صحرا میں گھومنے کا مجھے یونہی شوق ہے
میں نے تمہارے عشق کا دعویٰ نہیں کیا
رہتی تھی اس میں ایک محبت کی کائنات
دل توڑ کے یہ آپ نے اچھا نہیں کیا
جاں دے کے اور ہو گئے ہم لوگ سرخرو
گھاٹے کے کاروبار میں گھاٹا نہیں کیا
دنیا تو مل رہی تھی یہاں کوڑیوں کے مول
ہم نے ہی اپنے عشق کا سودا نہیں کیا
اخبار میں نہ دی کبھی اس درد کی خبر
اس ظلم پر بھی آپ کو رسوا نہیں کیا
اس دل کو داد دیجئے سمجھا نہیں تمہیں
ورنہ جناب آپ نے کیا،کیا نہیں کیا
بس حُسن کا غلام رہا ہوں تمام عمر
شاہوں کے سامنے کبھی سجدہ نہیں کیا
دنیا کو چھوڑنے کا سبب مختصر یہ ہے
جینا ترے بغیر گوارہ نہیں کیا
انصاف تو یہی ہے تجھے بھی سزا ملے
جب میں نے کوئی جرم بھی تنہا نہیں کیا
کاٹی ہے اس جہان میں مٹی کی قید بھی
ہم نے تری خوشی کے لئے کیا نہیں کیا
پھینکا ہے یہ اٹھا کے کہاں سے کہاں
مجھے
اس پر بھی آپ سے کبھی شکوہ نہیں کیا
خود بھی تمہاری راہ میں جلتا رہا ہوں
رات
تاروں سے میں نے صرف اجالا نہیں کیا
کیوں ہو رہا ہے مجھ سے یہاں ناروا سلوک
تو نے اگر مذاق میں پیدا نہیں کیا
زندہ ہے مجھ سے آج یہاں رسم عاشقی
ناکامیوں پہ دل کبھی چھوٹا نہیں کیا
مرضی تھی دل کی اس لئے تجھ پر ہوئے
نثار
ہم نے کسی کے کہنے پہ ایسا نہیں کیا
اب آپکی نگاہ میں جادو نہیں رہا
سچ کہہ دیا ہے آپ سے دھوکہ نہیں کیا
No comments:
Post a Comment