور کیا کریں
بس دیکھتے ہیں جو بھی دکھاتا ہے آسماں
گلیوں میں سج کے رات کو پھرتے ہیں اس طرح
تاروں سے اب بھی پیشہ کراتا ہے آسماں
اس کو نہیں ہے گرچہ ہمارا کوئی خیال
لیکن ہمیں تو آج بھی بھاتا ہے آسماں
سیلاب بھیجتا ہے کبھی قحط سالیاں
مجھ کو طرح طرح سے دباتا ہے آسماں
کس طرح اس سے رکھے گا اچھی کوئی امید
جب رات دن عذاب ہی لاتا ہے آسماں
ملنے کی جانے کس سے یہ تقریب ہے کہ یوں
ہر رات اپنے گھر کو سجاتا ہے آسماں
میں جانتا ہوں یہ بھی کوئی ہو گی اس کی چال
کب دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے آسماں
میرا نہیں قصور ستاروں سے پوچھ لو
گھر کے چراغ خود ہی بجھاتا ہے آسماں
تاروں کو بیچ دیتا ہے ہر تیرگی کے ہاتھ
روزی اسی طرح سے کماتا ہے آسماں
آؤ تہیں بھی آج دکھائیں یہ معجزہ
آنکھوں میں کس طرح سے سماتا ہے آسماں
بس یونہی اس کے در کا کئے جاتی ہے طواف
قابو میں کب زمین کے آتا ہے آسماں
ممکن نہیں ہے خاک سے اس کا کوئی ملاپ
یونہی مرا مذاق اڑاتا ہے آسماں
No comments:
Post a Comment