(1919-2000)
مجروح نے صرف ساتویں جماعت تک اسکول میں پڑھاتھا۔ اس کے بعد انہوں نے عربی اور فارسی کی
تعلیم حاصل کی تھی جس کے ساتھ ہی انہوں نے سات سال کا کورس پورا کیا تھا۔ درس نظامی
کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم قرار پائے تھے۔اس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج
سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔
ایک
موقع پر سلطان پور میں مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس موقع پر مجروح نے غزل پڑھی جسے سامعین
نے بے حد سراہا۔ یہیں سے حکمت پس منظر میں چلی گئی اور شاعری میدان عمل میں رہنما
بن گئی تھی۔ جگر مرادآبادی بھی مجروح کے مصاحبوں میں سے ایک تھے۔
1945ء
میں مجروح ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے ممبی آئے تھے۔ مشاعرہ گاہ میں انہیں خوب
سراہا گیا تھا ۔ مداح شرکا میں پروڈیوسر اے۔ آر۔ کاردار بھی تھے۔ انہوں نے مجروح
کو نوشاد سے ملایا۔ نوشاد نے مجروح کو ایک دھن سنائی اور اس پر ایک نغمہ لکھنے کو
کہا۔ مجروح نے اس دھن پر یوں لکھا:
جب
اس نے گیسو بکھرائے
نوشاد
کو یہ گیت پسند آیا اور انہوں نے مجروح کے ساتھ فلم شاہ جہاں کے گیت لکھنے کا
معاہدہ کیا۔ اس فلم کے گیت بے حد مقبول ہوئے۔
مجروح
نے پچاس سال فلمی دنیا سے جُڑے رہے۔ انھوں نے300 سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت
لکھے جو بے حد مقبول ہوئے تھے۔
مجروح
کا 24 مئی 2000 کوانتقال ہوگیا تھا۔
No comments:
Post a Comment