میں کس کے کہنے پہ اس خاکداں میں آیا ہوں
نظر
سے کس کے لئے آپ نے گرایا ہوں
کچھ
ان پہ بھی تری آواز کی پھوار پڑے
حضور
میں یہ سماعت کے پھول لایا ہوں
میں
تجھ سے آج بھی انصاف کا نہیں طالب
میں
جانتا ہوں وہ اپنے ہیں میں پرایا ہوں
ہمیشہ
تجھ سے تعلق پہ مجھ کو ناز رہا
ہر
ایک زخم پہ سو بار مسکرایا ہوں
وہ
سوچتا تھا چلو کام ہو گیا اس کا
مگر
میں خاک میں کچھ اور جگمگایا ہوں
یہ
نغمہ بار پرندے یہ خوش گلو دریا
مقابلہ
میں ذرا میں بھی گنگنایا ہوں
اسی
لئے تو مجھے آنسوؤں سے رغبت ہے
میں
اس جہان میں زخمی دلوں کا سایہ ہوں
مدام
رہتی ہیں کیوں آندھیاں تعاقب میں
جلا
نہیں ہوں میں خود آپ نے جلایا ہوں
وہ
آسمانوں پہ جانے کی آرزو نہ رہی
کچھ
اس طرح سے میں اس خاک میں سمایا ہوں
تو
جانے کون جہانوں میں ہو گیا مصروف
یہ
سوچ سوچ کے ہر لمحہ تلملایا ہوں
مری
تلاش میں نکلے ہیں کیوں رسول یہاں
خود
اپنے ہاتھ سے جب آپ نے گنوایا ہوں
No comments:
Post a Comment