ہوا نے چھین لیا آ کے میرے ہونٹوں سے
وہ ایک گیت جو میں گنگنا رہا تھا ابھی
وہ جا کے نیند کے پہلو میں مجھ سے چھپنے لگا
میں اُس کو اپنی کہانی سنا رہا تھا ابھی
کہ دل میں آ کے نیا تیر ہو گیا پیوست
پرانا زخم میں اُس کو دکھا رہا تھا ابھی
برس رہی تھی زمیں پر عجیب مدہوشی
نہ جانے کون فضاؤں میں گا رہا تھا ابھی
افق کے پار یہ ڈوبا ہے کس طرح سورج
یہیں پہ بیٹھ کے باتیں بنا رہا تھا ابھی
اٹھا کے دھوپ نے گھر سے مجھے نکال دیا
میں انتظار کی شمعیں جلا رہا تھا ابھی
جو سب کو ہنسنے کی تلقین کرتا رہتا ہے
وہ میرے سامنے آنسو بہا رہا تھا ابھی
وہ جس کا نام پڑا ہے خموش لوگوں میں
یہاں پہ لفظوں کے دریا بہا رہا تھا ابھی
No comments:
Post a Comment