نہیں
قبول مجھے آفتاب کی مرضی
مری
زمیں پہ چلے گی جناب کی مرضی
یہ خود
کشی نہیں تاثیر ہے محبت کی
خود
اپنا خون کرے گر گلاب کی مرضی
اٹھا کے
رات کی باہوں میں اُس کو ڈال دیا
کسی نے
پوچھی نہیں ماہتاب کی مرضی
ہر ایک
لفظ مقفل ہر ایک حرف خموش
کسی پہ
کیسے کھلے دل کتاب کی مرضی
ہمیں تو
پینے سے مطلب ہے خوب پیتے ہیں
اثر کرے
نہ کرے اب شراب کی مرضی
سب
آسمان و زمیں درد سے ہوئے بوجھل
فضا میں
پھیل گئی ہے رباب کی مرضی
ہمیشہ
دل کے خیالات کی حمایت کی
کبھی نہ
مانی گناہ و ثواب کی مرضی
No comments:
Post a Comment